”تمہیں اپنی جان دینی پڑے گی۔” امید نے سوچا۔
”میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میں ناراض نہیں ہوں۔ میرے پاس ناراضی کی کوئی وجہ ہی نہیں۔ بس میں یہ سفر خاموشی سے کرنا چاہتی ہوں۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”
ایمان یک دم فکر مند ہو گیا۔ ”کیا ہوا تمہیں؟ تم ٹھیک تو ہونا؟” اس نے امید کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ اسے وہ لمس انگارہ لگا۔ تیزی سے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکال لیا۔
”میں ٹھیک ہوں، صرف میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
”کیا تمہیں کوئی ٹیبلٹ چاہیے؟”
”نہیں مجھے بس خاموشی چاہیے۔” اس بار اسے ایمان کی آواز سنائی نہیں دی۔
موٹروے پر ہونے والے باقی کے سفر میں ایمان نے دوبارہ اسے صرف تب مخاطب کیا جب ڈائیوو سروس ایریا پر رکی تھی۔
”نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے۔” اس نے ایمان سے کہا۔ وہ اس کے انکار کے باوجود اس کے لیے کولڈ ڈرنک اور سینڈوچ لے آیا۔
”مجھے نہیں کھانا ہے۔ میں بتا چکی ہوں۔” وہ کوشش کے باوجود اپنے لہجے کی تلخی نہیں چھپا سکی۔
باقی سفر بالکل خاموشی سے طے ہوا۔ نہ اس نے ایمان سے کوئی بات کی نہ ہی ایمان نے اس سے کچھ کہنے، کچھ پوچھنے کی کوشش کی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایمان کو اس کا رویہ برا لگا تھا۔ مگر اس نے اس کی ناراضگی کی رتی بھر پروا نہیں کی۔
گھر پہنچنے کے بعد وہ اندر چلی گئی جبکہ ایمان ملازم سے سامان اتروانے لگا۔
ملازم بیگز اندر لے آیا۔ اس کے پاس صرف ایک بیگ تھا جبکہ باقی سامان ایمان کا تھا۔ وہ جانتی تھی، ابھی تھوڑی دیر میں ایمان اپنے کام نپٹانے کے لیے چلا جائے گا اور اسے جو بھی کرنا تھا اس کی عدم موجودگی میں ہی کرنا تھا۔
”مجھے تم صرف یہ بتاؤ کہ تم میرے ساتھ اس طرح کیوں کر رہی ہو؟” ایمان بیڈ روم میں آتے ہی سیدھا اس کے پاس آیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”کیا کر رہی ہوں میں؟” اس نے سرد آواز میں پوچھا۔
وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ صوفے سے اٹھنے لگی جب اس نے امید کو بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے کے ساتھ واپس صوفے پر بٹھا دیا۔
”یہاں بیٹھو اور مجھ سے بات کرو۔”
وہ بھڑک گئی۔ ”مجھے دوبارہ ہاتھ مت لگانا۔”
وہ اس کی بات پر بھونچکا رہ گیا۔ ”کیا مطلب ہے اس بات کا؟”
”وہی جو تم سمجھے ہو۔”
”کیوں ہاتھ نہ لگاؤں۔ تم میری بیوی ہو۔”
اس کی بات امید کو گالی کی طرح لگی۔ اس کا دل چاہا، وہ اس کے منہ پر تھوک دے۔ اسے بتائے کہ وہ اس کے دھوکے کے بارے میں جان چکی ہے۔ اسے بتائے کہ اب وہ اسے مار دینا چاہتی ہے۔
”میں تم سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتی۔” اس نے یک دم خود پر ضبط کیا تھا۔
”مگر میں تم سے بحث کرنا چاہتا ہوں۔ تمہیں پتا ہے مجھے تمہارے رویے سے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔”
”اگر ایسا ہے تو میں کیا کروں؟” وہ اس کو دیکھ کر رہ گیا۔
”تم یہ سب مت کرو۔ ٹھیک ہے، میں تم سے رابطہ نہیں کر سکا مگر اس کی وجہ…”
امید نے تیز آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔ ”مجھے کوئی ایکسکیوز مت دو۔ مجھے دلچسپی نہیں ہے ان وجوہات کو جاننے میں۔”
”امید! اس ایک ماہ میں آخر ایسا کیا ہوا ہے جس نے تمہیں مجھ سے اتنا متنفر کر دیا ہے؟” وہ پریشان تھا یا پریشان نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے دونوں باتوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ جواب دینے کے بجائے اس نے ایمان کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
”پچھلے سات گھنٹے سے میں تمہاری وجہ سے کتنا پریشان ہوں، کیا تم اندازہ کر سکتی ہو؟ تمہیں مجھ سے محبت نہیں۔ میری پروا نہیں مگر مجھے ہے۔ تمہارا ہر رویہ مجھ پر اثر انداز ہو رہا ہے۔” اس نے چونک کر اسے دیکھا۔ ایک سال کے دوران اس نے پہلی بار ایمان کے منہ سے یہ بات سنی تھی۔ وہ اسے کیا جتانا چاہ رہا ہے… اور وہ اسے کس حد تک جانتا تھا۔ اس نے کھوجتی ہوئی آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”تو کیا یہ واقعی جانتا ہے کہ مجھے اس سے محبت نہیں یا پھر اس نے بغیر سوچے سمجھے ایک بات…”
وہ کہہ رہا تھا۔ ”مجھے کوئی چیز اتنی تکلیف نہیں پہنچاتی جتنی تمہاری بے رخی، بے اعتنائی۔ میں نے تم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مجھ سے محبت کرو۔ مگر یہ چاہتا ہوں کہ میری محبت کی قدر کرو۔ مجھے یہ احساس مت دلاؤ کہ میں تم سے محبت کر کے کوئی غلطی کر رہا ہوں۔ میرے پاس بہت زیادہ رشتے نہیں ہیں مگر جو ہیں انھیں میں ہمیشہ قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ میری زندگی میں تمہاری بہت اہم جگہ ہے اور تم وہاں سے ہٹنا چاہو گی تو مجھے بہت تکلیف ہوگی خاص طور پر اب جب میں تمہارے ساتھ اتنا وقت گزار چکا ہوں۔ مجھ سے کوئی شکایت ہے تو کہو… مگر مجھے وضاحت کا موقع دو۔”
”میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں، اب میں سونا چاہتی ہوں۔” بہت سرد اور ٹھہری ہوئی آواز میں اس نے ایمان کی ساری باتوں کے جواب میں کہا۔
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور پھر ایک جھٹکے سے وہ اس کے پاس سے کچھ کہے بغیر اٹھ گیا۔ امید کو ایک لمحے کے لیے بے تحاشا خوشی ہوئی تھی۔ ایک سال سے وہ ایمان کے ساتھ رہ رہی تھی اور اس پورے عرصے میں اس نے کبھی بھی ایمان کو اس طرح غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ بہت صلح جو اور ٹھنڈے مزاج کا آدمی تھا۔ مگر آج وہ جس طرح بھڑکا تھا وہ اس کے لیے واقعی حیران کن تھا۔
صوفے سے اٹھ کر وہ بیڈ پر آ گئی۔ ایمان اب ڈریسنگ میں تھا۔ دس پندرہ منٹ بعد وہ اندر سے نکلا تو کپڑے تبدیل کر چکا تھا۔ اپنا بریف کیس نکال کر وہ اس کے اندر سے کچھ نکالنے لگا اور پھر اس نے بریف کیس بند کر دیا۔ وہ بیڈ پر چادر لیے لیٹی رہی۔ اب ایمان دراز کھول کر گاڑی کی چابی نکال رہا تھا۔ چابی نکالنے کے بعد وہ بیڈ روم کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ کسی خیال کے پیشِ نظر پلٹا۔ امید نے اسے پلٹتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ بند آنکھوں سے قدموں کی چاپ سے وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اسی کی طرف آ رہا ہے۔ پھر اس نے اسے اپنی بیڈ سائیڈ ٹیبل کے قریب کھڑا محسوس کیا۔
”میں دو گھنٹے کے لیے باہر جا رہا ہوں۔ کچھ کام ہے مجھے… خانساماں گھر پر نہیں ہے۔ رات کا کھانا مجھے باہر سے ہی لانا پڑے گا۔ تم بتا دو کیا لے کر آؤں اور اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہے تو وہ بھی بتا دو۔” اس کے قریب ایمان کی آواز ابھری تھی۔
”رات کے کھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اس سے پہلے ہی…” اس نے تلخی سے سوچا۔ وہ چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر شاید جان گیا تھا کہ وہ جواب دینا نہیں چاہتی۔
”تمہارے لیے کچھ گفٹس لایا ہوں۔ براؤن بیگ میں ہیں۔ تم دیکھ لینا۔” اور پھر وہ لائٹ آف کر کے کمرے سے نکل گیا تھا۔
ایک گہری سانس لے کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ چند منٹ بعد اس نے باہر کار اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ چند لمحوں کے بعد کار کی آواز معدوم ہو چکی تھی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ برق رفتاری سے اٹھ کر اس نے کمرے کی لائٹ آن کی اور پھر دروازہ کھول کر باہر لاؤنج میں نکل آئی۔ ملازم ٹی وی آن کیے وہاں بیٹھا تھا۔ وہ جانتی تھی ایمان اسے اپنے انتظار کا کہہ کر گیا ہے۔ رات کو جب بھی اسے دیر سے آنا ہوتا ملازم اس کا انتظار کرتا تھا اور پھر اس کے آنے پر کھانا لگا کر اپنے کوارٹر میں چلا جاتا۔
”صابر! تم چلے جاؤ… میں جاگ رہی ہوں۔ ایمان کے آنے پر دروازہ کھول دوں گی۔” اس نے ملازم کو ہدایت کی۔
”وہ ایمان صاحب اپنے کپڑے پریس کرنے کے لیے دے کر گئے ہیں میں وہ کر لوں پھر چلا جاؤں گا۔” ملازم اٹھ کھڑا ہو گیا۔
”نہیں، وہ میں خود کر لوں گی، تم چلے جاؤ۔”
ملازم سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا۔ دس پندرہ منٹ بعد اس نے چوکیدار کو بلوایا اور اس سے کہا کہ آدھ گھنٹے کے بعد وہ گھر چلا جائے۔ ”میں اس لیے تمہیں بھجوا رہی ہوں کیونکہ کل صاحب کے کچھ بہت اہم دوست آ رہے ہیں اور تمہیں ان کے لیے دن میں یہاں رہنا پڑے گا اس لیے میں چاہتی ہوں تم گھر جا کر اپنی نیند پوری کر لو۔ کل صبح آٹھ بجے واپس آ جانا۔” اس نے چوکیدار کو مطمئن کرتے ہوئے کہا۔
”مگر بیگم صاحب! ابھی تو ایمان صاحب نہیں آیا۔ وہ آ جائیں پھر میں چلا جاؤں گا۔”
”نہیں، وہ بس مارکیٹ تک گئے ہیں۔ ابھی آ جائیں گے۔ تم چلے جاؤ۔” اس نے چوکیدار سے جھوٹ بولا۔
چوکیدار کے جانے کے بعد وہ بیرونی گیٹ بند کر کے اندر گھر میں آ گئی۔ ایمان کے پاس ایک ریوالور تھا جسے وہ ہمیشہ لوڈڈ رکھتا تھا۔ شادی کے چند دن بعد اس نے امید کو بھی ریوالور دکھایا تھا اور اسے چلانے کا طریقہ سمجھایا تھا۔
”میں چونکہ غیر ملکی ہوں، اس لیے خاصی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ایک دو بار رات کو کچھ لوگ بھی گھر کے اندر آ گئے تھے۔ اس لیے ریوالور رکھا ہوا ہے۔ تمہیں اس لیے استعمال کرنا سکھا رہا ہوں تاکہ جب تم گھر میں اکیلی ہو تو اپنی حفاظت کر سکو۔” اب وہ اسی ریوالور سے اسے شوٹ کر دینا چاہتی تھی۔
ایمان کی بیڈ سائیڈ ٹیبل کا دراز کھول کر اس نے ریوالور نکال کر چیک کیا۔ پھر اسے نکال کر لاؤنج میں موجود ایک بڑے ڈیکوریشن پیس کے اندر رکھ دیا۔ اسے اپنے نشانے کی درستی پر کوئی اعتماد نہیں تھا۔ اس نے ریوالور چلانا ضرور سیکھا تھا مگر اسے کبھی چلایا نہیں تھا۔ ”مجھے ایسی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بچ سکے کیونکہ میرے پاس دوسرا کوئی موقع نہیں ہے۔” اس نے سوچا۔
”کیا میں رات کو اس کے سونے کا انتظار کروں اور پھر اس پر نیند کی حالت میں فائر کروں؟” اسے خیال آیا۔ ”مگر اگر آج رات وہ نہ سویا تو؟” وہ جانتی تھی بعض دفعہ وہ ساری رات کام میں مصروف رہتا اور سوتا نہیں تھا۔ خاص طور پر ویک اینڈ پر۔ آج بھی ویک اینڈ تھا۔ کل اتوار تھا اور عین ممکن تھا، وہ آج رات بھی نہ سوتا۔ وہ کچھ پریشان ہو گئی۔ وہ کل کا انتظار نہیں کر سکتی تھی، اسے جو بھی کرنا تھا آج ہی کرنا تھا مگر کب اور کیسے؟
پھر اچانک ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آیا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے اسٹڈی میں جا کر کچھ دیر اپنا کام کرتا تھا اور جس رات وہ سونے کے لیے بیڈ روم میں نہیں آتا تو وہ ساری رات اسٹڈی میں کام کرتے ہوئے ہی گزارتا تھا۔ ”اگر آج وہ سونے کے لیے بیڈ روم میں آیا تو میں اسے نیند میں شوٹ کر دوں گی اور اگر وہ سوتا نہیں تو پھر میں اسٹڈی میں کام کرتے ہوئے اسے شوٹ کر دوں گی۔” اس نے طے کر لیا۔
پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ ”مجھے ریوالور اسٹڈی روم میں چھپا دینا چاہیے۔ اگر وہ یہاں کام کرنے کے لیے آئے گا تو کچھ دیر بعد میں اس کے پیچھے آؤں گی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ پلٹ کر دیکھے گا تو میں بہانا کر دوں گی کہ میں کوئی کتاب لینے کے لیے آئی ہوں وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو جائے گا اور تب میں کتابوں کے شیلف کے پاس آ کر وہاں سے ریوالور نکالوں گی اور اسے شوٹ کر دوں گی۔” اس نے ریوالور چھپانے کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا۔ ”اور اگر وہ کام کرنے اسٹڈی میں نہیں آتا تو بھی میں رات کو یہاں آ کر ریوالور نکالوں گی اور بیڈ روم میں جا کر اسے شوٹ کر دوں گی۔” وہ یکدم جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئی۔
لاؤنج میں سے ریوالور نکال کر وہ واپس اسٹڈی میں آئی۔ اب اسے کتابوں کی کسی ایسی شیلف کا انتخاب کرنا تھا جسے ایمان کم از کم اس وقت تو استعمال نہ کرے۔
وہ کتابوں کے شیلف پر نظر دوڑا رہی تھی اور پھر یکدم اس کی نظریں ایک شیلف پر پڑیں جس پر اسلام کے بارے میں مختلف ملکی اور غیر ملکی رائٹرز کی انگلش میں لکھی ہوئی کتابیں پڑی تھیں۔ وہ جانتی تھی ایمان اکثر اسلامک کتابیں لے کر آیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ واقعی اسلام کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ سب ایک دکھاوا تھا۔ ایک فریب… امید پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ واقعی اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے اور سچا مسلمان ہے۔ اس کے دل میں ایک ٹیس اٹھی تھی۔ ”اور میں اس فریب میں آ گئی۔” اسے یقین تھا وہ تنہائی میں کبھی ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا ہوگا اور وہ… وہ بڑے اطمینان سے ریوالور کو ان کتابوں کے پیچھے رکھ سکتی تھی۔ اس نے بڑی احتیاط کے ساتھ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور ریوالور کو کتابوں کے اس شیلف پر چند کتابوں کے پیچھے رکھ دیا۔ کچھ مطمئن ہو کر وہ اسٹڈی سے باہر آ گئی۔
پھر اسے یاد آیا کہ اس نے عشاء کی نماز ادا نہیں کی تھی وہ یہ نماز ایمان کی عدم موجودگی میں ادا کر لینا چاہتی تھی۔ یہ اس کی زندگی کی آخری نماز تھی۔
وضو کرتے ہوئے پہلی بار اس نے اپنے ہاتھوں میں لرزش دیکھی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے ستائیس سالوں کو ایک فلم کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے گزرتا دیکھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں سے وقت کی پھسلتی ہوئی ریت کو دیکھا۔ کیا کوئی کبھی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اختتام پر کہاں کھڑا ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی چیز چبھنے لگی تھی۔ ستائیس سال پہلے میرے باپ نے میرے کانوں میں جب اذان دی ہوگی تو کیا انھوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ان کی بیٹی مرتے ہوئے کیا کچھ گنوا چکی ہوگی۔ ساری زندگی میرے وجود کو رزق حلال سے پالنے والا وہ شخص کیا یہ تصور کر سکتا تھا کہ میں اپنی زندگی اور اپنی اولاد کو ہی حرام بنا ڈالوں گی۔ میرے لیے کسی نے ایسی بددعا کی ہے جو مجھے اندھی گلی کے اس سرے پر لے آئی ہے۔ کیا جہاں زیب نے؟ اس نے سوچ کے لہراتے ہوئے سانپوں کو ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی اور چار سال پہلے اگر اس رات میں جہاں زیب کے کہنے پر اس کے ساتھ چلی جاتی تو؟… تو شاید آج میں یہاں اس طرح کھڑی نہ ہوتی۔ میں اس گناہ کے لیے خدا سے معافی مانگ سکتی تھی اور خدا معاف کر دیتا لیکن جو کچھ اب کر چکی ہوں اس کے لیے…
حالانکہ یہ سب کچھ کرنے میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔
وہ واش روم سے باہر نکل آئی۔ ایک گناہ سے بچنا میرے اختیار میں تھا۔ میں نے وہ گناہ نہیں کیا۔ ایک گناہ کا حصہ بننا میرے مقدر میں لکھ دیا گیا۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ میں اس سے بچ نہیں سکی۔ پانچ سال پہلے میں نے ایمان اور محبت میں سے ایمان کا انتخاب کیا تھا۔ ایک سال پہلے ایک بار پھر میں نے ایمان علی اور جہاں زیب کی محبت میں سے ایمان علی کا انتخاب کیا تھا۔ دونوں بار میرے فیصلے نے میرے ہاتھوں میں کچھ بھی رہنے نہیں دیا۔ نہ ایمان نہ محبت۔ میں نے صرف ایمان کی خواہش کی تھی۔ اس خواہش نے پہلے مجھے محبت سے محروم کیا… پھر ایمان سے… کیا خواہش غلط تھی یا میرا انتخاب… اس کا ذہن پوری طرح انتشار کا شکار ہو چکا تھا۔
پوری نماز کے دوران وہ اپنی توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہی تھی۔ دعا کرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ ”کیا یہ ممکن ہے کہ جس شخص کا عمل میرے جیسا ہو، صرف عبادت اسے ایمان دلا دے۔ صرف ہاتھ اٹھانے سے اس کا مقدر بدل جائے۔ اور وہ بھی میرے جیسے انسان کا۔” پانچ سال پہلے اپنے وجود سے نفرت کے جس عمل میں وہ مبتلا ہوئی تھی آج اس کی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔
نماز پڑھنے کے بعد وہ جائے نماز اٹھا رہی تھی۔ جب اس کی نظر اس براؤن بیگ پر پڑی جس کے بارے میں وہ جاتے جاتے کہہ کر گیا تھا۔ پتا نہیں کیوں وہ اس بیگ کے پاس آ گئی۔ بیگ کی زپ کھول کر اس نے اندر موجود چیزیں باہر نکالنی شروع کر دیں۔ چاکلیٹس، گھڑی، کار ڈیگن، جیولری اس نے ہر چیز اٹھا کر پھینکنی شروع کر دی۔ ان میں سے کسی چیز کی اس کے نزدیک اہمیت نہیں تھی۔ ”گفٹس” ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری تھی۔ بیگ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔
بیگ کی تہہ میں اس کا ہاتھ ایک بڑے پیکٹ سے ٹکرایا۔ اس نے پیکٹ باہر نکال لیا۔ پیکٹ کا منہ کھولنے کے بعد اس نے اسے الٹا دیا۔ کارپٹ پر کچھ چھوٹے چھوٹے کھلونے بکھر گئے تھے۔ وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی۔ اس کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ہاتھ میں لرزش دیکھی۔ کھلونے اٹھا کر وہ دیکھنے لگی تھی۔ اب ان کھلونوں کی کسی کو ضرورت نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے بچے کو بھی مر جانا تھا۔ ہاتھوں میں لیے ہوئے ان کھلونوں کا لمس اسے کسی عجیب احساس سے دوچار کر رہا تھا۔ ایمان گھر میں آنے والے اس نئے فرد کے بارے میں بہت پرُجوش تھا۔ وہ اکثر اپنے بچے کے بارے میں اس سے باتیں کیا کرتا تھا۔