ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

اگلے روز دوپہر کو جہاں زیب نے اس کے آفس فون کیا۔ ”ٹھیک ہے میں آج شام تمہارے ساتھ چلوں گی مگر تم دوبارہ کبھی مجھے اس طرح اپنے ساتھ چلنے پر مجبور مت کرنا۔”
اس نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔ جہاں زیب کا موڈیک دم خوشگوار ہو گیا۔
”ٹھیک ہے یار! میں آئندہ نہیں کہوں گا، مگر اب تو تم میرے ساتھ چلنا اور پلیز، بہت اچھی طرح سے تیار ہونا۔ میں تمہیں اپنے ساتھ پی سی لے جانا چاہتا ہوں۔” وہ پتا نہیں اور بھی کیا کچھ کہتا رہا تھا۔ اس نے بے جان ہاتھوں سے اس کی گفتگو سننے کے بعد فون بند کر دیا۔
شام کو وہ ضمیر کی ملامت کے باوجود تیار ہونے لگی تھی۔ عقیلہ نے اسے اس فیصلہ پر سراہا تھا۔ جہاں زیب سات بجے اسے لینے کے لیے آ گیا تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے آ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
”یار! اب موڈ بھی ٹھیک کر لو، اتنی خوبصورت لگ رہی ہو، مگر چہرے پر بارہ بجے ہوئے ہیں یوں لگ رہا ہے جیسے تم میرے ساتھ کہیں تعزیت کے لیے جا رہی ہو۔”
وہ خود کو جتنا شرمندہ محسوس کر رہی تھی۔ جہاں زیب اتنا ہی چہک رہا تھا۔ اس کے کانوں میں بار بار اپنے باپ کی آواز آ رہی تھی اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے گلے کا پھندا مسلسل تنگ ہو رہا ہو۔ جہاں زیب اسے اپنے ساتھ پی سی لے گیا وہ مسلسل اس سے باتیں کر رہا تھا۔ اس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہا تھا۔ اس کے لباس کو سراہ رہا تھا آج پہلی بار اسے جہاں زیب کے منہ سے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا وہاں بیٹھے سارے لوگ اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوں ،جیسے وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں دیکھو یہ بھی ایک اور آوارہ لڑکی ہے جو اپنے آشنا کے ساتھ پھر رہی ہے۔ رات آٹھ بجے پی، سی میں بیٹھے ہوئے اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پھانسی والی کوٹھڑی میں بیٹھی ہو اگر آج ڈیڈی زندہ ہوتے تو کیا پھر بھی مجھ میں اتنی ہمت ہوتی کہ میں سب کی نظروں میں دھول جھونک کر یہاں اس شخص کے ساتھ بیٹھی ہوتی۔ کھانا کھاتے ہوئے اس سوچ نے اس کے حلق میں کانٹے اگا دیے تھے۔
نو بجے پی، سی میں ڈنر سے فارغ ہو کر جہاں زیب نے اسے ایک آئس کریم پارلر سے آئس کریم کھلائی۔ اس کے بعد وہ بے مقصد سڑکوں پر پھرنے لگا۔
”جہاں زیب! اب مجھے ہاسٹل واپس چھوڑ دو۔ گیارہ بجے کے بعد ہاسٹل میں کوئی مجھے داخل نہیں ہونے دے گا۔”
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود ہاسٹل کی انتظامیہ سے بات کر لوں گا۔” وہ بے حد مگن تھا۔
”کیا ہم نے کافی تفریح نہیں کر لی۔ اب اس طرح آوارہ گردی کرنے سے بہتر ہے کہ تم مجھے ہاسٹل چھوڑ آؤ۔”
اس نے کچھ زچ ہو کر کہا۔ اس وقت وہ کینٹ کی سڑکوں پر ڈرائیو کر رہا تھا۔
”یار! تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو… کہا نا چھوڑ آؤں گا۔”





اس نے کار میں لگے ہوئے اسٹیریو کا والیم تیز کرتے ہوئے کہا۔ وہ خاموش ہو گئی، وہ اس سے باتیں کر رہا تھا۔ باتیں کرتے کرتے اس نے کینٹ کی ایک سنسان اور قدرے تاریک سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر دی۔ امید نے اپنے کندھے پر اس کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا تھا۔ خوف کی ایک لہر اس کے اندر سے اٹھی۔
”جہاں زیب! گاڑی یہاں کیوں روک دی؟” اس نے اپنے لہجے کو بہت نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
جہاں زیب ڈیش بورڈ میں موجود گلو کمپارٹمنٹ میں سے ایک کین نکال رہا تھا۔ اس کا ایک بازو ابھی بھی امید کے کندھے پر تھا، چند لمحوں کے لیے اس کے کندھے پر سے اپنا ہاتھ ہٹا کر اس نے کین کھول لیا پھر اس نے دوبارہ امید کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا لیا۔
”جہاں زیب! یہاں سے چلو… دیر ہو رہی ہے۔” اسے اپنے جسم میں کپکپاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔
وہ پرُسکون انداز میں کین سے گھونٹ بھرتے ہوئے مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا رہا۔ ”میں کم از کم آج رات تمہیں واپس چھوڑ آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔”
وہ کچھ بول نہیں پائی۔
”لو تم بھی ڈرنک کرو۔” اسی اطمینان کے ساتھ بات کرتے ہوئے وہ کین اس کے ہونٹوں کے پاس لے آیا۔
امید نے ایک ہاتھ سے کین کو اپنے چہرے سے دور کر دیا۔ ”جہاں زیب! مجھے فوراً واپس چھوڑ کر آؤ۔” اس بار اس نے بلند آواز میں کہا۔
”میں نے کہا نا کم از کم آج رات میں تمہیں واپس چھوڑ کر نہیں آؤں گا۔ یہاں سے تم میرے ساتھ اس ہوٹل چلو گی جہاں میں ٹھہرا ہوں پھر کل تم کو میں واپس چھوڑ آؤں گا۔” وہ پرُسکون انداز میں اسے اپنی پلاننگ بتا رہا تھا۔
”تم پاگل ہو گئے ہو، میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جاؤں گی۔” وہ یک دم اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ جھٹک کر غرائی۔
”تم میرے ساتھ آ چکی ہو۔ ہوٹل نہیں جاؤ گی تو بھی ٹھیک ہے۔ ہم یہیں رہیں گے۔”
وہ اب بھی کین سے گھونٹ بھر رہا تھا۔ وہ چند لمحے اسے بے بسی سے دیکھتی رہی پھر اس نے یک دم دروازہ کھول کر گاڑی سے نکلنا چاہا۔ جہاں زیب نے برق رفتاری سے اسے واپس اندر کھینچ لیا۔ گاڑی کا دروازہ اسی تیزی کے ساتھ بند ہو گیا پھر اس نے امید کے چہرے پر زور دار تھپڑ مارا۔
”کوئی ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”اگر تم نے میرے ساتھ کوئی بدتمیزی کی تو میں چلاؤں گی۔”
”تو چلاؤ… گلا پھاڑو… میں دیکھنا چاہتا ہوں تم کیا کر سکتی ہو؟” وہ غرایا۔
امید نے ایک بار پھر گاڑی سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ جہاں زیب نے اپنا ایک ہاتھ اس کی سمت والے دروازے کے ہینڈل پر رکھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
”اب کیا کرو گی؟ چلتی گاڑی سے چھلانگ لگاؤ گی؟” اس نے دروازے کے ہینڈل سے ہاتھ اُٹھا کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ گاڑی بہت تیز رفتاری سے سڑک پر بھاگ رہی تھی اور تب ہی انھوں نے اپنے پیچھے سائرن کی آواز سنی۔
جہاں زیب نے یک دم اسے چھوڑ کر بیک ویو مرر سے پیچھے دیکھا۔ ملٹری پولیس کے دو سارجنٹ ایک بائیک پر ان کے پیچھے آ رہے تھے۔ تیز رفتاری سے چلتی ہوئی موٹر بائیک ان کے بالکل سامنے گاڑی کا راستہ کاٹتے ہوئے رک گئی۔
”میں ان سے کہوں گا۔ تم میری بیوی ہو… اور اگر تم نے اس بات سے انکار کیا تو…” گاڑی روکتے ہوئے امید نے جہاں زیب کو کہتے سنا۔ دونوں سارجنٹ اب جہاں زیب کو دروازہ کھول کر باہر نکلنے کے لیے کہہ رہے تھے۔
”مگر پرابلم کیا ہے؟” اس نے دروازہ کھولنے کے بجائے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا۔
”کیا کر رہے تھے تم دونوں گاڑی کے اندر؟” ملٹری پولیس کے اس سارجنٹ نے کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے تیز اور کرخت آواز میں ان دونوں سے پوچھا۔
”ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔” جہاں زیب نے آواز کو پرُسکون کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں بی بی! یہ شوہر ہے تمہارا؟” سارجنٹ نے اس بار امید سے پوچھا۔ اس کے حواس اب تک بحال نہیں ہوئے تھے اور شاید یہ اس کے چہرے کے تاثرات ہی تھے جس نے سارجنٹ کے لہجے کو کچھ اور کرخت کر دیا۔
امید کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے جہاں زیب کو گاڑی سے نکلنے کے لیے کہا۔ جہاں زیب نے باہر نکلنے سے پہلے ایک تیز نظر اس پر ڈالی اور گاڑی سے باہر نکل گیا اس کے باہر نکلتے ہوئے سارجنٹ نے ایکسیلیٹر کے پاس نیچے پائیدان پر پڑے ہوئے کین کو دیکھ لیا۔ جہاں زیب کے باہر نکلتے ہی سارجنٹ نے آگے بڑھ کر کین اٹھا لیا۔ امید نے پہلی بار جہاں زیب کا رنگ اڑتے دیکھا۔ کین کا جائزہ لیتے ہوئے سارجنٹ کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”بیوی کے ساتھ سڑک پر شراب پی رہے تھے۔”
آگے بڑھ کر اس نے امید پر ایک اور نظر ڈالی اور اسے پچھلی سیٹ پر جانے کے لیے کہا، وہ بے جان قدموں سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ایک سارجنٹ جہاں زیب کے ساتھ بیٹھ گیا اور وہ ان دونوں کو ملٹری پولیس کے ہیڈ کوارٹر لے آئے تھے، امید کو ایک الگ کمرے میں بٹھایا گیا۔ جہاں زیب کو کہاں لے جایا گیا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ملٹری پولیس کا ایک افسر کرخت لہجے میں اس سے جہاں زیب اور اس کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس کا ذہن ابھی بھی ماؤف تھا۔ آدھ گھنٹہ کے اندر اندر اس کے ساتھ کیا ہو گیا تھا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ جہاں زیب کا ایک نیا چہرہ اور اب یہ نئی جگہ اور اگلے دن اخبار کی ایک نئی سرخی وہ گم صم اس آفیسر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پتا نہیں اس آفیسر کو اس پر ترس آیا تھا یا وہ یہ جان گیا تھا کہ وہ شاکڈ ہے۔ اس نے کمرے میں موجود ایک شخص کو پانی لانے کے لیے کہا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پئے اور سامنے بیٹھے ہوئے آفیسر کو دیکھنے لگی۔
یک دم ہی جیسے اس کے حواس بحال ہو گئے۔ آفیسر کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے کانپتی لڑکھڑاتی آواز میں سب کچھ بتانا شروع کر دیا۔ وہ جہاں زیب کے ساتھ کیوں گئی؟ جہاں زیب کون تھا اس کے بعد کیا ہوا سب کچھ۔ اس کا خیال تھا آفیسر کو اس کی بات پر یقین نہیں آئے گا۔ خلافِ توقع آفیسر خاموش رہا تھا۔ اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس نے بیل بجا کر باہر کھڑے فوجی کو اندر بلایا۔
”اس لڑکی کو اس سے پتا پوچھ کر چھوڑ آؤ۔” اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”آئندہ آپ محتاط رہیے، اس طرح رات کے وقت منگیتر کے ساتھ جانا بھی مناسب نہیں ہوتا۔”
وہ کچھ کہے بغیر بے یقینی کے عالم میں باہر نکل آئی۔ ”کیا واقعی یہ لوگ مجھے چھوڑ رہے ہیں۔” وہ ابھی بھی شش و پنج میں تھی۔ مگر آرمی کی ایک جیپ میں بٹھا کر وہ فوجی نہ صرف اسے ہاسٹل چھوڑ گئے بلکہ انھوں نے چوکیدار سے گیٹ کھلوا کر اسے اندر بھی بھجوایا۔
عقیلہ اپنے کمرے میں اس کی منتظر تھی۔ اس کے چہرے پر کوئی ایسی بات ضرور تھی کہ وہ چونک گئی۔
”کیا ہوا؟” امید نے جواب دینے کے بجائے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتار دیے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اپنی ساری جیولری اتارنے لگی۔
”کیا ہوا امید؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گئی۔ امید خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی پھر یک دم عقیلہ کے ساتھ لپٹ کر اس نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔ عقیلہ اس کی اس حرکت سے گھبرا گئی۔
اسے ساتھ لپٹا کر دلاسا دیتے ہوئے وہ اس کے رونے کی وجہ پوچھتی رہی۔ بہت دیر روتے رہنے کے بعد اس نے سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان اپنے ساتھ ہونے والا سارا واقعہ اسے سنا دیا۔ اس کا خیال تھا۔ عقیلہ جہاں زیب کو برا بھلا کہے گی۔ اسے اس سے منگنی توڑنے کے لیے کہے گی۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس کی ساری بات سننے کے بعد اس نے اسے خود سے الگ کر دیا۔
”تمہاری حماقت کی وجہ سے جہاں زیب پکڑا گیا۔” وہ بے یقینی سے اس کے جملے پر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میری حماقت کی وجہ سے؟”
”ہاں، تمہاری حماقت کی وجہ سے۔ جب اس نے تم سے کہا تھا کہ تم سارجنٹ سے کہہ دو کہ تم اس کی بیوی ہو تو تم خاموش کیوں رہیں اور بعد میں تم نے ملٹری پولیس کے ہیڈ کوارٹر پہنچ کر سب کچھ کیوں بتایا۔”
”عقیلہ! تم جانتی ہو۔ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا تھا؟”
”کیا کر رہا تھا؟” عقیلہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”وہ جو بھی کرنا چاہتا تھا۔ وہ نیچرل چیز ہے۔ تمہاری شادی اس شخص کے ساتھ ہونی ہے اور وہ بھی چند ہفتوں کے اندر پھر اس کا یہ مطالبہ کوئی ایسا غیر مناسب نہیں تھا۔”
وہ خوف کے عالم میں عقیلہ کا چہرہ دیکھتی رہی وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔
”تم دونوں میچیور ہو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر تم اس طرح ہنگامہ کھڑا کر دیتیں۔ اب سوچو ذرا، وہ بے چارہ تو پھنس گیا۔”
عقیلہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔ وہ فق رنگت کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے اس طرح مت دیکھو امید! میں کوئی ایسی بات نہیں کر رہی جو ناممکن ہو۔ تم ہی کہتی رہی ہو مجھ سے کہ تم اس سے محبت کرتی رہی ہو اور یہ محبت نو سال پرانی ہے وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح جس طرح تم… تمہارے لیے وہ باہر سے واپس آ گیا۔ اس نے اگر تم سے ایک مطالبہ کیا تو میں نہیں سمجھتی یہ غلط تھا۔”
امید ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئی۔ ”اگر میری جگہ تم ہوتیں اور جہاں زیب کی جگہ شفیق ہوتا تو، تو کیا تم اس کی بات مان لیتیں؟” وہ مشتعل ہو گئی۔
”ہاں بالکل مان لیتی جس شخص سے محبت ہو۔ اس شخص کی بات ماننی پڑتی ہے۔”
”چاہے وہ بات غلط ہو؟”
”ہاں چاہے وہ غلط ہو۔ میں نے کہا ناں، ساری بات محبت ہی کی ہوتی ہے۔ انسان کو محبت ہو تو اس کے عوض کچھ نہ کچھ تو قربان کرنا پڑتا ہے۔” وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”کیا محبت کی بھی قیمت ہوتی ہے؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی۔
”محبت ہی کی تو قیمت ہوتی ہے۔” عقیلہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی۔
”تمہیں پتا ہے عقیلہ تم کیا کہہ رہی ہو؟”
”ہاں میں جانتی ہوں۔ میں کیا کہہ رہی ہوں۔”
”تمہارا مطلب ہے۔ مجھے اس شخص کی بات مان لینی چاہیے تھی؟”
”ہاں بالکل مان لینی چاہیے تھی۔”
”میں یہ سب نہیں کر سکتی۔”
”کیوں نہیں کر سکتیں تمہیں تو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ کہیں وہ تمہیں چھوڑ نہ دے، وہ تو شادی کر رہا ہے تم سے… نو سال سے وہ شخص تمہارے ساتھ ہے۔ تمہاری ہر مصیبت میں اس نے تمہارا ساتھ دیا۔ مگر تم اسے مصیبت میں پھنسا آئیں، لڑکیاں تو بوائے فرینڈز کے ساتھ چلی جاتی ہیں اور تم اپنے منگیتر کے ساتھ… آخر وہ شادی کر رہا ہے تمہارے ساتھ… پھر مسئلہ کیا تھا؟”
”بات شادی کی نہیں ہے۔ بات تو گناہ کی ہے۔ میں گناہ نہیں کر سکتی۔ میرے مذہب میں یہ سب جائز نہیں ہے۔” وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”مذہب کو زندگی سے الگ رکھ کر دیکھو… جو اخلاقیات ہمیں مذہب دیتا ہے۔ وہ معاشرے میں لاگو نہیں ہوتیں، زندگی میں گناہ اور ثواب کے چکر میں پڑی رہو گی تو تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا، میری بات لکھ لو امید! تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا کم از کم محبت نہیں۔ ہم بیسویں صدی میں رہ رہے ہیں عورت کو اپنی زندگی کے فیصلوں کی آزادی ہونی چاہیے اور اس آزادی کا استعمال کرنا چاہیے۔ تم بھی آج کی عورت ہو۔ اپنے آپ کو ان فضول رسموں رواجوں سے آزاد کرو۔ کم از کم محبت کو گناہ اور ثواب کے دائرے سے نکال دو۔ محبت کو محبت رہنے دو۔”
وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ سب کچھ بڑی لاپروائی سے کہہ رہی تھی۔ امید ساری رات اپنے بستر پر اکڑوں بیٹھی روتی رہی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کیا کیا؟ کیوں کیا۔ جہاں زیب کے ساتھ کیا ہوگا۔ اسے چھوڑ دیا گیا ہو گا یا پھر وہ واپس چلا گیا ہو گا اور جب وہ چھوٹ جائے گا تو وہ کیا کرے گا۔
وہ شدید ڈپریشن کا شکار تھی۔ اگلے دن جہاں زیب نے فون نہیں کیا۔ دو دن اور گزر گئے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پھانسی کے پھندے پر جھول رہی ہو۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!