آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

’’کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے، باقی سب بہانے ہوتے ہیں۔ اس لئے تم صرف وجہ بتاؤ، بہانے نہیں۔‘‘ سالار نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ذخیرۂ الفاظ کی ہوا نکالتے ہوئے کہا۔
حمین اس ملاقات کے لئے پہلے سے تیار تھا اور وجوہات کو جمع کرنے پر بھی اچھا خاصا وقت صرف کرچکا تھا۔ باپ نے جیسے انگلی سے پکڑ کر وبارہ زیرو پر کھڑا کردیا تھا۔
’’میں پاکستان میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا۔‘‘ حمین نے بالآخر ایک وجہ تلاش کرکے پیش کی۔
’’تم تم کانگو میں ایڈجسٹ ہوسکتے ہو تو پاکستان میں بھی ہوجاوؑگے… افریقہ سے زیادہ برا نہیں۔‘‘ سالار نے اسی انداز میں کہا۔
’’تب میں چھوٹا تھا۔‘‘ حمین نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
’’تم اب بھی چھوٹے ہی ہو۔‘‘ سالار نے بات کاٹی۔
’’لیکن میں بڑا ہورہا ہوں۔‘‘ حمین نے جیسے اعتراض کیا۔
’’اس میں کافی ٹائم لگے گا… تمہارے لئے کم از کم پچیس سال۔‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے اسے چھیڑا۔ وہ باپ کو دیکھ کر رہ گیا۔
’’آئی ایم سیریس بابا!‘‘ اس نے سالار کی بات سے محظوظ ہوئے بغیر کہا۔ ’’میں پاکستان نہیں جانا چاہتا۔ اور یہ ممی کے لئے بھی اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ وہ کسی بڑے کی طرح باپ کے فیصلے پر تبصرہ کررہا تھا۔
سالار خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔
’’مجھے یہاں تعلیم حاصل کرنی ہے۔ میں وہاں چھٹیوں پر جاسکتا ہوں، ہمیشہ کے لئے نہیں۔‘‘ وہ بالکل امریکی انداز میں بے حد صاف گوئی سے باپ کو بتارہا تھا کہ وہ کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں۔
’’چند سالوں کی بات ہے حمین! اس کے بعد تم بھی اس قابل ہوجاؤگے کہ امریکا واپس آکر کہیں بھی پڑھ سکو۔‘‘ سالار نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ وہ گیارہ سال کا بچہ ، باپ کو بے حد مدلل انداز میں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
’’چند سال سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ایک سال سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔‘‘ اس نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔
’’تو تم یہ قربانی نہیں دوگے؟‘‘ سالار نے اس بار بات بدلی۔
’’جبریل بھی تو دے سکتا ہے قربانی… آپ بھی تو دے سکتے ہیں… میں ہی کیوں؟‘‘ اس نے جواباً اسی انداز میں کہا۔
دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے برابر آکے، ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے کاروباری امور طے کرنا اور بات تھی… ان کے سوالات اور اعتراضات کے انبار کو سمیٹنا آسان کام تھا… اپنے گیارہ سال کے بیٹے کو اس بات پر قائل کرنا زیادہ مشکل تھا کہ وہ قربانی کیوں دے، جو اس کا بھائی نہیں دے رہا تھا…اس کا باپ بھی نہیں دے رہا تھا… پھر وہ کیوں؟ اور اس کیوں کا جواب فارمولوں اور کلیوں میں نہیں ملتاتھا، صرف ان اخلاقی اقدار میں ملتا تھا جن پر اس نے اپنی اولاد کی تربیت کی تھی، لیکن اس کے باوجود اس کی اولاد اس سے یہ سوال کررہی تھی۔
’’تم جانتے ہو، تمہارے دادا کو الزائمر ہے۔ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور انہیں ضرورت ہے کہ کوئی ان کے پاس ہو… تم سے انہیں زیادہ محبت ہے۔ اس لئے میں چاہتا تھا تم ان کے پاس رہو۔‘‘ سالار نے جیسے وہ جواب ڈھونڈنا شروع کئے جن سے وہ اسے سمجھا سکتا۔
’’ویسے بھی جب تمہاری ممی، عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ یہاں سے چلی جائیں گی تو تم یہاں کس کے پاس رہوگے؟ گھر میں تمہاری دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ سالار نے کہنا شروع کیا۔





’’میں اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں۔‘‘ حمین نے باپ کی بات ختم ہونے پر کہا۔ ’’میں اتنا چھوٹا نہیں ہوں بابا… میں اکیلا رہ سکتا ہوں۔ آپ مجھے بورڈنگ میں بھی رکھ سکتے ہیں یا پھر میں کسی رشتہ دار کے پاس بھی رہ سکتا ہوں۔‘‘ ا س نے سالار کے سامنے ایک کے بعد ایک حل رکھنا شروع کیا۔
’’ان میں سے ایک بھی آپشن میرے لئے قابل قبول نہیں ہے، تمہیں سب کے ساتھ پاکستان جانا ہے۔‘‘ سالار نے دوٹوک انداز میں اس سے کہا۔
’’آپ مجھ میں اور جبریل میں فرق کیوں کرتے ہیں بابا؟‘‘ اس کے اگلے جملے نے سالار کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کا چہرہ دیکھا، جس نے زندگی میں پہلی بار اس سے ایسا سوال یا ایسی شکایت کی تھی۔
’’فرق…؟ تم اس فرق کی وضاحت کرسکتے ہو؟‘‘ سالار اپنے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیں گے، اسے سمجھانے میں اور اب جیسے ایک پینڈ وراباکس ہی کھلنے لگا تھا۔
’’آپ جبریل کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘ اگلا تبصرہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ دیکھتے رہے پھر کچھ دیر بعد سالار نے اس سے کہا۔
’’اور میں اسے کیوں بہتر سمجھتا ہوں؟‘‘ وہ جیسے اس کے اس الزام بھی وضاحت چاہتا تھا۔
’’کیوں کہ وہ حافظ قرآن ہے… میں نہیں ہوں۔‘‘ بے حد روانی سے کہے گئے اس جملے نے سالار کو سن کر دیا تھا… وہ واقعی پینڈوراباکس ہی کھول بیٹھا تھا، لیکن بہت غلط حوالے سے۔
وہ باغی نہیں تھا… نہ ہی بدتمیز نہ ہی بد لحاظ، لیکن وہ جو سوچتا اور محسوس کرتا تھا، وہ کہہ دیتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار سالار کو لگا ، وہ سکندر عثمان تھا اور اپنے سامنے آن بیٹھا تھا… لاجواب… بے بس… تاریخ یقینا اپنے آپ کو دہراتی ہے، لیکن اپنی مرضی کے وقت پر۔
’’تمہیں جبریل برا لگتا ہے؟‘‘ سالار نے بے حدمدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
’’وہ میرا ایک ہی بھائی ہے… مجھے وہ کیسے برا لگ سکتا ہے، لیکن مجھے آپ لوگوں کا یہ رویہ اچھا نہیں لگتا…‘‘
حمین کو یہ شکایت کب سے ہونی شروع ہوئی تھی، اس کا اندازہ سالار کو نہیں ہوا، لیکن وہ اس وقت وہاں عجیب سی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔
’’ایسانہیں ہے حمین۔‘‘ اس نے حمین سے کہا وہ اپنے شب خوابی کے پاجامے کو گھٹنے سے رگڑ رہا تھا جیسے اس میں سوراخ ہی کردینا چاہتا ہو۔
’’بابا… میں آجاؤں؟‘‘ وہ جبریل تھا جو دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا…
گفتگو کے عجیب مرحلے پر وہ اندر آیا تھا۔ سالار اور حمین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر کچھ جزبز ہوئے تھے۔
’’ہاں آجاؤ۔‘‘ سالار نے ا س سے کہا۔
وہ اندر آکر حمین کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا پھر اس نے ایک نظر حمین کو دیکھا، جو اس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا پھر اس نے باپ سے کہا۔
’’دادا کے پاس میں پاکستان چلا جاتا ہوں… میں زیادہ اچھے طریقے سے ان کی دیکھ بھال کرسکوں گا۔‘‘ کمرے میں عجیب خاموشی چھائی تھی نہ سالار کچھ کہہ سکا، نہ حمین کچھ بول سکا تھا۔ ان دونوں کی آواز زیادہ اونچی نہیں تھی، لیکن جبریل پھر بھی یقینا یہ گفتگو سن کر ہی آیا تھا۔
’’ممی اور حمین یہیں رہیں آپ کے پاس… میں اکیلا بھی ان کو سنبھال سکتا ہوں۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح مدھم اور مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
’’پاکستان میں ویسے بھی میڈیسن کی تعلیم کے لئے کم وقت لگتا ہے۔ یونیورسٹی کا سال ضائع ہونے سے بھی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ وہ اتنے آرام سے کہہ رہا تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا… جبریل ایسا ہی تھا، کسی تردد کے بغیر مسئلے کا حل نکالنے والا۔
’’میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔ جبریل۔‘‘ سالار نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
’’میں گھر میں سب سے بڑا ہوں بابا… میری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے… حمین کو آپ یہیں رہنے دیں اور مجھے جانے دیں… اور میں یہ سب بہت خوشی سے کہہ رہا ہوں، مجھے کوئی خفگی نہیں ہے۔‘‘ جبریل نے سالار کے ٹوکنے کے باوجود اس سے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
اس کے کمرے سے جانے کے بعدبھی سالار اور حمین خاموش ہی بیٹھے رہے۔ وہ بے حد ہتک آمیز صورت حال تھی جس کا سامنا ان دونوں نے چند لمحے پہلے کیا تھا۔
’’میرے اور امامہ کے لئے تم میں اور جبریل میں کوئی فرق نہیں… اسے قرآن پاک حفظ کرنے کی وجہ سے عزت دیتے ہیں، لیکن تم تینوں پر اسے فوقیت نہیں دیتے، اس لئے یہ کبھی مت سمجھنا کہ ہم دونوں تم چاروں میں کوئی تفریق کریں گے۔‘‘ سالار نے بہت لمبی خاموشی کے بعد اس سے کہنا شروع کیا تھا۔
’’تمہارے دادا میری ذمہ داری ہیں اور میرا خیال تھا، میں اپنی ذمہ داری جبریل اور تمہارے ساتھ بانٹ سکتا ہوں… اس لئے یہ کوشش کی… لیکن تم پر زبردستی نہیں کروں گا میں… تم نہیں جانا چاہتے، مت جاؤ۔‘‘
سالار اس سے کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا، حمین وہیں بیٹھارہا… سرجھکائے… خاموش… سوچتے ہوئے۔
٭…٭…٭
’’مجھے امید ہے کہ تم مجھ سے خفا نہیں ہوگے؟‘‘
جبریل اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا پڑھ رہا تھا جب اس نے کمرے کا دروازہ کھلتے اور حمین کو اندر آتے دیکھا۔ دونوں کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر جبریل دوبارہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔ حمین بستر پر جاکر لیٹ گیا اور اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے بالآخر اسے مخاطب کیا تھا۔
’’خفا؟‘‘ جبریل نے پلٹ کر اسے کچھ حیرانی سے دیکھا تھا۔ ’’کیوں؟‘‘
حمین اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑے محتاط انداز میں اس نے گفتگوکا آغاز کیا۔
’’تم نے ہماری باتیں سنی تھیں؟‘‘ وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے جیسے تصدیق چاہتا تھا۔
ایک لمحہ کے لئے جبریل اسے دیکھتا رہا، پھر اس نے سرہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں!‘‘
حمین کے تاثرات بدلے۔ تھوڑی شرمندگی نے اسے جیسے کچھ اور دفاعی پوزیشن پر کھڑا کیا تھا۔
’’اسی لئے پوچھ رہا تھا تم مجھ سے خفا تو نہیں ہو ناں؟‘‘ حمین نے اب اپنے جملے کو ذرا سا بدلا۔
’’نہیں۔‘‘ جبریل نے اسی اندازمیں کہا۔ حمین اپنے بستر سے اٹھ کر اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’لیکن مجھے مایوسی ضرور ہوئی۔‘‘ جبریل نے اس کے قریب آنے پر جیسے اپنے جملے کو مکمل کیا۔ حمین اب اسٹڈی ٹیبل سے پشت ٹکائے کھڑا تھا۔
’’میرا وہ مطلب نہیں تھا… تم میرے بھائی ہو اور میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں… یقین کرو، میں تمہارے خلاف نہیں ہوں…‘‘ حمین نے جیسے اسے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’مجھے پتا ہے۔‘‘ جبریل نے نرمی سے اسے ٹوکا اور اس کا بازو ہلکے سے تھپتھپایا۔ ’’لیکن تمہیں بابا سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی… انہیں بہت دھچکا لگا ہے…‘‘ جبریل اب اسے سمجھا رہا تھا۔ ’’تم واقعی سمجھتے ہو کہ وہ مجھے تم سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں… فرق کرتے ہیں؟‘‘
’’جبکہ مجھے لگتا تھا وہ تمہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘ جبریل نے جواباً اس سے کہا تھا… ’’کافی سال ایسے ہی لگتا رہا…‘‘ جبریل نے جیسے بات ادھوری چھوڑ دی۔
حمین نے کچھ تجسس سے کریدا ’’پھر؟‘‘
’’پھر میں بڑا ہوگیا۔‘‘ وہ مسکرایا تھا… ’’اور میں نے سمجھا کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’کچھ کوالٹیز کو وہ مجھ میں زیادہ پسند کرتے ہیں، کچھ تم میں، لیکن انہوں نے ہم دونوں میں کبھی فرق نہیں کیا، اگر کیا بھی ہوگا تو اس کی کوئی وجہ ہوگی۔‘‘ وہ اس کا بڑا بھائی تھا اور بڑے بھائی کی طرح ہی اسے سمجھا رہا تھا۔ حمین خاموشی سے بات سن رہا تھا۔ جب اس نے بات ختم کی تو حمین نے اس سے کہا۔
’’میں یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنی یونیورسٹی چھوڑ کر پاکستان جاؤ… میں اتنا خود غرض نہیں ہوں…‘‘ وہ جیسے اسے صفائی دینے کی کوشش کررہا تھا۔
’’بس میں یہاں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے جبریل سے کہا تھا۔
’’تمہیں کوئی خودغرض سمجھ بھی نہیں رہا حمین… تمہاری چوائس کی بات ہے اور بابا اس لئے تمہیں سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کیوں کہ تم چھوٹے ہو اور یہاں تم اکیلے نہیں رہ سکتے… بابا بہت بزی ہیں، کئی بار کئی کئی دن گھر نہیں آتے… تم اکیلے کیسے رہوگے ان کے ساتھ… صرف اس لئے تمہیں پاکستان بھیجنا چاہتے تھے وہ…‘‘
اس نے جبریل کی بات کاٹ دی اور بے حد ہلکی، لیکن مستحکم آواز میں اس سے کہا۔
’’میں نہیں چاہتا کہ تم پاکستان جاؤ… تمہاری اسٹڈیز متاثر ہوں… میں چلاجاؤں گا… حالانکہ میں خوش نہیں ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے میں سب کو ناراض کرکے یہاں رہ نہیں سکتا۔‘‘ وہ کہتے ہوئے اپنے بستر کی طرف چلا گیا۔ جبریل کو لگا وہ کچھ الجھا ہوا ہے… جبریل اسے لیٹتے ہوئے دیکھتا رہا پھر اس نے حمین سے کہا۔
’’چند سالوں کی بات ہے حمین… پھر بابا تمہیں بھی واپس امریکا بلالیں گے… پھر تم اپنے خوابوں کی تکمیل کرسکتے ہو۔‘‘ جبریل نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’میں خواب نہیں دیکھتا…‘‘ اس نے جواباً چادر اپنے اوپر کھینچتے ہوئے کہا تھا… جبریل اسے دیکھ کر رہ گیا۔
حمین کے دماغ میں کیا تھا اسے بوجھنا بڑا مشکل تھا، صرف دوسروں کے لئے ہی نہیں، شاید اس کے اپنے لئے بھی۔
جبریل ایک بار پھر اپنی اسٹڈی ٹیبل پر پڑھنے بیٹھ گیا تھا۔ وہ اس ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا۔ اب اسے کل پھر واپس جانا تھا، اس کا اگلا سمسٹر شروع ہونے والا تھا۔
’’بابا کے ساتھ کون رہے گا؟‘‘ کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے اس کا ہاتھ رک گیا… جبریل نے پلٹ کر ایک بار پھر بستر پر لیٹے ہوئے حمین کو دیکھا، اس نے تقریباً دس منٹ بعد اسے مخاطب کیا تھا، جب وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سوچکا ہے۔
اور اس کے سوال نے کسی کرنٹ کی طرح اسے جیسے حمین کی سوچ تک رسائی دی تھی۔
وہ واقعی بے حد گہرا تھا… یہ MIT نہیں تھی… امریکا نہیں تھا… جو حمین کو واپس جانے سے روک رہا تھا… یہ سالار کی بیماری تھی جس نے حمین کو اسے اکیلا چھوڑ دینے پر متوحش کیا تھا۔
وہ یہاں باپ کے پاس رکنا چاہتا تھا… بغیر اسے یہ جتائے کہ وہ اس کی وجہ سے وہاں رہنا چاہتا تھا… یوں ہے کہ وہ اس کے بارے میں فکر مند ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سالار سکندر اپنے باپ کے بارے میں فکر مند تھا، لیکن اسے یہ بتانا نہیں چاہتا تھا…
’’تم بابا کی وجہ سے رکنا چاہتے ہو؟‘‘ جبریل نے جیسے اس کا راز افشا کردیا تھا۔ حمین کے چادر سے ڈھکے وجود میں حرکت ہوئی… شاید اپنے دل کا بھید یوں فاش ہوجانے کی توقع نہیں تھی اسے… لیکن اس نے جواب نہیں دیا… اس نے چادر بھی اپنے چہرے سے نہیں ہٹائی… جبریل پھر بھی اسے دیکھتا رہا۔
حمین سکندر ایک خرگوش کی طرح سرنگیں بنانے میں ماہر تھا… پلک جھپکنے میں کیا کیا کھود کر کہاں سے کہاں پہنچنے کا شوقین… وہ پلک جھپکتے میں دل سے نکلتا تھا اور وہ لمحہ بھر میں دل میں واپس آنکلتا تھا۔ جبریل سکندر اپنے اس چھوٹے بھائی کو دیکھتا رہا جسے وہ کبھی سمجھ نہیں پاتا تھا اور جب سمجھتا تھا تو اسے اپنی سمجھ بوجھ پر شک ہونے لگتا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!