آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

اس ’’بزنس‘‘ کا وہ اگلا تجربہ حمین سکندر کی زندگی کا سب سے سبق آموز تجربہ تھا۔ ایک اسٹار اسٹوڈنٹ کے طور پر اسکول کے بچوں کو اپنی پسندیدہ چیز لینے کی ترغیب دینا اور پھر اس حد تک انہیں للچا دینا کہ وہ آنکھیں بند کرکے اپنی پسندیدہ چیز کے پیچھے چل پڑیں… الگ بات تھی لیکن اپنی پسندیدہ چیز کو واپس دے دینا خوشی خوشی… علیحدہ معاملہ تھا… چیز واپس دینے کا کہنے والا حمین سکند رہوتا یا کوئی اور، ان کو فرق نہیں پڑتا تھا۔
وہ مطمئن اور خوش کلائنٹس جنہوں نے حمین سکندر کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچایا تھا وہ اسی طرح اسے کھینچ کر واپس بھی لے آئے… وہ ایک ہفتے کے بجائے ایک دن میں وہ کام سرانجام دے دینا چاہتا تھا لیکن اگلے ہی دن اسے پتا چل گیا تھا کہ سالار سکندر نے اس کام کے لئے اسے ایک ہفتہ کیوں دیا تھا، ایک دن کیوں نہیں۔
حمین سکندر اگلے دن اسکول میں اس بزنس کے ذریعے ہونے والے بزنس معاہدوں کو ختم کرنے میں پہلی بار اسکول کے سب سے ناپسندیدہ اسٹوڈنٹ کے درجہ پر فائز ہورہا تھا۔ کامیابی انسان کو ایک سبق سکھاتی ہے… ناکامی دس… لیکن حمین سکندر نے پندرہ سیکھے تھے۔
٭…٭…٭




’’بابا! آئی ایم سوری!‘‘ گاڑی سے اترتے ہوئے سالار کو دیکھ کر لپکتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی۔
رئیسہ سائیکل چلا رہی تھی… وہ رئیسہ کی پہلی غلطی تھی جس پر سالار کو اسے ڈانٹنا پڑا تھا اور رئیسہ پچھلی رات سے یہ بات ہضم نہیں کر پارہی تھی۔
گاڑی کا دروازہ کھولے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سالار نے اپنی اس منہ بولی بیٹی کو دیکھا جو پروانوں کی طرح اپنے ماں باپ کے گرد منڈلاتی پھرتی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے تم نے کیا غلطی کی ؟‘‘ سالار نے ایک دن کی خاموشی کے بعد اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’یس… مجھے آپ کو اور ممی کو سب کچھ بتانا چاہیے تھا۔‘‘ رئیسہ نے اپنے گلاسز ٹھیک کرتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔
’’اور؟‘‘ سالار نے مزید کریدا۔
’’اور مجھے حمین کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا… لیکن بابا میں نے اس کو سپورٹ کبھی نہیں کیا۔‘‘ رئیسہ نے پہلا جملہ کہتے ہی اس کی تصحیح کی۔
’’تم نے خاموش رہ کر اسے سپورٹ کیا۔‘‘ سالار نے کہا۔
’’بابا! میں نے اسے منع کیا تھا لیکن اس نے مجھے کنوینس کرلیا۔‘‘ رئیسہ نے اپنا مسئلہ اور وضاحت پیش کی۔
’’اگر اس نے تمہیں کنوینس کرلیا تھا تو پھر تم مجھے کیوں بتانا چاہتی تھیں حمین کے بارے میں کچھ؟‘‘
اس بار رئیسہ نے جواب نہیں دیا، وہ سرجھکائے کھڑی رہی۔ سالار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔
’’تم کنوینس نہیں ہوئی تھیں… تمہارے دل میں تھا کہ حمین ٹھیک کام نہیں کررہا۔‘‘
رئیسہ نے سالار کی بات پر اسی طرح سرجھکائے جھکائے سرہلایا۔
’’یہ زیادہ بری بات تھی… تمہیں پتا تھا، وہ ایک غلط کام کررہا ہے لیکن تم نے اسے کرنے دیا… چھپایا۔‘‘
’’وہ مجھ سے ناراض ہوجاتا بابا!‘‘ رئیسہ نے کہا۔
’’تو کیا ہوتا؟‘‘ سالار نے اسی سنجیدگی سے کہا۔
’’میں اسے ناراض نہیں کرسکتی۔‘‘ اس نے اس بار کچھ اور بے بسی سے کہا۔
’’اس کی ناراضی اس سے بہتر تھی، جتنی پریشانی وہ اب اٹھائے گا… تمہیں اندازہ ہے اسکول میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی اب اسے۔‘‘
رئیسہ نے ایک بار پھر سرہلادیا۔
’’وہ تمہارا بھائی ہے… دوست ہے… تم اس سے بہت پیار کرتی ہو… میں جانتا ہوں لیکن اگر کوئی ہمیں عزیز ہو تو اس کی غلطی ہمیں عزیز نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ وہ اب اسے جتنے آسان اور سادہ لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرسکتا تھا، کررہا تھا۔ وہ سرہلاتے ہوئے سن رہی تھی اور ذہن نشین کررہی تھی۔
سالار خاموش ہوا تو رئیسہ نے سراٹھا کر اس سے پوچھا۔
’’کیا میں اب بھی آپ کو اچھی لگتی ہوں بابا؟‘‘ سالار نے اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اس کا سرچوما۔
’’یس۔‘‘
رئیسہ کھل اٹھی… وہ ایسی ہی تھی، چھوٹی سی بات پر پریشان ہونے والی… چھوٹی سی بات پر خوش ہوجانے والی۔ رئیسہ اب گاڑی کی پچھلی سیٹ سے اس کا بریف کیس نکالنے لگی تھی۔
٭…٭…٭
عنایہ نے ایرک کو کھڑکی سے دیکھا تھا اور وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ وہ ایک چھٹی کا دن تھا اور وہ سٹنگ ایریا کی کھڑکی میں پڑے کچھ چھوٹے ان ڈور پلانٹس کو تھوڑی دیر پہلے کچن سنک سے پانی دے کر لائی تھی اور اب انہیں کھڑکی میں رکھ رہی تھی جب اس نے ایرک کو گھر سے نکلتے دیکھا تھا اور وہ ہل نہیں سکی تھی اور ایرک کو اس طرح دیکھنے والی وہ اکیلی نہیں تھی… وہ اب کالونی کے اس روڈ کے فٹ پاتھ پر آچکا تھا جو ان گھروں کے بیچ گھومتی گھامتی انہیں ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھی… اور اس سڑک سے اکا دکا گزرنے والی گاڑیاں اور فٹ پاتھ پر اپنے کتوں اور بلیوں کو ٹہلانے والے افراد میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو ایرک کو نہ دیکھ رہا ہو۔
’’عنایہ!‘‘ کچن میں کام کرتی امامہ نے اسے اتنی دیر کھڑکی سے باہر جھانکتے دیکھ کر پکارا تھا۔ عنایہ اس قدر مگن تھی کہ اسے ماں کی آواز سنائی نہیں دی تھی، امامہ کچن ایریا سے خود بھی سٹنگ ایریا کی اس کھڑکی کے سامنے آگئی جس سے عنایہ باہر دیکھ رہی تھی اور کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر نے اسے بھی عنایہ ہی کی طرح منجمد کیا تھا۔
ایرک ایک کیکڑے کی طرح اپنے چاروں ہاتھوں اور پیروں پر چل رہا تھا۔ وہ چوپائے کی طرح نہیں چل رہا تھا، وہ اپنی پشت کے بل چل رہا تھا… اپنا پیٹ اونچا کئے… اپنے دونوں ہاتھوں کے بل اپنے اوپری دھڑکو اٹھائے… اپنی ٹانگیں گھٹنوں کے بل اٹھائے… وہ بڑی دقت سے چل بلکہ رینگ رہا تھا لیکن رکے بغیر بے حد اطمینان سے وہ اس طرح ادھر سے ادھر جاتے ہوئے چہل قدمی میں مصروف تھا جیسے یہ اس کے چلنے کا نارمل طریقہ تھا… وہ جب تھک جاتا، بیٹھ کر تھوڑی دیر سانس لیتا پھر اسی طرح چلنا شروع کردیتا۔
’’یہ کیا کررہا ہے؟‘‘ عنایہ نے اب کچھ پریشان ہوکر امامہ سے پوچھا تھا جو خود بھی اسی کی طرح ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
’’پتا نہیں۔‘‘
’’کیا یہ چل نہیں سکتا؟‘‘ عنایہ کوتشویش ہوئی تھی۔
’’پتا نہیں۔‘‘ امامہ اور کیا جواب دیتی۔
’’جبریل! تم ذرا جاکر اسے اندر لے کر آؤ۔‘‘
جبریل اوپر والی منزل سے سیڑھیاں اتر رہا تھا جب امامہ نے اس کے قدموں کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کسے؟‘‘ جبریل نے جواباً کھڑکی کے پاس آتے ہوئے کہا اور امامہ کو اس کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس نے ایرک کو دیکھ لیا تھا، پھر وہ رکے بغیر باہر نکل آیا۔ ایرک اسی طرح ان کے گھر کے سامنے کیکڑا بنا ادھر سے ادھر جارہا تھا، لیکن وہ رکا نہیں تھا۔ اسی طرح اسے نظر انداز کرتے ہوئے چلتا رہا۔
’’ہیلو…‘‘ جبریل نے ایرک کے ساتھ ٹہلتے ہوئے اس سے کہا۔ اس کی سرخ ہوتی رنگت، پھولا ہوا سانس اورماتھے پر چمکتے پسینے کے قطروں سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تھک چکا ہے لیکن اس کے باوجود صرف لوگوں کی توجہ حاصل کئے رکھنے کے لئے خود پر ظلم کررہا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ اس نے بھی جبریل کی ہیلو کا جواب اتنے ہی پرجوش، لیکن تھکے ہوئے انداز میں دیا تھا۔
’’یہ کوئی نئی ایکسر سائز ہے؟‘‘ جبریل نے اس کے ساتھ ہلکے قدموں سے چلتے ہوئے کہا۔
’’نہیں…‘‘ ایرک کا جواب آیا۔
’’پھر…؟‘‘
’’میں کیکڑا ہوں… اور کیکڑے ایسے ہی چلتے ہیں۔‘‘ ایرک نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
’’اوہ! آئی سی…‘‘ جبریل نے بے اختیار کہا۔ ’’اور یہ تبدیلی کب آئی؟ آخری بار جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم انسان تھے۔‘‘ جبریل اس سے یوں بات کررہا تھا جیسے اسے اس کی بات پر یقین آگیا۔
’’آج رات… ‘‘ ایرک نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہا۔
’’اوہ!… کیکڑے اکثر رک کر آرام بھی کرتے ہیں، تم نہیں کروگے۔‘‘ جبریل نے بالآخر اسے مشورہ دینے والے انداز میں کہا۔
ایرک کے لئے جیسے تنکے کو سہارا والی بات ہوئی تھی۔ وہ ڈھے جانے والے انداز میں فٹ پاتھ پر چت لیٹتے ہوئے بولا۔
’’اوہ! یس… میں بھول گیا تھا۔ اچھا ہوا تم نے یاد دلا دیا۔‘‘ اس نے جبریل کے قدموں میں لیٹے لیٹے کہا۔
’’Don’t mind، کیکڑے اتنی effortکرنے کے بعد کھاتے پیتے بھی ہیں۔‘‘ جبریل نے جیسے اسے اگلی بات یاد دلائی۔
’’آ، ہاں… مجھے بھی کھانے کو کچھ چاہیے۔‘‘ ایرک کی بھوک واقعی اس کی بات سے چمکی۔ اس کے بازو اور کمر اس وقت تقریباً شل ہورہے تھے۔
’’ہمارے گھر میں کیکڑوں کی کچھ خوراک ہے، اگر تمہیں انٹرسٹ ہوتو تم جاکے کھاسکتے ہو۔‘‘ جبریل نے بالآخر اس سے کہا۔
وہ سیدھا سیدھا اسے آکر امامہ کا پیغام بھی دے سکتا تھا، لیکن انہیں ایرک کا پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ کس موڈ میں ہوتا اور کیا جواب دیتا۔
’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ ایرک سوچ میں پڑا۔ جبریل نے سر اٹھا کر اس کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں سے اسے امامہ اور عنایہ نظر آرہی تھیں۔
’’لیکن مجبوری والی کوئی بات نہیں۔ اگر تم نہیں آنا چاہتے تو بھی ٹھیک ہے۔‘‘ جبریل نے کہتے ہوئے قدم آگے بڑھائے۔
ایرک ایک دم اسی طرح کیکڑا بنے بنے اس کے ساتھ چلنے لگا۔ جبریل رکا اور اس نے بڑی شائستگی سے اس سے کہا۔
’’مجھے اچھا لگے گا۔ اگر تم کچھ دیر کے لئے دوبارہ انسان بن جاؤ۔ میری بہن اور ممی کیکڑوں سے بہت ڈرتی ہیں… اور ان کے ڈر کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ہر وہ کیکڑا مارنا پڑتا ہے جو ہمیں نظر آجائے۔‘‘
اس نے مذاق کی بات سنجیدگی سے کہی تھی اور ایرک نے بخوبی سمجھ لیا تھا کہ وہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ وہ رکا، بیٹھا پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
جبریل کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس نے امامہ اور عنایہ کی حیران نظریں محسوس کرلی تھیں، مگر پھر بھی وہ مطمئن تھا۔
’’ایرک! تم کیا کررہے تھے باہر؟‘‘ اس کے اندر آتے ہی عنایہ نے اس سے سب سے پہلے پوچھا تھا… وہ جواباً صرف مسکرایا تھا۔ فاتحانہ انداز میں… یوں جیسے جو وہ چاہتا تھا حاصل کرلیا ہو۔
’’یہ ایرک نہیں ہے، ایک کیکڑا ہے۔‘‘ جبریل نے اس کا تعارف کروایا۔ ’’اور اسے اچھے لگے گا اگر اس کو اس نام سے ہی پکارا جائے۔‘‘
اس نے جبریل کے تعارف کو بھی نظر انداز کردیا تھا۔ وہ سیدھا کچن کاؤنٹر کے قریب پڑے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا تھا۔
’’تم اتنے دن سے آئے کیوں نہیں؟‘‘ امامہ نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ اسے اندازہ تھا… صرف اسے نہیں ان تینوں… کہ وہ ان کے گھر کے باہر کیکڑا بن کر چہل قدمی کیوں کررہا تھا۔
’’میں مصروف تھا۔‘‘ ایرک نے مختصر جواب دیا۔ وہ اب اپنے بازو اور کلائیاں دبا رہا تھا۔
جبریل اور عنایہ نے نظروں کو تبادلہ کیا اور اپنی ہنسی کو روکا۔ انہیں اندازہ تھا، ایک کیکڑا بن کر پندرہ بیس منٹ چہل قدمی کا نتیجہ اب کیا نکلنے والا ہے۔
’’تم بعض دفعہ بے حد احمقانہ حرکتیں کرتے ہو۔‘‘ عنایہ نے ا س سے کہا۔
’’تم واقعی ایسا سمجھتی ہو؟‘‘ ایرک اس کے تبصرے پر جیسے کچھ مضطرب ہوا۔
’’ہاں بالکل۔‘‘
ایرک کے چہرے پر اب کچھ مایوسی آئی۔
’’اگر تم ہمارے گھر کے اندر آنا چاہتے تھے تو اس کا سیدھا راستہ دروازے پر دستک دے کر اجازت مانگنا ہے۔ کیکڑا بن کر ہمارے گھر کے سامنے پھرنا نہیں… یا تم یہ چاہتے تھے ہم خود تمہیں کھینچ کھینچ کر اندر بلائیں۔‘‘ عنایہ نے کچھ خفگی سے کہا۔
ایرک کا چہرہ سرخ ہوا… یہ شرمندگی تھی اس بات کی کہ وہ اس کی اس حرکت کی وجہ سمجھ گئے تھے۔
’’مسز سالار مجھے پسند نہیں کرتیں۔‘‘ ایرک نے اس کی بات کے جواب میں امامہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ امامہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا، پہلی بار اس کے سمجھانے کا اثر ایرک پر یہ ہوگا۔
’’خیر، وہ تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ خاص طور پر میں But you are still welcome ‘‘ یہ جبریل تھا جس نے ماں کے جواب دینے سے پہلے جواب دیا تھا۔ وہ فریج سے ایک سوفٹ ڈرنک ناکل رہا تھا۔
’’میرے بھی تمہارے بارے میں ایسے ہی خیالات ہیں۔‘‘ ایرک نے اسے ٹکڑا توڑ جواب دیا تھا۔
’’اوہ رئیلی۔‘‘ جبریل اب اسے زچ کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا ایرک کو اس کی بات بری لگی تھی۔
ایرک نے اسی طرح نروٹھے انداز میں بیٹھا رہاتھا لیکن وہ یہاں ان لوگوں کے پاس آکر ایک بار پھر ویسے ہی خوش اور پرسکون تھا جیسے ہمیشہ ہوجاتا تھا۔ ان کے گھر میں گرم جوشی تھی جو سب کے لئے تھی۔ ایرک بھی اس نرم سی گرماہٹ کو محسوس کرسکتا تھا۔ وہ اپنے اسٹول سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے امامہ سے کہا۔
’’مسز سالار! میں فریج سے کوئی ڈرنک لے سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں، جو آخری تھا، وہ میں نے لے لیا لیکن تم یہ پی سکتے ہو۔‘‘ امامہ سے پہلے جبریل نے اس سے کہا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ کین جس سے اس نے ابھی ایک دو گھونٹ لئے تھے، اس کے سامنے کچن کاؤنٹر پر رکھ دیا اور خود اندرونی کمرے کی طرف چلا گیا۔ عنایہ لاؤنج کی صفائی میں امامہ کی مدد کررہی تھی۔ ایرک کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کین اٹھا کر ایک ہی سانس میں اسے ختم کیا۔
’’اگر مدد کی ضرورت ہو تو میں مدد کرسکتا ہوں۔‘‘ ایرک نے ان دونوں کو مختلف چیزیں ادھر سے ادھر اٹھا کر رکھتے دیکھ کر آفر کی۔
’’تمہارے بازو اب دو دن تک کچھ بھی اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس لئے آرام کرو، ہم خود ہی کرلیں گے ایرک۔ ’’امامہ نے جواباً اس سے کہا۔
’’میرا نام ایرک نہیں ہے۔‘‘ ایرک نے بے حد سنجیدگی سے امامہ کو جواب دیا۔
’’ہاں ہاں پتا ہے تمہارا نام اب crab(کیکڑا) ہے۔ عنایہ نے ہوور چلاتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں اس سے کہا۔
’’میرا نام عبداللہ ہے۔‘‘ امامہ اور عنایہ نے بیک وقت پہلے اسے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔
’’کیا مطلب؟‘‘ امامہ کچھ ہکا بکا سی رہ گئی۔




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!