تین دن کے بعد سادگی سے ایمان علی کے ساتھ اس کا نکاح ہو گیا۔ یہ امید کی ضد تھی کہ شادی کی کوئی رسم ادا نہ کی جائے۔ اس کے گھر والوں کے اصرار کے باوجود وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ نکاح نامہ پر دستخط کرنے کے بعد بھی بہت دیر تک اس کا ہاتھ کانپتا رہا تھا۔ ہاں ساری بات تقدیر ہی کی ہوتی ہے اور تقدیر وہ چیز ہے جو ہماری آنکھوں میں ریت بھر دیتی ہے۔ نو سال جب بھی میں نے اس کاغذ کا سوچا تھا میری سماعتوں میں صرف جہاں زیب کا نام ہی گونجتا رہا تھا۔ پچھلے پانچ سال میں نے یہی سوچا تھا کہ میں زندگی میں کبھی کسی شخص سے شادی نہیں کروں گی۔ میری زندگی میں جہاں زیب نہیں تو کوئی دوسرا بھی نہیں آئے گا اور اب یہاں اس کاغذ پر دستخط کرتے ہوئے میرا کوئی فیصلہ کوئی خواہش رکاوٹ نہیں بنی… آپ نے ٹھیک کہا تھا ڈاکٹر خورشید میں ایمان علی کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔ میرے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ میری کوئی تدبیر میری تقدیر کو بدل دیتی۔
*…*…*
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے گھر میں یہاں میرے کمرے میں ہو۔ یہ دنیا کا سب سے حیرت انگیز واقعہ ہے اور میں خوش اس لیے ہوں، کیونکہ یہ حیرت انگیز واقعہ میری زندگی میں ہوا ہے۔ پچھلے ایک سال میں، میں نے تمہیں بہت بار اس کمرے میں دیکھا ہے۔ بہت بار… اور اب جب تم واقعی یہاں ہو تو میں سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ خواب تھا یا یہ خواب ہے مگر… جو بھی ہے مجھے اس خواب سے محبت ہے۔ تم میری Soul mate ہو امید…! میری بیوی نہیں ہو۔ مجھے کسی لڑکی سے محبت کا اظہار ہمیشہ بہت مشکل لگتا رہا ہے، مگر آج تم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کوئی دقت نہیں ہو رہی ہے۔ میرے پاس اتنے لفظ ہیں تمہارے لیے کہ تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے۔”
صبح دس بجے اس کا نکاح ہوا تھا۔ شام کو وہ اس کے ساتھ لاہور میں موجود تھی۔ سعود ارتضیٰ کی بیوی کچھ دیر پہلے ہی گئی تھی اور اب وہ دونوں گھر میں اکیلے تھے۔ وہ کاٹن کے ایک ایمبرائیڈڈ سوٹ میں اس کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ بچوں جیسی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ دھیمے لہجے میں اسے بتا رہا تھا کہ اس نے پہلی بار اسے کہاں دیکھا۔ کتنا عرصہ وہ اس کے لیے وہاں جاتا رہا تھا۔ کس طرح وہ ہاسٹل تک اس کا تعاقب کرتا رہا تھا۔ وہ بے یقینی کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ”محبت تو جہاں زیب نے بھی مجھ سے کی تھی اور ایسی ہی محبت کی تھی۔ نو سال وہ محبت کرتا رہا تھا پھر سب کچھ بھک سے اڑ گیا۔ یہ شخص چاہتا ہے میں اس کی ایک ڈیڑھ سال کی محبت پر ایمان لے آؤں۔”
وہ اس کے آنسوؤں سے پریشان ہوا تھا، وہ ان کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔ اس نے وجہ بتائی تھی۔ اس نے اس سے کہا تھا کہ اس کے لفظ اسے جھوٹے لگتے ہیں۔ اسے ایمان کی باتوں پر یقین نہیں آتا۔
وہ بہت دیر خاموش بیٹھا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”تمہارا یقین نہ کرنا میری محبت کو کم نہیں کر سکتا نہ ہی میرے لفظوں کو جھوٹا کر سکتا ہے۔” بہت دیر بعد اس نے کہا تھا۔
*…*…*
ایمان علی اس کی زندگی میں آنے والا عجیب ترین مرد تھا۔ اسے حیرت ہوتی کیا کوئی مرد انا کے بغیر ہو سکتا ہے اور ایمان علی ایسا ہی ایک مرد تھا۔ وہ کم گو اور ریزرو تھا۔ اس کا اندازہ اسے شادی کے چند دن میں ہی ہو گیا تھا۔ اسے ایمان کی سرگرمیوں اور مصروفیات پر حیرت ہوتی۔ گھر، آفس جم اور پھر گھر… شادی کے تیسرے چوتھے دن اس نے اپنی مصروفیات بتائی تھیں تو امید نے مسکرا کر کہا تھا۔
”تم خاصے مطمئن اور خوش تھے اپنی زندگی سے۔ یہ شادی کہاں سے آ گئی؟ اچھا نہیں تھا کہ تم یونہی رہتے… آزاد…”
”ہاں۔ اچھا ہوتا… اگر میں نے تمہیں دیکھا نہ ہوتا، تب شاید میرا اطمینان ہمیشہ ایسے ہی برقرار رہتا۔” اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا تھا۔
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ کھانا کھا رہا تھا۔
”اگر میں تمہاری زندگی سے نکل جاؤں تو تمہیں کیا فرق پڑے گا ایمان؟”
وہ کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔ ”میرے پاس ایسے کسی سوال کا جواب نہیں ہے جو ممکن نہ ہو۔”
”دنیا میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔”
”ہوتا ہوگا… مگر یہ نہیں۔” اس نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔ ”تم مجھے چھوڑ کر اس وقت جاؤ گی جب میں تمہیں کوئی تکلیف دوں گا۔ مگر میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا، اس لیے تمہارے چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
اسے بے اختیار کوئی اور یاد آیا۔ وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گئی۔
وہ اس کے ساتھ خوش نہیں تھی تو ناخوش بھی نہیں تھی، مگر ایمان علی کے وجود نے جہاں زیب عادل کے الوژن کو ختم نہیں کیا تھا۔ ایمان علی ہر لحاظ سے جہاں زیب سے بہتر تھا۔
مگر وہ جہاں زیب نہیں تھا۔ وہ امید سے محبت کا اظہار کرتا اور اسے جہاں زیب یاد آنے لگتا۔ اس کے لہجے کی نرمی، اس کی مسکراہٹ، اس کی ہر بات اسے جہاں زیب کی یاد دلاتی تھی… وہ سوچتی اگر میں ایمان علی کے ساتھ نہیں جہاں زیب کے ساتھ ہوتی تو… تو کیا ہوتا کیا زندگی یک دم خوبصورت اور دنیا مکمل نہ ہو جاتی؟ ایمان علی کی محبت اور خلوص جہاں زیب کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
*…*…*
شادی کے ایک ہفتے کے بعد وہ اسے اپنے والدین سے ملوانے جرمنی لے کر گیا۔ وہ اس کے والدین سے دو تین بار فون پر بات کر چکی تھی۔ وہ اس بات کا بھی اندازہ لگا چکی تھی کہ ایمان اپنی ماں سے بہت اٹیچڈ تھا اور اس کی باتوں اور خیالات پر اس کی ماں کے نظریات کی خاصی گہری چھاپ تھی۔ اسے پھر بھی اس بات پر حیرت تھی کہ ماں سے اتنا متاثر ہونے کے باوجود اس نے کرسچیئن ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ باقاعدہ طور پر کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے سے اس طرح اجتناب کیوں کیا۔ سبل سے مل کر اسے خوشی ہوئی تھی۔ وہ واقعی بہت مختلف قسم کی عورت تھی۔ اس نے مغربی عورت کے بارے میں جو کچھ سن رکھا تھا، وہ اس کے برعکس تھی۔
”مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا کہ ڈینیل نے شادی کر لی ہے اور تم واقعی اس کی بیوی ہو۔” جرمنی پہنچنے کے دوسرے دن اس نے دوپہر کو لنچ کرتے ہوئے امید سے کہا۔ ”یہ تو اب شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا مگر میں خوش ہوں کہ اسے بالآخر ویسی بیوی مل گئی جیسی یہ چاہتا تھا۔”
”یہ کیسی بیوی چاہتا تھا؟” امید نے ایمان کو دیکھتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔
”ایسی لڑکی جس کا کبھی کوئی بوائے فرینڈ نہ رہا ہو، جو بہت مشرقی ہو بلکہ تنگ نظر اور قدامت پرست۔ یقینا تم ایسے ہی کسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہو گی جہاں آدمیوں سے زیادہ میل جول نہیں ہوتا ہوگا… مگر پھر ڈینیل سے تمہاری ملاقات کیسے ہو گئی؟ اور شادی… عجیب بات ہے نا۔” امید کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔
”نہیں ممی! امید ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتی تھی۔ میں نے اسے پہلی بار وہیں دیکھا۔” وہ مدھم آواز میں مسکراتے ہوئے ماں کو بتا رہا تھا۔
امید نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔
”اور تمہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوا کہ یہ اس طرح کی جاب کر رہی ہے۔”
”ممی! آپ میرے بارے میں کچھ زیادہ ہی غلط سوچنے لگی ہیں۔ میں اتنا قدامت پرست بھی نہیں ہوں۔”
اس نے ماں کی بات پر کچھ جھینپ کر امید کو دیکھا جو بے تاثر چہرے کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھی۔
”کیوں امید! کیا تمہارا کوئی بوائے فرینڈ نہیں رہا؟” سبل نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ امید سے پوچھا۔
امید کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”ممی پلیز!” ایمان نے برق رفتاری سے احتجاج کیا۔
”ارے اس میں ایسی کیا بات ہے؟” سبل نے کچھ حیرانی سے کہا۔
”نہیں، آپ اس بات کو چھوڑیں۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ مچھلی آپ نے کیسے بنائی ہے۔ مجھے پہلے تو کبھی آپ نے اس طرح کی ڈش نہیں کھلائی۔” وہ بڑی مہارت سے موضوع بدل گیا۔
*…*…*
”تم جانتے تھے کہ میری منگنی ہوئی تھی۔ یہ بھی جانتے ہو کہ میں آج تک جہاں زیب کو بھلانے میں کامیاب نہیں ہوئی پھر بھی مجھ سے شادی… تمہاری ممی کہہ رہی تھیں کہ تم ایسی لڑکی چاہتے تھے جس کا کوئی بوائے فرینڈ نہ ہو پھر تمہیں اس بات پر اعتراض کیوں نہیں ہوا کہ میرا ایک منگیتر تھا جس سے میں بہت محبت کرتی ہوں۔” اس رات امید نے سونے سے پہلے ایمان سے بات کرتے ہوئے اسے جتایا تھا۔
”وہ تمہارا بوائے فرینڈ نہیں تھا۔” اس نے جیسے بحث شروع کرنے سے گریز کیا۔
”میرے لیے وہ کسی بوائے فرینڈ سے بڑھ کر تھا۔” اس نے بڑی بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
ایمان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ کچھ کہے بغیر اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ٹیبل لیمپ آف کر دیا۔
”میں تم سے پوچھ رہی ہوں، تمہیں مجھ پر اعتراض کیوں نہیں ہوا؟” امید نے ڈھٹائی سے اپنی بات دہرائی۔
”مجھے نیند آ رہی ہے امید۔” اپنی آنکھوں کو بازو سے ڈھکتے ہوئے اس نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا۔
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے بھی ٹیبل لیمپ آف کر دیا۔ نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں وہ بہت دیر کمرے کی چھت کو گھورتی رہی۔
”اس شخص کی خواہش تھی کہ اس کی زندگی میں وہ لڑکی آئے، جس نے اس سے پہلے کسی سے محبت نہ کی ہو اور اس کی زندگی میں، میں آئی۔ امید عالم جس کی زندگی میں جہاں زیب عادل کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔” اسے بے اختیار ایمان پر ترس آیا۔
”کیا یہ شخص اس طرح کے سلوک کا مستحق ہے جو میں اس کے ساتھ کرتی ہوں۔ کیا اسے تکلیف نہیں ہوتی جب میں جہاں زیب کا نام اس طرح اس کے سامنے لیتی ہوں… اور میں… میں یہ سب کیوں کرتی ہوں… جب میں اس سے شادی کر چکی ہوں۔ اس کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں… اس شخص کے ساتھ جو میری ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس نے اپنی زندگی بہت دیانت داری سے گزارنے کی کوشش کی تھی۔ پھر میں یہ بات تسلیم کیوں نہیں کر لیتی کہ اب میرے پاس اس شخص کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ شخص اتنے کا تو مستحق ہے کہ میں اس کے جذبوں کی قدر کروں۔ اس طرح اسے تکلیف پہنچا کر میں کون سے جذبے کی تسکین چاہتی ہوں۔”
وہ پتا نہیں کس رو میں آ کر سوچ رہی تھی۔ ذہنی ابتری کے جس طویل دور سے وہ گزر رہی تھی، وہ چند لمحوں کے لیے جیسے ختم ہو گیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اس نے اپنے اندر کہیں سکون اور ٹھہراؤ محسوس کیا۔ بہت نرمی سے اس نے ایمان کی آنکھوں سے اس کا بازو ہٹاتے ہوئے کہا۔
”کیا واقعی سو گئے ہو؟”
”میں کوشش کر رہا ہوں۔” ایمان نے آنکھیں کھول کر اندھیرے میں اسے دیکھنے کی کوشش کی۔
”بات بدلنے کے لیے آنکھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔” وہ اب اطمینان سے اس کے کندھے پر سر ٹکائے آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔
ایمان نے بہت حیرت سے اپنے کندھے پر ٹکے ہوئے اس کے سر کو دیکھا پھر اس کی نظر اپنے سینے پر دھرے اس کے ہاتھ پر گئی۔ وہ آنکھیں بند کیے پرُسکون انداز میں سونے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بے اختیار مسکرا دیا۔ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر اس نے خود بھی آنکھیں بند کر لیں۔
*…*…*
اگلے کچھ دن اس نے پوری طرح جہاں زیب عادل کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ وہ ایمان کے ساتھ اس کے مختلف فیملی ممبرز کے ہاں دعوتوں میں شرکت کرتی رہی۔ ہر جگہ اسے ایمان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور معلوم ہوتا رہا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی عادات کی وجہ سے اپنے خاندان میں خاصا پسند کیا جاتا تھا اور یہ پسندیدگی صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ سبل اور پیٹر کے لیے بھی تھی۔ وہ اس کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر سڑکوں پر چلتے ہوئے، اس کی باتوں پر ہنستے ہوئے، اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس نے ہر بار جہاں زیب کے الوژن سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جرمنی میں قیام کے دوران اس نے ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کی سیڑھی پر دوبارہ چڑھنے اور قدم جمانے کی کوشش کی… مگر وہ ایک بار پھر گری…
*…*…*