امربیل — قسط نمبر ۵

”تمہارے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔ تمہاری شادی ہوگی، اپنا گھر ہوگا، ایک اچھا شوہر ہوگا اور بھی بہت کچھ مل جائے گا مگر ابھی اس عمر میں خود کواس طرح ضائع مت کرو۔ مانا یہ سب کچھ تمہارے لیے تکلیف دہ ہے مگر تم خود کو اتنا مضبوط بناؤ کہ ایسی تکلیفوں کو برداشت کرسکو۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”تم سوچ رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟” علیزہ نے بے اختیار سرہلا دیا۔
”یہ سب کچھ جو تم محسوس کر رہی ہو میں بھی کرچکا ہوں۔”
اس کی آواز ایک دم دھیمی ہوگئی۔




”میں جانتا ہوں بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ صبر آجاتا ہے، سکون مل جاتا ہے۔ تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ صرف یہ مشکل وقت ہے اسے کسی نہ کسی طرح گزار لو۔ اپنے ذہن میں سے اپنے پیرنٹس کو نکال دو، ان کے گھروں، زندگیوں اور بچوں کے بارے میں مت سوچو۔ صرف یہ سوچو کہ تمہیں اپنے لیے کیا کرنا ہے۔”
”آپ بتائیں مجھے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ میں کیا کرسکتی ہوں؟”
”تم بتاؤ! تم یہ طے کرو کہ تمہیں اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے؟ اور کیسے کرنا ہے۔”
”مگر میں کچھ طے نہیں کرسکتی۔” اس نے بے بسی سے کہا۔
”کیوں طے نہیں کرسکتیں۔ کیا یہاں دماغ نہیں ہے؟” عمر نے اس کے سر کو چھوتے ہوئے کہا۔
”میرا کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن میں نے پیپرز کیلئے بہت محنت کی تھی مگر کتابیں پڑھتے ہوئے میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا میں سب کچھ پھینک دوں۔ کچھ بھی نہ کروں… یا میرا دل چاہتا ہے کہ میں کہیں چلی جاؤں۔”
”کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے بعض دفعہ، تم پچھلے کچھ عرصے سے پریشان تھیں اس لیے مینٹلی کسی چیز پر بھی توجہ مرکوز نہیں کرپائیں مگر اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اسٹڈیز میں کوئی پرابلم ہو تو مجھے بتاؤ، تھوڑی بہت ہیلپ تو میں کر ہی سکتا ہوں۔ اپنے ٹیچرز سے پوچھو، فرینڈز سے بات کرو۔ زیادہ پرابلم ہو تو گرینی سے کہو۔ وہ تمہیں ٹیوٹر رکھوا دیں گی۔ مگر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دو۔ اپنا کیریئر بنانے کے بارے میں سوچو۔”
وہ اس سے وہ باتیں کر رہا تھا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کی تھیں۔ وہ اب سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”آپ کا کبھی دل نہیں چاہا کہ آپ کے پیرنٹس میں ڈائیوورس نہ ہوئی ہوتی؟” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتی تھی۔ وہ چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکا۔
”پتا نہیں۔ میں نے کبھی سوچا نہیں اس بارے میں۔”
”کبھی بھی نہیں؟” اسے یقین نہیں آیا۔
”چلو مان لیتے ہیں کہ میں نے کبھی ایسا سوچا تو بھی کیا فائدہ کیا میرے سوچنے سے کچھ ہوسکتا ہے۔ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ میرا وقت ضائع ہو اور میں وہ نہیں کرتا۔”
”آپ کو کبھی اپنی ممی یاد نہیں آتیں؟” اس بار خاموشی کا وقفہ قدرے طویل تھا۔
”آتی ہیں۔” جواب مختصر تھا۔
”آپ ملتے ہیں ان سے؟”
”میں نہیں ملتا، وہ ملتی ہیں۔” وہ جواب پر کچھ حیران ہوئی۔
”آپ کیوں نہیں ملتے؟”
”پتا نہیں۔”
”آپ ان سے محبت نہیں کرتے؟”
”پتا نہیں۔”
”کیوں؟”
”علیزہ! اب اتنا وقت ہوچکا ہے ان سے الگ ہوئے کہ بس مجھے ان کے بارے میں سوچنا بھی عجیب لگتا ہے۔”
”آپ کو وہ اس لیے یاد نہیں آتیں کیونکہ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔”
اس نے جیسے ایک نتیجہ اخذ کیا۔
”اچھا… سب کچھ ہے میرے پاس؟… مثلاً کیا؟” وہ بہت عجیب انداز میں ہنسا۔
”آپ کے پاس گھر ہے۔” اس نے کچھ رشک سے کہا۔
”یہ تم سے کس نے کہا؟”
”کیا مطلب؟ کیا آپ کے پاس گھر نہیں ہے؟” وہ کچھ حیران ہوئی۔
”نہیں میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔ علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”سچ کہہ رہا ہوں علیزہ میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔” وہ اس کی حیرت پر بھانپ گیا۔
‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟”
”کیوں! یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟”
”انکل جہانگیر کے پاس تو اپنا گھر ہے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ ہی رہے ہیں۔”
”ہاں، پاپا کے پاس گھر ہے اور میں ہمیشہ ان کے پاس رہا ہوں لیکن ان کے ساتھ نہیں رہا۔”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!