امربیل — قسط نمبر ۷

”اس میں بری بات کیا ہے۔ اس نے تمہارے بارے میں اچھا ہی سوچا ہوگا اسی لیے تو خاص طور پر اپنے کنسرٹ میں انوائیٹ کیا ہے اگر برا سوچتا تو ایسا نہ کرتا۔ ویسے بھی اپنی تعریف کسی کو بری نہیں لگتی۔”
”شہلا! تم بہت بدتمیز ہو، میں آئندہ تم سے کوئی بات شیئر نہیں کروں گی۔” علیزہ کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں ایکسکیوز کرتی ہوں، آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ اب تم یہ بتاؤ کہ اس کے کنسرٹ میں چلنا ہے؟” شہلا نے فوراً معذرت کرنی شروع کردی۔
”میں ابھی تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی، تم بس چپ ہوجاؤ۔” علیزہ اس کی معذرت سے متاثر نہیں ہوئی۔ شہلا خاموش ہوگئی۔ وہ علیزہ کو اچھی طرح جانتی تھی اور اسے پتا تھا کہ اب وہ اس وقت تک اس سے بات نہیں کرے گی جب تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوجاتا۔
٭٭٭




ذوالقرنین سے ہونے والی علیزہ کی یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی، کوشش کے باوجود بھی اس رات کنسرٹ سے گھر واپس جانے کے بعد علیزہ اسے اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پائی، وہ واقعی اتنا ڈیشنگ تھا کہ کسی بھی لڑکی کیلئے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوتا اور علیزہ جس عمر سے گزر رہی تھی اس عمر میں صنف مخالف میں اس طرح پیدا ہوجانے والی دلچسپی بڑی طوفانی رفتار سے بڑھتی ہے۔
اگلے چند دن بعد ایک دن شہلا نے اسے ایک فون نمبر دیا تھا۔
”یہ ذوالقرنین کا فون نمبر ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے یا پھر تم اگر کہو تو وہ خود تم کو کال کرلے۔”
”کیا مطلب وہ کیوں بات کرنا چاہتا ہے۔” علیزہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
”وہ دوستی کرنا چاہتا ہے تم سے۔”
”اس نے فاروق کا دماغ کھالیا ہے اس دن سے کہ وہ تم سے اس کا رابطہ کروائے، فاروق نے مجھ سے کہا اب میں تمہیں اس کا فون نمبردے رہی ہوں۔”
”کہیں تم نے اس کو میرا فون نمبر تو نہیں دیا؟” علیزہ یک دم خائف ہوگئی۔
”میں نے تو نہیں مگر فاروق نے دے دیا ہے، اب اگر تم اسے فون نہیں کرتیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں فون کرے گا۔” علیزہ کا جیسے سانس رک گیا۔” اوہ گاڈ! اگر فون نانو نے ریسیو کرلیا تو… شہلا! تم اسے منع کردو کہ مجھے کبھی فون مت کرے۔”
”تو پھر بہتر ہے تم خود اس سے بات کرلو… اسے فون کرلو۔۔۔”
شہلا نے اس کے سامنے جیسے ایک تجویز رکھی تھی۔
”مگر میں اس سے فون پر کیا کہوں… نہیں میں اسے کال نہیں کروں گی۔” اس نے فوراً انکار کردیا۔
اس کا انکار بہت دیر تک نہیں چلا۔ دوسرے دن لاشعوری طور پر اسے فون کر بیٹھی تھی۔ اور فون کالز کا یہ سلسلہ پھر بڑھتا گیا تھا۔ ذوالقرنین میڈیکل کالج میں فاروق کا کلاس فیلو تھا وہ دونوں تھرڈ ایئر میں تھے اور نہ صرف فاروق بلکہ شہلا کی بھی ذوالقرنین کے بارے میں اچھی رائے تھی۔
عمر ان دنوں اسلام آباد میں تھا اور اس کے اور علیزہ کے درمیان ہمدردی اور انسیت کا جو ایک تعلق شروع ہوا تھا وہ یک دم جیسے غائب ہوگیا تھا، عمر خود اسے کبھی کال نہیں کرتا تھا، نانو یا نانا ہی اسے کال کیا کرتے تھے اور علیزہ کو کبھی اس سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا نہ ہی عمر نے کبھی علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
دوسری طرف علیزہ کیلئے ان دنوں ذوالقرنین سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں رہی تھی۔ وہ شہلا کو کال کرنے کے بہانے ذوالقرنین کو کال کرتی اور بہت دیر تک اس سے باتیں کرتی رہتی۔ اس کے اندر یک دم بہت سی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ وہ پہلے سے زیادہ خوش رہنے لگی تھی۔ خود پر بہت زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ کرسٹی کے ساتھ بھی پہلے سے کم وقت گزارنے لگی تھی۔ نانو اس میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ نہیں جانتی تھی مگر وہ خوش تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کے اس فیز سے باہر آرہی ہے جس میں وہ پچھلے کچھ عرصہ سے تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ اپنی اسٹڈیز پر بھی پہلے کی طرح توجہ دینے لگے گی۔
ذوالقرنین میں علیزہ کو کیا چیز اچھی لگی تھی۔ علیزہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ وہ اس کے لکس سے زیادہ متاثر ہوئی تھی یا اس کے سنگر ہونے سے یا پھر علیزہ میں لی جانے والی دلچسپی سے… اسے کچھ بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا مگر وہ صرف اس بات سے خوش تھی کہ وہ یک دم کسی کیلئے اتنی اہم ہوگئی ہے۔ ذوالقرنین اس کی تعریفیں کرتا تھا اور علیزہ کیلئے ان دنوں عمر کی عدم موجودگی میں شاید اسی چیز کی ضرورت تھی۔
٭٭٭
وہ لئیق انکل کے ساتھ شام کو جاگنگ کیلئے پارک میں آیا تھا جاگنگ ٹریک پر دوڑتے ہوئے ہر دوسرے قدم میں ان کے ساتھ کام کرنے والا کوئی نہ کوئی کولیگ یا شناسا انہیں مل رہا تھا۔ وہ جاگنگ کرتے ہوئے سلام دعا کا تبادلہ کرتے اور رکے بغیر آگے بڑھ جاتے۔
”میں نے جہانگیر سے کہا تھا، تمہیں فارن سروس کے بجائے پولیس سروس میں آنے دے مگر وہ میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوا۔” جاگنگ ٹریک پر اس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے وہ باتیں کرتے جارہے تھے۔
”تمہارا اپنا انٹرسٹ کس چیز میں ہے؟”
”کسی میں بھی نہیں۔” اس کا دل چاہے وہ کہہ دے۔
”فارن سروس ہی ٹھیک ہے۔” اس نے ساتھ بھاگتے ہوئے کہا۔
”فارن سروس ٹھیک نہیں ہے۔ اسکوپ نہیں ہے اب اس کا کوئی… ہر پولیٹیکل گورنمنٹ آتے ہی سیاسی بنیادوں پر اپائنٹمینٹ کردیتی ہے۔ چار چھ جو اچھے ملک ہیں وہاں فارن سروس کے کسی بندے کو وہ لگاتے ہی نہیں جو سیاست دان الیکشن ہار جاتے ہیں، مگر پارٹی کو اچھا خاصا روپیہ دیتے رہتے ہیں وہ انہیں کو اٹھا کر ان ملکوں میں بھیج دیتی ہے۔ باقی جو ملک رہ جاتے ہیں وہاں صرف کام ہی کیا جاسکتا ہے۔ عیش کرنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور کام اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ مشن کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوتے جو روپیہ گورنمنٹ دیتی ہے اس سے بمشکل مشن اپنے اخراجات ہی پورے کرسکتا ہے ایسے حالات میں فارن سروس میں آنے کا فائدہ کیا ہے۔” وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہتے جارہے تھے۔
”پوسٹنگ میرا کنسرن نہیں ہے، پاپا کروالیں گے۔”
”جہانگیر کروا تو لے گا مگر بات صرف ایک پوسٹنگ کی تو نہیں ہوتی۔ مسلسل اچھی پوسٹنگ ملتی رہے تب جاکر کچھ فائدہ ہوتا ہے اور جہانگیر کو تو خود اس بار بہت پرابلم ہوا ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی پوسٹ بچائی ہے۔ فارن منسٹر اپنے بھائی کو اس کی جگہ لانے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ تو بس جبار کام آگیا۔ اس کے فادران لا نے منسٹر کے بھائی کی پوسٹنگ نہیں ہونے دی۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!