تسکین — امینہ خان سعد

نادر کو ماما کے ہاتھ کے کھانے بہت پسند آئے۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آیا میں نے ماما سے یہ سب بھی سیکھا ہے یا صرف بنائو سنگھار ہی آتا ہے۔ میں ماما جتنی اچھی cook (کوک) تو نہیں تھی نہ ہی مجھے بہت زیادہ ڈشز آتی تھیں البتہ چند خاص خاص چیزیں ماما نے مجھے سکھا رکھی تھیں۔
میں نے نادر کے مذاق کے جواب میں کہا، ’’نہ کچھ بنانا آتا ہے اور نہ ہی سیکھنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’بیٹا آپ ایسا کرو کل ڈنر پر دوبارہ آجائو! سکینہ کے ہاتھ کا پکا کھا کر دیکھو۔ بھئی کھانا تو یہ اچھا بناتی ہے مگر ڈزرٹ (میٹھا) تو یہ نئے نئے اور مجھ سے بھی اچھے بناتی ہے۔ میں تو پرانے زمانے کی ہوں صرف کھیر، سویاں، گاجر کا حلوہ اور گلاب جامن بناتی ہوں مگر یہ تو ہماری Desert Queen (ڈیزرٹ کوئین) ہے۔‘‘
ماما کی تعریفی کلمات سن کر مجھے شرم کے ساتھ جھنجھلاہٹ ہوئی۔
’’نادر بھائی تو میٹھے کے بہت شوقین ہیں، کھانے سے بھی زیادہ۔‘‘ مرینہ نے جھٹ سے کہا۔
کھانے کے بعد سامی کی تجویزکے مطابق ہم پانچوں کافی (coffee) پینے چھت پر چلے گئے۔ چھت پر موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جس سے تھوڑی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ مرینہ نے سامی سے کوئی بورڈ گیم جیسا کہ لوڈو (Ludo) کھیلنے کی فرمائش کی۔ سامی کو ایک دم X-Box کا خیال آگیا۔ ہمدان X-Box کا سن کر excited(ایکسائٹڈ) ہو گیا اور وہ تینوں X-Box کھیلنے سامی کے کمرے میں چلے گئے۔ چھت پر اب صرف میں اور نادر تھے۔
’’تمہارے بال ہوا میں اڑتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ بچپن میں بھی تمہارے بال بہت اچھے ہوتے تھے۔‘‘ نادر میری آنکھوں میں دیکھ کر نرمی سے بولے۔
’’بچپن میں؟ میں آپ کو یاد ہوں، میرا مطلب میرا بچپن ،میرے بال؟‘‘
’’ہاں سکینہ میری یادداشت تھوڑی ہی گم ہوئی ہے۔‘‘
’’گم تو میں ہوئی تھی۔‘‘ میں نے منہ بند کر کے کہا، مگر نادر نے پھر بھی سن لیا۔
’’سکینہ تم گم ہوئی تھیں اپنے ماں باپ سے دوبارہ ملنے کے لیے اور میں نے تو اپنے ماں باپ ہمیشہ کے لیے کھو دیئے۔‘‘
نادر کا ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ ایک دم اداس اور سنجیدہ ہو گیا۔ ایک لمحے کو میرے دل نے چاہا کہ میں نادر کا ہاتھ پکڑ لوں مگر ظاہر ہے میں نے ایسا نہ کیا۔
’’نادر! آپ کی امی یعنی ممانی، اس رات باہر جانے سے منع کر رہی تھیں۔ وہ مجھ سے خفا ہوئی ہوں گی؟‘‘




’’نہیں سکینہ امی ہر وقت تمہاری خیرت اور حفاظت کی دعا کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بھی سمجھایا تھا کہ سکینہ کے لیے دعا کیا کرو ، اس واقعے میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ضد کر بیٹھتے ہیں۔ بعض دفعہ بڑوں سے لاپرواہی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات یہ سب ایک آزمائش کا حصہ ہوتا ہے۔‘‘
’’ممانی صحیح تھیں، وہ بہت سمجھ دار تھیں انہوں نے صحیح روکا تھا، اللہ ان کی مغفرت کرے۔‘‘
’’آمین جزاک ا للہ، امی کی ہونے والی بہو۔‘‘
نادر کا شوخ لہجہ واپس آگیا اور میں نے شرما کر دوسری طرف منہ پھیر لیا۔
’’سکینہ‘‘۔
’’hmmm، ہم مم!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ سب تلخ یادیں مٹ جائیں۔ ہم ہر دن خوشی منائیں۔ تم کوئی دن یاد کر کے کبھی نہ رو۔‘‘ نادر بڑی سنجیدگی سے بولے۔
’’میں بہت خوش ہوں نادر۔‘‘
’’ہاں پر میری خواہش ہے کہ ہر نئے سال کو تم خوشی کے دن کے طور پر یاد کرو۔‘‘
’’میں شاید اب سے اس دن اداس نہ ہوں پر خوشی کے طور پر منانا…‘‘ ۔
’’ہاں‘‘، نادر کی آنکھوں میں ایک دم چمک آگئی، ’’ اس کے لیے ہم سال کے پہلے دن نکاح کر لیتے ہیں۔ نکاح اس کے ایک ہفتے بعد تو ہونا ہی ہے تو ایک ہفتے پہلے ہی صحیح،‘‘ نادر نے مجھے کُہنی مارتے ہوئے کہا۔
’’سکینہ اس رشتے کی مہک تمہیں ان شاء اللہ صرف خوشیاں دے گی، میں تمہارا بہت خیال رکھوں گا، مطلب ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘
میں نادر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سننے لگی۔ یہ سب سن کر ہی خوشی میری روح کو چھونے لگی۔ نادر بولتے رہے، ’’ہرنئے سال پر ہم کسی نئی جگہ anniversary (اینی ورسری) منانے جایا کریں گے۔‘‘ پھر نادر نے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے ان کے چہرے کی مسکراہٹ کو بہ غور دیکھا اور پھر جھجکتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ نئے سال کی خوشیاں میرا کھل کر استقبال کر رہی ہیں۔
اگلے دن جب سب کو نادر کی تجویز اور میری رضا مندی کا پتا چلا تو سب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
ماما کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے شہر میں مٹھائی بٹوا دیں۔
’’بھئی میں سکینہ کی پسند کا زیور بنوائوں گی اور پلیز مجھے کچھ ایکسٹرا پیسے بھی دے دیجئے گا۔‘‘ ماما نے بابا کے آگے فرمائش رکھ دی۔
’’ہاں ہاں ضرور! ویسے کیا بیٹی کے ساتھ اپنے لیے بھی نیا سیٹ بنوانے کا ارادہ ہے؟‘‘ ابو نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں جی! میرے پاس تو پہلے ہی کافی زیور ہیں، وہی میں نے سکینہ اور سائم کی بیوی کے لیے رکھے ہوئے ہیں، بھلا مجھے نیا زیور بنوا کر کیا کرنا۔ وہ تو میں سعیدہ آپا کے لیے سونے کی چین بنوانا چاہتی ہوں۔ انہیں کی بدولت تو یہ سب ممکن ہو سکا ہے۔ ان کا بڑا ہاتھ ہے ہمیں ہمارے بچھڑوں سے ملوانے میں۔‘‘
ماما کا اپنائیت بھرا انداز دیکھ کر میرے چہرے کی مسکراہٹ بڑھ گئی۔ دوسری طرف امی، ابو اور خاص طور پر مرینہ کے خوشی سے قدم زمین پر نہیں ٹھہر رہے تھے۔ میں نے اور نادر نے فیصلہ کیا کہ شادی کے بعد ہم اپنے گھر میں رہیں گے۔ میں اپنا آشیانا خود سجائوں گی۔
اکتیس دسمبر 2015ء کو سب ماما بابا کے گھر ڈھولکی کے لیے جمع ہوئے۔ سامی کے سب دوست بھی شرکت کے لیے آئے۔ سامی نے میرے لیے سرپرائز ڈانس بھی تیار کیا تھا۔ سب نے خوب موج مستی کی۔ بابا اور ابو کے تو بھنگڑے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے۔ اس رات بارہ بجے نئے سال میں داخل ہوتے ہوئے ہر سو صرف خوشیاں نظر آئیں۔
یکم جنوری 2016ء کو شام پانچ بجے میرا نکاح نادر سے ہوا۔ ماما بابا اور امی ابو نے خوب دعائیںکیں۔ نکاح کے فوراً بعد بابا میرے کمرے میں آئے اور سب کو باہر جانے کو کہا۔ سب کے باہر جاتے ہی بابا میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ وہ چند منٹ مجھے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ میں مسکراتے ہوئے ان کی بات کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔
’’سکینہ! تم مطمئن ہو؟‘‘
بابا نے مجھ سے سوال کیا تھا پر مجھے ایسا لگا کہ آج انہوں نے مجھے جواب دیا ہے، ایسا جواب جو الجھنوں سے نکال دیتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ بابا کے اس سوال کو سن کر میرے اندر سکون کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔
مجھے ایسا احساس، اتنا مکمل کبھی محسوس نہ ہوا تھا۔ میرا دل چاہا کہ میں اس وقت سجدے میں گر کر اللہ کا شکر ادا کروں۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی میری آنکھوں سے گرم گرم آنسو ٹپک گئے، رنج یا ناشکری کے نہیں، تشکر کے۔
’’بابا مجھے وہ تسکین مل گئی جس کی آپ اپنی سکینہ کے لیے دعا کیا کرتے تھے، وہ تسکین جو صرف اللہ اپنے بندوں کو عطا کیا کرتا ہے۔‘‘

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!