آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

’’پہلی بات یہ ہے ایرک کہ صرف شادی کی نیت۔ سے مذہب بدل لینا بہت چھوٹی بات ہے… ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے، اسے بہت پسند نہیں کرتا۔‘‘ سالار نے کہا۔
’’تمہارے پاس مسلمان ہونے کے لئے میری بیٹی سے شادی کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے؟‘‘ سالار نے اسی انداز میں اس سے اگلا سوال کیا تھا۔ ایرک خاموش بیٹھا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
’’مذہب کی تبدیلی ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ نفس کی کسی خواہش کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے، عقل کا فیصلہ ہونا چاہیے… کیا تمہاری عقل تم سے یہ کہتی ہے کہ تمہیں مسلمان بن کر اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنی چاہیے؟‘‘ اس نے ایرک سے پوچھا، وہ گڑبڑایا۔
’’میں نے اس پر سوچا نہیں۔‘‘
’’میرا بھی یہی انداز ہ ہے کہ تم نے اس پر سوچا نہیں… اس لئے بہتر ہے، پہلے تم اس پر اچھی طرح سوچو۔‘‘ سالار نے جواباً اس سے کہا۔
’’میں کل پھر آؤں؟‘‘ ایرک نے اس سے کہا۔
’’نہیں ، تم ابھی کچھ سال اس پر سوچو… کہ تمہیں مسلمان کیوں بننا ہے، اور اس کی وجہ عنایہ نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ سالار نے اس سے کہا۔
’’میں ویسے بھی عنایہ کی شادی ’’صرف مسلمان‘‘ سے نہیں کروں گا۔ مسلمان ہونے کے ساتھ اسے ایک اچھا انسان بھی ہونا چاہیے۔‘‘ اس نے کہا۔
ایرک کے چہرے پر یک دم مایوسی ابھری۔
’’یعنی آپ میرا پروپوزل قبول نہیں کررہے؟‘‘ اس نے سالار سے کہا۔
’’فوری طور پر نہیں، لیکن تقریباً دس سال بعد جب مجھے عنایہ کی شادی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو میں تمہیں ضرور کنسیڈر کروں گا… لیکن اس کے لئے ضروری ہے ان دس سالوں میں تم ایک اچھے مسلمان کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بن کر بھی رہو۔‘‘ سالار نے دوٹوک انداز میں کہا۔
’’کیا آپ میری اس سلسلے میں رہنمائی کرسکتے ہیں؟‘‘ ایرک نے یک دم کہا۔ سالار چند لمحے خاموش رہا، وہ اسی ایک چیز سے بچنا چاہتا تھا، اسی ایک چیز ک نظر انداز کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب ایرک نے اس سے بالکل صفائی سے مدد مانگ لی تھی۔
’’ہاں، ہم سب تمہاری مدد کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے رشتہ جوڑنا ضروری نہیں ہے ایرک! ہم انسانیت کے رشتے کی بنیاد پر بھی تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔‘‘ سالار نے بالآخر جواباً کہا۔
’’تیرہ سال کی عمر میں اسکول میں پڑھتے ہوئے تم شادی کرنا چاہتے ہو اور تمہیں یہ انداز نہیں ہے کہ شادی ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ تم اپنی فیملی کی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہوئے ایک اور فیملی بنانے کی کوشش کررہے ہو… تم اس فیملی کی ذمہ داری کیسے اٹھاؤگے؟ مذہب بدل کر ایک دوسرے مذہب میں داخل ہونا اس سے بھی بڑا کام ہے۔ کیا تمہارے پاس اتنا وقت اور تحمل ہے کہ تم اپنے اس نئے مذہب کو سمجھو، پڑھو اور اس پر عمل کرو؟ کیا تم ان پابندیوں سے واقف ہو جو یہ نیا مذہب تم پر لگائے گا؟‘‘ سالار اب اس پر جرح کررہا تھا۔





’’میں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھ چکا ہوں، میں پہلے ہی سب چیزیں جانتا ہوں اور میں عمل کرسکتا ہوں۔‘‘ ایرک بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’ٹھیک ہے پھر، ایسا کرتے ہیں، دس سال کا ایک معاہدہ کرتے ہیں…اگر تیئس سال کی عمر میں تمہیں لگا کہ تمہیں عنایہ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر میں عنایہ سے تمہاری شادی کردوں گا… شرط یہ ہے کہ ان دس سالوں میں تم ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان کے طور پر بھی نظر آؤ۔‘‘ سالار نے ایک اور بالکل سادہ کاغذ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ بہت لمبی مدت ہے۔‘‘ ایرک نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’ہاں… لیکن یہ وہ مدت ہے جس میں… تمہارے فیصلے تمہاری سچائی کو ظاہر کریں گے، تمہارے بچکانہ پن کو نہیں…‘‘ سالار نے جواباً اس سے کہا۔ وہ سالار کو دیکھتا رہا۔ بے حد خاموشی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر… پھر اس نے کہا۔
’’مسٹر سالار سکندر! آپ مجھ پر دراصل اعتبار نہیں کررہے۔‘‘ اس نے بے حد صاف گوئی سے کہا۔
’’اگر کررہے ہوتے تو مجھ سے دس سال کے انتظار کا نہ کہتے، لیکن ٹھیک ہے، آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور میز پر پڑا ایک قلم اٹھایا وہاں پڑے سادہ کاغذ کے بالکل نیچے اپنا نام لکھا، اپنے دستخط کئے اور تاریخ ڈالی، پھر قلم بند کرکے واپس میز پر اس کاغذ کے اوپر رکھ دیا۔
’’میں عنایہ سے متاثر نہیں ہوا، میں آپ اور آپ کے گھر سے متاثر ہوا… آپ کی بیوی کی نرم مزاجی اور آپ کی اصول پسندی سے… ان ویلیوز سے جو آپ نے اپنے بچوں کو دی ہیں… اور اس ماحول سے جہاں میں آکر ہمیشہ اپنا آپ بھول جاتا تھا… وہ مذہب یقینا اچھا مذہب ہے جس کے پیروکار آپ لوگوں جیسے ہوں… میں عنایہ کے ساتھ ایک ایسا ہی گھر بنانا چاہتا تھا، کیوں کہ میں بھی اپنی اور اپنے بچوں کے لئے ایسی زندگی چاہتا ہوں… میں جانتا ہوں آپ لوگوں کے خاندان کا حصہ بننا اتنا آسان نہیں ہوگا… لیکن میں کوشش کرتا رہوں گا… کویں کہ کوشش تو آپ کا مذہب ہی کرنے کو کہتا ہے، جو اب میرا مذہب بھی ہوگا۔‘‘
وہ کسی تیرہ سال کے بچے کے الفاظ نہیں تھے اور وہ اتنی جذباتیت سے بھرپور بھی نہیں تھے جیسا اس کا خط تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ان جملوں نے صرف سالار کو نہیں امامہ کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔ وہ چند لمحے پہلے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اور اس نے صرف ایرک کے جملے سنے تھے۔
ایرک اب اٹھ کر کھڑا ہوچکا تھا… اس نے امامہ کو بھی دیکھا اور اسے ہمیشہ کی طرح سلام کیا پھر خدا حافظ کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔ لاؤنج میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیرونی دروازے کے بند ہونے کی آواز پر امامہ آگے بڑھ آئی، اس نے لاؤنج کی سینٹرل ٹیبل پر پڑا وہ کاغذ اٹھا کر دیکھا، جس پر ایرک دستخط کرکے گیا تھا، اس کاغذ پر صرف ایک نام تھا… عبداللہ… اور اس کے نیچے دستخط اور تاریخ…
امامہ نے سالار کو دیکھا، اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کاغذ امامہ کے ہاتھ سے لیا، اسے تہ کرکے اسی لفافے میں ڈالا، جس میں ایرک کا خط تھا اور پھر اسے امامہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ دوبارہ آئے گا اور اگر میں نہ بھی ہوا اور یہ اپنے وعدے پر پورا اترا تو تم بھی اس وعدے پر پوری اترنا جو میں نے اس سے کیا ہے۔‘‘ امامہ نے کپکپاتی انگلیوں سے کچھ بھی کہے بغیر وہ لفافہ پکڑ اتھا۔
٭…٭…٭
عائشہ عابدین کو زندگی میں پہلی بار اگر کسی لڑکے سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا تھا، تو وہ جبریل سکندر تھا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی اس نے اپنی بڑی بہن نساء، عابدین سے جبریل کے بارے میں اتنا کچھ سن رکھا تھا کہ وہ ایک فہرست بناسکتی تھی۔ نساء جبریل کی کلاس فیلو تھی اور اس سے ’’شدید‘‘ متاثر اور مرعوب… اس کے باوجود کہ وہ خود ایک شان دار تعلیمی کیریر پر رکھنے والی طالبہ تھی۔
عائشہ فیس بک پر اپنی بہن کی وال پر اکثر جبریل کے کمنٹس پڑھتی تھی جو وہ اس کی بہن کے اسٹیٹس اپ ڈیٹس پر دیتا رہتا تھا… عائشہ بھی کئی بار ان اپ ڈیٹس پر تبصرہ کرنے والوں میں سے ہوتی تھی، لیکن جبریل سکندر کی حس مزاح کا مقابلہ وہاں کوئی بھی نہیں کرپاتا تھا، اس کے کمنٹس نساء عابدین کی وال پر بالکل الگ چمکتے نظر آتے تھے اور جب وہ کسی وجہ سے وہاں تبصرہ نہیں کرپاتا تو کئی بار اس کے کلاس فیلوز کے تبصروں کی لمبی قطار کے بیچ میں جبریل کی خاموشی اور غیر حاضری کو بری طرح محسوس کیا جاتا اور ان محسوس کرنے والوں میں سرفہرست عائشہ عابدین تھی جسے خود بھی یہ انداز نہیں تھا کہ وہ جبریل کے کمنٹس پڑھتے پڑھتے اس کی عادی ہوگئی تھی۔
نساء کے ساتھ جبریل کی مختلف فنکشنز اور سرگرمیوں میں اکثر بہت ساری گروپ فوٹوز نظر آتی تھیں، لیکن عائشہ کو ہمیشہ جبریل کی فیملی کے بارے میں تجسس رہا تھا۔ وہ سالار سکندر سے واقف تھی۔ کیوں کہ اس کا تعارف نساء نے ہی کروایا تھا، لیکن اس کی فیملی کے باقی افراد کو دیکھنے کا اسے بے حد اشتیاق تھا اور یہ ہی اشتیاق اسے بار بار جبریل کی فرینڈز لسٹ میں نہ ہونے کے باوجود اس کی تصویروں کو کھوجنے کے لئے مجبور کرتا تھا، جہاں اسے رسائی حاصل تھی… کچھ تصویریں وہ دیکھ سکتی تھی… کچھ وہ نہیں دیکھ سکتی تھی… لیکن ان تصویروں میں جن تک اسے رسائی حاصل تھی ان میں جبریل کی فیملی کی تصاویر نہیں تھیں۔
جبریل بھی غائبانہ طور پر عائشہ سے واقف تھا اور اس تعارف کی وجہ فیس بک پر نساء کے اسٹیٹس پر ہونے والے تبصروں میں ان کا حصہ لینا تھا اور نساء نے اپنی وال پر جبرل کو اپنی بہن سے متعارف کروایا تھا۔ وہ غائبانہ تعارف بس اتنا ہی رہا تھا، کیوں کہ جبریل نے کبھی اس کی آئی ڈی کھوجنے کی کوشش نہیں کی اور عائشہ کی اپنی وال پر تصویریں بہت کم تھیں، اس سے بھی زیادہ کم وہ لوگ تھے جنہیں اس نے اپنی کانٹیکٹ لسٹ میں ایڈ کیا ہوا تھا۔ نساء کے برعکس اس کا حلقہ احباب بے حد محدود تھا اور اس کی کوشش بھی یہ ہی رہتی تھی کہ وہ اسے اتنا ہی محدود رکھے۔
عائشہ کو جبریل کے بارے میں ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی کہ وہ نساء میں انٹر سٹڈ ہے اور اس تاثر کی بنیادی وجہ خود نساء تھی جو اس بات کو تسلیم کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتی تھی کہ عمر میں اس سے چھوٹا ہونے کے باوجود وہ جبریل کو پسند کرتی تھی… ایک دوست کے طور پر جبریل کی اس سے بے تکلفی کو غلط معنوں میں نہیں لیا تھا۔ کیوں کہ جبریل لڑکیوں کے ساتھ بے تکلفی اور دوستی میں بھی بہت ساری حدود و قیود رکھتا تھا اور بے حد محتاط تھا۔ نساء عمر میں اس سے چال سال بڑی تھی۔ وہ اپنے قد کاٹھ اور پختگی دونوں سے پندرہ سو لہ سال کا نہیں لگتا تھا اور نساء یہ بھی جانتی تھی۔ یونیورسٹی میں اتنا وقت گزار لینے کے باوجود جبریل ابھی تک گرد فرینڈ نامی کسی بھی چیز کے بغیر تھا، تو ایسے حالات میں سالار سکندر کی اس لائق اولاد پر قسمت آزمائی کرنے کے لئے کوئی بھی تیا رہوسکتا تھا… صرف نساء ہی نہیں۔
عائشہ عابدین ان سب چیزوں سے واقف تھی… نساء کی جبریل میں دلچسپی ان کے گھر میں ایک کھلا راز تھا، لیکن ان دونوں کے مستقبل کے حوالے سے نہ تو ان کو کوئی مغالطہ تھا نہ ہی کسی اور کو … نساء ذہانت اور قابلیت سے متاثر ہونے والوں میں سے تھی اور جبریل سکندر وہ پہلا شخص تھا جس نے اسے متاثر کیا تھا، مگر فی الحال یہ جبریل ہی تھا جس کا ذکر وہ کرتی رہتی تھی۔
عائشہ عابدین ایک غیر جانب دار مبصر کی طرح یہ سب کچھ دیکھتی آرہی تھی اور جب وہ جبریل سے ملی، وہ اس سے پہلے ہی بہت متاثر تھی۔
یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں وہ پہلی بار جبریل سے بالآخر ملنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ نساء کو اندازہ نہیں تھاکہ عائشہ صرف جبریل سے ملنے کے لئے اس کے ساتھ یونیورسٹی آنے پر تیار ہوئی ہے ورنہ وہ جب بھی امریکہ آتی ان سب کی کوششوں کے باوجود اپنی مرضی کی جگہوں کے علاوہ کہیں نہیں جاتی تھی… یونیورسٹی میں ہونے والی کوئی تقریب تو وہ شاید وہ آخری چیز تھی جس کے لئے عائشہ یونیورسٹی آتی اور نساء نے یہ بات جبریل سے اسے متعارف کراتے ہوئے کہہ بھی دی تھی۔
جبریل سکندر وہ پہلا لڑکا تھا جسے دیکھنے کا عائشہ عابدین کو اشتیاق ہوا تھا اور جبریل سکندر ہی وہ پہلا لڑکا تھا جسے عائشہ عابدین اپنے ذہن سے نکالنے میں اگلے کئی سال تک کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ تصویریں کبھی کبھار کسی شخص کی شخصیت اور وجاہت کو کیموبدل کردیتی ہیں… اور بہت اچھا کرتی ہیں۔ محمد جبریل سکندر، سحر انگیز کرشماتی شخصیت کا مالک تھا۔ خطرناک حد تک متاثر اور مرعوب کردینے والی شخصیت، سولہ سال کی عمر میں بھی وہ تقریباً چھ فٹ قد کے ساتھ سالار سکندر کی گہری سیاہ آنکھیں اور اپنی ماں کے تیکھے نین نقوش اور بے حد بھاری آواز کے ساتھ ایک عجیب ٹھہراؤ کا منبع دکھتا تھا۔ ایک بے حد معمولی ڈارک بلوجینز اور دھاری دار بلیک اینڈ وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس جبریل سکندر مسکراتا ہوا پہلی بار عائشہ عابدین سے مخاطب ہوا تھا اور وہ بری طرح نروس ہوئی تھی۔ وہ نروس ہونا نہیں چاہتی تھی، لیکن جبریل سے وہاں کھڑے صرف مخاطب ہونا بھی اسے اس کے قدموں پر کھڑے رہنا دشوار کررہا تھا۔ وہ صرف نساء ہی نہیں کسی بھی عمر کی کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ عائشہ عابدین نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
’’کیوں؟ آ پ کو اچھا نہیں لگتا امریکہ آکر گھومنا پھرنا؟‘‘ اس نے نساء کے کسی تبصرے پر عائشہ سے پوچھا تھا۔
’’نہیں، مجھے اچھا لگتا ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں۔‘‘ وہ گڑبڑائی۔ اس نے خود کو سنبھالا، پھر جبریل کے سوال کا جواب دیا، جس کی آنکھیں اسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔
وہ اب سینے پر بازو لپیٹے ہوئے تھا۔ وہ اس کے جواب پر مسکرایا تھا، پھر اس نے نساء کو فنکشن کے بعد عائشہ کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کافی کی دعوت دی تھی جو نساء نے قبول کرلی تھی، وہ دونوں اپنے کچھ دوستوں کا انتظار کرتے ہوئے گپ شپ میں مصروف ہوگئے تھے۔
عائشہ ایک بار پھر غیر جانب دار مبصر بن گئی تھی۔ نساء حاکم مزاج لڑکی تھی اور گھر میں وہ ہر کام اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے کرنے کی عادی تھی، لیکن عائشہ نے محسوس کیا تھا، نساء جبریل کے ساتھ اس طرح نہیں کررہی تھی۔ وہ اس کی پوری بات سن کر کچھ کہتی اور اس کی بہت سی باتوں سے اتفاق کررہی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے عائشہ عابدین کو وہ بے حد اچھے لگ رہے تھے… ایک پرفیکٹ کپل… جس پر اسے رشک آرہا تھا اور جبریل سے اس طرح متاثر ہونے کے باوجود وہ اسے نساء کی زندگی کے ساتھی کے طور پر ہی دیکھ رہی تھی… نساء کا ذوق اور انتخاب ہر چیز میں اچھا اور منفرد تھا اور جبریل اس کا ایک اور ثبوت تھا۔
فنکشن کے بعد وہ نساء اور جبریل کے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک کیفے میں کافی پینے گئی تھی۔ یہ ایک اتفاق تھا یا خوش قسمتی کہ چھ افراد کے اس گروپ میں جبریل اور عائشہ کی نشستیں ایک دوسرے کے ساتھ تھیں۔ نساء جبریل کے بالمقابل میز کے دوسری جانب تھی اور رعائشہ کے دوسری طرف نساء کی ایک اور دوست سوزین…
عائشہ عابدین کی گھبراہٹ اب اپنی انتہا پر تھی۔ وہ اس کے اتنے قریب تھی کہ اس کے پرفیوم کی خوشبو محسوس کررہی تھی۔ ٹیبل پر دھرے اس کے ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی سے ڈائل پر ٹک ٹک کرتی سوئی دیکھ سکتی تھی، لیکن اگر وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی تو وہ گردن وٹ کر اسے اتنے قریب سے دیکھنا تھا… وہ غلط جگہ بیٹھ گئی تھی، عائشہ عابدین کو مینیو دیکھتے ہوئے احساس ہوا تھا۔
جبریل میزبان تھا اور وہ سب ہی سے پوچھ رہا تھا، اس نے عائشہ سے بھی پوچھا تھا۔ عائشہ کو مینیو کارڈ پر اس وقت کچھ بھی لکھا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ ا س احساس سے غائب ہوگیا تھا کہ وہ گردن موڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جو سب لیں گے، میں بھی لے لوں گی۔‘‘ عائشہ نے جیسے سب سے محفوظ حل تلاش کیا تھا، جبریل مسکرایا اور اس نے اپنا اور اس کا آرڈر ایک ہی جیسا نوٹ کروایا۔ وہ ایک ویجی ٹیبل پیزا تھا جسے اس نے ڈرنکس کے ساتھ آرڈر کیا تھا اور بعد میں کافی کے ساتھ چاکلیٹ موز… نساء اپنا آرڈر پہلے دے چکی تھی اور باقی سب لوگ بھی اپنے آرڈر نوٹ کروارہے تھے… ہیم برگر… شرمپس… اسٹفڈ ٹرکی… یہ امریکن دوستوں کے آرڈر تھے… نساء نے ایک سالمن سینڈوچ منگایا تھا۔




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!