تسکین — امینہ خان سعد

’’کیا ہم وہاں پانچ دس منٹ کے لیے رک سکتے ہیں؟ خواتین اور بچے گاڑی میں بیٹھے رہیں گے بلکہ آپ چاہیںتو آپ بھی گاڑی میں انتظار کر لیجئے گا ، میں بس فاتحہ پڑھ کر فوراً لوٹ آئوں گا۔‘‘
’’ابّو۔‘‘ میں نے احتجاج کرنا چاہامگرابّونے میری آواز نظر انداز کردی ۔
’’نہیں بھائی صاحب، میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا بس جلدی لوٹ آئیں گے۔ ایک تو ان لوگوں کا ذیادہ دیر باہر گاڑی میںاکیلے بیٹھنا ٹھیک نہیں، دوسرا ابھی سی ویو تک کنٹینر فری راستہ بھی تلاش کرنا ہے۔‘‘
’’میں بھی چلوں گی ابّو۔‘‘ میں نے ضدکرنے والے انداز میں کہا۔
’’سکینہ ہر جگہ نہیں گھستے۔‘‘ امّی نے ٹوکا۔
جب ہم مزار کے قریب پہنچے تو ممانی نے پوچھاکہ ’’کیا اتنی رات کو مزار کے اندر جانے دیں گے؟‘‘ جس پر ابّو نے کہا کہ’’یہ مزار بند تھوڑی ہوتا ہے اور اگر آج رات نہیں بھی جانے دیا تو باہر سے فاتحہ پڑھ لیں گے۔‘‘
ماموں نے گاڑی مزار سے تھوڑے فاصلے پر محفوظ جگہ پر پارک کردی۔ماموں اور ابّو اتر کر جانے لگے تومیں نے پھر ساتھ چلنے کی ضد کی۔ان دونوں نے اس بار بھی میری بات سنی ان سنی کردی۔میں پیچھے دروازے کے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور ان لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر میں فوراً ان کے پیچھے جانے کو گاڑی سے اتر گئی۔میں نے پھر سے آواز لگائی۔’’ میں بھی آرہی ہوں۔‘‘
ابّو نے پیچھے مڑے بغیر کہا،’’سکینہ گاڑی میں بیٹھی رہو۔‘‘
’’سکینہ واپس آئو۔‘‘ امّی گاڑی کے دروازے میں سے سر نکال کربولیں۔
’’میں نے ابّو کو بتا دیا ہے کہ میں بھی آرہی ہوں۔‘‘ میں نے تیزی سے امّی کو جواب دیا اور ابّو کے پیچھے چل پڑی۔
گاڑی مزار کے احاطے سے تھوڑا دور کھڑی کی تھی۔ جب ہم مزار کے قریب پہنچے تو میں نے ابّو کو پھر آواز لگائی۔جب انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور تیزی سے آگے بڑھتے رہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ ابّو کو نہیں معلوم شاید کہ میں پیچھے آرہی ہوں۔
اچانک دو آدمی میرے سامنے آگئے۔ ان میں سے ایک آدمی مسکرا کر بولا:’ ’وہ آگے تمہارے ابّو جارہے ہیں نا؟ شور میں تمہاری آواز انہیں نہیں جا ئے گی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ، میں بھاگ کر انہیں پکڑ لوں گی۔‘‘
’’ہم یہاں کے مالک ہیں ۔روز اسی طرح یہاں سو بچے گم ہوتے ہیں۔اگر تم بھی ادھر ادھر ہو گئیں تو کوئی بُرے لوگ پکڑ کر لے جا سکتے ہیں۔‘‘ دوسرا آدمی مجھے ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔




’’آپ سامنے سے ہٹیں ، مجھے راستہ دیں۔‘‘ میں نے دوسرے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
جب وہ دونوں سامنے سے ہٹے تو ابّو نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔اچانک لڑکوں کے شور اور بائیک کی آوازوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔سیدھے ہاتھ کی سڑک پر بہت سارے لڑکے شور مچاتے ہوئے گزر رہے تھے۔
جیسے ہی واپس ابّو کاخیال آیا ،میرے تو ہوش اڑنے لگے۔ نیا شہر، نئی جگہ اور ابّو غائب۔ پیچھے جاتی تب بھی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ماموں کی گاڑی کہاں کھڑی ہے۔ میں تو ابو اور ماموں کا پیچھا کرتے کرتے یہاں آئی تھی ، راستہ تو میں نے یاد نہیں رکھا تھا۔
ان آدمیوں نے جیسے میرے چہرے کے تاثرات سے میرے اندرونی خوف کو بھانپ لیا تھا۔
ان میں سے پہلا شخص بولا:’’ ہم یہاں کے مالک ہیں تمہیں تمہارے ابو کے پاس پہنچادیں گے۔ ہمیں شارٹ کٹ بھی پتا ہے۔‘‘
’’لگ تو نہیں رہے۔‘‘ میں نے ناک بھوں چڑا کر کہا۔
’’ارے بچی اتنے نخرے کروگی تو کھو جائوگی۔راستہ بہت لمبا ہے چلو تمہیں گود میں لے چلیں۔‘‘ یہ کہہ کر دوسرے شخص نے تیزی سے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ میرے چلانے یا کچھ حرکت کرنے سے پہلے ہی میرے چہرے پر کچھ محسوس ہوا اور لفظ ابو میرے منہ میں ہی گھٹ کر رہ گیا۔
ٹھک ٹھک، ٹھک ٹھک ٹھک، میں آواز سے اچانک چونکی۔ اوہ یہ تو کوئی میرے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہاتھا۔مجھے احساس ہوا کہ میں اتنی دیر سے ماضی کی سوچوں میںگم تھی۔ وقت کے مرہم نے زخموں کو کافی حد تک بھر دیا تھا۔پر اس رات کی وحشت اتنی گہری تھی کہ آنکھیں اب بھی کبھی تکیہ بھگودیتی تھیں۔ میں نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور گلے کو صاف کرکے اونچی آواز میں پوچھا، ’’کون‘‘؟
’’آپی‘‘، دوسری طرف سے سامی کی آواز آئی۔
’’ہاں بولو کیا کام ہے؟‘‘
’’آپی بابا آگئے ہیں آپ کو چائے پر بلا رہے ہیں۔‘‘
شام ہو گئی اور مجھے پتا بھی نہ چلا ، میں نے حیرت سے میز پر پڑی گھڑی اٹھا کر دیکھی۔
’’سامی میں آتی ہوں دس منٹ میں ، تم جائو۔‘‘
’آپی کیا آپ لیپ ٹاپ لے آئیں گی؟‘
’’ہاں لے آئوں گی،تم چلو۔‘‘
میں نے بسترسے ہاتھ منہ دھونے کے لیے اُٹھنا چاہا پر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرا جسم بہت ہی بھاری ہوگیا ہو۔ سال میں ایک دفعہ تو میری ایسی کیفیت ہو جاتی تھی۔یہ پچھلے سولہ برس سے ہورہا تھا اور ماما بابا کا پیار ہی مجھے اس کیفیت سے نکالتا تھا۔ ہمّت کرکے جب میں فریش ہوکر نیچے پہنچی تو میز سجائے سب چائے پر میرا انتظار کر رہے تھے۔
سامی کو میں نے لیپ ٹاپ پکڑایا اور وہ فوراً سموسہ ہاتھ میں اٹھاکر یہ کہتا ہوا کمرے سے باہرچلا گیا کہ اسے ضروری اسائنمنٹ بنانا ہے۔
جب ماما اور بابا نے اسے نہیں روکا تو میں سمجھ گئی کہ وہ میری حالت کا اندازہ لگا چکے ہیں۔
چائے پر بابا اپنے آفس کی باتیں کرتے رہے۔ جب ماما چائے کے برتن اٹھانے لگیں تو بابا نے ماما سے ایک کپ اور چائے کی فرمائش کی۔
ماما کے جاتے ہی بابا نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے۔’’سکینہ اللہ تمہیں اطمینانِ قلب اوروہ تسکین عطا کرے جس کا اس نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔‘‘ بابا نے جب جب مجھے یہ دعا دی، اس دعا نے مجھے ہمیشہ کافی پر سکون کیا۔
’’بابا یہ ہر سال نیو ایئر کیوں آتا ہے؟‘‘ میں نے شکوے بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’بیٹا ہر نیا سال نئی امید لے کر آتا ہے، ایسا مت سوچا کرو بیٹی۔نماز پڑھ کر اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ویسے بھی اس سال تو ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنے نئے گھر کی ہو جائو۔ نیا سال ہم سب کے لیے بہت خوشیاں لے کر آئے۔ خاص طور پر تم حسینہ سکینہ کے لیے۔‘‘ بابا کے انداز سے میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
ماما چائے لے کر آئیں تو بابا چائے کا کپ اٹھاکر اپنی اسٹڈی میں چلے گئے۔بابا کے مطابق چائے کی چسکیوں کے ساتھ کتاب پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اورہوتا ہے۔جاتے جاتے دبے لفظوں میں ماما کو میری دل جوئی کی تاکید کر گئے۔
’’بولو سکینہ اپنی تکلیف شیئر کرو بیٹی۔‘‘
’’ماما۔‘‘ میں سوچنے لگی اور ماما بڑے تحمّل سے میرے الفاظ اکٹھے کرنے کا انتظار کرنے لگیں۔
’’اس رات کیا ہوا مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ پر جب میری آنکھ کھلی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ اندھیرا تھا کیوںکہ میری آنکھوں اور منہ پر پٹّی بندھی تھی۔ صرف یہ محسوس ہو رہا تھا کہ گاڑی تیز رفتاری سے سڑک پر چل رہی ہے اور ہر طرف بدبو۔ ان بدبودار لوگوں کی سڑی بدبو۔‘‘
یہ کہانی ماما بہت بار سن چکی تھیں پھر بھی ہر بار مجھے اسے سنانے اور دل ہلکا کرنے کا پورا موقع دیتی تھیں۔
’’پھر مجھے کچھ یاد نہیں، ہاں کسی نے مجھے پانی پلایا تھا۔‘‘
ماما نے مجھے ہر دفعہ کی طرح گلے لگا لیا اور کچھ وقت کے لیے مجھے محسوس ہواکہ وہ جیسے صرف ایک برا خواب تھا۔ میں تو کبھی اپنے ماں باپ سے بچھڑی ہی نہیں۔ ماما اور بابا تو ہمیشہ پاس ہوتے ہیں۔
میں نے صوفے پر لیٹ کر ماما کی گود میں سر رکھ لیا۔وہ میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔
’’ماما آپ نے بادشاہی مسجد دیکھی ہے؟‘‘
’نہیں بیٹا‘۔
’’جب داتا دربار دیکھا ہے تو بادشاہی مسجد کیوں نہیں؟‘‘
’’جب ہم لاہور پہنچے تو سب سے پہلے واہگہ بارڈر گئے۔ پریڈ دیکھ کر بڑا ہی مزہ آیا۔اگلے دن میں نے لبرٹی مارکیٹ سے کولاپوری چپّل خریدی۔قلعہ دیکھنے کا بڑا ہی شوق تھا مجھے۔‘‘
میں ماما کی باتیں سنتے سنتے سو گئی۔
اگلے دن میرا موڈ صحیح تھا۔ماما نے کہا کہ آج ہم بازار جائیں گے۔ وہ میرے لیے نیا سوٹ لینا چاہتی تھیں تاکہ جب لڑکے والے آئیں تو میں ان کو بہت خاص لگوں۔
سارا دن گھومنے پھرنے ، شاپنگ اور کاموں کے بعد جب میں بستر پر سونے لیٹی تو مجھے پھر سے اپنا ماضی یاد آگیا۔بازار میںدراصل میں نے ایک عورت کو تین بچّوں یعنی ایک بیٹی اور دو بیٹوں کے ساتھ دیکھا تھا۔
بازار کی رونق میں تو مجھے کچھ احساس نہ ہوا پر اب بستر میں لیٹ کر اسی ماں اور بچّوں کا خیال آرہا تھا۔
تیرہ دسمبر ۲۰۰۰ء کے اس واقعے سے پہلے میرے بھی دو بھائی تھے۔ میری عمر تو 7 سال تھی، ان میں سے ایک 4 سال کا تھا اور دوسرا صرف دو سال کا۔ مجھے اپنے بھائیوں سے بہت پیار تھا۔ میری اور مجھ سے چھوٹے والے بھائی کی لڑائی بھی بہت ہوتی تھی پر میں اس سے لاڈ بھی بہت کرتی تھی۔
اکتیس دسمبر2000ء کے واقعہ نے مجھے اپنے بھائیوںسے جدا کر دیا تھا۔میں مزار کے باہر سے اغواء ہو گئی تھی۔ مجھے ایک ہی رات میں کراچی سے دوسرے شہر منتقل کردیا گیا تھا۔
جب اغوا ہونے کے بعد میری آنکھ دوسری بار کھلی تو میرا کمزوری سے برا حال ہورہا تھا۔اب میری آنکھوں پر پٹّی محسوس نہیں ہورہی تھی اس کے باوجود مجھ میں آنکھیں کھولنے کی سکت نہیں تھی۔ میں ہوش میں آکر بھی بے ہوشوں کی طرح پڑی رہی۔ میں کسی سخت زمین پر لیٹی ہوئی تھی۔
کچھ لوگ باتیں کر رہے تھے۔ اردو اور پنجابی دونوںزبانیں بول رہے تھیمیں نے خوف کے باوجود ان کی باتیں غور سے سننے کی کوشش کی۔
ایک آدمی کسی عورت کا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ کالیا مزار پر انتظار کر رہا ہے۔ ان کے پلان کے مطابق عورت نے مجھے گود میں اٹھانا تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہواور مال کالیا کے ساتھی سے اس آدمی نے مزار کے کسی دوسرے حصّے میں جاکرلینا تھا۔
کالیا کا نام سن کر میری جان نکل گئی۔ نام اتنا خطرناک ہے تو وہ خود کیسا ہوگا؟ میں نے روتے روتے امّی امّی پکارنا شروع کردیا۔
آدمی نے غصّے سے عورت کو مجھے پھر سے بے ہوش کرنے کا کہا۔ عورت اس پر چلائی کہ بچی کو بار بار بے ہوش کروگے، وہ بھی خالی پیٹ، تووہ مر جائے گی۔ پھر کالیا کوئی مال نہیں دے گا۔
اس عورت نے مجھے سہارے سے بٹھا کر پانی پلایا۔ میں نے ابھی تک پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ پانی پی کر میں ڈر کے مارے خاموشی سے لیٹ گئی۔میں بالکل چپ ہو گئی تھی اور پھر کوئی حرکت نہ کی۔
عورت سمجھی کہ میں دوبارہ خودی سے بے ہوش ہوگئی ہوں۔اس نے آدمی کو بھی یقین دلایا کہ کمزوری سے بچّی پھر بے ہوش ہو گئی ہے۔
آدمی کہیں چلا گیا۔ جب واپس لوٹا تو پتا چلا کہ رکشہ لینے گیا تھا۔عورت نے مجھے گود میں اٹھایا اور رکشے میں ڈالا۔ ایک طرف وہ عورت بیٹھی اور دوسری طرف وہ بدبودار شخص۔
عورت اس پر پنجابی میںناراض ہو رہی تھی۔ میری سمجھ میں صرف اتنا آیاکہ بادشاہی مسجد کے آس پاس ہی کالیا کو کیوں نہیں بلالیا۔ رکشے کے چکرمیں پڑناکیا ضروری تھا؟




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!