آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

’’ناشتا کیا ہے؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ ایرک نے نفی میں سرہلایا۔ امامہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ ناشتا کرے گا یا نہیں۔ وہ اس کے لئے ناشتا بنانے لگی تھی۔ ایرک کو بھی پتا تھا وہ کیا کررہی ہے۔
’’آپ مجھے پیٹی بنادیں۔‘‘ وہ جانتی تھی، وہ پراٹھا کھانا چاہتا تھا۔ وہ ان کے گھر کئی بار پراٹھا کھا چکا تھا۔
’’میں اسے وہاں لگا دیتا ہوں۔‘‘ ایرک نے درمیانی سینٹر پر ٹرافی کے برابر میں پڑے سرٹیفکیٹ کو اٹھائے ہوئے اسے دیوار پر لگانے کی پیش کش کی، وہ جیسے اپنے اور امامہ کے درمیان ملاقات کے شروع میں ہی آنے والی تلخی کو ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’نہیں مت لگاؤ۔‘‘ امامہ نے اسے روکا۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے الجھ کر پوچھا۔ ’’آپ کو فخر نہیں ہے حمین پر؟‘‘
وہ اس کی بات پر کچن میں کام کرتے کرتے ہنسی۔ وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکی کہ اگر وہ اپنے بچوں کو سرٹیفکیٹس، ٹرافیاں اور اعزازات کو اپنے گھر کی دیواروں پر لگاتی تو اس کے گھر میں کوئی جگہ خالی نہ بجتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی ہی قابل اولاد دی تھی۔
’’حمین کے پاپا کو پسند نہیں ہے یہ۔‘‘ اس نے پراٹھے کے لئے پیڑا بناتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ متجسس ہوا۔
’’یہ اپنے کارناموں کی نشانیوں کو ہر وقت دیواروں پر لٹکا دیکھیں گے آتے جاتے ہوئے تو ان کے دماغوں کو ساتویں آسمان سے کیسے نیچے اتاریں گے ہم۔‘‘ اسے سالار کی بات یاد آئی تھی جو اس نے پہلی بار جبریل کے کسی سرٹیفکیٹ کو دیوار پر لگانے کی اس کی کوشش کے جواب میں کہی تھی۔
’’کوئی کتنی بھی بڑی اچیومنٹ والا دن ہو۔ چوبیس گھنٹے کے بعد ماضی بن جاتا ہے اور ماضی کے ڈھنڈورے پیٹنے والے لوگ کبھی مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے۔‘‘ اس نے سالار کی بات من و عن دہرائی تھی، پتا نہیں ایرک کی سمجھ میں آئی یا نہیں… لیکن اس نے مزید کسی سوال کے بغیر وہ سرٹیفکیٹ اسی میز پر رکھ دیا تھا۔
’’مسز سالار آپ مجھے پسند نہیں کرتیں؟‘‘ وہ اس کے اگلے سوال پر بری طرح چونکی۔
’’سب تمہیں بہت پسند کرتے ہیں پھر میں تمہیں پسند کیوں نہیں کروں گی۔‘‘ اس نے بڑے تحمل سے جیسے اسے سمجھایا۔
’’آپ مجھے ایڈاپٹ کرسکتی ہیں؟‘‘ اگلا سوال اتنا اچانک تھا کہ وہ پراٹھا بھول کر اس کی شکل دیکھنے لگی۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔ چند لمحوں کے لئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے، پھر وہ ہنس پڑی تھی۔ ایرک کو اس کی ہنسی اچھی نہیں لگی۔
’’ایرک تمہاری ممی ہیں۔ دو بہن بھائی ہیں۔ ایک فیملی ہے۔‘‘
’’پلیز۔‘‘ ایرک نے کچھ بے تابی سے اس کی بات کاٹ کر جیسے پلیز کہہ کر اس کی منت کی تھی۔
’’تمہاری ممی تم سے بہت پیار کرتی ہیں ایرک! وہ کبھی بھی تمہیں کسی دوسرے کونہیں دیں گی اور تمہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کے پاس جانے کی ضرروت بھی نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’ممی کے پاس ایک بوائے فرینڈ ہے۔ وہ جلد ہی ان سے شادی بھی کرلیں گی۔ کیا آپ تب مجھے ایڈاپٹ کرسکتی ہیں؟‘‘ اس نے جیسے اس مسئلے کا بھی حل نکالا تھا۔
’’تم کیوں چاہتے ہو ہمارے پاس آنا؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’کیوں کہ یہ مجھے گھر لگتا ہے۔‘‘




بہت مختصر جملے میں اس بچے کا ہر نفسیاتی مسئلہ چھپا تھا… وہ کس تلاش میں کہاں کہاں پھر رہا تھا۔ امامہ کا دل اور پگھلا مگر کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہوتا… چاہے عقل کی ہر کنجی لگالیں، کچھ تالے نہیں کھلتے۔
’’تم اپنی ممی کو چھوڑ کر ہمارے پاس آنا چاہتے ہو… یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے جیسے جذباتی بلیک میلنگ کی کوشش کی تھی۔
’’ممی مجھے چھوڑ دیں گی… میں نے آپ کو بتایا ہے نا۔ ان کا بوائے فرینڈ ہے…‘‘ ایرک کے پاس اس جذباتی حربہ کا جواب تھا۔
’’وہ شادی کرلیں… بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگیں۔ کچھ بھی ہو۔ تم ان کے بیٹے ہی رہوگے… تم سے ان کی محبت کم نہیں ہوگی… وہ تمہیں اور تمہارے دونوں بہن بھائیون کو اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتیں۔‘‘ اس نے کیرولین کی وکالت کرکے ایرک کی مایوسی کو جیسے اور بڑھایا۔
’’میں عنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے اگلے جملے نے امامہ کا دماغ جیسے گھمادیا تھا… وہ اگلے کئی لمحے بول ہی نہیں سکی تھی۔ وہ ان لوگوں سے اٹیچڈ تھا، ان لوگوں کو پسند کرتا تھا لیکن وہ اس طرح اس انداز میں ان کے خاندان کا حصہ بننے کا سوچ سکتا تھا، اس کا اندازہ اسے نہیں تھا۔
’’یہ بھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نے بالآخر اس سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ بے تاب ہوا۔
’’تم ابھی اس طرح کی باتیں کرنے کے لئے بہت چھوٹے ہو۔‘‘ اسے اس سے زیادہ مناسب جواب نہیں سوجھا تھا۔
’’جب میں بڑا ہوجاؤں گا، تب شادی کرسکتا ہوں اس سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس بار اس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔
’’اس سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو تم؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’کیوں کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔‘‘
’’لیکن ہوسکتا ہے، وہ تمہیں اتنا پسند نہ کرتی ہو کہ تم سے شادی کرنے پر تیار ہوجائے۔‘‘ ایرک کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
’’کیا اس نے آپ سے ایسا کہا؟‘‘ اس نے ایک بچگانہ سوال کیا تھا۔
’’نہیں، اس نے مجھ سے نہیں کہا۔ وہ بہت چھوٹی ہے۔ تمہیں پسند یا ناپسند کرنے کے بارے میں وہ ابھی سوچ بھی نہیں سکتی… لیکن یہ میں تم سے کہہ رہی ہوں ایرک! کہ اس طرح کی باتیں کرنا اور سوچنا چھوڑ دو… ورنہ شاید ہمارے لئے تم سے ملنا جلنا ممکن نہیں رہے گا۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ترش ہوئی تھی اور یہ ضروری تھا، وہ نہیں چاہتی تھی، وہ ایسی کوئی بات عنایہ سے بھی کرے۔
’’آپ مجھ سے خفا نہ ہوں… اگر آپ ایسا نہیں چاہتیں تو میں عنایہ سے شادی نہیں کروں گا لیکن میں اس سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ ایرک اس کی خفگی سے کچھ پریشان ہوا لیکن پھر بھی اسے اپنے دل کی کیفیت بتائے بغیر نہیں رہ سکا۔ وہ بے اختیار لمبی سانس لے کر رہ گئی… وہ اس معاشرے کے وہ چیلنجز تھے جو اس سمیت ہر مسلمان ماں کو ڈراتے تھے۔
’’تم کیا کرسکتے ہو عنایہ کے لئے؟‘‘ اس نے بے حد سنجیدگی سے ایرک سے پوچھا۔
’’سب کچھ۔‘‘ اسے وہی جواب ملا جس کی اسے توقع تھی۔
’’اوکے پھر اسکول جاؤ باقاعدگی سے… دل لگا کر پڑھو… اپنا کوئی کیرئیر بناؤ… عنایہ کسی ایسے لڑکے کو تو کبھی پسند نہیں کرسکتی جو باقاعدگی سے اسکول نہ جاتا ہو… اپنی ماں کی بات نہ مانتا ہو… اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پروا نہ کرتا ہو… جو اسٹڈیز کو سنجیدگی سے لیتا ہی نہ ہو… اور پھر جھوٹ بولتا ہو۔‘‘
ایرک کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ امامہ نے جیسے دو سیکنڈز میں اس کی زندگی کی پہلی محبت کا تیاپانچہ کردیا تھا۔
وہاں یک دم خاموشی چھائی تھی۔ امامہ اب بھی کچن میں کام میں مصروف تھی۔ ایرک کا ناشتہ تیار کرکے اس نے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ وہ بہت دیر خاموش رہا، پھر اس نے امامہ سے کہا۔
’’میں اپنے آپ کو ٹھیک کرلوں گا۔‘‘
’’یہ بہت اچھا ہوگا ایرک… لیکن اس کے ساتھ تمہیں ایک اور وعدہ بھی کرنا ہے مجھ سے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ الجھا۔
’’جب تک تم ہائی اسکول پاس کرکے یونیورسٹی میں نہیں چلے جاتے، تم عنایہ سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کروگے… میں نہیں چاہتی، وہ تم سے مکمل طور پر خفا ہوجائے۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘
ایرک نے بھی اسی سنجیدگی سے امامہ سے کہا تھا جس سنجیدگی سے وہ اس سے بات کررہی تھی۔ وہ اپنا چھری اور کانٹا پکڑے کرسی پر بیٹھا پراٹھا کھانے کی تیاری میں تھا۔
’’اور جب تک تم یونیورسٹی نہیں پہنچ جاتے، ہم دوبارہ اس ایشو پر بات نہیں کریں گے… محبت…شادی… عنایہ۔‘‘ امامہ نے جیسے ان تین چیزوں کے گرد ریڈ زون لگاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ وہ معمول کی طرح یہ بات بھی مان گیا تھا۔
امامہ کا خیال تھا۔ اس نے حفاظتی بند باندھا دیا تھا۔ تھوڑا عرصہ مزید گزر جانے پر وہ اپنے باپ کی موت کو بھول جانے کے بعد ٹھیک ہوجاتا۔ اس س سے عنایہ اور اس سے متعلقہ ہونے والی ساری گفتگو بھول جاتا… اس نے ایرک کی اس بات چیت کو ایک امریکن بچے کی بچگانہ گفتگو سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا ایرک ایک عام امریکن بچہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
احسن سعد کا باپ اس بات پر ہمیشہ فخر کرتا تھا کہ اس کا بیٹا آج کے زمانے میں پاکستان کے بہترین انگلش میڈیم اور کو ایجوکیشن اداروں میں پڑھنے کے باوجود ایک سچا اور پکا مسلمان تھا… داڑھی رکھتا تھا… پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا… حج اور عمرے کی سعادت اپنے شوق سے حاصل کرچکا تھا… لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا جو ’’حرام‘‘ تھی اور ماں باپ کا فرماں بردار تھا… دن کو دن اور رات کو رات کہنے والی سعادت مندی اور اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں شروع سے اب تک اس نے اسکالر شپ حاصل کی تھی… صرف وہی نہیں ان کی دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی جو بڑے بھائی ہی کی طرح دینی طور پر باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ پوزیشن ہولڈر تھیں۔
سعد اور اس کی بیوی اس بات پر جتنا فخر کرتے، وہ کم تھا اور یہ فخر وہ برملا لوگوں تک پہنچاتے بھی تھے… ان کے حلقہ احباب میں زیادہ تر لوگ ان ہی کی طرح کنز رویٹو اور مذہبی تھے لیکن کم لوگ ایسے تھے جن کے بچے ان کے بچوں کی طرح لائق فائق ہوتے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ والدین کے اتنے فرماں بردار ہوتے۔
ان کا گھر ان کے سوشل سرکل میں ایک آئیڈیل گھر سمجھا جاتا تھا، ایسا آئیڈیل گھر جیسا گھر اور فیملی سب بنانا چاہتے… لیکن یہ صرف اس کی ماں کا خاندان تھا جو اس آئیڈیل گھر کی کھوکھلی بنیادوں سے واقف تھا اور احسن سعد کے باپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔
سعد نے ایک بہت امیر اور اچھے خاندان میں شادی کی تھی لیکن اسکے بعد اس نے اپنی بیوی کو ایک اچھی اور نیک مسلمان عورت بنانے کے لئے جو کچھ کیا تھا۔ وہ اس کے خاندان سے پوشیدہ نہیں تھا… اگر شادی کے پہلے ہی سال احسن پیدا نہ ہوگیا ہوتا تو اس کی بیوی کے ماں باپ اپنی بیٹی کی علیحدگی کرواچکے ہوتے… کئی بار احسن کی پیدائش کے بعد بھی معاملات اس حد تک جاتے رہے کہ طلاق ہوجاتی لیکن سعد اور اس کے گھر والوں کا شور شرابا ہمیشہ انہیں کمزور کردیتا… سعد اپنی بیوی کو ایک باحجاب، فرماں بردار، دین سے قریب اور دنیا سے دور رہنے والی بیوی بنانا چاہتا تھا اور یہ وہ مطالبہ تھا جو وہ مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے کرتا تھا۔
سعد میں اس کے علاوہ کوئی خرابی نہیں تھی کہ وہ اپنی بیوی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرسکتا تھا۔ گالم گلوچ سے لے کر مارکٹائی تک اور ماں باپ کے گھر جانے پر پابندی لگانے سے گھر میں قید کردینے تک… اور خاندانوں کے بڑے جب بھی ان مسائل پر اکٹھے ہوئے سعد اپنے ہر رویے کا جواز اسلام سے لے کر آتا… وہ شوہر تھا۔ بیوی کو اپنے طریقے سے اختیار کروانا نہیں چاہتا تھا۔ اسلامی طریقے پر رکھنا چاہتا تھا۔ کیا بیوی کا خاندان اپنی بیٹی کو بے راہ رو دیکھنا چاہتا تھا… اس کی بیوی کے میکے والوں کے پاس ہزار دلیلوں کے باوجود سعد کے قرآن و حدیث اور مذہبی حوالوں کا جواب نہیں تھا… وہ روشن خیال پڑھے لکھے تھے مگر ان کے پاس صرف دنیاوی تعلیم تھی۔ ان کے پاس دین کا علم ہوتا تو وہ سعد کے قرآن و حدیث کے حوالوں کا سیاق و سباق بھی اسے بتادیتے۔ سعد کی بیوی ا س سے عمر میں چھوٹی تھی اور ہر بار اس کے گھر والے اسے کچھ اور وقت صبر اور برداشت کے ساتھ گزارنے کا کہتے اور سعد کی کچھ اور فرماں برداری اختیار کرنے کی نصیحت کرتے… ان سب کا خیال تھا، وقت گزرنے اور بچے ہونے کے ساتھ ساتھ سعد بدلتا جائے گا۔
وقت بدلنے کے ساتھ سعد نہیں بدلا تھا۔ اس کی بیوی بدلتی چلی گئی تھی۔ اس نے ذہنی طور پر یہ مان لیا تھا کہ وہ شادی سے پہلے واقعی اسلام سے دور تھی اور دین کی تعلیمات وہی تھیں جو سعد اس کے کانوں میں ڈالٹا تھا اور اسے واقعی وہی کرنا چاہیے جو اس کا شوہر کہتا تھا۔ ویسا پروہ… ویسی خدمت… ویسی فرماں برداری۔ ایک اسٹیج وہ آگیا تھا جب دونوں میاں بیوی سوچ کے حساب سے ایک جیسے ہوگئے تھے… اس کی بیوی بھی سعد کی طرح لوگوں پر اپنے فتوے نافذ کرنے لگی تھی، وہ دوسروں کے بارے میں اپنے فتووں کا کھلا اظہار کرتی تھی۔ وہ کسی کی ذرا بھی ایسی چیز کو برداشت نہیں کرپاتی تھی جو اسے غیر اسلامی لگتی۔ ان کا خیال تھا، اسلام انہیں اس کا حکم دیتا تھا کہ جو علم ان کے پاس ہے، وہ دوسروں تک پہنچائیں۔ جو خلاف اسلام کام وہ روک سکتے ہیں، اسے روک دیں جسے برا کہہ سکتے ہیں، اسے برا نہ کہیں بلکہ سب کے سامنے اس طرح مطعون کریں کہ اگلا شرم سے پانی پانی ہوجائے۔
اسلام میں ’’حکم‘‘ کے علاوہ ’’حکمت‘‘ نام کی بھی ایک چیزہے ، وہ اس سے ناواقف تھے… وہ میاں بیوی اس بات پر شکر ادا کرتے تھے اللہ نے انہیں یہ توفیق عطا کی کہ وہ لوگوں کو کھینچ کھینچ کر مذہب کی طرف لارہے تھے۔ راہ ہدایت کی طرف راغب کررہے تھے۔
ان دونوں کی ازدواجی زندگی میں اگر کسی بات پر ان کا کبھی اتفاق ہوا تھا تو وہ صرف یہی ایک بات تھی۔ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی اور چیز پر زندگی میں کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر سعد کی بیوی ہر اس چیز پر جو اس کے شوہر کو ناگوار گزرتی تھی، صرف خاموش رہنا سیکھ گئی تھی… خاموشی اختیار نہ کرنے اور اختلاف رائے کرنے کا نتیجہ وہ شادی کے ابتدائی سالوں میں بہت بری طرح بھگت چکی تھی۔ اس کے اور سعد کے درمیان اتنے سال گزر جانے کے باوجود اس قدر مذہبی ہم آہنگی کے باوجود محبت نہیں تھی لیکن اسّی فیصد پاکستانی جوڑوں کی طرح وہ اس کے بغیر بھی رشتہ تو چلاتے ہی آرہے تھے۔ اگر ایک دوسرے سے محبت نہ ہونے، نے ان کے لئے ساتھ رہنا مشکل بنایا تھا تو اس مشکل کو آسان اس مشترکہ نفرت نے کردیا تھا جو وہ میاں بیوی ہر اس شخص سے کرتے تھے جو ان کی زندگیوں اور ذہنوں میں موجود اسلام کے تصور پر پورا نہیں اترتا تھا۔




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!