تسکین — امینہ خان سعد

میں نے پتا نہیں کتنے گھنٹوں سے نہ ہی کچھ کھایا تھا اور نہ ہی واش روم گئی تھی۔ اب تو کیفیت پوری طرح یاد نہیں پر سوچ کر اب بھی خوف طاری ہوجاتا ہے۔رکشہ ایک جگہ آکر رکا۔پتا نہیں کیسے میں بے ہوشی کا ڈرامہ ڈر کے مارے کرتی رہی۔ رکشہ جب رکا تو رکشے والے نے بھی پنجابی میں کچھ بولا اور پورے جملے میں مجھے صرف داتا دربار سمجھ آیا۔ عورت نے مجھے رکشے سے اتار کرپھر گود میں اٹھا لیا۔ میں نے اس عورت کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ان دونوں کے قدم آگے بڑھنا شروع ہو گئے۔اردگرد شور اور رونق محسوس ہوئی تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ایک سات سال کی بچّی کس خوف کے عالم میں ہوگی ، اس کا اندازہ لگانا اب کافی مشکل ہے۔
لوگوں کی چہل پہل سے مجھے لگا کہ شاید میرے امّی ابّو بھی وہاں موجود ہوں۔ وہ لوگ مزار کی بات کر رہے تھے تو کیا پتا یہ اسی مزار پر واپس لے آئے ہوں جہاں سے رات کو لے کر گئے تھے۔
تھوڑا چلنے کے بعداس وحشی آدمی نے غلیظ عورت سے کہاکہ وہ دوسری طرف مال لینے جا رہا ہے اور عورت اس کا انتظار کرے ۔’’ مال ہاتھ میں آجائے پھر بچّی کو کالیا کے حوالے کرنا۔‘‘
اس آدمی کے جاتے ہوئے قدموںکی آواز آئی تو میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ ہر طرف لوگ دکھ رہے تھے۔ پر یہ وہ جگہ نہیں لگ رہی تھی جہاں رات کو ماموں لے کر گئے تھے۔اچانک مجھے خیال آیا کہ ابّو اور ماموں کو آواز دے کر دیکھتی ہوں، کیا پتا وہ بھی مجھے یہاں ڈھونڈ رہے ہوں۔ میں نے ایک دم اس عورت کے کندھے سے سر اٹھا یا اورطاقت نہ ہونے کے باوجود زور سے آواز لگائی،’’ ابّو، ماموں، امّی، ابّو، امّی۔‘‘ عورت تھوڑا گھبراگئی۔ میں زور لگا کر نیچے اتر نے کی کوشش کرنے لگی ۔سات سا ل کی بّچی گود کے حساب سے اچھی بڑی ہوتی ہے۔ اردگرد کافی لوگ تھے اور شاید اس عورت کو پکڑے جانے کا ڈر تھا۔ ان دونوں کی باتوں سے پہلے ہی ایسا محسوس ہوا تھا کہ عورت اس کام میں نئی تھی۔




عورت نے مجھے مضبوطی سے پکڑ ا اور زور سے بولی ’’ ہاں بچّی میں ہوں نہ ادھر، تیری امّی، ابّو بس آرہا ہے چیز لے کر۔‘‘
میں پھر چلائی کہ ’’امی کو بلائو مجھے پانی چاہیے۔‘‘ کم زوری کی وجہ سے میری آواز بہت اونچی نہ تھی۔ پر بھاگ نکلنے کے عزم کی وجہ سے اتنی ہلکی بھی نہ تھی کہ کوئی سن نہ سکے۔اس عورت نے مجھے گود سے اتارنا ہی مناسب سمجھا۔وہ بولی’’میری بچّی ادھر رک، میں لاتی ہوں پانی ،کہیں جانا مت ادھر سے ہلّی تو ابّو مارے گا۔‘‘ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ دوسروں کو سنا کر یقین دلانا چاہ رہی ہو کہ میں اسی کی بیٹی ہوں۔ اس نے میری آنکھوں میں گھور کر ایسے دیکھاجیسے مجھے مارڈالے گی، پھر خود ہی بڑبڑانے لگی کہ’ ’جان ہوگی تو اٹھے گی، اچھا ہے پڑی رہے نیچے۔ وہ عورت مڑی تو میں نے یک دم ہجوم کی طرف دوڑ لگادی۔ میرے اندر اتنی جان کہاں سے آئی مجھے نہیں پتا پرلگتا تھا کہ غیب سے مددآئی تھی۔ مجھے اب یہ تو یاد نہیں کہ وہ عورت پانی لینے گئی بھی تھی کہ نہیں یا میرے پیچھے کب آئی، بس اتنا ضرور یاد ہے کہ میں ہجوم میں ایک عورت سے جا ٹکرائی تھی۔ اس عورت نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا،’ ’بیٹی کس کے ساتھ آئی ہو؟‘‘ میں نے روتے روتے امی ابو کا نام لیا۔ اس خاتون نے پوچھا ،’’کہاں ہیں تمھارے امی ابو؟ کیا گم ہو گئی ہو؟‘‘میں نے بڑی مشکل سے ٹوٹے پھوٹے انداز میں سمجھایا کہ میں ابو کے ساتھ آئی تھی اور گندے لوگ پیچھے پڑ گئے۔’’ڈرائونے انکل آنٹی رکشہ میں لائے ہیں۔‘ ‘ یہ بول کر میری سسکیاں بندھ گئیں اور پھر اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں۔
اس دن میں ماما سے ٹکرائی تھی۔ماما بتاتی ہیں کہ جب اس دن میں ان سے داتا دربار میں ٹکرائی تو میری حالت بہت بری تھی ،میں خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کمزوری سے پیلی پڑی ہوئی تھی۔ان سے بات کرتے کرتے میں بے ہوش ہو گئی۔
جب مجھے ہوش آیا تومیں لاہور کے کسی کلینک میں تھی۔ وہ شفیق عورت یعنی ماما اور ان کے فرشتہ صفت شوہر یعنی بابا، جو اب میرے ماما اور بابا ہیں، وہاں موجود تھے۔ وہ بے چینی سے میرے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
مختصراً یہ کہ داتا دربار پر میرے ماں باپ کو تلاش کرنے کی ان لوگوں نے کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے کیوں کہ نہ تو انہیں میرا نام معلوم تھا اور نہ ہی میرے ماں باپ کا۔میری حالت دیکھ کر وہ لوگ مجھے فوری علاج کے لیے ایک نجی کلینک لے آئے تھے جہاں مجھے ڈرپ لگی۔میری باتوں سے بابا کو کافی حد تک اندازہ ہوگیا تھا کہ میں اغواء ہو کر یہاںپہنچی ہوں۔ جب انہوں نے پولیس سے مدد لینے کا سوچا تو ان کے سا تھ موجود دوست نے سختی سے منع کیا کہ اس کام میں پولیس کی کالی بھیڑیں بھی بعض اوقات بھتہ لے کر ملوّث ہوتی ہیں۔
میری طبیعت جیسے ہی سنبھلی میں نے انہیں ساری کہانی تفصیل سے بتائی کہ کیسے میں حیدرآباد سے کراچی نئے سال کے جشن کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ آئی تھی ۔
جب انہیں پتا چلا کہ میرا تعلق لاہور سے نہیں بلکہ اتنے میلوں دور واقع ایک چھوٹے شہر حیدر آباد سے ہے اورمیں کراچی سے وہاں پہنچی ہوں تو وہ سر پکڑ کر رہ گئے۔ جب مجھے پتا چلا کہ میں لاہور پہنچ چکی ہوں تو میری تو جیسے بچی کچی جان بھی نکل گئی۔ مجھے صحیح سے نہیںپتا تھا کہ لاہور حیدرآباد سے کتنا دور ہے بس یہ یاد تھا کہ ابو ایک دفعہ اپنے کسی رشتے دار سے ملنے ملتان گئے تھے تو چھ دن بعد آئے تھے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا تھاکہ واپسی میں وہ لاہور سے ہوتے ہوئے آئیں ہیں اور ان کو زیادہ دن اس لیے لگ گئے کیوں کہ لاہور حیدرآباد سے بہت دور ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ میاںبیوی مجھے ریل گاڑی سے سیدھا کراچی لے آئے۔ وہ لوگ کراچی کے ہی رہائشی تھے۔ انہوں نے لاہور کے بعد اسلام آباد گھومنے جانا تھا مگر میری وجہ سے اپنا ٹرپ ادھورا چھوڑ کرمیرے امی ابو اور ماموں کی تلاش کے لیے کراچی لوٹ آئے۔ماموں کا پورا نام اور پتا تو مجھے معلوم نہیں تھا ،ہاں بس یہ جانتی تھی کہ ماموں کو سب گڈّو کہتے تھے۔یہ علم بھی نہیں تھاکہ کس علاقے میں رہتے تھے۔میری معلومات ان کو تلاش کرنے کے لیے ناکافی تھی۔
بابا نے مختلف ذرائع استعمال کیے۔ وہ ہر مرحلے پر بے حد محتاط رہے کہ کہیں میں کسی غلط ہاتھوں میں نہ چلی جائوں۔ وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔ ان لوگوں کی کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ دونوں ایک فلیٹ میں اکیلے رہتے تھے۔بہت سلجھے ہوئے اور نرم لہجے والے لوگ تھے۔ میری ذہنی حالت اچھی نہیں تھی۔وہ لوگ مجھ سے ذیادہ سوال جواب نہیں کرتے تھے۔ جب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی میرے گھروالے نہ ملے تو انکل، جو میرے بابا ہیں، نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے حیدرآبادلے کر جائیں گے۔مجھے اپنے حیدرآباد کے علاقے کا نام اور ابو کا پورا نام یاد تھا۔
جس دن ہم نے حیدرآباد کے لیے نکلنا تھا ،اس سے ایک رات پہلے ماما نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہم گھرگھر جاکر پورا علاقہ چھاننے کی بجائے سیدھا میرے اسکول جائیں۔وہاں سے گھر کا پتا بھی مل جائے گا اورباقی ضروری معلومات بھی۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا تو اسکول کا نام تو میں ظاہر سی بات ہے جانتی تھی۔
واہ یہ خیال مجھے کیوںنہ آیا۔ ’’صبح سات بجے تم بچی کے ساتھ تیار رہنا، اس بات کا دھیان رکھنا کہ تیاری میںدیر نہ ہو۔‘‘ ابو نے ماما کو تاکید کی۔صبح جب ماما ، جنہیں اس وقت میں آنٹی کہتی تھی،مجھے تیار کرنے لگیں تو مجھے بہت تیز بخار تھا۔ انہوں نے فوراً گرم دودھ کے ساتھ دوائی دی۔بخار نہ اترا تو ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کیں مگرپھر بھی بخار نے جلد اترنے کا نام نہ لیا۔بابا نے فیصلہ کیا کہ اس دن وہ اکیلے ہی امی ابو کی تلاش میں حیدرآباد جائیں گے۔
میں بخار میں اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کا نام پکارے جا رہی تھی۔ سفیان جو مجھ سے صرف ڈھائی برس چھوٹا تھا اور ہمدان جس کی عمر صرف دو سال تھی۔
میں گھر والوں کو یاد کر کے جیسے ہی روتی آنٹی مجھے حوصلہ دیتیں کہ انکل حیدر آباد گئے ہیں، ان کو تلاش کر کے لے آئیں گے۔
شام ہو گئی پر انکل نہ لوٹے۔ میرا بخار ہلکا ہو چکا تھا پر میں کچھ کھا پی نہیں رہی تھی۔ میںنے آنٹی کو بتا دیا تھاکہ میں کھانا اب انکل کے لوٹنے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ ہی کھائوں گی۔
انکل رات کو نو بجے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ بہت تھکے ہوئے اور افسردہ لگ رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ فکر نہ کرو اگر اللہ نے چاہا تو تمہارے امی ابو مل جائیں گے۔
میں دو دن تک پوچھتی رہی اور وہ تسلیاں دیتے رہے۔ دو دن بعد جب میری طبیعت کچھ سنبھلی تو انہوںنے سچائی میرے سامنے بیان کی۔
وہ میرے اسکول گئے تو وہاں سے معلوم ہوا کہ اسکول والے تو خود پریشان تھے کہ میں صرف دو دن کی چھٹی لے کر گئی تھی اور اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی نہیں لوٹی۔ میرے گھر کے نمبر پر کئی دفعہ کال ملائیپر کسی نے نہیں اٹھایا۔
میرے محلے سے ایک اور بچی بھی اسی اسکول میں پڑھتی تھی۔ میں دوسری جماعت میں تھی اور وہ تیسری۔ اس سے بھی اسکول والوں نے پتا کیا تھا۔ اس بچی کے مطابق کسی ماسی نے اس کی امی کو بتایا تھا کہ میرے امی ابو نے گھر خالی کر دیا ہے اور وہ کہیں اور چلے گئے ہیں۔
بہرحال اسکول سے میرے گھر کا پتا لے کر جب انکل میرے گھر پہنچے، تو بیل بجانے پر مالک مکان نے دروازہ کھولا۔ مالک مکان نیچے رہتے تھے اور انہوں نے اوپر کا حصہ ہمیں کرائے پر دے رکھا تھا۔
انہوں نے انکل کے پوچھنے پر بتایا کہ میرے ابو یعنی عبد المنان صاحب تو گھر خالی کر کے جا چکے ہیں۔ انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ ابو فیملی سمیت کراچی جا چکے ہیں۔ کس علاقے اور محلے میں یہ وہ نہیں جانتے تھے۔
میرے ابو نے محلے میں کسی کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ مالک مکان کے مطابق امی اور ابو کسی شخص کے ساتھ آئے تھے اور ایک ہی رات میں گھر خالی کر گئے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے صرف اتنا بتایا تھا کہ ابو کی دبئی میں نوکری لگ گئی ہے اور انہیں فوراً دبئی پہنچنا ہے، اس لیے ابو امی اور بچوں کو ان کے ماموں کے گھر کراچی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مالک مکان یہ جانتے تھے کہ حیدر آباد میں ہم لوگ صرف ابو کی نوکری کی وجہ سے رہتے تھے اور اب ابو کو دبئی میں نوکری مل جانے کی وجہ سے فیملی کو اکیلے حیدر آباد میں چھوڑ کر جانا کوئی اتنا محفوظ نہیں تھا۔
اس دن انکل نے محلے کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کس کو کچھ معلومات نہیں تھی بلکہ کچھ لوگ تو انکل کا ہی انٹرویو کرنے لگ گئے۔ ابو کے حیدر آباد میں دفتر کا پتا بھی نہ مل سکا۔ بس اتنا ہی پتا چلا کہ وہ کسی پرائیویٹ کمپنی میں اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔
جب یہ سب مجھے پتا چلا تو مجھے لگا کہ میری زندگی ختم ہو گئی ہے اور میں اب جلد مر جائوں گی۔ آنٹی انکل نے مجھے بہت سہارا دیا، امی ابو کے ملنے کی اُمید دلائی۔ ایک ہفتے بعد ہم تینوں پھر حیدر آباد گئے۔ انکل مجھے میرے اسکول لے کر گئے۔ پرنسپل کو حقیقت بتائی اور ٹیچروں سے بھی ملوایا۔
ٹیچرز نے مجھے پیار کیا۔ آنٹی کی خواہش پر میری ملاقات دو سہیلیوں سے بھی کروائی گئی۔ آنٹی کا خیال تھا کہ اس طرح میں بہتر محسوس کروں گی۔ انکل نے مجھے سمجھایا کہ بہتر ہو گا اگر میں دوستوں سے صرف اتنا کہوں کہ میں آج کل کراچی میں رہ رہی ہوں اور ان سے خاص طور پر ملنے آئی ہوں۔ مجھے واقعی اپنی دوستوں سے مل کر اچھا لگا اور ٹیچرز سے مل کر تسلی ہوئی۔بعد میں میری اسکول پرنسپل نے مشورہ دیا کہ جب تک میرے امی ابو کا پتا نہیں چلتا مجھے کسی دارالامان یا یتیم خانے میں داخل کروا دیا جائے۔
’’سکینہ، سوری بیٹا میں چاہتے ہوئے بھی آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ چھوٹا سا اسکول ہے اور ہمارا ہوسٹل تو ہے نہیں۔‘‘ پرنسپل میری طرف دیکھ کر بولیں۔ پھر وہ واپس انکل سے مخاطب ہوئی۔ ’’یہ ایدھی یا کسی ایسے دوسرے فلاحی ادارے میں زیادہ محفوظ رہے گی۔ آپ بس اخبار میں گمشدگی کا اشتہار چھپوا کر فلاحی ادارے کا پتا دے دیں۔‘‘
یہ سن کر میں آنٹی کے گلے لگ کر رونے لگی اور میں نے آہستہ سے ان سے کہا۔ ’’جب تک امی ابو نہیں ملتے میں کہیں نہیں جائوں گی۔ آپ کے پاس ہی رہوں گی۔‘‘
’’اخبار میں اشتہار کا ہم نے سوچا تھا مگر ہمیں ڈر ہے کہ جن درندوں کے ہاتھوں سے یہ معصوم بچی اللہ کی مدد سے بچ نکلی ہے وہ پھر پیچھے نہ آجائیں۔ بس آپ اتنا کیجئے گا کہ اگر اس کے گھر سے کوئی بھی آپ سے رابطہ کرے تو میں نے جو نمبر آپ کو دیا ہے، برائے مہربانی اس پر مجھے اطلاع کر دیجئے گا اور ان کو بھی میرا نمبر دے دیجئے گا۔‘‘
اسکول سے نکل کر ہم نے واپس کراچی کا راستہ اختیار کیا۔ دراصل انکل کو مجھے یوں میرے محلے میں لے جانا مناسب نہیں لگا۔
ان کے مطابق اگر سب کو میرے اغواء ہونے کی اطلاع ہو گئی تو اس سے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع بھی مل جائے گا۔




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!