تسکین — امینہ خان سعد

چھے مہینے مسلسل تلاش کے بعد بھی جب امی ابو نہ ملے تو انکل آنٹی نے کراچی کے ایک اسکول میں مجھے داخل کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں اس عرصے میں ان سے کافی مانوس ہو گئی تھی۔ اپنے امی ابو اور بھائیوں کو یاد کرتی تھی مگر انکل آنٹی کے سچے پیار کو بہ خوبی محسوس کرنے لگی تھی۔
انکل آنٹی کی شادی کو پانچ برس ہو چکے تھے مگرجیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ان دونوں کو بچوں کا بہت شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جب تک امی ابو نہ مل جائیں میں ان کو اپنے ماں باپ کی جگہ سمجھوں۔ اگر وہ اتنے شفیق نہ ہوتے تو میں یہ کبھی قبول نہ کرتی مگر جتنا پیار پچھلے چھے مہینوں میں انہوں نے مجھے دیا تھا، میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہوتے ہوئے بھی قابل قبول تھا۔
شروع میں انکل نے اغوا کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا سوچا مگر ان کے وکیل دوست نے منع کر دیا تھا۔ اب وہ مجھے قانونی طور پر گوود لینے کا سوچ رہے تھے مگر آنٹی نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق میرے امی ابو کے ملتے ہی مجھے میرے اصلی ماں باپ کے حوالے کرنا ہو گا۔ آنٹی نے اسکول کے لیے بھی میری ولدیت تبدیل کرنے سے منع کیا کہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں۔ مشکل تو بہت ہوئی مگر مجھے کراچی کے ایک اچھے اسکول میں داخلہ مل گیا۔ کاغذات میں انکل نے اپنا نام سرپرست کے طور پر لکھوایا اور اسکول والوں کو یہی بتایا کہ میں آنٹی کے بھائی کی بیٹی ہوں۔ اسکول کے پہلے دن آنٹی انکل نے مجھے بڑے پیار سے رخصت کیا۔ رخصت کرنے سے پہلے انہوں نے مجھے سمجھایا کہ ’’آج سے آپ ہمیں ماں باپ سمجھنے کی پوری کوشش کرنا اور اچھا ہو گا اگر اسکول میں بچوں کو یہی پتا ہو کہ ہم آپ کے امی ابو ہیں۔‘‘
میں نے ان کو کھل کر بتایا کہ میں ان سے بہت پیار کرنے لگی ہوں مگر میرے لیے کسی اور کو امی ابو کہنا بہت مشکل ہے۔ طے یہ پایا کہ میں آنٹی کو ماما اور انکل کو بابا کہوں گی۔ یہ میری نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔




محلے میں لوگ یہ جانتے تھے کہ ماما بابا یعنی آنٹی انکل کسی دوسرے شہر سے اپنی بھتیجی کو پالنے کے لیے لائے ہیں۔ یہ بات لوگوں کے لیے اس وجہ سے قابل قبول تھی کیوںکہ سب کو علم تھا کہ ماما بابا اولاد کی شدید خواہش رکھتے تھے اور کوششوں اور دعائوں کے باوجود اب تک اولاد سے محروم تھے۔
اسکول جا کر میری زندگی روٹین میں آگئی۔ میرا اسکول میں دل لگنے لگا۔ اب میں روز روز امی ابو کو یاد کر کے نہیں روتی تھی۔ البتہ مہینے میں دو تین بار ایسا ضرور ہوتا۔
ماما بابا نے واقعی ماں باپ بن کر دکھایا۔ میری خواہشات، میری تربیت اور دل جوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
سال 2001ء کی آمد نے مجھے بہت ڈسٹرب کر دیا۔ اس رات میں ایک لمحے کو نہ سو سکی۔ پٹاخوں اور فائرنگ کی زور دار آوازیں آرہی تھیں۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ پٹاخوں اور فائرنگ کی آوازوں سے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ وہ بدبو دار آدمی یہاں کہیں پھر سے نہ آجائیں۔
اس رات جب بابا کے کچھ دوست جو بلڈنگ میں ہی رہتے تھے ان کو نیچے بلانے کے لیے آئے تو میں نے انہیں نہیں جانے دیا۔ میں نے پہلی دفعہ ان سے کوئی ضد کی تھی اور وہ میری بات مان گئے تھے۔ وہ رات خوف کے سائے کے ساتھ گزر ہی گئی اور وقت بھی گزرتا گیا۔ زندگی آرام سے گزرنے لگی۔ بابا نے امی ابو کو تلاش کرنے کی کوششیں کسی حد تک جاری رکھیں۔ وہ ابھی بھی باقاعدگی سے حیدرآباد والے مالک مکان کو فون کرتے کہ شاید ابو وہاں میری تلاش یا کسی کام کے سلسلے میں آئے ہوں۔ مگر امی ابو کا کچھ پتا نہ چلا۔ میری ماما بابا سے ملاقات کے ٹھیک دو سال چار مہینے بعد سامی پیدا ہوا۔ اللہ نے ماما بابا کو ایک بہت ہی پیارے اور صحت مند بیٹے سے نوازا تھا۔ وہ دونوں بہت ہی خوش تھے۔ انہوں نے مجھے بہت پیار کیا اور شادی کے سات سال بعد سامی کی پیدائش کو میری خوش قسمتی کا نام دیا۔ وہ ننھا مہمان گھر میں بہت رونقیں لے کر آیا تھا۔
اب سوچتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ میری خوش قسمتی تھی یا نہیں، یہ تو پتا نہیں البتہ ماما بابا کی نیکی کا صلہ ضرور تھا۔ وہ صلہ جو اس دنیا میں ملا تھا اور یقینا آخرت میں وہ اور بڑے اجر کے حق دار ہوں گے۔ سامی کی پیدائش کے دو سال بعد ہم نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ بابا کی ترقی ہو گئی تھی اوہ وہ اب بڑے افسر ہو گئے تھے۔ مجھے پتا ہی نہ چلا ماضی کی یادوں نے کب بریک لگائی اور میں کب نیند کی وادی میں چلی گئی۔
اگلے دو دن ماما کے ساتھ گھر کی صفائیوں اور سامی کو (Maths) میتھس پڑھانے میں گزرے۔ سامی سے مجھے بہت پیار تھا۔ اس نے میرے بھائیوں کے کھو جانے کے بعد بھائی بن کر کافی حد تک خلا پُر کیا تھا۔ جب چھوٹا تھا تو بہانے بہانے سے لاڈ اٹھواتا۔ جب بڑا ہوا تب بھی مجھے اس پر پیار آتا مگر کبھی کبھی اسے دیکھ کر مجھے اپنا سب سے چھوٹا بھائی ہمدان یاد آتا اور اس وقت میں چڑچڑی ہو جاتی کہ ہمدان اور سفیان یہاں کیوں نہیں ہیں۔
سامی جب چار پانچ سال کا تھا تب جب بھی میرا موڈ خراب ہوتا میں اس کی پسند کے کھلونے چھپا دیتی کہ وہ ان سے کھیلنہ سکے۔ میں اس بات پر خوش ہوتی کہ ماما بابا کو تو میری حرکت کا ذرا سا علم نہیں۔ موڈ جب واپس صحیح ہوتا تو میں کھلونے لوٹا دیتی۔
دو سال تک میں ایسا کرتی رہی۔ ایک دن میں نے سامی کا پسندیدہ کار سیٹ اپنی مخصوص جگہ پر چھپا دیا۔ سامی رو رو کر ڈھونڈتا رہا مگر میں نے نہ دیا۔ ایسے ہی دو دن گزر گئے، میں ماما کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ سامی روتا ہوا آیا۔ ماما کی گود میں سر رکھ کر معصومیت سے روتے ہوئے کار سیٹ کے کھو جانے کا بتانے لگا۔ ماما مسکراتے مسکراتے اچانک بولیں، ’’جائو ڈرائنگ روم کے بڑے صوفے کے نیچے دیکھو، وہاں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ میں ایک دم گھبرا گئی کہ ماما کو میری حرکت کا علم ہو گیا ہے اور اب میری شامت آئے گی۔ سامی کے کمرے سے جانے کے بعد جب ماما نے مجھے کچھ نہ کہا تو میری آنکھوں میں شرمندگی سے آنسو آگئے۔ مجھے سمجھ آگیا تھا کہ ماما میری حرکتوںسے اچھی طرح واقف تھیں پر میں حیران تھی کہ انہوں نے کچھ کہا کیوں نہیں۔
’’سوری ماما۔‘‘
’’بیٹا سوری مجھے نہیں آپ اپنے بھائی کو بولو۔ بڑی بہنیں اس طرح دل نہیں دکھایا کرتیں چندا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔
اس دن مجھے ماما کے جذبوں کی سچائی کا یقین ہو گیا۔ میں نے ان کے سگے بیٹے کو اتنا رُلایا تب بھی انہوں نے اتنی نرمی سے سمجھایا کہ میں اپنی ہی نظروں میں شرمندہ ہو گئی۔
اتنے پیار نے مجھے مکمل انسان بنا دیا تھا بس ماضی کے تلخ واقعے کی وجہ سے میرے اندر کچھ کڑواہٹ رہ گئی تھی۔ سامی کے علاوہ کوئی اور تھا نہیں جس پر میں اپنا غصہ نکال سکتی اسی لیے کبھی کبھار وہ میرا آسان شکار بن جاتا۔
میں نے تاریخ دیکھی تو آج بیس دسمبر ہو گئی تھی۔ آج سعیدہ آپا کے توسط سے لڑکے والے میرا رشتہ لے کر آرہے تھے۔
اس محلے میں ہم تقریباً پچھلے بارہ برس سے رہ رہے تھے۔ ادھر سب مجھے ماما بابا کی سگی بیٹی ہی سمجھتے تھے۔
ہمارے سیدھے ہاتھ والے گھر میں شاہدہ آنٹی رہتی تھیں۔ انہوں نے امی کو اپنی چھوٹی بہن بنایا ہوا تھا۔ صرف وہ اور ان کی بیٹی صوفیہ حقیقت جانتے تھے۔ صوفیہ کی دو بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔ صوفیہ مجھ سے ایک سال چھوٹی تھی مگر میری بہترین دوست تھی۔
امی نے آج شاہدہ آنٹی اور صوفیہ کو بھی بلایا تھا۔ بابا آفس سے جلدی آگئے۔ لڑکے والوں نے پانچ بجے تک آنا تھا۔
پانچ بجتے ہی دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ لوگ وقت کے پابند نکلے۔ مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
’’صوفیہ! صوفیہ! مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘
’’کیا نہیں ہو گا جانی۔‘‘ صوفیہ نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں پتا ہے یار، پتا نہیں کون لوگ ہیں؟ مجھے دیکھ کر کیا کہیں گے۔ جب انہیں میرے متعلق سچائی پتا چلے گی تو اس پر ان کا کیا ردِّ عمل ہو گا؟‘‘
’’ارے بس بس! ایک ساتھ اتنی ٹینشن نہیں لیتے۔ پلیز ریلیکس، آنٹی انکل ہیں نا۔‘‘
صوفیہ نے میرا ہلکا سا میک اَپ کیا۔ تیار ہو کر میں بال بلو ڈرائے (Blow dry) کر رہی تھی کہ ماما ہمیں بلانے کمرے میں آگئیں۔
’’کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی، صوفیہ بہت شکریہ بیٹا آپ کی ہیلپ کا۔‘‘
’’آنٹی کیسی باتیں کرتی ہیں، آپ کی بیٹی میری سب سے اچھی دوست ہے۔‘‘
’’ہاں وہ تو بالکل ہے، بس مجھے اتنا پتا ہے کہ تمہاری وجہ سے مجھے بڑی آسانی ہو گئی ورنہ تمہاری سب سے اچھی دوست کو تیاری کے لیے منانے میں ہی میری جان ہلکان ہو جاتی۔‘‘ ماما نے صوفیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ماما ایسی بات ہے تو ابھی منہ دھو کر آتی ہوں ۔‘‘میں نے ماما کو چڑانے کو کہا۔
’’سکینہ‘‘، ماما نے میرا کان پکڑ کر کھینچا، ’’چلو وہ لوگ ڈرائنگ روم میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ اب آجائو لڑکا بھی آنے والا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب وہ لوگ؟ لڑکا؟ کیا ایک ساتھ دو دو رشتے والوں کو بلا لیا ہے آپ نے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’عقل سے پیدل میری بچی، ایک ٹکٹ میں دو مزے نہیں لگے ہوئے۔ سمجھدار ہو کر بھی کبھی کبھار کیا بول جاتی ہو۔‘‘ ماما نے سر پکڑ لیا۔
’’آنٹی کنفیوزڈ تو میں بھی ہو گئی ہوں۔‘‘ صوفیہ نے امی کی طرف دیکھ کر کنفیوزڈ شکل بنائی۔
’’ارے لڑکیو، لڑکے کی فیملی گھر سے آئی ہے اور لڑکے نے آفس سے آنا ہے۔ وہ نکل چکا ہے بس راستے میں ہے۔ کسی بھی وقت پہنچنے والاہوگا۔ تم لوگ آکر فیملی سے تو مل لو۔‘‘
’’جی آنٹی ہم آتے ہیں۔‘‘ صوفیہ کے یقین دلانے پر امی کمرے سے چلی گئیں۔
’’چلو سُکو اپنا دوپٹہ اٹھائو اور فوراً چلو۔‘‘ صوفیہ نے بستر پر پڑے دوپٹے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ایسے کیسے؟ لڑکے صاحب ہمارے گھر والوں کو انتظار کروائیں اور ہم فوراً اینٹرٹین کرنے پہنچ جائیں۔‘‘ میں دھڑام سے بستر پر لیٹ گئی۔
’’ارے کیا کر رہی ہو، بال خراب ہو جائیں گے اور کپڑوں کی استری بھی۔‘‘
’’اچھا پانچ منٹ میں چل رہی ہوں۔‘‘ میں نے ٹالتے ٹالتے دس منٹ لگا دیئے۔ صوفیہ کو یقین تھا کہ اب تک تو لڑکا بھی آچکا ہو گا۔
ہم دونوں چھپ کر ڈرائنگ روم کے باہر کھڑے ہو گئے۔
’’چلو اندر چلو۔‘‘ صوفیہ نے میرے کان میں کہا۔
’’پہلے تھوڑی باتیں تو سننے دو۔‘‘ میں نے واپس سرگوشی کی۔
’’ویسے نام کیا ہے موصوف کا؟‘‘ صوفیہ نے پوچھا۔
’’لڑکا،‘‘ میں نے صوفیہ کو جھٹ جواب دیا۔ ’’ویسے واقعی میں نے نام تو ماما سے پوچھا ہی نہیں۔‘‘
اندر سے کسی خاتون کی آواز آرہی تھی،’ ’میرے چھوٹے بیٹے اور بیٹی میں تقریباً پانچ سال کا فرق ہے۔ اوپر تلے کے ہیں نا تو ان میں پیار بھی بہت ہے مگر ایک دوسرے کو ستاتے بھی بہت ہیں۔‘‘ ایک دم صوفیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور ہم دونوں نے ڈرائنگ روم میں اینٹری ماری۔
سب سے پہلے میری نظر ایک لڑکی پر پڑی وہ مجھے سامی کی تقریباً ہم عمر لگی۔ اس کے برابر ایک لڑکا بیٹھا تھا جو اس سے چند سال بڑا لگ رہا تھا۔
’’اچھا تو انہیں کا ذکر ہو رہا ہو گا۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
ہمیں دیکھتے ہی ماما بولیں، ’’ہماری بیٹی سکینہ اور اس کی دوست صوفیہ۔‘‘
میں نے سلام کرتے ہوئے جب اپنی نظریں ماما کے ساتھ بیٹھی خاتون پر ڈالیں تو ان کی نظریں پہلے سے ہی مجھ پر جمیں ہوئی تھیں اور وہ خاتون مجھے سکتے میں لگیں میں نے جب غور سے دیکھا تو میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ میں نے چاروں طرف حیرت سے نظریں گھمائیں۔ ایک لڑکا جو مجھے اپنا ہم عمر لگا، اس کے برابر بیٹھا شخص اور سکتے میں آئی خاتون، ان تینوں کو دیکھ کر مجھے چکر آنے لگے۔ اچانک وہ خاتون کھڑی ہو گئیں مگر ان کی نظریں مجھ پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ میرے کانوں میں ماما کی آواز آرہی تھی جو مجھے ان خاتون کے برابر میں بیٹھنے اور ساتھ ہی ان خاتون کو بھی واپس تشریف رکھنے کا کہہ رہی تھیں۔ ارد گرد کی آوازیں کانوںمیں پڑ رہی تھیں مگر اندر کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔ ان خاتون نے اچانک آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور روتے ہوئے بولیں، ’’میری بچی‘‘۔




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!