آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

’’میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی۔ میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘ دوران گفتگو جبریل کے سوال پر یک دم اس نے بتایا۔
’’فنٹاسٹک۔‘‘ ا س نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ خود بھی میڈیسن میں ہی جارہا تھا۔ وہ سب لوگ گفتگو میں مصروف تھے اور اس گفتگو میں اس کی خاموشی کو جبریل ہی وقتاً فوقتاً ایک سوال سے توڑتا… وہ جیسے اسے بوریت سے بچانے کی کوشش کررہا تھا یا پھر شامل کرنے کی… اور عائشہ نے یہ چیز محسوس کی تھی۔ وہ جن ٹین ایجرز کو جانتی تھی وہ اور طرح کے تھے… یہ اور طرح کا تھا۔
کھانا آنے پر وہ اسی طرح گفتگو میں مصروف، خود کھانے کے ساتھ ساتھ عائشہ کوبھی سرو کرتا رہا ۔ یوں جیسے وہ روٹین میں یہ سب کرنے کا عادی رہا ہو۔
محمد جبریل سکندر سے ہونے والی وہ پہلی ملاقات اور اس میں ہونے والی ایک ایک چیز عائشہ عابدین کے ذہن اور دل دونوں پر نقش ہوگئی تھی۔
’’جس بھی لڑکی کا یہ نصیب ہوگا، وہ بے حد خوش قسمت ہوگی۔‘‘ اس نے بے حد دل سے خواہش اور دعا کی تھی۔
اس عمر میں بھی اس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کچھ بھی سوچنا شروع نہیں کیا تھا۔ اگر کرتی تو جبریل وہ پہلالڑکا ہوتا کہ اسے جیسے شخص کی خواہش وہ اپنے لئے کرتی۔ جبریل نے اس کے لاشعور کو اس پہلی ملاقات میں اس طرح متاثر کیا تھا۔
’’میں تمہارے لئے بہت دعا کررہی ہوں نساء… کہ تمہاری شادی جبریل سے ہوجائے… جب بھی ہو… وہ بہت اچھاہے۔‘‘ اس کیفے سے اس شام گھر واپس آنے کے بعد عائشہ نے نسا ء سے کہا تھا۔وہ جواباً ہنسی۔
’’خیر ابھی شادی وغیرہ کا تو کوئی سین نہیں ہوسکتا ہم دونوں کے لئے… وہ بہت ینگ ہے اور مجھے اپنا کیرئیر بنانا ہے، لیکن مجھے وہ بہت پسند ہے… اور اگر کبھی بھی اس نے مجھ سے کچھ کہا تو میں انکار نہیں کروں گی… کون انکار کرسکتا ہے جبریل کو…‘‘ اپنے بیڈروم میں، کپڑے تبدیل کرنے کے لئے نکالتے ہوئے، نساء نے اس سے کہا۔
’’اس کے ماں، باپ نے بہت اچھی تربیت کی ہے اس کی… تم نے دیکھا، وہ کس طرح تمہیں توجہ دے رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں میں کبھی اپنے ساتھ کوئی گیسٹ لے کر گئی ہوں اور جبریل نے اسے اس طرح توجہ نہ دی ہو۔‘‘ عائشہ کا دل عجیب انداز میں بجھا… تو وہ توجہ سب ہی کے لئے ہوتی تھی اور عادت تھی مہربانی نہیں۔ اس نے کچھ مایوسی سے سوچا۔





’’تمہیں پتا ہے، مجھے کیوں اچھا لگتا ہے وہ…؟‘‘ نساء اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’وہ حافظ قرآن ہے… بہت باعمل ہے۔ کبھی تم اس کی تلاوت سنو… لیکن اتنا مذہبی ہونے کے باوجود وہ بہت لبرل ہے۔ تنگ نظرنہیں ہے، جیسے بہت سارے مسلم ہوجاتے ہیں۔نہ ہی اس کو میں نے کبھی دوسروں کے حوالے سے شدت پسند پایا ہے… مجھے نہیں یاد کبھی اس نے میرے یا کسی اور فی میل کلاس فیلو کے لباس کے حوالے سے کچھ کہا ہو… یا ویسے کسی کے بارے میں کمنٹ کیا ہو… کبھی نہیں۔‘‘
نساء کہتی جارہی تھی۔ وہ لباس کے معاملے میں خاصی ماڈرن تھی اور اسے یہ قابل قبول نہیں تھا کہ وکئی اس پر اس حوالے سے کوئی قدغن لگائے اور جبریل میں اسے یہ خوبی بھی نظر آگئی تھی۔ عائشہ بالکل کسی سحرزدہ معمول کی طرح یہ سب سن رہی تھی۔ نساء کے انکشافات نے جیسے عائشہ کے لئے اس کی زندگی کے آئیڈیل لائف پارٹنر کی چیک لسٹ میں موجود خوبیوں کی تعداد بڑھادی تھی۔
وہ فجر کے وقت نماز کے لئے اٹھی تھی اور اس وقت نماز پڑھنے کے بعد اس نے ایک بار پھر فیس بک چیک کیا تھا اور خوشی کی ایک عجیب لہر اس کے اندر سے گزری تھی، وہ ایڈ ہوچکی تھی اور جو پہلا کام عائشہ نے کیا تھا، وہ اس کی تصویوں میں اس کی فیملی کی تصویروں کی تلاش تھی اور اسے ناکامی نہیں ہوئی تھی۔ اس کے اکاؤنٹ میں اس کی فیملی کی بہت ساری تصاویر تھیں… سالار سکندر کی… حجاب میں ملبوس امامہ کی… اس کی نو عمر بہن عنایہ کی… حمین کی…اور رئیسہ کی… جبریل کے انکلز اور کزنز کی جو ان کی فیملی کے برعکس بے حد ماڈرن نظر آرہے تھے، لیکن ان سب میں عجیب ہم آہنگی نظر آرہی تھی۔
وہ جبریل سکندر سے دوستی کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ ہمت نہیں کرپائی تھی۔ لیکن وہ اور اس کی فیملی یک دم جیسے اس کے لئے ایک آئیڈیل فیملی کی شکل اختیارکرگئے تھے۔ ایسی فیملی جس کا وہ حصہ بننا چاہتی تھی… وہ اس فیملی کا حصہ نہیں بن سکی تھی، لیکن عائشہ عابدین کو احسن سعد اور اس کی فیملی سے پہلی بار متعارف ہوکر بھی ایسا ہی لگا تھا کہ وہ جبریل سکندر جیسا خاندان تھا… اور احسن سعد، جبریل سکندر جیسا مرد… قابل ، باعمل مسلمان، حافظ قرآن…
عائشہ عابدین نے جبریل سکندر کے دھوکے میں احسن سعد کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
٭…٭…٭
اس کتاب کا پہلا باب اگلے نو ابواب سے مختلف تھا۔ اسے پڑھنے والا کوئی بھی شخص یہ فرق محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ پہلا باب بدل دیا تھا۔ نم آنکھوں کے ساتھ اس نے پرنٹ کی دبائی۔ پر نٹر برق رفتاری سے وہ پچا س صفحے نکالنے لگا جو اس کتاب کا ترمیم شدہ پہلا باب تھے۔
اس نے ٹیبل پر پڑی ڈسک اٹھائی اور بے حد تھکے ہوئے انداز میں اس پر ایک نظر ڈالی۔ پھر اس نے اسے دو ٹکڑوں میں توڑ ڈالا… پھر چند اور ٹکڑے… اپنی ہتھیلی پر پڑے ان ٹکڑوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ا سنے انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔
ڈسک کا کورا ٹھا کر اس نے زیر لب اس پر لکھے چند لفظوں کو پڑھا، پھر چند لمحے پہلے لیپ ٹاپ سے نکالی ہوئی، ڈسک اس نے اس کور میں ڈال دی۔
پرنٹر تب تک اپنا کام مکمل کرچکا تھا۔ ا س نے ٹرے میں سے ان صفحات کو نکال دیا۔ بڑی احتیاط کے ساتھ اس نے انہیں ایک فائل کور میں رکھ کر انہیں دوسری فائل کورز کے ساتھ رکھ دیا جن میں اس کتاب کے باقی نو ابواب تھے۔
ایک گہرا سانس لیتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھڑے ہوکر اس نے ایک آخری نظر اس لیپ ٹاپ کی مدھم پڑتی اسکرین پر ڈالی۔
اسکرین تاریک ہونے سے پہلے اس پر ایک تحریر ابھری تھی۔ ’’Will be waiting‘‘
اس کی آنکھوں میں ٹھہری نمی یک دم چھلک پڑی تھی۔ وہ مسکرادی، اسکرین اب تاریک ہونے لگی۔ اس نے پلٹ کر ایک نظر کمرے کو دیکھا، پھر بیڈ کی طرف چلی آئی۔ ایک عجیب سی تھکن اس کے وجود پر چھانے لگی تھی۔ اس کے وجود پر یا ہر چیز پر… بیڈ پر بیٹھ کر چند لمحے اس نے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں پر نظر دوڑائی۔
وہ پتا نہیں کب وہاں اپنی رسٹ واچ چھوڑ گیا تھا۔ شاید رات کو جب وہ وہاں تھا، وہ وضو کرنے گیا تھا۔ پھر شاید اسے یاد نہیں رہا تھا۔ وہ رسٹ واچ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ سیکنڈز کی سوئی کبھی نہیں رکتی، صرف منٹ اور گھنٹے ہیں جو رکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سفر ختم ہوتا ہے… سفر شروع ہوجاتا ہے۔
بہت دیر تک اس گھڑی پر انگلیاں پھیرتی وہ جیسے اس کے لمس کو کھوجتی رہی۔ وہ لمس وہاں نہیں تھا۔ وہ اس کے گھر کی واحد گھڑی تھی جس کا ٹائم بالکل ٹھیک ہوتا تھا۔ صرف منٹ نہیں… سیکنڈز…کاملیت اس گھڑی میں نہیں تھی۔ اس شخص کے وجود میں تھی جس کے ہاتھ پر وہ ہوتی تھی۔
اس آنکھوں کی نمی صا ف کرتے ہوئے اس گھڑی کو دوبارہ سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ کمبل اپنے اوپر کھینچتے ہوئے وہ بستر پر لیٹ گئی۔ اس نے لائٹ بند نہیں کی تھی۔ اس نے دروازہ بھی مقفل نہیں کیا تھا۔ وہ اس کا انتظار کررہی تھی۔ بعض دفعہ انتظاربہت ’’لمبا‘‘ ہوتا ہے… بعض دفعہ انتظار بہت مختصر ہوتا ہے۔
اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی۔ وہ اسے نیند سمجھ رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے وہ اسے چاروں طرف پھونک رہی تھی۔ جب اسے وہ یاد آیا۔ وہ اس وقت وہاں ہوتا تو اس سے آیت الکرسی اپنے اوپر پھونکنے کی فرمائش کرتا
بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک فوٹو فریم کو اٹھا کر اس نے بڑی نرمی کے ساتھ اس پر پھونک ماری۔ پھر فریم کے شیشے پر نظر نہ آنے والی گرد کو اپنی انگلیوں سے صاف کیا، چند لمحے تک وہ فریم میں اس ایک چہرے کو دیکھتی رہی، پھر اس نے اس کو دوبارہ بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ سب کچھ جیسے ایک بار پھر سے یاد آنے لگا تھا۔ اس کا وجود ایک بار پھر سے ریت بننے لگا تھا۔ آنکھوں میں ایک بارپھر سے نمی آنے لگی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ ’’اسے‘‘ بہت دیر ہوگئی تھی۔
امامہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی تھیں۔ کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ سالار اس کے برابر میں سورہا تھا۔ اس نے وال کلاک پر نظر ڈالی، رات کا آخری پہر تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ عجیب خواب تھا… وہ کس کا انتظار کررہی تھی، اسے خواب میں بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ کتاب کے وہ دس ابواب سالار کے تھے… وہ کتاب سالار ہی لکھ رہا تھا اور ابھی تک اس کے نو ابواب لکھے جاچکے تھے… دسواں نہیں… وہ گھڑی بھی سالار کی تھی اور سالار نے حمین کی پچھلی برتھ ڈے پر اس کی ضد اور اصرار پر اسے دی تھی اور اب وہ گھڑی حمین باندھتا تھا… اور اس نے خواب میں اپنے آپ کو بوڑھا دیکھا تھا۔ وہ اس کا مستقبل تھا۔ وہ کسی کو یاد کررہی تھی، کسی کے لئے ادا س تھی۔ مگر کس کے لئے… اور وہ کس کا انتظار کررہی تھی اور کوئی نہیں آرہا تھا… مگر کون… اور پھر وہ تحریر ول بی ویٹنگ خواب کی ایک ایک تفصیل کو دہر ارہی تھی۔ ایک ایک جزئیات کو دہرا سکتی تھی۔
وہ بستر سے اٹھ گئی، بے حد بے چینی کے عالم میں … ان کی پیکنگ مکمل ہوچکی تھی۔ وہ اس گھر میں ان کی آخری رات تھی، اس کے بعد وہ ان سب کے ساتھ پاکستان جانے والی تھی اور سالار اور جبریل کو وہیں رہ جانا تھا۔
ایک بار پھر سے اس کا گھر ختم ہوجانا تھا۔ یہ جیسے اس کی زندگی کا ایک انداز ہی بن گیا تھا… گھر بننا… گھر ختم ہونا… پھر بننا… پھر ختم ہونا… ایک عجیب ہجرت تھی جو ختم ہی نہیں ہوتی تھی اور اس ہجرت میں اپنے گھر کی وہ خواہش اور خواب پتا نہیں کیا چلا گیا تھا۔ وہ اس رات اس طرح خواب سے جاگنے کے بعد بھی بہت اداس تھی۔
پہلے وہ سالار کی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے اس کے بغیر اپنے آپ کو رہنے کی عادی کرپائی تھی اور اب پاکستان چلے جانے کے بعد اسے جبریل کے بغیر بھی رہنا تھا۔ وہ چلتی ہوئی کمرے میں موجود صوفے پر جاکر بیٹھ گئی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسے ایک بار پھر اس خواب کا خیال آنے لگا تھا۔ اس خواب کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ بری طرح ٹھٹکی… کتاب کے دس ابواب… اس کی اداسی… اس کا بڑھاپا… کسی کو یاد کرنا۔
اسے یاد آیا تھا اس کتاب کا ہر باب سالار کی زندگی کے پانچ سالوں پر مشتمل تھا… ڈاکٹرز نے سالار کو سات سے دس سال کی زندگی کی مہلت دی تھی اور کتاب کا دسواں باب پچاس سال کے بعد ختم ہورہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!