نامراد

نامراد
شاذیہ خان


”حییٰ علی الفلاح، حییٰ الفلاح“ میاں صاحب کی خوش الحان آواز مسجد کے میناروں سے گونجی تو تاجور کی آنکھ کُھل گئی۔ وہ کلمہ پڑھتی ہوئی اُٹھی اور تکیے کے برابر رکھا دوپٹہ سر پر لے لیا۔ آنکھیں موند کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں یوں پیوست کرلیں، جیسے دُعا مانگ رہی ہو۔ اذان کے ساتھ ہی اس کے دل کے جلتے دیئے لو دینے لگے تھے۔ پہلے وہ کبھی اتنی شدّو مد کے ساتھ دعا نہیں مانگتی تھی مگر اب تو دعا مانگنے کا ایک بھرپور بہانہ تھا مُراد…. جو اس کے دل کی مراد بھی تھا۔ مراد نے خود بھی کبھی اپنے لیے اتنی دعائیں نہیں مانگی ہوں گی جتنی دُعائیں تاجور نے اس کی اور اپنی راہ کے یک جا ہونے کی مانگی تھیں۔ اگر مراد کو معلوم ہو جاتا تو وہ شاید خدا بن بیٹھتا۔
میاں جی کی اکلوتی بیٹی ہونے کا مان ہر جگہ تاجور کے ساتھ تھا۔ تین بیٹے پیدا ہوتے ہی صرف چند گھنٹوں دنیا کی مسافرت کے سزاوار رہے اور پھر واپس اپنی حقیقی منزل کی جانب لوٹ گئے۔ اُس کے بعد پیدا ہونے والی تاجور کی کیا وقعت ہوگی ایسا کوئی انعام علی اور ان کی بیگم سے پوچھتا تو وہ اولاد جیسی نعمت پر گھنٹوں بات کر سکتے تھے۔ لیکن اتنے نازو نعم سے پلی اکلوتی بیٹی کی پہلی اور آخری خواہش انعام علی کے لیے پوری کرنا زندگی اور موت کا معاملہ تھا بھلا ایک کم ذات سے رشتہ جوڑنا کیسے ممکن تھا اور وہ مراد کے لیے اپنی ساری اقدار سے ٹکرانے بلکہ پاش پاش کردینے کے عزم میں تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!