الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷


ایک دن شوٹنگ سے گھر آیا تو کیا دیکھا کہ زلیخا ہاتھوں میں سر دئیے بیٹھی ہے۔ پاس ماموں مسکین و مظلوم صورت بنائے بیٹھے ہیں۔
حسن کا ماتھا ٹھنکا۔ پوچھا :‘‘خیر باشد، کیا ہوا؟ نصیب دشمناں کیا طبیعت ناساز ہے؟’’
زلیخا نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی:‘‘آج بنے بھائی دکان پر آئے تھے۔’’
حسن گھبرایا، دل میں سوچا: ‘‘یہ کوئی بری فال ہے، بنے بھائی کا جال ہے۔’’پوچھا:‘‘پھر کیا ہوا؟’’
زلیخا نے مایوسی سے کہا:‘‘پھر یہ ہوا کہ انہوں نے مال خریدنے کے پیسے مانگے اور ابا نے پکڑا دیے۔’’
حسن نے حیران ہوکر ماموں کو دیکھا۔ ماموں کے چہرے پر مردنی چھائی تھی۔ مسکین لہجے میں بولے:‘‘تو اور کیا کرتا؟’’
زلیخا نے حسن کو دیکھ کر بے بسی سے سر ہلایا اور بولی:‘‘ ابا میں بنے بھائی کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں۔’’
حسن نے کہا ‘‘بے شک بنا بھائی وہ انسان ہے جو بے حد ظالم، ستمگر، جفا جو ہے۔ غصہ ور اور بدخو ہے، مگر اس سے بات تو کرنی چاہیے تھی۔ یہ ہمت ضرور کرنی چاہیے تھی۔’’
ماموں نے بے بسی سے زلیخا کو دیکھا اور شرمندگی سے گردن جھکا لی۔ زلیخا سے باپ کی یہ حالت برداشت نہ ہوئی۔ حسن سے تیکھے لہجے میں بولی:‘‘تو یہ ہمت تم کرلو۔’’
حسن دل میں گھبرایا، بہت شرمایا۔ کرسی پر بیٹھ گیا اور ماتھے کا پسینہ پونچھ کر بولا:‘‘بہت معذرت خواہ ہوں۔ دراصل میرے پاس آج کل وقت نہیں۔ دن رات شوٹنگ ہوتی ہے۔۔۔ بہت مصروفیت ہے۔’’
زلیخا تلخی سے مسکرائی اور بولی:‘‘اور ویسے بھی اپنا کام ہو تو انسان وقت نکالے۔ دوسروں کے کاموں کے لیے نہ تو وقت نکلتا ہے نہ ضرورت۔’’
حسن شرمندگی سے عرق عرق ہوا۔ پچھتاوے میں غرق ہوا۔
ماموں نے ایک آہِ سرد بھری، بہ دلِ پرُدردِبھری اور آہستہ سے بولے:‘‘کیا کرسکتے ہیں؟ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔’’ یہ کہہ کر کندھے جھکائے اٹھے اور کمر کو پکڑے پکڑ کمرے سے باہر سدھارے۔
زلیخا نے تلخی سے کہا:‘‘ابا کو تمہارا بہت آسرا تھا۔’’
حسن شرمندگی کے سبب سے خاموش رہا۔
زلیخا بڑبڑائی:‘‘کاش میں ہی کسی قابل ہوتی۔’’
حسن نے دردمندی سے کہا:‘‘تم بہت قابل ہو، زلیخا۔ سب نشیب و فرازِ زمانہ تم ہی مجھے دکھاتی ہو، ہر برے وقت میں تم ہی کام آتی ہو۔’’
زلیخا نے مایوسی سے کہا:‘‘میں کسی قابل نہیں۔ ہوتی تو آج ابا کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ابا ٹھیک کہتے ہیں۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔’’
حسن نے کہا:‘‘تم چاہو تو اب بھی اس جرمِ ضعیفی کو قوتِ شاہ زوری میں بدل سکتی ہو۔ اپنا پیسہ کماؤ اور اپنے بل پر دنیا کا مقابلہ کرو۔’’
زلیخا نے چڑ کر کہا:‘‘اس بات کا یہاں کیا ذکر؟’’
حسن نے کہا:‘‘اس بات کا ہر جگہ ذکر ہے۔ دنیا پیسے کو سلام کرتی ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے، اس کا پلہ بھاری ہے۔ اسی کی اجارہ داری ہے۔ تم ڈاکٹر بنو اور تمام زندگی سر اٹھا کر جیو۔’’
زلیخا نے سرتھام کر کہا:‘‘تم مدد نہیں کرسکتے تو زخموں پر نمک بھی نہ چھڑکو۔’’
حسن نے بے اختیار زلیخا کا ہاتھ تھام لیا۔ کہا:‘‘مدد کا وعدہ میں کرتا ہوں۔ میرا یہ قول جان کے ساتھ ہے کہ میں ماموں کی دکان بنے بھائی سے چھڑواؤں گا لیکن پھر تم بھی مجھ سے وعدہ کرو کہ ڈاکٹری کا امتحان دو گی۔’’
زلیخا نے ہاتھ چھڑا کر نظریں چرائیں اور کہا:‘‘ناممکن باتیں مت کرو۔’’
حسن نے کہا:‘‘دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ مجھے دیکھو۔ میرے باپ کو ایک ساحرہ نے بزورِ سحر بکرا بنایا اور مجھے وقت کی گردش میں پھینک دیا۔ میں اس زمانے میں آگرا اور اس صدمۂ دلدوز و جانکاہ کے باوجود نہ صرف بچ گیا بلکہ خوش و خرم جی رہا ہوں، جامِ کامرانی پی رہا ہوں۔’’
زلیخا نے بیزاری سے کہا۔‘‘او فار گاڈ سیک۔ ناٹ اگین۔’’
حسن نے بہ صد لجاجت کہا:‘‘میں سچ کہتا ہوں زلیخا۔۔۔’’
زلیخا کوئی جواب دیے بغیر اٹھی اور دروازے کی طرف چلی۔ حسن خاموشی سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ دروازے میں پہنچ کر زلیخا مڑی اور سنجیدگی کے ساتھ بولی:‘‘اپنا وعدہ یاد رکھنا حسن۔’’
یہ کہہ کر چلی گئی۔ حسن دل ہی دل میں وعدہ وفا کرنے کی تدبیریں سوچتا رہا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!