’’I met your ex-wife‘‘ وہ جملہ نہیں تھا جیسے ایک بم تھا جو اس نے احسن سعد پر پھوڑا تھا۔
عبداللہ پچھلی رات واپس پہنچا تھا اور اگلے دن اسپتال میں اس کی ملاقات احسن سے ہوئی تھی۔ اسی طرح ہشاش بشاش، بااخلاق، پرجوش، عبداللہ کے کانوں میں عنایہ اور جبریل کی آوازیں اور انکشافات گونجنے لگے تھے۔ اس نے احسن سے ملاقات کا وقت مانگا تھا جو بڑی خوش دلی سے دیا گیا تھا۔ وہ دونوں ایک ہی اپارٹمنٹ کی بلڈنگ میں رہتے تھے۔ احسن کے والدین اس کے ساتھ رہتے تھے، اس لئے وہ ملاقات اپنے گھر پر کرنا چاہتا تھا، مگر احسن اس شام کچھ مصروف تھا تو عبداللہ کو اس ہی کے اپارٹمنٹ پر جانا پڑا، وہاں اس کی ملاقات احسن کے والدین سے ہوئی تھی ہمیشہ کی طرح ایک رسمی ہیلو ہائے…
احسن لاؤنج میں بیٹھے ہی اس سے بات کرنا چاہتا تھا، مگر عبداللہ نے اس سے علیحدگی میں ملنا چاہا تھا اور تب وہ اسے اپنے بیڈروم میں لے آیا تھا مگر وہ کچھ الجھا ہوا تھا۔ عبداللہ کا رویہ کچھ عجیب تھا، مگر احسن سعد کی چھٹی حس اسے اس سے بھی برے اشارے دے رہی تھی اور وہ بالکل ٹھیک تھے
عبداللہ نے کمرے کے اندر آتے ہی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کیا تھا اور احسن سعد کا لہجہ ، انداز اور تاثرات پلک جھپکتے میں بدلے تھے۔ عبداللہ نے زندگی میں پہلی بار اس کی یہ آواز سنی تھی۔ وہ لہجہ بے حد خشک اور سرد تھا… کرخت بہتر لفظ تھا اسے بیان کرنے کے لئے… اور اس کے ماتھے پر بل آئے تھے۔
آنکھوں میں کھا جانے والی نفرت۔
بھنچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ اس نے عبداللہ سے کہا۔ ’’کیوں؟‘‘
عبداللہ نے بے حد مختصر الفاظ میں اسے بتایا کہ عنایہ نے اس سے کہا تھا کہ جبریل اس کی شادی عبداللہ سے نہیں کرنا چاہتا اور اس کے انکار کی وجہ احسن سعد سے اس کا قریبی تعلق ہے۔ اس نے احسن سعد کو بتایا کہ عنایہ اور جبریل دونوں نے اس پر سنگین الزامات لگائے تھے اور اسے عائشہ عابدین سے ملنے کے لئے کہا جو اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا۔
’’تو تم نے ان پر اعتبار کیا… اپنے استاد پر نہیں اور تم مجھ سے بات یا مشورہ کئے بغیر اس کتیا سے ملنے چلے گئے اور تم دعوا کرتے ہو کہ تم نے مجھ سے سب کچھ سیکھ لیا۔‘‘
احسن نے اس کی گفتگو کے درمیان ہی اس کی بات بے حد خشمگیں لہجے میں کاٹی تھی، عبداللہ ویسے بھی بات کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس نے احسن سعد کی زبان سے ابھی ابھی ایک گالی سنی تھی عائشہ عابدین کے لئے… وہ گالی اس کے لئے شاکنگ نہیں تھی، احسن سعد کی زبان سے اس کا نکلنا شاکنگ تھا، مگر وہ شام عبداللہ کے لئے وہ آخری شاک لانے والی نہیں تھی۔ وہ جس بت کی پرستش کررہا تھا، وہ وہاں اس بت کو اوندھے منہ گرتے دیکھنے آیاتھا۔
’’تمہیں کوئی حق نہیں تھا کہ تم میری سابقہ بیوی سے ملتے۔ میرے بارے میں اس طرح انویسٹی گیشن کرتے، تم اس…،…،… کے پاس پہنچے جس نے میرے بارے میں تم سے جھوٹ پہ جھوٹ بولا ہوگا۔‘‘
احسن سعد کے جملوں میں اب عائشہ کیلئے گالیاں روانی سے آرہی تھیں جیسے وہ اسے مخاطب کرنے کے لئے روز مرہ کے القابات تھے۔ وہ غصے کی شدت سے بے قابو ہورہا تھا۔ عائشہ کی نفرت اس کے لئے سنبھالنا مشکل ہورہی تھی یا اپنی سالوں کا بنایا ہوا امیج مسخ ہونے کی تکلیف نے اسے بری طرح بلبلانے پر مجبور کردیا تھا ، عبداللہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
’’وہ دکھانے بیٹھ گئی ہوگی تمہیں کورٹ کے کاغذات کہ، یہ دیکھو کورٹ میرے شوہر کو جھوٹا کہہ رہی ہے۔ کورٹ نے مجھ پر مار پیٹ کے الزامات کو مانا ہے۔ کورٹ نے احسن سعد کو دوسری شادی کرنے کے لئے اسے دھوکے باز کہا ہے اور اس لئے اس … عورت کے طلاق کے مطالبے کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے طلاق دلوادی اور بچے کی کسٹڈی بھی۔‘‘
وہ بولتا ہی جارہا تھااور عبداللہ ساکت صرف اسے سن رہا تھا۔ وہ سارے انکشافات جن کو سننے کے لئے جبریل نے اسے عائشہ کے پاس بھیجا تھا، وہ الزامات وہ خود احسن سے س رہا تھا۔
’’میں اس ملک کے کورٹس کو دو ٹکے کا نہیں سمجھتا، یہ کافروں کی عدالتیں ہیں، اسلام کو کیا سمجھتی ہوں گی، وہ یہ فیصلے دیتی ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں۔ میرا مذہب حق دیتا ہے مجھے دوسری شادی کا کسی بھی وجہ سے بغیر تو کورٹ کون ہوتی ہے مجھے اس عمل پر دھوکے باز کہنے والی، مجھے حق ہے کہ میں ایک نافرمان بیوی کو مار پیٹ سے راہ راست پر لاؤں۔ کورٹ کس حق کے تحت مجھے اس سے روک سکتی ہے؟ میں مرد ہوں، مجھے میرے دین نے عورت پر برتری دی ہے، کورٹ کیسے مجھے مجبور کرسکتی ہے کہ میں اپنی بیوی کو برابری دوں۔ ان ہی چیزوں کی وجہ سے تو تمہارا معاشرہ تباہ ہوگا، بے حیائی، عریانی، منہ زوری ، مرد کی نافرمانی… یہی چیزیں تو لے ڈوبی ہیں تمہاری عورتوں کو اور تمہاری کورٹس کہتی ہیں، ہم بھی بے غیرت ہوجائیں اور ان عورتوں کو بسائیں اور ان کے پیچھے کتے کی طرح دم ہلاتے پھریں۔‘‘
وہ شخص کون تھا؟ عبداللہ پہچان ہی نہیں پارہا تھا۔ اتنا زہر ، ایسا تعصب ، ایسے الفاظ اور یہ سوچ … اس نے ڈاکٹر احسن سعد کے اندر چھپا یہ انسان تو کبھی نہیں دیکھا تھا جو امریکہ کو ہمیشہ اپنا ملک قرا ردیتے ہوئے اپنے آپ کو فخریہ امریکن کہتا تھا اور آج وہ اسے تمہارا ملک، تمہارا معاشرہ ، تمہارے کورٹس کہہ کہہ کر بات کررہا تھا۔ امت اور اخوت کے جو دو الفاظ اس کا کلمہ تھے وہ دونوں یک دم کہیں غائب ہوگئے تھے۔
’’اب طلاق منہ پر مار کر میں نے اس حرافہ کو چھوڑا ہوا ہے تو خوار ہوتی پھر رہی ہے۔ کسی کی کیپ اور گرل فرینڈ ہی رہے گی وہ ساری عمر، کبھی بیوی نہیں بنے گی۔ اسے یہی آزادی چاہیے، تمہاری سب عورتوں کو یہی سب چاہیے۔ گھر، خاندان، چار دیواری کس چڑیا کے نام ہیں انہیں کیا پتا، عصمت جیسا لفظ ان کی ڈکشنری میں ہی نہیں اور پھر الزام لگاتی ہیں شوہروں کے تشد دکے… گھٹیا عورتیں۔‘‘
اس کے جملوں میں اب بے ربطگی تھی… یوں جیسے وہ خود بھی اپنی باتیں جوڑ نہ پار ہا ہو ، مگر وہ خاموش ہونے پر تیار نہیں تھا۔ اس کا علم بول رہا ہوتا تو اگلے کئی گھنٹے بھی عبداللہ اسی طرح اسے سن سکتا تھا جیسے وہ ہمیشہ سحر زدہ معمول کی طرح سنتا رہتا تھا، مگر یہ اس کی جہالت تھی جو گفتگو کررہی تھی اور کرتے ہی رہنا چاہتی تھی۔
عبداللہ اس کی بات کاٹ کر کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر اس سے پہلے احسن سعد کے ماں باپ اندر آگئے تھے۔ وہ یقینا احسن کے اس طرح بلند آواز میں باتیں سن کر اندر آئے تھے۔
’’ابو! میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ آپ کے دوست کا بیٹا میرا دشمن ہے، مجھے نقصان پہنچائے گا… اب دیکھ لیں، وہی ہورہا ہے۔ وہ مجھے جگہ جگہ بدنام کرتا پھر رہا ہے۔‘‘ احسن نے اپنے باپ کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
’’کون؟‘‘ سعد نے کچھ ہکا بکا انداز میں کہا۔
’’جبریل!‘‘ احسن نے جواباً کہا اور عبداللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اسے عائشہ سے ملوایا ہے اس نے… اور اس عورت نے اس سے میرے بارے میں جھوٹی سچی باتیں کہی ہیں، زہر اگلا ہے میرے بارے میں۔‘‘ وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح شکایت کررہا تھا۔
’’عائشہ نے مجھ سے آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا… جو بھی بتایا ہے، آپ نے خود بتایاہے۔‘‘
عبداللہ نے سعد کے کچھ کہنے سے پہلے کہا تھا۔ ’’انہوں نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ آپ کے اور ان کے درمیان Compatibility نہیں تھی، مگر کوئی کورٹ پیپرز اور کورٹ میں آپ پر ثابت ہونے والے کسی الزام کی انہوں نے بات کی نہ ہی مجھے کوئی پیپر دکھایا… جو بھی سن رہا ہوں، وہ میں آپ سے ہی سن رہا ہوں۔‘‘
عبداللہ کا خیال تھا احسن سعد حیران رہ جائے گا اور پھر شرمندہ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔
’’تم مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔‘‘ احسن سعد نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا تھا۔
عبداللہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس گھر میں یک دم ہی اس کے گھٹنے لگا تھا۔ اب صرف احسن سعد نہیں بول رہا تھا، اس کا باپ اور ماں بھی شامل ہوگئے تھے۔ وہ تینوں بیک وقت بول رہے تھے اور عائشہ عابدین کو لعنت ملامت کررہے تھے اور جبریل کو بھی۔ سالار سکندر کے ماضی کے حوالے سے سعد کو یک دم بہت ساری باتیں یاد آنے لگی تھیں اور امامہ کے بارے میں… جس کا پہلا مذہب کچھ اور تھا…عبداللہ کو یک دم کھڑے کھڑے محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ ایک پاگل خانے میں کھڑا ہے… وہ اس کے کھڑے ہونے پر بھی اسے جانے نہیں دے رہے تھے بلکہ چاہتے تھے وہ ان کی ہر بات سن کر جائے۔ ایک ایک بہتان، ایک ایک راز جو صرف ان کے سینوں میں دبا ہوا تھا اور جسے وہ آج آشکار کردینا چاہتے تھے۔ اسلام کا وہ چہرہ عبداللہ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مذب اس کے لئے ہمیشہ ہدایت اور مرہم تھا، بے ہدایتی اور زخم کبھی نہیں بنا تھا۔وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ کانوں میں پڑنے والی آوازوں کو روک دینا چاہتا تھا، احسن سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے قرآن کا استاد رہا ہے، وہ بس وہی سب بتائے اسے، یہ سب نہ سنائے۔
’’برادر احسن… You disappointed me ‘‘ عبداللہ نے بالآخر بہت دیر بعد آوازوں کے اس طوفان میں اپنا پہلا جملہ کہا۔ طوفان جیسے چند لمحوں کے لئے رکا۔
’’آپ کے پاس بہت علم ہے… قرآن پاک کا بہت زیادہ علم ہے لیکن ناقص… آپ قرآن پاک کو حفظ تو کیے ہوئے ہیں، مگر نہ اس کا مفہوم سمجھ پاتے ہیں نہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات۔ کیوں کہ آپ سمجھنا نہیں چاہتے، اس کتاب کو جو اپنے آپ کو سمجھنے اور سوچنے کے لئے بلاتی ہے، آپ سے ایک بار میں نے ایک آیت کا مطلب پوچھا تھا کہ قرآن دلوں پر مہر گلا دینے کی بات کرتا ہے تو اس کا مفہوم کیا ہے؟ مجھے اس کا مفہوم اس وقت سمجھ نہیں آیا تھا، آج آگیا۔ آپ میرے استاد رہے ہیں، مگر میں دعا کرتا ہوں اللہ آپ کے دل کی مہر توڑ دے اور آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔‘‘
وہ احسن کو بیچ بازار میں جیسے ننگا کرکے چلا گیا تھا۔ وہاں ٹھہرا نہیں تھا۔
٭…٭…٭
وہ پھر وہیں کھڑا تھا جہاں عائشہ کو توقع تھی۔ اس کے اپارٹمنٹ کے باہر کمپاؤنڈ میں۔ ادھر سے ادھر ٹہلتے… گہری سوچ… زمین پر اپنے قدموں سے فاصلہ ناپتے ہوئے۔ برف باری کچھ دیر پہلے ہی ہوکر رکی تھی ا ور جو برف گری تھی، وہ بہت ہلکی سی چادر کی طرح تھی… جو دھوپ نکلنے پر پگھل جاتی، مگر آج دھوپ نہیں نکلی تھی اور اس برف پر جبریل کے قدموں کے نشان تھے… بے حد ہموار اور متوازن جیسے بہت سوچ سمجھ کر رکھے جارہے ہوں۔ اس نے عائشہ کو باہر آتے نہیں دیکھا تھا، مگر عائشہ نے اسے دیکھ لیا تھا۔ لانگ کوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اس کی طرف بڑھنے لگی۔
جبریل نے اسے کچھ دیر پہلے فون کیا تھا، وہ اس سے ملنا چاہتا تھا۔
’’میں گروسری کے لئے جارہی ہوں اور پھر اسپتال چلی جاؤں گی۔‘‘ ا س نے جیسے بلاواسطہ انکار کیا تھا۔
وہ اب اس کا سامنا کرنے سے کترانے لگی تھی۔ اس کے سامنے آنا ہی نہیں چاہتی تھی اس ایک گفتگو کے بعد۔
’’تو تم کورٹ میں یہ اعتراض کرنا چاہتی ہو کہ احسن سعد ٹھیک ہے اور تم نے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں لاپروائی کا مظاہرہ کیا، تم اپنی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہو؟‘‘
جبریل نے بے حد خفگی سے اسے تب کہا تھا۔
’’مجھے اپنی زندگی میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی اور اگر اسے قربان کرنے سے ایک سے زیادہ بہتر زندگی بچ سکتی ہے تو کیوں نہیں۔‘‘ اس نے جواباً ان سب ملاقاتوں میں پہلی بار اس ے اس طرح بات کی تھی۔
’’تم مجھے بچانا چاہتی ہو؟‘‘ جبریل نے سیدھا اس سے پوچھا۔ اسے اتنے ڈائریکٹ سوال کی توقع نہیں تھی اس سے اور ایک ایسے سوال کی جس کا جواب وہ اسے دینے کی جرات ہی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اسے یہ کیسے بتاسکتی تھی کہ وہ احسن سعد سے اس شخص کو بچانا چاہتی تھی جو اسے اسفند کے بعد اب سب سے زیادہ عزیز تھا۔
یہ جاننے کے باوجود کہ احسن سعد نے اسے جبریل کے آپریشن میں ڈاکٹر ویزل سے ہونے والی کوتاہی کے بارے میں بتایا تھا۔ اسے جبریل کے اس معذرت والے کارڈ کی سمجھ بھی تب ہی آئی تھی لیکن وہ پھر بھی جبریل کو معاف کرنے پر تیار تھی۔ یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ اس کے بیٹے کی جان لینے میں اس شخص سے ہونے والی کسی دانستہ غلطی کا ہاتھ تھا۔ وہ اسے اتنی توجہ کیوں دیتا تھا، اس کے لئے کیوں بھاگتا پھرتا تھا، عائشہ عابدین جیسے اب ڈی کوڈ کر پائی تھی اور وہ اسے اس احساس جرم سے آزاد کردینا چاہتی تھی، یہ بتا کر کہ اس نے جبریل کو معاف کردیا تھا اور وہ جبریل کو بچانے کے لئے احسن سعد کے آگے دیوار کی طرح کھڑی ہوسکتی تھی۔ وہ ایک کام جو وہ زندگی میں اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں کرسکی تھی۔
’’میں تمہیں صرف احساس جرم سے آزاد کردینا چاہتی ہوں جو تم اسفند کی وجہ سے رکھتے ہو۔‘‘ اس نے اس کے سوال کا جواب دیاتھا۔
جبریل بول نہیں سکا تھا۔
’’میں اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کرسکتا ہوں، مگر تمہیں اپنی زندگی تباہ کرنے نہیں دے سکتا۔‘‘ بڑی لمبی خاموشی کے بعد جبریل نے کہا تھا۔