امربیل — قسط نمبر ۵

میں واک کیلئے جارہا ہوں۔ چلوگی میرے ساتھ؟” وہ شام کے وقت حسب معمول واک کیلئے نکل رہا تھا جب اس نے لان کے ایک کونے میں علیزہ کو کرسٹی کے ساتھ دیکھا۔ چند لمحے وہ کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اس کی طرف بڑھ آیا۔
قدموں کی چاپ پر علیزہ نے سر اٹھا کر دیکھا اور عمر کو دیکھ کر اس نے سر جھکالیا۔ وہ اس کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ ساری دوپہر روتی رہی ہوگی۔ اسے بے اختیار ترس آیا۔
”کیا ہو رہا ہے علیزہ؟” اس نے بڑے دوستانہ انداز میں اسے مخاطب کیا۔
علیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سر جھکائے وہ اسی طرح گھاس پر بیٹھی ہوئی کرسٹی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی۔
”مجھ سے کیا ناراضی ہے یار؟” وہ بے تکلفی سے کہتا ہوا خود بھی اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔ وہ اب بھی اسی طرح خاموش اور اس کی طرف دیکھنے سے گریزاں تھی۔
”میں واک کیلئے جارہا ہوں۔ چلوگی میرے ساتھ؟”




ایک بار پھر اس نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا۔ علیزہ نے کچھ حیران ہو کر سر اٹھایا۔ اس نے پہلے کبھی اسے ساتھ چلنے کی آفر نہیں کی تھی۔ پھر آج کیوں؟
”نہیں۔” اس کے یک لفظی جواب نے عمر کو مایوس نہیں کیا۔
”مگر گرینی کہہ رہی تھیں کہ میں تمہیں ساتھ لے جاؤں۔”
”کیوں؟” وہ حیران ہوئی۔
”یہ تو پتا نہیں مگر اندر سے نکلتے ہوئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ علیزہ باہر لان میں بیٹھی ہے اسے ساتھ لے جاؤ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ واک کرے گی تو ٹھیک ہوجائے گی۔”
”یہ انہوں نے کہا؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں، انہوں نے ہی کہا مگر اب تم جانا نہیں چاہتیں تو میں ان سے جاکر کہہ دیتا ہوں۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”نہیں، ٹھیک ہے۔ میں چلتی ہوں۔”
وہ ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔” that’s great وہ بے اختیار مسکرایا۔
ساتھ چلتے چلتے دونوں گیٹ سے باہر آگئے۔ فٹ پاتھ پر آتے ہی اس نے علیزہ کو مخاطب کیا۔
”تم روتی رہی ہو؟” وہ ٹھٹھکی اسے عمر سے ایسے کسی سوال کی توقع نہیں تھی۔
”نہیں۔” چند لمحوں بعد اس نے کہا۔
عمر نے ایک نظر خاموشی سے اسے دیکھا۔ وہ سامنے سڑک پر دیکھ رہی تھی۔ اس نے علیزہ کے جواب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
چند لمحے اسی طرح خاموشی سے چلتے رہنے کے بعد اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”کبھی واک کیلئے آتی ہو؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”مجھے اچھا نہیں لگتا۔”
”تم پہلی لڑکی ہو جس کے منہ سے میں یہ سن رہا ہوں۔” اس نے خاصی بے تکلفی سے کہا۔ اس بار علیزہ خاموش رہی۔
”تھوڑی بہت ایکسرسائز تو ضروری ہوتی ہے۔ بندہ فٹ رہتا ہے۔”
اس نے ایک بار پھر بات کا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بار پھر خاموش رہی۔
”ایکسرسائز تو کسی کو بری نہیں لگتی۔” عمر نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کی خاموشی ہنوز قائم تھی۔
”مجھے تو اچھا لگتا ہے جو گنگ کرنا، واک کیلئے جانا… ہفتے میں دو تین بار جم جانا۔”
علیزہ نے اس بات پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ کچھ دیر اس کے جواب کا منتظر رہا پھر جیسے تنگ آگیا۔
”کیا صرف میں ہی بولتا رہوں گا تم کچھ نہیں کہو گی؟”
علیزہ نے صرف گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”آپ خود باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے تو نہیں کہا۔” اس نے کچھ خفگی سے عمر کو جواب دیا۔
”میں اس لیے باتیں کر رہا ہوں کیونکہ یار میرا دل چاہ رہا تھا آپ سے باتیں کرنے کو۔”
”میں اس لیے باتیں نہیں کر رہی کیونکہ میرا دل نہیں چاہ رہا آپ سے باتیں کرنے کو۔” عمر اس کے جواب پر بے اختیار ہنس پڑا۔
”میں نے یہ واقعی نہیں سوچا تھا کہ تمہارے بات نہ کرنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔”
عمر نے ٹکٹس لیں اور وہ دونوں ریس کورس میں داخل ہوگئے۔ شام ہوچکی تھی اور پارک کی لائٹس آن تھیں۔ جوگنگ ٹریک پر آنے کے بجائے وہ واکنگ ٹریک پر آگئے۔ عمر اب خاموش تھا۔ کافی دیر وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ پھر عمر ایک بینچ کی طرف بڑھ گیا۔
”آؤ کچھ دیر وہاں بیٹھتے ہیں۔” اس نے کہا۔ علیزہ نے خاموشی سے اس کی تقلید کی۔ بینچ پر بیٹھنے کے بعد دونوں کچھ دیر تک پارک میں پھرنے والے لوگوں کو دیکھتے رہے۔
”کراچی میں کیا ہوا تھا علیزہ؟”
بہت نرم اور مدھم آواز میں ایک جملہ اس کے قریب گونجا اس کی ساری حسیات یک دم بیدار ہوگئیں۔ گردن موڑ کر اس نے عمر کو دیکھا وہ اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!