چوتھے دن رات دس بجے کے قریب عقیلہ کے موبائل پر اس نے کال کیا۔
”امید! جہاں زیب کا فون ہے۔” عقیلہ نے سلام دعا کے ساتھ ہی فون اس کی طرف بڑھا دیا۔ کپکپاتے ہاتھ کے ساتھ اس نے موبائل پکڑ لیا۔
”ہیلو۔” اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
”کل رات آٹھ بجے میں تمہیں لینے آؤں گا اور کل رات تم میرے ساتھ رہو گی۔”
”جہاں زیب! میں۔”
اس نے سرد آواز میں امید کی بات کاٹ دی۔
”پہلے میری بات سن لو پھر میں تمہاری سنوں گا۔ آٹھ بجے تم گیٹ پر آ جاؤ گی اور کل اگر تم میرے ساتھ چلنے پر تیار نہیں ہوئیں تو پھر میں تم سے شادی نہیں کروں گا۔ ہمارا رشتہ ختم ہو جائے گا۔ اب تم یہ طے کر لینا کہ تم میری بات مانو گی یا پھر…”
”تمہیں پتا ہے۔ تم مجھ سے ایک گناہ کروانا چاہتے ہو۔” وہ بے اختیار سسکنے لگی۔
”اچھا، کروانا چاہتا ہوں پھر؟” اس کا لہجہ اتنا ہی جارحانہ تھا۔
”جہاں زیب! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟”
”جو بھی ہوا ہے ٹھیک ہوا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے۔”
”تم جانتے ہو۔ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں۔”
”پھر ٹھیک ہے۔ میری بات مان لو۔”
”ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں ہے۔ حرام ہے یہ۔”
”مجھے مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور دوبارہ مجھ سے مذہب کے بارے میں بات مت کرنا۔”
”جہاں زیب! میں ایسا کام کر کے اللہ کے سامنے کیسے جاؤں گی…”
”تو ٹھیک ہے۔ میری بات نہ مانو اور مجھے چھوڑ دو… رہ سکتی ہو میرے بغیر؟”
”نہیں۔ میں نہیں رہ سکتی۔” وہ بلکنے لگی۔
”تو ٹھیک ہے پھر میری بات مان لو۔”
”نہیں، میں یہ بات نہیں مان سکتی۔”
”اس کے باوجود کہ میں تم سے شادی کرنے والا ہوں، کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گا اگر اس خوف کی وجہ سے تم…”
”مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ مجھے صرف اللہ کا خوف ہے۔ اللہ نفرت کرتا ہے ان چیزوں سے ،مجھے اتنا بے وقعت مت کرو کہ میں تمہارے سامنے زندگی میں دوبارہ کبھی نظریں اٹھا سکوں نہ اپنے وجود پر نظریں دوڑا سکوں۔”
”جس ہاسٹل میں تم رہتی ہو۔ اس ہاسٹل کی کسی بھی لڑکی کو میں اگر محبت کے جال میں پھانسوں تو جہاں چاہے بلوا سکتا ہوں حتیٰ کہ تمہاری اس دوست عقیلہ کو بھی اور مجھے ایسی ہی لڑکیاں پسند ہیں جو بولڈ ہوں۔ فیصلہ کر سکتی ہوں جس سوسائٹی میں، میں موو کرتا ہوں۔ اس سوسائٹی میں موو کر سکیں۔ تمہاری طرح گناہ اور ثواب کی رسیاں گلے میں لٹکانے والی لڑکیوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے مس امید عالم آج آپ یہ فیصلہ کر لیں، آپ کو جہاں زیب عادل کی محبت چاہیے یا آپ مذہب کو گلے کا ہار بنا کر پھریں گی، آپ کو زندگی میرے ساتھ گزارنی ہے یا پھر اپنا Code of ethics لیے پھرنا ہے۔ محبت اور مذہب میں سے ایک چیز کو چن لو، اس سے کم از کم میری زندگی بہت آسان ہو جائے گی۔” فون بند ہو گیا تھا۔
عقیلہ ساری رات اسے سمجھاتی رہی۔ اسے بتاتی رہی کہ جہاں زیب کے بغیر زندگی اس کے لیے کتنی مشکل ہو جائے گی۔ کیا وہ ایک ایسے شخص کے بغیر زندگی گزار سکے گی جو اس سے محبت کرتا تھا۔ نو سال جس کے ساتھ اس نے اپنی ہر خواہش ہر خواب بانٹا تھا۔ جس کا ساتھ اس کے گھر والوں کا مستقبل سنوار سکتا تھا اور اگر… وہ اس شخص کو چھوڑتی ہے تو پھر… پھر اسے کون مل سکے گا۔ مڈل کلاس فیملی کی ایک لڑکی کو اس کے گھر والوں کی ذمہ داری کے ساتھ کون قبول کرے گا۔
وہ خالی نظروں کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”جہاں زیب… ہاں جہاں زیب کے بغیر میں کیسے رہ سکتی ہوں۔ کیسے برداشت کر سکوں گی کہ وہ شخص میرا نہ رہے جسے نو سال میں نے دن رات اپنے خوابوں میں دیکھا ہے… جس سے محبت کی ہے… میں تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی یا اللہ میں جانتی ہوں یہ گناہ ہے مگر یہ ایک گناہ میری زندگی تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔ سب کچھ بچا سکتا ہے۔”
اس نے اپنی گردن کے گرد لپٹی ہوئی رسی کے پھندے کو کسنا شروع کر دیا۔
اگلے روز عقیلہ نے شام کو اسے خود تیار کرنا شروع کیا تھا۔ وہ جیسے اس کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی تھی۔ آٹھ بجے عقیلہ کا موبائل بجنے لگا۔ امید کا دل ڈوبنے لگا۔
”ہاں، وہ آ رہی ہے۔” عقیلہ نے جہاں زیب سے بات کرنے کے بعد فون بند کر دیا۔
”وہ گیٹ پر تمہارا انتظار کر رہا ہے جاؤ۔” وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔ ہاسٹل کے لان تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں جلنے والی روشنیاں تاریکی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ دور ہاسٹل کا بند گیٹ اس وقت اسے ایک بھوت کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے رک گئی۔
”کیا میں واقعی جانتی ہوں کہ میں کیا گنوانے جا رہی ہوں اور اگر میں یہ گیٹ کراس نہیں کرتی تو… تو کیا میں اس شخص کے بغیر رہ پاؤں گی؟”
اس نے قدم بڑھانے کی کوشش کی۔
”تو امید عالم! تم آج وہ کرنے جا رہی ہو، جس پر تمہارا باپ اپنی زندگی میں خودکشی کر لیتا۔ کیا ساری عمر وہ اس لیے تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں چلاتا رہا ہے کہ سامنے گڑھا آنے پر تم آنکھیں بند کر کے اس میں کود جاؤ؟ کیا اپنے باپ کی آواز کا نقش اتنا پھیکا تھا؟”
اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میں نے اس شخص سے اتنی محبت کی ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا میرے لیے ممکن ہی نہیں۔” اس نے اپنے گالوں پر نمی محسوس کی۔
”مسلمان ہو کر تم وہ کرنے جا رہی ہو جو… امید! کیا تم اللہ کا سامنا کر پاؤ گی؟”
اس نے اپنے وجود میں سے ساری ہمت نچڑتی پائی تھی۔ ”مگر اللہ جانتا ہے میں مجبور ہوں اور وہ معاف بھی تو کر دیتا ہے کیا مجھے معاف نہیں کرے گا؟”
اس نے دل کو دلیل سے سمجھانا چاہا۔
”اور اگر اللہ نے اس گناہ کے لیے تمہیں معاف نہ کیا تو؟”
اسے اپنے پیروں میں زنجیریں پڑتی محسوس ہوئیں۔ ”اور پاکیزگی تو صرف اللہ ہی عطا کرتا ہے۔”
اپنے باپ کی اکثر سنائی جانے والی ایک آیت کا ترجمہ اسے لرزا گیا۔
”تو کیا میں پاکیزگی کو چھوڑ کر اپنے وجود کو گندگی میں دھکیلنے جا رہی ہوں؟ مگر اللہ جانتا ہے میں مجبور ہوں۔” اس نے اپنے ملامت کرتے ہوئے ضمیر کو ایک اور بہانا پیش کیا۔
”تمہیں اللہ سے خوف کیوں نہیں آتا امید…؟ گناہ کو پہچاننے کے باوجود تم اس کی طرف جانا چاہتی ہو اور تمہیں آس ہے کہ وہ تمہیں معاف کر دے گا۔ دین میں صرف دو راستے ہوتے ہیں اچھائی کا یا برائی کا۔ گناہ کا یا ثواب کا۔ تم کون سا تیسرا راستہ ڈھونڈنے جا رہی ہو؟ گناہ کرنے سے پہلے ہی خود کو بخشوا لینا چاہتی ہو کیا اس طرح تمہارا گناہ ثواب میں بدل جائے گا؟”
اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ سامنے نظر آنے والا گیٹ یک دم ہی بہت دور نظر آنے لگا تھا۔
”کیا میں بھی ان لڑکیوں میں سے ہو جاؤں جو… ایک طوائف اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا، وہ روپے کے لیے اور میں، میں محبت کے لیے…”
اس کی کنپٹی میں درد کی ایک لہر گزر گئی تھی۔
”محبت کی اتنی بڑی قیمت دینے کے بعد میرے پاس تو اپنا وجود بھی نہیں رہ جائے گا کیا مذہب، کیا خدا، کیا Morality میری اوقات تو ایک کھوٹے سکے جتنی بھی نہیں رہ جائے گی۔ میرا باپ اپنی ساری عمر جس وجود پر آیات پڑھ پڑھ کر پھونکتا رہا اسے میں گندگی میں کیسے جھونک دوں۔ اتنے سال پانچ وقت کی نمازوں میں اپنے لیے پاکیزگی اور ہدایت کی دعائیں مانگتے رہنے کے بعد اب میں کہاں جا رہی ہوں کیا اللہ نے میرے دل پر مہر لگا دی ہے یا… یا اس گیٹ کو کراس کرنے کے بعد مہر لگا دے گا۔”
اسے بے تحاشا خوف آیا۔ اس کا پورا وجود زنجیروں میں قید ہوتا جا رہا تھا۔
”باہر وہ شخص ہے جس سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں چاہا تو اندر عافیت ہے، امان ہے اور ایمان ہے۔ اس چار دیواری کو پار کرنے کے بعد محبت مل جائے گی مگر ایمان…”
اس کی کنپٹیاں درد سے پھٹ رہی تھیں۔ خالی نظروں سے اس نے سامنے گیٹ کو دیکھا پھر اپنے پیچھے مڑ کر ہاسٹل کی عمارت کو دیکھا۔
”جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔”
اپنے باپ کے منہ سے بہت بار سنی جانے والی حدیث اسے یاد آئی تھی۔
اس نے گیٹ کو ایک بار پھر دیکھا… فیصلہ ہو گیا تھا… سرد وجود کے ساتھ وہ لان کے ایک تاریک کونے میں جا کر بیٹھ گئی۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے بالوں میں لگا ہوا کلپ اتار دیا۔ بیگ میں سے ٹشو نکال کر اس نے ہونٹ صاف کر دیے۔ اپنے ہاتھوں اور گلے میں پہنی ہوئی جیولری ایک ایک کر کے اس نے بیگ میں ڈال دی۔ اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی منگنی کی انگوٹھی کو اس نے آخری بار دیکھا پھر اسے اتار دیا۔
زندگی میں کبھی اس نے اتنی خاموشی، اتنی تاریکی، اتنی گھٹن نہیں دیکھی تھی جتنی اس رات لان کے اس تاریک کونے میں بیٹھ کر محسوس کی تھی۔ اسے یاد نہیں، وہ وہاں کتنی دیر بیٹھی رہی تھی۔ خشک آنکھوں اور خالی نظروں کے ساتھ اس نے لان کی روشوں پر چلتی لڑکیوں کو آہستہ آہستہ غائب ہوتے دیکھا تھا۔ رات کی تاریکی بڑھتی گئی تھی۔ پھر لان میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنے کمرے کی طرف واپس جانے کے بجائے وہ گیٹ کی طرف گئی تھی۔ وہ جانتی تھی۔ گیٹ کے دوسری طرف اب وہ نہیں ہوگا نہ ہی دوبارہ کبھی آئے گا۔ دور سے کسی مجسمے کی طرح بے حس و حرکت وہ گیٹ کو دیکھتی رہی پھر واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔ عقیلہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جن نظروں سے اسے دیکھا تھا ان میں کیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ وہ جہاں زیب کے فون کرنے پر اسے پورے ہاسٹل میں تلاش کرتی پھری ہو گی وہ اس بات سے بھی واقف تھی اور اب شاید وہ امید کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی ہوگی۔ عقیلہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب دوبارہ پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ امید نے خاموشی سے اپنے کپڑے بدلے اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئی۔
صبح فجر کے وقت نماز کے بعد دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھانے پر اسے یاد آیا کہ اب اس کے پاس دعا مانگنے کے لیے کچھ نہیں رہا تھا۔ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ وہ دعا مانگے بغیر جائے نماز سے اٹھ گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد آفس جانے کے لیے تیار ہونے کے بجائے وہ اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ عقیلہ آٹھ بجے معمول کے مطابق اپنے آفس جانے کے لیے اٹھی تھی۔ اس نے اس وقت بھی امید کو جاگتا دیکھنے کے باوجود اسے مخاطب نہیں کیا۔ اس کے آفس جانے کے بعد امید نے وہ بیگ نکال لیا جس میں نو سال کے دوران اس کی طرف سے ملنے والے سارے خطوط اور کارڈز رکھے تھے۔ کمرے میں پڑے ہوئے ہیٹر کو آن کر کے اس نے سارے کاغذ جلا دیے تھے۔ کمرے کا پورا فرش راکھ سے بھر گیا تھا۔ وہ کمرے کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے باری باری ہر خط، ہر کارڈ کو جلتے دیکھتی رہی۔ سب کچھ جلنے کے بعد وہ بہت دیر وہ کمرے میں بکھری ہوئی راکھ پر نظریں گاڑے اسی طرح بیٹھی رہی۔ پھر اس نے کمرے کا فرش صاف کر دیا۔
*…*…*
اگلے دو دن بھی اس نے اسی خاموشی کے ساتھ گزارے، عقیلہ اور اس کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ تیسرے دن شام کو عقیلہ نے موبائل اس کی طرف بڑھا دیا۔
”تمہاری امی کا فون ہے۔” اس نے کچھ کہے بغیر موبائل تھام لیا۔
امی رو رہی تھیں ”جہاں زیب کے گھر والے رشتے سے انکار کر گئے ہیں جہاں زیب تم سے شادی پر تیار نہیں ہے اس نے کہا ہے کہ اسے جس طرح کی لڑکی کی ضرورت ہے۔ وہ تم نہیں ہو۔ وہ تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اس نے کہا ہے کہ اس نے تمہارے سامنے کچھ شرطیں رکھی تھیں جنھیں تم نے ماننے سے انکار کر دیا۔”
کچھ کہے بغیر اس نے فون بند کر دیا۔ عقیلہ اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کو ملنے والی خبر کیا ہو سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے اس نے مدہم آواز میں کہا۔
”کیا ملا امید یہ سب کر کے؟” وہ خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تم نے ظلم کیا اپنے آپ پر اپنے گھر والوں پر اور جہاں زیب پر۔”
وہ اب بھی خاموش رہی۔
”دو ہفتے کے بعد تمہاری شادی ہونے والی تھی۔ مگر اب… یہاں کس کس کو بتاؤ گی کہ تمہاری شادی کیوں ملتوی ہو گئی… وہاں راولپنڈی میں تمہارے گھر والے کس کس کو صفائیاں دیں گے کہ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد منگنی ٹوٹنے کی وجہ کیا تھی۔ ایسی منگنی جو نو سال رہی لوگ کہیں گے لڑکی میں ضرور کوئی ایسی خرابی ہو گی کہ لڑکا نو سال بعد شادی سے انکار کر گیا۔ تمہیں اندازہ ہے کہ تمہارے گھر میں اس وقت ماتم ہو رہا ہوگا۔ اب ایک ہاتھ میں اپنی اخلاقیات اور دوسرے میں اپنا مذہب لے کر ساری عمر پھرتے رہنا۔ لوگوں کو یہی آئیتیں اور حدیثیں سنا سنا کر اپنی صفائیاں پیش کرنا جو تم مجھے سناتی ہو پھر دیکھنا، کتنے لوگ تمہاری پارسائی پر یقین کریں گے۔ تمہاری نمازیں اور تمہاری اخلاقیات تمہارے ماتھے پر شرافت کا کوئی ٹھپہ نہیں لگائیں گی۔ لوگ تمہیں اسی طرح دیکھیں گے جس طرح ہر لڑکی کو دیکھتے ہیں، تمہارے بارے میں وہی کچھ کہیں گے جو ایک ورکنگ گرل کے بارے میں کہتے ہیں تمہارے مقدر میں جو تھا اسے تم نے ٹھوکر مار دی اب دیکھنا تمہارے لیے باقی کیا رہ گیا ہے۔”
وہ تلخ لہجے میں مسلسل بول رہی تھی۔ امید بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔
اس رات وہ دھاڑیں مار مار کر پاگلوں کی طرح روتی رہی تھی۔ عقیلہ نے کمرے میں ڈیک لگا دیا تھا تاکہ اس کی چیخوں کی آوازیں سن کر کوئی ادھر نہ آئے۔ اسے چپ کرواتے ہوئے وہ خود بھی روتی رہی۔ وہ جہاں زیب کو آوازیں دیتی اپنے باپ کو پکارتی پھر دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر چلانے لگتی۔ رات دو بجے تک وہ نڈھال ہو چکی تھی۔ عقیلہ نے دو بجے اسے سلیپنگ پلز کھلا کر سلا دیا۔
اس رات کے بعد بھی وہ بہت بار اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی تھی، مگر عقیلہ کے سامنے نہیں۔ عقیلہ چند دن اسے ٹرنکولائزر دیتی رہی تھی پھر اسے نارمل ہوتے دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔
*…*…*