جرمنی سے واپس آنے سے دو دن پہلے وہ ایمان کے ساتھ کچھ شاپنگ کرنے گئی اور وہاں اسٹور پر شاپنگ کرتے ہوئے اس نے اچانک ایمان کو وہاں نہیں پایا۔ متلاشی نظروں کے ساتھ اس نے اسٹور کے ہر حصے میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ کچھ پریشان ہو کر کاؤنٹر پر آئی۔
”آپ کے ساتھ جو آئے تھے، وہ اپنے سوئیٹرز کی پے منٹ کر کے جا چکے ہیں۔”
کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کی بات سن کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔
”کیا مطلب! وہ کہاں جا سکتے ہیں۔ وہ شوہر ہے میرا اور…”
”تو پھر آپ انتظار کریں، شاید وہ کسی ضروری کام سے باہر گئے ہوں۔”
اس لڑکی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے سمجھایا۔ وہ کچھ کہے بغیر اسٹور کے دروازے پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ شاپنگ مال سے گزرتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ میں وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔ وقت بہت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا اور اس کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ”اس طرح مجھے چھوڑ کر وہ کیسے جا سکتا ہے؟” اس کے ہاتھ اب کانپنے لگے تھے۔ اس نے گھر کا ایڈریس یاد کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہی۔ جرمن زبان میں گھر کے دروازے پر لکھا ہوا پتا وہ کسی طرح بھی یاد نہیں کر پائی تھی۔ اس کے پاس پرس نہیں تھا وہ بالکل خالی ہاتھ تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ دس منٹ گزر گئے۔ وہ نہیں آیا۔
امید نے خود کو اسی خوف کی گرفت میں پایا جس نے پانچ سال پہلے اس رات اپنی گرفت میں لیا تھا، جب جہاں زیب کے جانے کے بعد وہ گیٹ پر آئی تھی۔ اسے اپنا آپ ایک بار پھر کسی اندھے کنویں کی تہہ میں محسوس ہونے لگا تھا۔
”کیا ایمان مجھے جان بوجھ کر چھوڑ کر چلا گیا ہے؟ مگر کیوں… اور اس طرح اوہ خدایا…” اس کے دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔
”اور اگر وہ بھی مجھے جہاں زیب کی طرح چھوڑ گیا ہے تو میں… میں کیا کروں گی… یہاں اس طرح… خالی ہاتھ… مگر میں نے ایمان کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے کہ وہ یوں کرے گا۔ میں اس کی بیوی ہوں، کوئی بیوی کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ مگر شاید وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ جہاں زیب بھی تو چلا گیا تھا۔”
وہ بے اختیار اسٹور سے باہر نکل آئی۔ پاگلوں کی طرح لوگوں کی بھیڑ کاٹتے ہوئے وہ ایک ایک چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ اپنے آگے چلتا ہوا ہر شخص اسے ایمان لگ رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ شاپنگ مال کے کس حصے میں پہنچ چکی تھی۔ وہ صرف یہ جانتی تھی کہ وہ اسے نہیں ملا تھا۔ اس کا ذہن بالکل ماؤف ہو رہا تھا۔ اپنے پاس سے گزرتی ہوئی ایک عورت کو روک کر اس نے انگلش میں اپنا مسئلہ بتایا تھا۔ اس عورت کے بجائے اس کے ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے اسے پبلک ایڈریس سسٹم پر ایمان کو متوجہ کرنے کے لیے کہا۔ وہ انتظامیہ کے آفس کا رستہ نہیں جانتی تھی۔ وہ شخص اور اس کی ساتھی عورت اسے وہاں تک چھوڑ گئے۔ آفس میں موجود ایک لڑکی اور دو آدمیوں نے بڑی ہمدردی سے اس کی بات سنی اور پھر بڑے معمول کے انداز میں اسے تسلی دینے کے بعد پبلک ایڈریس سسٹم پر ایمان علی کا نام دہرانے لگے۔ وہ زرد چہرے کے ساتھ ان لوگوں کو دیکھتی رہی۔
”یہاں اکثر لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسی پریشانی کی بات نہیں۔”
اعلان کرنے کے دوران اس لڑکی نے شاید اس کے فق چہرے کو دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ جانتی تھی یہاں وہی لوگ ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیتے ہوں گے جو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوں گے، اور اگر کوئی جان بوجھ کر کسی کو…”
لڑکی ایک بار پھر ایمان کے نام پیغام دے رہی تھی۔ اسے اپنا پورا وجود بہت سرد محسوس ہو رہا تھا۔ ”اس کے بعد اب آگے مجھے کیا کرنا ہے… یہاں سے پاکستان ایمبیسی فون کروں… انھیں بتاؤں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ پھر وہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور ڈھونڈنے کے بعد بھی کیا ہوگا۔ اگر اس نے میرے ساتھ اپنی شادی سے انکار کر دیا یا اس نے کہا کہ وہ مجھے رکھنا نہیں چاہتا تو… تو کیا ہوگا۔ میں واپس کیسے جاؤں گی اتنی بے عزتی کے ساتھ…”
اسے اپنا پورا وجود کسی آکٹوپس کی گرفت میں محسوس ہو رہا تھا۔ ”پہلے جہاں زیب… اب ایمان۔ میں نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے کہ مجھے اس طرح سزا مل رہی ہے۔ آخر میں نے اس شخص سے کیوں شادی کی۔ مجھے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر خورشید… وہ غلط کہتے تھے۔ وہ بھی اس شخص سے دھوکا کھا گئے۔”
اسے اپنا جسم پتھر کی طرح بھاری لگنے لگا تھا۔
اعلان کرتے ہوئے 30 منٹ گزر چکے تھے۔ وہ نہیں آیا تھا۔ لڑکی نے اب اعلان کرنا بند کر دیا۔
”آپ اب گھر چلی جائیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہاں سے جا چکے ہوں۔” اس لڑکی نے کہا۔ وہ گم صم اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اس لڑکی کو بتا نہیں پا رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ تب ہی کوئی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا اور امید کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ اس کا دل چاہا تھا وہ ایمان کو اتنا مارے اور اتنی بری طرح مارے کہ وہ…
وہ… وہ بے اختیار اس کی طرف آیا تھا۔ وہ نہیں جانتی اسے یک دم کیا ہوا۔ وہ بس اس پر چلانے لگی تھی۔ پھر اسے بے تحاشا رونا آیا۔ ایمان فق چہرے کے ساتھ اسے روتا دیکھتا رہا۔ بہت دیر وہ اس سے معذرت کرتا رہا مگر وہ اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی۔
”مجھے اب تمہارے ساتھ نہیں جانا، پاکستان جانا ہے۔ مجھے اپنا پاسپورٹ چاہیے۔”
وہ روتے ہوئے صرف ایک ہی بات کہہ رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی وہ اس کے رونے سے زچ ہوا یا اس کی باتوں سے مگر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہنے کے بعد وہ یک دم چلایا تھا۔
”میں تمہارا منگیتر نہیں ہوں کہ تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ میں تمہارا شوہر ہوں۔”
اسے یقین نہیں آیا کہ یہ لفظ ایمان نے اس سے کہے تھے۔
کیا یہ شخص اب مجھے جہاں زیب کے حوالے سے طنز کا شکار بنائے گا۔
وہ یک دم رونا بھول گئی۔
”اب چلیں؟” وہ اسی طرح بلند آواز میں چلایا۔ کچھ کہے بغیر اس کے آگے چلتے ہوئے وہ کمرے سے باہر آ گئی۔
”میں اپنے ایک کزن کو دیکھ کر شاپ سے نکلا تھا۔ چند منٹ لگے مجھے اس سے باتیں کرتے اور تم وہاں سے غائب ہو گئیں۔ میں مانتا ہوں مجھے وہاں سے اس طرح تمہیں بتائے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا، مگر تمہیں بھی وہیں رک کر میرا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے تمہاری وجہ سے میں کتنا پریشان ہوا ہوں، اور اب بچوں کی طرح تم نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ میں تمہیں چھوڑ کر کیوں جاؤں گا، وہ بھی اس طرح…”
اس کے ساتھ چلتے ہوئے اب وہ وضاحتیں دے رہا تھا مگر وہ اس کی کسی بات کو نہیں سن پا رہی تھی۔ اس کے ذہن پر ابھی بھی کچھ دیر پہلے کا جملہ سوار تھا۔
”یہ شخص کون ہوتا ہے مجھے جتانے والا کہ میرا منگیتر مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ آخر اسے یہ بات کہنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔”
اس کی وضاحتیں صرف وہیں نہیں گھر آ کر بھی جاری رہی تھیں اور شاید اس کی خاموشی اسے پریشان کر رہی تھی۔ اس لیے وہ ایکسکیوز کرتا رہا تھا مگر وہ بالکل خاموش ہو رہی اسے اس سے پہلے کبھی وہ اتنا برا نہیں لگا تھا جتنا اس وقت لگا تھا۔
اسے رات بہت دنوں کے بعد ایک بار پھر وہ جہاں زیب کے الوژن کا شکار ہوئی تھی۔ اسے وہ بے تحاشا یاد آیا۔ ایمان علی کبھی بھی جہاں زیب نہیں بن سکتا۔” رات تین بجے تک جاگتے رہنے پر اس نے بیڈ کے دوسرے کونے میں گہری نیند سوئے ہوئے ایمان علی کو دیکھ کر اپنے گیلے چہرے کو صاف کرتے ہوئے سوچا۔ الوژنز کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا تھا۔
*…*…*
جرمنی سے واپس آنے کے بعد وہ ایک ہفتے کے لیے راولپنڈی رہی۔ ایمان اس دوران اسے باقاعدگی سے فون کرتا رہا۔ یہاں آ کر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کی زندگی اور مستقبل اب کس حد تک ایمان سے وابستہ ہو چکا تھا۔ وہ کسی طور بھی اس سے الگ نہیں ہو سکتی تھی۔ گھر میں ہر ایک کی زبان پر ایمان کا ذکر تھا۔ امید کی کوئی بات ایمان کے حوالے کے بغیر نہیں کی جاتی تھی۔ اس کی امی اس کے بھائی، اس کی بہن اسے ان کی باتیں سن کر احساس ہوتا تھا کہ ایمان اس گھر اور اس کی زندگی کے لیے کتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
”اور میں کتنی دیر اس طرح ناراض رہ کر زندگی گزار سکتی ہوں۔”
اس نے بے بسی سے سوچا۔
ایک ہفتے کے بعد وہ اسے لینے آیا تھا اور وہ خاموشی کے ساتھ بالکل نارمل طریقے سے کسی خفگی کا اظہار کیے بغیر اس کے ساتھ چلی آئی۔
ایمان آفس جوائن کر چکا تھا۔ آفس سے آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے رات کو ڈاکٹر خورشید کے پاس جایا کرتا تھا۔ امید کو حیرانگی ہوتی کہ وہ ان کے پاس کس لیے جاتا تھا اور پھر اس طرح باقاعدگی سے۔ ان دونوں کے تعلقات آہستہ آہستہ پھر اچھے ہو گئے تھے۔ مگر جہاں زیب کا الوژن ابھی بھی اس کی زندگی سے اوجھل نہیں ہوا تھا۔ جب وہ اس کے حواس پر سوار ہوتا تب اسے دوسرا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔
اگلے چند ماہ بعد اس نے اپنی زندگی میں ایک اور نیا موڑ دیکھا تھا۔
*…*…*
”میرا بچہ…؟” اس نے ڈاکٹر کی بات سن کر بے یقینی سے کہا تھا اور پھر گھر آنے تک وہ اسی بے یقینی کا شکار رہی تھی۔ اور یہ کیفیت اگلے کئی دن رہی مگر ایمان کا ردعمل بالکل مختلف تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے جرمنی فون کر کے اپنے والدین کو بھی اس بارے میں بتا دیا تھا۔ غیر محسوس طور پر ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔ اب ان کے پاس بات کرنے کے لیے صرف ایک ہی موضوع تھا۔ باقی ہر چیز جیسے یک دم پس منظر میں چلی گئی تھی۔ حتیٰ کہ جہاں زیب بھی۔ ساڑھے پانچ سال بعد پہلی بار اس نے خوشی کو محسوس کیا تھا۔ پہلی بار اس نے دنیا کو ایک بار پھر سے رنگین ہوتے دیکھا۔
”میں ایمان اور اپنے بچے کے ساتھ بہت خوش رہ سکتی ہوں۔ شاید میں سب کچھ بھول جاؤں گی۔
اپنا وہ ماضی جس سے میں آج تک جان نہیں چھڑا سکی جو ایک ہولناک بھوت کی صورت میں میرے تعاقب میں رہتا ہے۔”
اسے بعض دفعہ ہنسی آتی۔
”واقعی ایمان مجھے کہاں چھوڑ سکتا تھا اور اب تو شاید کبھی بھی نہیں اور میں… میں ہر وقت اس بے یقینی سے دوچار رہتی تھی کہ وہ مجھے چھوڑ سکتا ہے۔ میرے سارے خدشات کتنے بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔”
وہ اپنی ہر پرانی سوچ کو ذہن سے جھٹکنے لگی۔
”ہاں مجھے اب سب کچھ بھلا کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا چاہیے۔ اپنے وہموں کو ہمیشہ کے لیے دفنا دینا چاہیے۔”
اسے ہر چیز اچھی لگنے لگی تھی۔ اپنا گھر، ایمان… ایمان کے لیے کام کرنا… اس کے آفس چلے جانے کے بعد دن میں دو تین بار فون پر اس سے بات کرنا۔ رات کو اس کے ساتھ ڈرائیو پر جاتے ہوئے مستقبل کے بارے میں منصوبے بنانا، زندگی جیسے اس کے لیے نئے سرے سے شروع ہوئی تھی اور وہاں دور دور تک کسی جہاں زیب عادل کا سایہ نہیں تھا اور شاید یہ اس کی بھول تھی۔
*…*…*
اس رات وہ ایمان کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئی۔ کھانا کھانے کے بعد واپس آتے ہوئے ہوٹل کی اینٹرنس پر اس نے جس شخص کو دیکھا تھا اس کے وجود نے اسے منجمد کر دیا تھا۔ وہ ہر چہرے کو فراموش کر سکتی تھی مگر اس چہرے کو نہیں۔ اسے لگا وہ ایک بار پھر کسی الوژن کے حصار میں تھی۔ اس بار کچھ بھی الوژن نہیں تھا۔ وہ ایک لڑکی کے ساتھ ہنستا ہوا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کی طرف آ رہا تھا۔ پھر جہاں زیب نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اس کے پاؤں بھی ساکت ہوئے پھر وہ تیزی کے ساتھ اس کے پاس سے گزر گیا۔ امید کا دل چاہا وہ بھاگ کر اس کے پیچھے چلی جائے اس لڑکی کو اس کے پہلو سے ہٹا کر خود اس کی جگہ لے لے۔
وہ نہیں جانتی، ایمان اس وقت اسے کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا وہ ساڑھے پانچ سال پہلے کے اس جنگل میں ایک بار پھر پہنچ گئی تھی۔ جہاں زیب کے علاوہ دنیا میں اب بھی کچھ نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ اب بھی خالی تھے۔ زندگی اب بھی ایک کشکول تھی۔ وہ ہال میں کہیں گم ہو چکا تھا۔ اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے یک دم اپنے کندھے پر ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا۔ وہ جیسے یک دم اپنے حال میں لوٹ آئی تھی۔ گردن موڑ کر اس نے ایمان کو دیکھا۔ اس کے کندھے پر اس کا ہاتھ تھا۔
”جہاں زیب؟” اس نے ایمان کے منہ سے صرف ایک لفظ سنا۔ ہوٹل کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ایمان یک دم کچھ کہے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ اس نے بے چینی سے اسے جاتا دیکھا اور اسے احساس ہو گیا کہ ایمان کو کیا ہوا ہے۔ ہوٹل کے دروازے سے نظر آنے والے لوگوں کی چہل پہل پر آخری نظر ڈالتے ہوئے وہ اس کے پیچھے سیڑھیاں اتر گئی۔
ایمان گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔ امید کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی چلا دی۔ وہ بہت محتاط ڈرائیونگ کرتا تھا۔ پہلی بار وہ اسے اتنی ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ تین جگہ اس نے سگنل توڑا دو بار اس نے غلط ٹرن لیا۔ دو بار اس نے غلط طرح سے اوور ٹیک کی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا مگر اس کی ہر حرکت سے اس کا اضطراب ظاہر ہو رہا تھا۔ امید کو احساس ہو رہا تھا اس طرح بے اختیار ہو کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ میں گھرجا کر اس سے معذرت کروں گی۔ کوئی بہانا بنا دوں گی۔ اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
گھر پہنچ کر اس سے بات کرنے کی کوشش بری طرح ناکام رہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کوئی معذرت سنے بغیر اسٹڈی میں چلا گیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں بیڈ روم میں بیٹھ گئی۔ بہت عرصے کے بعد اس نے خود کو اس طرح بے بس محسوس کیا تھا۔ وہ ایمان سے محبت نہیں کرتی تھی مگر اس کے باوجود وہ اس سے معذرت کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ اس کا شوہر تھا۔ اس کے بچے کا باپ تھا۔ وہ اس کے ساتھ اپنے کسی رشتے کو اس اسٹیج پر ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ختم کر ہی نہیں سکتی تھی۔
بہت دیر بعد وہ اٹھ کر اسٹڈی میں گئی۔ ایمان کمپیوٹر پر اپنے کام میں مصروف تھا۔ وہ اس کے قریب جا کر بیٹھ گئی۔ ایک بار پھر اس نے ایمان سے معذرت کرنے کی کوشش کی مگر وہ یک دم بھڑک اٹھا تھا۔
”جب تم یہ جانتی ہو کہ تم ایک غلط کام کر رہی ہو تو کیوں کر رہی ہو؟ ایک ایسے شخص کے لیے جس نے نو سال تمہیں اپنی منگیتر رکھنے کے بعد بھی تم سے شادی نہیں کی، اس کے لیے کیوں پریشان ہو تم؟ جو شخص تم سے محبت نہیں کرتا اس کے پیچھے کیوں بھاگتی ہو۔ جس شخص نے تمہیں دھوکا دیا…”
اس نے مشتعل ہو کر ایمان کی بات کاٹی۔
”اس نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں نے اسے دھوکا دیا۔ اس نے مجھے نہیں چھوڑا۔ میں نے اسے چھوڑا۔”
وہ اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اتنے اشتعال میں تھی کہ رکے بغیر وہ اسے سب کچھ بتاتی گئی تھی۔
”جہاں زیب سے زیادہ کسی شخص کے احسان نہیں ہیں مجھ پر۔ لیکن اس کی جو قیمت وہ چاہتا تھا وہ میں نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے اس سے بہت محبت کی تھی۔ نو سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے مگر محبت کے باوجود میں اس کی بات نہیں مان سکتی تھی۔ میں خوفزدہ ہو گئی تھی۔ میرے باپ نے سولہ سال میرے کانوں میں اتنی نصیحتیں ٹھونس دی تھیں کہ میں کچھ اور سننے کے قابل ہی نہیں رہی۔ تم جو آیات سناتے ہو مجھے، میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب تم آزمائش میں پڑو گے تب تمہیں احساس ہوگا کہ Morality کسی تیز دھار خنجر سے کم نہیں ہوتی۔
میں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی ہر خوشی کو آگ لگائی ہے۔ اس واقعہ کے بعد چار سال میں نے کیسے گزارے ہیں مجھے یاد نہیں ہے۔ میں نے کیا کھایا، کیا پہنا، کہاں گئی مجھے کچھ یاد نہیں۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میرے ہر طرف جہاں زیب تھا۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی دوسرا چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس کی آواز کے علاوہ مجھے کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ چار سال مجھے سمجھ نہیں آئی۔ میں نے کیا کیا؟ کیوں کیا؟ ٹھیک کیا یا غلط کیا۔ میں نے اپنا ہر خواب اس شخص کے حوالے سے دیکھا تھا اور پھر وہ میری زندگی سے نکل گیا۔ تم کہتے ہو میں اس کے لیے کیوں پریشان ہوں۔ کیوں ٹھٹھک جاتی ہوں اسے دیکھ کر۔ میرے اختیار میں نہیں ہے کچھ بھی۔ مجھے اس شخص سے کتنی محبت ہے تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ مگر پھر بھی میں نے اس کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ مجھ سے ایک غلط کام کروانا چاہتا تھا۔ مگر مجھے اس سے نفرت نہیں ہوئی۔ مجھے اس سے کبھی بھی نفرت نہیں ہو سکتی۔”
وہ روتے ہوئے اسے سب کچھ بتاتی رہی وہ اب اس کے آنسو پونچھ رہا تھا اسے تسلی دے رہا تھا۔
*…*…*