زندگی بہت پرُسکون انداز میں گزر رہی تھی۔ امید نے ان دنوں بہت اچھے نمبروں سے میٹرک کرتے ہوئے ایف ایس سی میں داخلہ لیا تھا، جب اسے گھر کے ماحول میں کچھ عجیب سی تبدیلیاں محسوس ہوئی تھیں۔ امی اور ڈیڈی یک دم بجھے بجھے نظر آنے لگے تھے۔ اس نے امی کو کئی دفعہ آنسو بہاتے دیکھا۔ ڈیڈی بھی بہت پریشان نظر آنے لگے تھے۔ ان کی شوخی اور شگفتگی یک دم ماند پڑ گئی تھی۔ اس نے کئی بار امی اور ڈیڈی سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ بڑی عمدگی سے ٹال گئے۔
پھر ایک دن میجر جاوید عالم نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
”تمہیں آج کچھ ضروری باتیں بتانی ہیں امید۔”
اسے ان کی آواز میں کوئی بہت ہی غیر معمولی چیز محسوس ہوئی تھی جس نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا مدھم آواز میں سر جھکائے انھوں نے اسے بتایا تھا کہ میڈیکل چیک اپ کے دوران ان کے دماغ میں تین جگہ ٹیومر کی تشخیص ہوئی ہے۔ ڈاکٹرز نے انھیں فوری طور پر آپریشن کا کہا ہے۔ اسے زندگی میں کبھی اتنا خوف نہیں آیا تھا۔ جتنا اس نے اس وقت باپ کا چہرہ دیکھتے ہوئے محسوس کیا۔
”میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، آپریشن کرواؤں تب بھی بچنے کے چانسز بہت کم ہیں نہ کرواؤں تب بھی چند ماہ کے اندر میری بینائی ختم ہو جائے گی پھر شاید…” ان کی آواز بھاری ہو گئی۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر بے یقینی کے عالم میں ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تم گھر میں سب سے بڑی ہو، میرے بعد تمہیں ہی میرا رول ادا کرنا ہے۔ میری ذمہ داریاں اٹھانی ہیں تمہیں بہت بہادر بننا ہوگا۔” اس کا باپ آہستہ آہستہ اس سے کہہ رہا تھا۔
”مگر میں، میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتی؟”
”کر لو گی، سیکھ جاؤ گی… کرنا پڑے گا ورنہ گھر کا کیا ہوگا؟ مجھے آرمی سے ریلیز کیا جا رہا ہے۔ آنے والے دن بہت مشکل ہو جائیں گے، خاص طور پر تمہارے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے۔ تمہاری امی کہہ رہی تھیں کہ میں یہ سب کچھ تمہیں نہ بتاؤں تم سن نہیں سکو گی مگر تمہیں بتانا بہت ضروری تھا۔ تم میرے بعد گھر میں سب سے بڑی ہو۔ میں نے تمہاری امی سے کہا کہ تم بہت بہادر ہو تم سب کچھ سمجھ جاؤ گی۔”
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ گھٹی گھٹی آواز میں اس نے باپ سے کہا۔ ”امی ٹھیک کہتی ہیں میں بہادر نہیں ہوں۔”
انھوں نے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا، وہ صرف خاموشی سے اسے دیکھتے رہے تھے۔ امید کو اپنا وجود پگھلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”صرف میرے باپ کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ وہ تو…” اس کے دل میں بے اختیار شکوہ آیا تھا۔
”زندگی میں بہت کچھ ہوتا ہے امید…! اگر رونے سے تقدیر بدلی جا سکتی تو یہاں ہر انسان رو رہا ہوتا… تمہاری طرح۔” انھوں نے بائیں ہاتھ سے اس کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو صاف کیے تھے۔
”ہر شخص زندہ رہنا چاہتا ہے… مگر یہ اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا… میرے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔” وہ بے اختیار باپ سے لپٹ گئی۔
”مگر مجھے یقین نہیں آ رہا… آپ کی باتوں پر مجھے یقین نہیں آ رہا… یہ کیسے ہو سکتا ہے… یہ سب ہمارے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے… ہم آپ کے بغیر کیا کریں گے؟”
وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ میجر عالم جاوید کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ وہ کتنی دیر روتی رہی تھی اسے یاد نہیں صرف اتنا یاد تھا کہ جب اس کے آنسو تھمے تھے تو اس کے باپ نے ایک بار پھر اسے بہت سی نصیحتیں کی تھیں۔
وہ رات اس کی زندگی کی سب سے بھیانک راتوں میں سے ایک تھی۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھیں بند نہ کر سکی تھی۔ کیا سب کچھ اس طرح اتنی آسانی سے ختم ہو جائے گا؟ میرا گھر میرا باپ اور پھر میں… میں کیا کروں گی؟ میں تو… میں نے تو کبھی اپنے باپ کے علاوہ کچھ… کیا ہونے والا ہے؟ کیوں ہونے والا ہے؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ ہمارے ساتھ کیوں؟ اسے یاد نہیں صبح کب ہوئی تھی۔ اسے صبح ہونے کا احساس صرف تب ہوا تھا جب اس نے اپنے باپ کی تلاوت کرتی ہوئی آواز سنی تھی ہمیشہ کی طرح مطمئن۔ پرُسکون… وہ آواز سن کر ایک بار پھر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
اگلے کئی دن وہ کالج نہیں گئی۔ اگلے کئی دن اس نے روتے ہوئے گزارے۔ میجر عالم جاوید اسے ہر روز اپنے پاس بٹھا کر سمجھایا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ وہ سنبھلنے لگی تھی یا کم از کم اس نے باپ پر یہ ظاہر کرنا ضرور شروع کر دیا کہ وہ نارمل ہونے لگی ہے۔ اب وہ ان کے سامنے نہیں روتی تھی ان سے چھپ کر روتی تھی۔ اس نے کالج جانا بھی شروع کر دیا تھا۔ اس کی زندگی سے شوخی اور بچپنا یک دم غائب ہو گیا تھا۔ اسے آنے والی ذمہ داریوں کا احساس ہونے لگا تھا۔ ان کے پاس کوئی ذاتی یا خاندانی گھر نہیں تھا نہ ہی کوئی مناسب بینک بیلنس اور آرمی سے ریلیز ہونے کے بعد بھی مالی حالات میں کوئی زیادہ بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی تھی صرف یہی ہو سکتا تھا کہ وہ لوگ کوئی چھوٹا موٹا گھر یا فلیٹ خرید لیتے اور کچھ رقم فکس ڈپازٹ کروا دیتے مگر زندگی گزارنے کے لیے بہت سی دوسری چیزوں کی ضرورت تھی… وہ چیزیں کہاں سے آتیں اور سب کچھ مل بھی جاتا تب بھی… باپ کہاں سے ملتا۔
اگلے چند ماہ اس کے لیے کچھ اور مشکل ہو گئے… وہ آہستہ آہستہ اپنے باپ کو ختم ہوتے دیکھ رہی تھی۔ میجر عالم جاوید آپریشن نہیں کروانا چاہتے تھے۔
”میں زندگی کے جتنے دن ہوش کے عالم میں تم لوگوں کو دیکھ سکتا ہوں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کو اور مختصر کرنا نہیں چاہتا۔” انھوں نے آپریشن کروانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔کسی نے دوبارہ اس پر اصرار نہیں کیا تھا۔ امید کو کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ باپ کے سر میں ہونے والا کبھی کبھار کا درد کسی اتنی سنگین بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے سر میں درد ہوتا وہ کوئی ٹیبلٹ لیتے اور سب کچھ ٹھیک ہو جاتا اوراب…
میجر عالم جاوید آپریشن سے صرف اس لیے خوفزدہ تھے کہ ان کی زندگی اور مختصر ہو جائے گی مگر ان کی زندگی کو اتنا ہی مختصر ہونا تھا۔ ان کی موت کس قدر پرُسکون طریقے سے ہوگی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک رات نیند کے دوران وہ بڑی خاموشی سے دنیا کو خیرباد کہہ گئے تھے۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ان کی موت کے بعد کتنے ہی دن وہ سب خود کو یقین نہیں دلا پائے تھے کہ وہ اب نہیں ہیں ہر وقت انھیں یونہی لگتا تھا جیسے وہ ابھی آ جائیں گے یا جیسے وہ وہیں موجود ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ ان سب نے حقیقت سے سمجھوتا کر لیا تھا۔
امید نے ایک میچیور لڑکی کی طرح گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ باپ کے ایک دوست کی وجہ سے انھیں آرمی کی طرف سے دیے گئے گھر میں کچھ اور عرصہ رہنے کا موقع مل گیا تھا۔
اس زمانے میں صرف ایک شخص تھا جس نے ہر قدم پر اس کی مدد اور رہنمائی کی تھی اور وہ جہاں زیب تھا۔ شاید اس کی اور اس کی فیملی کی مدد کے بغیر ان لوگوں کی دشواریوں اور مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا۔
جہاں زیب اس کے والد کے ایک دوست کا بیٹا تھا اور ان کے ساتھ ان لوگوں کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ دونوں گھرانوں میں بہت زیادہ آنا جانا تھا۔ جہاں زیب کے والد ایک بزنس مین تھے اور وہ مستقل طور پر راولپنڈی میں مقیم تھے جبکہ امید کے گھر والے مختلف شہروں میں گھومتے رہتے اور ہر بار جب بھی چھٹیوں میں وہ راولپنڈی آتے تو پھر تمام چھٹیاں دونوں گھرانے تقریباً اکٹھے ہی گزارتے تھے جہاں زیب اس سے چار پانچ سال بڑا تھا اور اس کے مزاج میں بھی اتنی ہی شوخی تھی جتنی امید میں، وہ بہت جلد ہی امید میں دلچسپی لینے لگا تھا اور یہ بات دونوں خاندانوں میں چھپی نہیں رہی تھی مگر اس پر کسی نے اعتراض کرنے کے بجائے ان دونوں کی نسبت طے کر کے ان کی پسندیدگی کو قبولیت بخش دی تھی۔ وہ اس وقت میٹرک کر رہی تھی جب جہاں زیب سے اس کی نسبت طے ہوئی تھی اور وہ اس نسبت پر بہت زیادہ خوش تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد جہاں زیب ہفتے میں دو تین بار اسے راولپنڈی سے فون کیا کرتا تھا۔
میجر عالم جاوید کی علالت کے دوران بھی جہاں زیب اور اس کی فیملی سے ان کے تعلقات اتنے ہی گہرے تھے۔ وہ لوگ راولپنڈی سے ہر ویک اینڈ پر عالم جاوید کی عیادت کے لیے آتے۔ جہاں زیب کے والد اصرار کرتے کہ عالم علاج کے لیے باہر چلا جائے مگر میجر عالم جاوید ان کی بات کو نظر انداز کر دیتے، امریکہ میں علاج بہت مہنگا تھا۔ وہ اگر اپنا سب کچھ بیچ کر باہر چلے بھی جاتے تب بھی ان کے پاس کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ ان کا آپریشن کامیاب ہوگا اور تب ان کے گھر والے کیا کرتے وہ انھیں فٹ پاتھ پر لا بٹھانا نہیں چاہتے تھے۔ جہاں زیب کے والد انھیں اپنے خرچ پر باہر بھیجنے کی آفر بھی کر چکے تھے مگر میجر عالم جاوید نے یہ آفر بھی ٹھکرا دی وہ ان سے قرض لینا چاہتے تھے نہ ہی احسان کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وجہ سے ان کی بیٹی کے مستقبل پر کوئی اثر پڑے۔
ان کی وفات کے بعد بھی ان لوگوں نے اسی طرح ان سے اپنے رابطے قائم رکھے تھے۔ جہاں زیب ان دنوں گریجویشن کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا لیکن اس کے باوجود وہ تقریباً ہر ویک اینڈ پر اس کے پاس آتا اور ہر روز فون کیا کرتا۔ اس کی تسلیوں اور دلاسوں نے زندگی کے ایک مشکل مرحلے پر اس کی بہت مدد کی تھی۔ جہاں زیب کے لیے اس کی محبت اور گہری ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ اس سے بہت سے وعدے کر کے باہر چلا گیا تھا اور باہر جا کر اس نے اپنے سارے وعدے پورے کیے تھے وہ باقاعدگی سے اسے خط لکھتا تھا اور وقتاً فوقتاً فون بھی کرتا رہتا۔
اس نے جہاں زیب کے جانے کے بعد ایف ایس سی کر لیا تھا۔ ایف ایس سی میں اس کے بہت اچھے نمبر تھے وہ چاہتی تو میڈیکل کالج میں جا سکتی تھی مگر وہ اتنے زیادہ اخراجات نہیں اٹھا سکتی تھی۔ جہاں زیب کے والد نے انھیں راولپنڈی میں ایک چھوٹا مگر بہت اچھا گھر تلاش کر دیا تھا، اپنے باپ کی وفات کے بعد ان کے مختلف فنڈز کی رقوم سے انھوں نے وہ گھر خریدا اور راولپنڈی شفٹ ہو گئے۔
اب ان کے پاس بہت زیادہ رقم نہیں رہی تھی امید کے پاس اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنی تعلیم چھوڑ دے اور کوئی جاب کر کے اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کی کوشش کرے اس نے یہی کیا تھا۔ کچھ عرصہ وہ راولپنڈی میں مختلف جابز کرتی رہی۔ پھر وہ بہتر مواقع کی تلاش میں لاہور آ گئی تھی۔
انٹر تک تعلیم اسے کوئی بھی اچھی جاب نہیں دلا سکتی تھی۔ یہ بات وہ اچھی طرح جان چکی تھی، اس لیے اس نے پرائیویٹ طور پر بی اے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ اس زمانے میں اس نے بہتیرے کام کیے تھے، اس کا دن صبح پانچ بجے سے شروع ہوتا اور رات گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا، آٹھ بجے تک وہ خود پڑھتی پھر تیار ہو کر اس آفس چلی جاتی جہاں وہ ریسیپشنسٹ کے طور پر تین بجے تک کام کرتی تھی تین بجے وہاں سے فارغ ہو کر وہ ٹیوشنز پڑھانے چلی جاتی۔ رات آٹھ بجے تک وہ مختلف جگہوں پر ٹیوشنز پڑھاتی اور پھر ہاسٹل چلی آتی۔ جہاں آنے کے بعد وہ ایک بار پھر کتابوں میں گم ہو جاتی۔ اتنے بہت سے کام کرنے کے بعد ہی وہ اس قابل ہو پاتی تھی کہ ہر ماہ اپنے گھر والوں کو کچھ معقول رقم بھجوا سکے جنھیں اس کی ضرورت تھی۔
چوبیس گھنٹے ایک مشین کی طرح کام کرنے کے باوجود وہ ناخوش نہیں تھی۔ وہ ہر وقت پرُسکون اور مطمئن رہتی تھی۔ ”یہ سب کچھ صرف چند سال کے لیے ہے، پھر جہاں زیب آ جائے گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں تب تک اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکی ہوں گی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گے۔” وہ ہر ہفتے جہاں زیب کی طرف سے ملنے والے خط کو پڑھ کر سوچتی۔
اس کی روم میٹ عقیلہ بھی جہاں زیب کے بارے میں جانتی تھی۔
”تم بہت لکی ہو امید! تمہارا منگیتر بہت اچھا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ باہر جا کر بھی وہ تمہیں یاد رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح لیٹرز اور کارڈز بھیجتا ہے۔”
عقیلہ اس کے باقاعدگی سے آنے والے خطوط اور کارڈز کو دیکھ کر کہتی۔ وہ مسکرا کر اس کی باتیں سنتی رہتی اور اسے خود پر رشک آتا ہاسٹل میں اس کے ساتھ والے کمرے میں بھی اس کے منگیتر کو ڈسکس کیا جاتا تھا۔ وہاں بھی اس پر رشک کیا جاتا تھا۔ سارے دن کی مصروفیت کے بعد اس کے پاس سکون کے لیے واحد چیز اس کے خط اور کارڈز ہی ہوتے تھے وہ کچھ دیر ان کے ساتھ مصروف رہتی اور پھر حیرت انگیز طور پر پرُسکون ہو جاتی۔
مہینے میں ایک دو بار وہ راولپنڈی جاتی۔ ویک اینڈ وہاں گزارتی اور پھر مطمئن ہو کر واپس آ جاتی۔ جہاں زیب کے والد نے اسے بہت دفعہ کہا تھا کہ وہ کوئی کام نہ کرے۔ وہ اس کے گھر کے اخراجات، برداشت کر سکتے ہیں مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنی فیملی کے لیے سب کچھ خود ہی کرنا چاہتی تھی۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ جس گھر میں اسے کل کو بہو بن کر جانا ہے اس کے گھر والے پہلے ہی ان کے احسانوں تلے دب جائیں۔
”ٹھیک ہے محنت کرنا پڑ رہی ہے زندگی قدرے مشکل ہے۔ آسائشیں نہیں رہیں، مگر عزتِ نفس تو ہے ناں مجھے جہاں زیب کی فیملی کے سامنے نظریں جھکانا پڑتی ہیں نہ ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔” وہ سوچتی اور مطمئن ہو جاتی۔
بی اے کرنے کے بعد اس نے کچھ کمپیوٹر کورس کیے اور ایک فرم میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرنے لگی۔ اس دوران اس کے دونوں بھائی میٹرک میں تھے۔ جہاں زیب باہر سے اسے تسلیاں دیا کرتا تھا کہ ان کے گریجویشن کرتے ہی وہ انھیں باہر بلا لے گا۔ وہ سوچتی یہ شخص میرے لیے کیا کیا کرے گا اور میں اس کا احسان کس طرح اتاروں گی۔ وہ اسے خط میں یہی لکھ دیتی۔ اس کا جواب آتا۔
”میں احسان نہیں کرتا… محبت کرتا ہوں۔” وہ اس کا جواب پڑھ کر سوچتی زندگی کوئی اندھا کنواں نہیں ہے اس میں بہت روشنی بہت جگمگاہٹ ہے بس ذرا دور ہے۔
*…*…*
ان ہی دنوں وہ اپنی تعلیم ختم کر کے واپس پاکستان آ گیا تھا۔ پاکستان آنے کے چند دن بعد وہ ہاسٹل اسے ملنے آیا وہ پہلے سے زیادہ شاندار ہو گیا تھا۔
”امید! ہمیں کسی ریسٹورنٹ میں چلنا چاہیے۔ یہاں بیٹھ کر تو ہم باتیں نہیں کر سکتے۔” وہ راولپنڈی سے اپنی کار ساتھ لایا تھا اور اب اس سے اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلے۔
”نہیں جہاں زیب! ہمیں باتیں کرنی ہیں تو ہم یہاں بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں۔ باہر تمہارے ساتھ جانا مناسب نہیں میں جب سے یہاں رہ رہی ہوں۔ کسی کے ساتھ باہر نہیں گئی اب تمہارے ساتھ جاؤں گی تو سب کی نظروں میں آ جاؤں گی۔”
اس نے معذرت کر لی۔ ”تو آ جاؤ نظروں میں کیا فرق پڑتا ہے؟” وہ بے حد لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔ امید نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”فرق پڑتا ہے جہاں زیب مجھے فرق پڑتا ہے کیونکہ مجھے یہیں رہنا ہے۔”
”تمہیں ساری عمر تو یہاں نہیں رہنا۔ جتنا رہ چکی ہو کافی ہے اب میں آ چکا ہوں اور میں شادی کرنا چاہتا ہوں پھر تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس کے چہرے کا رنگ تھوڑا بدل گیا۔
”وہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی میں جب تک یہاں رہنا چاہتی ہوں۔ اچھے طریقے سے رہنا چاہتی ہوں۔” امید نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”اتنا قدامت پرست بننے کی ضرورت نہیں ہے امید! میرا خیال تھا کہ تم اب تک کچھ لبرل ہو چکی ہو گی مگر تم… خیر اس بحث کو چھوڑو فی الحال تو میرے ساتھ چلو۔ میں صرف تمہارے لیے راولپنڈی سے گاڑی پر لاہور آیا ہوں۔”
”جہاں زیب! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس وقت ویسے بھی شام ہو رہی ہے اور تمہارے ساتھ پھرنا تمہیں سمجھنا چاہیے میرے پرابلم کو۔” امید نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”اس میں پرابلم والی کون سی بات ہے۔ میں تمہارا منگیتر ہوں تم بتا دینا ہاسٹل میں سب کو۔”
”یہاں ہر لڑکی کسی کے ساتھ جاتے ہوئے اسے کزن بتاتی ہے یا منگیتر۔ اس لیے میرے یہ کہنے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔”
”امید! یہ بہت فضول بات ہے۔ تمہیں میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے میرے ساتھ چلنا چاہیے۔” جہاں زیب کا موڈیک دم بگڑنے لگا تھا، امید حیران ہو رہی تھی جہاں زیب کبھی اس طرح ضد نہیں کیا کرتا تھا۔ راولپنڈی میں ان کی منگنی کے بعد ان کے درمیان روزانہ فون پر بات ہوتی اور وہ اکثر ان کے گھر آیا کرتا لیکن اس نے اس طرح کبھی اسے باہر چلنے کے لیے کہا تھا نہ ہی ایسی کسی بات پر کبھی ضد کی تھی اور اب وہ ناراض ہو رہا تھا۔ امید کو اس کے رویے سے عجیب سی الجھن ہونے لگی تھی۔ اس کے مسلسل اصرار کے باوجود وہ اس کے ساتھ نہیں گئی وہ بہت مشتعل ہو کر وہاں سے گیا تھا۔
امید پریشانی کے عالم میں اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
”کیا ہوا ہے بہت پریشان لگ رہی ہو؟” عقیلہ نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی پریشانی کو بھانپ لیا۔
”نہیں، کچھ نہیں۔” وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”تم جہاں زیب سے ملنے گئی تھیں مل لیں؟” عقیلہ نے غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔”
”کوئی جھگڑا ہو گیا ہے؟”
”ہاں۔”
”کیا ہوا؟”
”عقیلہ! وہ مجھے باہر لے جانا چاہ رہا تھا۔”
”تو؟” عقیلہ نے بہت پرُسکون انداز میں جواب دیا۔
”تو… تو یہ کہ میں نے انکار کر دیا۔”
”کیوں؟”
”یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح اس کے ساتھ باہر جانا۔”
”کیوں ٹھیک نہیں ہے؟ وہ تمہارا منگیتر ہے۔ اتنے سالوں کے بعد باہر سے آیا ہے۔”
”مگر یہ غلط ہے عقیلہ!” وہ تقریباً چلا پڑی۔ ”ہاسٹل میں سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے اور میرے گھر والوں کو پتا چلتا تو وہ کیا محسوس کرتے۔”
”ہاسٹل میں رہنے والوں کی پروا کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو چاہیں انھیں سمجھنے دو۔ جہاں تک گھر والوں کی بات ہے تو تمہارے گھر والوں کو کیسے پتا چلے گا؟ وہ تو راولپنڈی میں ہیں۔”
”اسی لیے تو میں یہ دھوکا نہیں کرنا چاہتی۔ ان کا اعتماد توڑنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔” اس نے صاف انکار کیا۔