الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

چند دن بعد حسن کو فرصت ملی تو اس نے فون کر کے عاصم کو بلوایا اور اپنی دکان کا معاملے اس کے سامنے رکھا۔
حسن نے کہا:‘‘معاف کرنا، میں بہت گومگو میں ہوں۔ تم سے احسان لینا اچھا نہیں لگتا۔ بدلے میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔’’
عاصم نے ایک اداس مسکراہٹ سے کہا:‘‘تمہیں دیکھ لیتا ہوں یہی بہت ہے۔’’
حسن بے حد جزبز ہوا لیکن اور کوئی چارہ نہ پاتا تھا۔ زلیخا سے کیے وعدے کو وفا کرنے کی اور کوئی راہ نہ پاتا تھا۔
حسن نے عاصم سے کہا:‘‘ماموں اور ان کی دکان بنے بھائی کے چنگل میں پھنسی ہے۔ان سے نجات کا واحد راستہ ہے کہ میں اپنی دکان کرائے داروں سے خالی کراؤں۔ نئے سرے سے کرائے پر چڑھاؤں ۔جو آمدن ہو، اسے جمع جوڑ کرکے ماموں کی دکان میں کتابوں کے بجائے ریشمی تھانوں کا مال ڈلواؤں۔’’
عاصم نے کہا:‘‘یہ تو بہت لمبی پلاننگ ہے۔’’
حسن بولا:‘‘اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تم سے یہ مدد درکار ہے کہ اپنے والد صاحب کے اثرورسوخ کو کام میں لا کر میری دکان کا قبضہ چھڑوا دو تو اس احسانِ بے بایاں کا تازندگی ممنون رہوں گا۔’’
عاصم نے سوچتے ہوئے کہا:‘‘ہاں ہو تو جائے گا یہ کام، مجھے ساری ڈیٹیل بتاؤ۔’’
ادھر تو حسن عاصم کے ساتھ یہ باتیں کرتا تھا، ادھر گھر کے پھاٹک پر کرن کھڑی گھنٹی بجاتی تھی۔ نانی نے آکر پھاٹک کھولا، کرن کو دیکھ کر حیران تو ضرور ہوئیں پر صرف اتنا کہا:‘‘آؤ بیٹی، اندرآجاؤ۔’’
کرن خوشی خوشی اندر آئی۔ نانی کے پیچھے پیچھے آتے، اس کی نگاہیں ادھر ادھر حسن کو ڈھونڈتی رہیں۔
نانی نے کہا:‘‘ڈرائنگ روم میں تو حسن کا دوست آیا بیٹھا ہے۔ آ بچی، توُ میرے ساتھ باورچی خانے میں آجا۔ زلیخا گھر پر نہیں۔ میں ذرا حسن کے دوست کے لیے چائے بنادوں۔’’
یہ سن کر کرن کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ دل چاہا واپس چلی جائے مگر اب نانی کو انکار نہ کرسکتی تھی۔ دل مسوس کر باورچی خانے میں آئی اور آتے آتے مہمان خانے میں بھی جھانک آئی۔ دیکھا تو وہاں حسن کے ساتھ اسی مردِ خوش اندام کو بیٹھا پایا جو اسے ایک مرتبہ گلی میں ملا تھا اور جس سے اس نے آٹوگراف لیا تھا۔
کرن نے خوش ہوکر نانی سے کہا:‘‘اچھا تو یہ ان ہی کی گاڑی کھڑی ہے باہر؟’’
نانی نے چائے کا پانی چولہے پر دھرتے ہوئے کہا:‘‘ہاں بیٹی! اس کا باپ بہت بڑا زمیندار ہے۔ جب آتا ہے یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں چھے چھے گارڈز کے ساتھ آتا ہے۔’’
کرن نے دلچسپی سے پوچھا:‘‘اور یہ حسن بھائی کے ساتھ ڈراموں میں بھی کام کرتے ہیں نا؟’’ نانی نے حیران ہوکر کہا:‘‘نہیں ،یہ تجھ سے کس نے کہا؟ یہ تو حسن کا کالج کا دوست ہے۔’’
کرن ہکا بکا ہوکر بولی:‘‘یہ ڈراموں میں کام نہیں کرتا؟’’
نانی بولیں:‘‘نہیں بیٹی، اونچے خاندان کا ہے، اسے یہ چھوٹے موٹے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔’’
یہ سن کر کرن کو بے حد غصہ آیا، بہت پیچ و تاب کھایا۔ دل میں اپنی بہت بے عزتی محسوس ہوئی کہ اس دن خوامخواہ اس سے آٹوگراف لیا اور اس کمبخت نے بھی نہ بتایا کہ یہ اداکار نہیں۔ مجھے بھولی بھالی جان کر بے وقوف بنایا۔ میری معصومیت سے فائدہ اٹھایا۔’’
یہ سوچ کر تنک کر بولی:‘‘بڑا ہی بدتمیز ہے یہ۔ میں نے اس دن اسے ایکٹر سمجھ کر اس سے آٹوگراف لیا تھا۔ بولا کیوں نہیں کہ میں اس قابل نہیں کہ مجھ سے کوئی آٹوگراف لے۔’’
نانی پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے ہنس کر بولیں:‘‘لوبھلا قابل کیوں نہیں؟ اس کا باپ ایم این اے ہے۔ دیکھنا یہ بھی ضرور سیاست میں آئے گا۔ کیوں نہ آئے، اکلوتا بیٹا ہے ماں باپ کا، باپ ضرور اپنی سیٹ اسے دے گا، پھر ایک دن مشہور بھی ہو جائے گا۔ پھر تم خوش ہونا اس کا آٹو گراف دیکھ کر۔’’
لیکن کرن کو یہ سن کر کوئی خوشی نہ ہوئی۔ وہ بیٹھی منہ بنائی ہورہی اور اس قدر دلبرداشتہ ہوئی کہ حسن کے فارغ ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور اسے ملے بنا ہی چلی گئی۔ بعد میں حسن کو معلوم ہوا تو یہ حال ہوا کہ

؂ سہا جاتا نہیں دردِ جدائی
اٹھا لے اے خدا مجھ کو جہاں سے

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!