تسکین — امینہ خان سعد

میں نے زور دیا، پھر بھی سامی میرے ساتھ چلنے کو رضامند نہ ہوا۔ شاید ماما اور بابا نے اسے سمجھایا ہو گا تاکہ میں کھل کر اپنے بھائیوں اور بہن سے باتیں کر سکوں۔
ابو مجھے صبح نو بجے لینے آگئے۔ انہوں نے ماما اور بابا کو رات کے کھانے پر مدعوکیا۔ جاتے ہوئے مجھے اطمینان تھا کہ ماما اور بابا سے چند گھنٹوں بعد ملاقات ہونی ہی ہے۔
امی اور ابو کا گھر تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ علاقہ کچھ دیکھا بھالا لگا پر میں پہچان نہیں پا رہی تھی۔ ابو نے بتایا کہ یہ وہی محلہ ہے جہاں ماموں رہا کرتے تھے۔ ابو کو کراچی میں نوکری ملنے کے چند ماہ بعد انہوںنے ماموں کے ہی علاقے میں گھر لے لیا تھا۔ ماموں کا گھر ، ماموں اور ممانی کی وفات کے بعد کرائے پر چڑھا دیا تھا اور نادر بھائی کو امی ابو اپنے ہی گھر لے آئے تھے۔ کرائے کی رقم نادر بھائی کی پڑھائی اور ان کے دیگر اخراجات میں استعمال ہوتی تھی۔ اب جب نادر بھائی خود اچھا کمانے لگے تھے تو کرائے کی رقم امی ان کی شادی کے لیے بچا کر رکھ رہی تھیں۔ میں اور ابو گھر پہنچے تو سب انتظار میں گیٹ پر ہی کھڑے تھے۔ گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو امی نے مجھے پھولوں کا ہار پہنایا اور ابو نے صدقے کے پیسے میرے سرپر سے وارے۔
میری چھوٹی بہن یعنی مرینہ پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑی تھی۔
’’آپا سامی نہیں آیا؟‘‘ ہمدان نے تجسس سے پوچھا۔
میرے جواب دینے سے پہلے ہی ابو بولے،’’بھئی سامی تو بڑا اچھا بچہ ہے، وہ اسکول کا کام ختم کر کے شام کو اپنے ماما بابا کے ساتھ آئے گا۔ تم لوگوں کی طرح تھوڑی کہ چھٹی والے دن پڑھائی کا کوئی ہوش ہی نہ ہو۔‘‘
’’بابا آپا کے سامنے بھی ایسی باتیں؟‘‘ سفیان اور ہمدان دونوں نے ناراضگی سے ابو کی طرف دیکھا۔ ابو اور مرینہ آنکھ مار کر ہنسنے لگے۔
’’نادر بیٹا، نادر دیکھو کون آیا ہے؟‘‘ امی نے آواز لگائی۔




’’اندرچلو، نادر کو باہر کیوں بلا رہی ہو؟ سکینہ کو اندر لے چلو، گھر دکھائو، نادر بھی اندر ہی مل لے گا۔‘‘ ابو نے امی کو ٹوکا۔ گھر اندر سے اچھا تھا، سلیقے سے چیزیں سجی ہوئی تھیں مگر اتنا اچھا سیٹ نہیں تھا جتنا کہ ماما نے گھر کو خوب صورتی سے سجا رکھا تھا۔ اس گھر کو دیکھ کر مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ یہ وہ حیدر آباد والا گھر تو تھا نہیں جہاں کی تھوڑی بہت چند دھندلی یادیں تھیں۔ ویسے بھی سات سال کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ بس ایک دو چیزیں ہی مجھے اس حیدر آباد والے گھر کی یاد تھیں۔
’’نادر یہ ہے ہماری سکینہ۔‘‘ امی کی بات پر چونک کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک بڑا ہی ہینڈسم لڑکا کھڑا تھا۔ میں دیکھتے ہی نادر بھائی کو پہچان گئی۔ ان کی شکل تو تبدیل نہیں ہوئی تھی مگر وہ کافی لمبے اور وجیہہ ہو گئے تھے۔
’’السلام علیکم سکینہ!‘‘ نادر بھائی نے بڑی اپنائیت سے سلام کیا۔ ’’پھپھو یہ تو بہت بڑی اور خوب صورت ہو گئی ہے۔ بچپن میں تو ایسی نہ تھی۔‘‘
کسی اور کے منہ سے اس طرح کی بات سنتی تو شاید مجھے شرم آجاتی مگر نادر بھائی کے منہ سے ایسی بات اور اتنی بے تکلفی، میں شاکڈ رہ گئی۔
کیا یہ وہی نادر بھائی ہیں جو چھوٹے ہوتے نہایت کم گو اور صرف جی امی جی امی کرتے تھے؟ میں نے حیرت سے سوچا۔
سارا دن مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ میری ایک ہی خالہ تھیں جو سولہ سال پہلے سعودی عریبیہ میں رہتی تھیں۔ امی نے بتایا کہ خالو کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھی کراچی شفٹ ہو گئی ہیں۔ میرے ابو تو اکلوتے تھے، دادی کا انتقال تو ابو کی شادی سے پہلے ہی ہو گیا تھا اور دادا کا انتقال جب میں پانچ سال کی تھی تو میرے سامنے ہوا تھا۔
دور کے کچھ عزیز و اقارب تھے، ابو کے مطابق وہ سب خیریت سے تھے۔
وقفے وقفے سے میں اورا می سولہ سال پرانا بھیانک واقعہ یاد کر کے روتے رہے۔ میں نے امی ابو کو بتایا کہ کس کس طرح بابا نے آپ لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ کراچی کے مختلف مزاروں پر جا کر بھی معلومات اکٹھی کیں۔ مالک مکان کو تقریباً دو سال تک فون کرتے رہے کہ کہیں اس دوران آپ نے ان سے رابطہ کیا ہو تو ملاقات کا سبب بن جائے۔
پھر میں نے ابو سے پوچھا کہ کیا انہوں نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی؟
’’بیٹا یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ کہاں کہاں نہیں تلاش کیا؟ پورے کراچی کی سڑکیں، ہسپتال، یتیم خانے چھان مارے۔ اس مزار کے باہر موجود ہر شخض سے پوچھ گچھ کی۔ میں نے پولیس میں بھی رپورٹ لکھوائی۔ مگر پولیس نے تو پیسے کھانے کے سوا کچھ نہ کیا۔‘‘ ابو نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارے ماموں کو کسی نے بتایا تھا کہ ایک گروہ ہے جو اس علاقے سے بچوں کے اغواء میں ملوث ہے اور پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔‘‘
’’ابو وہ بہت گندے لوگ تھے، مجھے ان کی شکلیں تو یاد نہیں مگر ان کی غلیظ بو آج تک یاد ہے۔‘‘ میں نے روتے ہوئے ابو کو بتایا۔
’’بس رو مت میری بچی، برے لوگوں کا یقین کروبرا انجام ہوتا ہے۔ عبدالمنان اس کو آٹھ سال پہلے کا قصہ تو بتائیں؟ امی نے ابو کو کچھ یاد دلایا۔
’’بیٹا تقریباً آٹھ سال پہلے کسی اہم شخص کا بچہ اسی علاقے سے اغواء ہوا تھا۔ اس شخص کے اثرو رسوخ کی وجہ سے پولیس کو پھرتی دکھانی پڑی۔ چھاپے پڑے، گرفتاریاں ہوئیں اور آخر کار وہ بچہ ایک ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ بازیاب ہوگیا۔ جب میں نے یہ سب اخبار میں پڑھا تو میں پھر سے تھانے پہنچ گیا۔ اس وقت تعینات افسر بھی ذرا معقول انسان تھا۔ اس وقت تک میرے کیس کی فائل تو بند ہو چکی تھی پر اس نے اپنی سی کوشش ضرور کی۔ بڑے دنوں کے انتظار کے بعد ہمیں یہ پتا چلا کہ اس رات اس علاقے سے دو بچیاں اغوا کی گئیں تھیں۔‘‘
ابو رُک کر کچھ سوچنے لگے، میں ان کی بات مکمل ہونے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد وہ بولے، ایک کوتو پتا نہیں فیصل آباد یاگوجرانوالہ میں بیچ دیا تھا اور دوسری کو لاہور، دراصل جس بچی کو فیصل آباد لے گئے تھے وہ تو تین دن بھی زندہ نہ رہ سکی۔ دوسری جس کو کسی نے لاہور کے گروہ کو بیچا تھا وہ اس گروہ کے پاس سے کسی طرح بھاگ نکلی۔ معلوم یہ پڑا کہ اس گروہ نے لاہور کا چپا چپا چھان مارا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس گروہ کو شک ہوا کہ کراچی کے گروہ نے بچی واپس اٹھا لی ہے۔ شک کی بنیاد پر جو افراد بچی کو لاہور لے کے گئے تھے ان میں سے ایک کو قتل کر ڈالا۔ دونوں گروہوں میں دشمنی ہو گئی۔ ایک دوسرے کو مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر۔‘‘
’’مگر لڑکی نہ ملی۔‘‘ میں نے آنسوئوں کے بہنے سے پہلے ہی پونچھتے ہوئے کہا۔
میں نے آنسوبہنے نہ دیئے کیوں کہ یہ سب سن کر مجھے اللہ کی رحمت کا اور زیادہ اندازہ ہو گیا تھا۔ میں کتنے خطرناک ہاتھوں میں تھی، میرے ساتھ پتا نہیں کیا ہونے والا تھا۔ اللہ نے ماما اور بابا کو فرشتہ بنا کر بھیجا۔ کس طرح میں ان بدمعاشوں کی نظر سے اوجھل ہوئی؟ ماما اور بابا کس طرح مجھے باحفاظت کراچی لے آئے۔سوچوں نے میرا گھرائو کر لیا۔ ’یعنی بابا کا پولیس میں رپورٹ نہ کرانے کا فیصلہ درست تھا کہ پولیس تو حقیقتاً ملی ہوئی تھی۔ دوسری بچی کا سوچ کر میرے آنسو قابو میں نہ رہے، پتا نہیں کیا گزری ہو گی اس پر جو وہ سب سہ ہی نہ سکی۔
’’سکینہ تم نہیں جانتیں کتنی اذیت میں گزارے ہیں اتنے سال۔ جب اس گروہ کے چھے افراد کو سزا ملی تو مجھے کافی حد تک چین آیا مگر تم سے نہ ملنے کی بے چینی اپنی جگہ رہی۔‘‘ امی خودپر قابو نہیں رکھ پا رہی تھیں۔ ’’یہی دعا کرتی تھی کہ تم جہاں بھی رہو بس محفوظ ہاتھوں میں ہو۔ دل کہتا تھا کہ تم زندہ ہو۔ اٹھتے بیٹھتے تمہاری خیریت کی دعا کرتی۔‘‘
’’کیا ان کو سزا ہو گئی تھی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا! ان کا سرغنہ اور اس کے دو ساتھی تو پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے اور اس کے علاوہ چھے بندوں کو سزا ہوئی تھی۔
یہ سن کر میں امی کی گود میں سر رکھ کر پندرہ منٹ تک مسلسل روتی رہی۔ غم، ندامت اور شکرانے، سب کے آنسو جب اچھی طرح بہہ گئے تو مجھے کافی تسکین محسوس ہوئی۔
اُن مکار، جعلساز اور ظالم درندوں کو سزا پاتے اور اپنے انجام تک پہنچتا سوچ کر مجھے آج ایسی تسکین محسوس ہو رہی تھی کہ ناقابل بیان ہے۔
شام کو ماما، بابا اور سامی بھی پلان کے مطابق امی ابو کے گھر آگئے۔ جب میں نے ماما اور بابا کو ان درندوں کا انجام بتایا تو وہ بھی بے حد خوش ہوئے۔ ’’برائی کا انجام بدترہوتا ہے۔‘‘ بابا نے کہا۔ کھانے کی میز پر ہنسی مذاق چلتا رہا۔ ماما آتے ہوئے میری ضرورت کا کچھ سامان لے آئیں تھیں کہ اگر میں امی ابو کے ہاں رکنا چاہوں تو مجھے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ میں رکنا چاہتی تھی مگر ماما کو بہت مس کر رہی تھی۔
موقع پا کر میں نے ماما سے اکیلے میں اپنی فیلنگس (جذبات) شیئر کیں۔
’’ماما، میں بہت خوش اور مطمئن ہوں مگر اب تو مجھے اور مشکل لگ رہا ہے۔‘‘
’’الحمدللہ میری بیٹی مطمئن نظر آرہی ہے مگر مشکل کیسی؟‘‘
’’اب تو میرا دل ایک ہو کر دو جگہ اٹک رہا ہے۔ میں یہاں رہ کر امی اور ابو کے ساتھ وقت بتانا چاہتی ہوں، مرینہ کو جاننا چاہتی ہوں۔ ساتھ ہی میں آ پ سے الگ نہیں ہونا چاہتی۔ میں آج دن بھر آپ کو مس کر رہی تھی۔‘‘ میں نے کھل کر بتایا۔
’’آپ دونوں یہاں ہیں ، میں آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں دل ناز، آپ نے جو ہمارے لیے، مطلب ہماری بیٹی کے لیے جو کچھ کیا ، جس طرح اسے ماں بن کر پالا۔‘‘ امی اچانک ہی کمرے میں داخل ہوئیں اور ماما کا شکریہ ادا کرتے کرتے رو پڑیں۔
’’آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ سکینہ نے ہماری بیٹی بننا قبول کیا۔ اس کی قسمت سے ہمارے گھر بیٹا ہوا۔ عبدالمنان کی ترقی ہوئی، اس میں تو جیسے ہماری جان ہے۔‘‘ ماما نے مجھے ماتھے پر پیار کیا۔
’’سکینہ تم خوش ہو نا؟‘‘ امی نے جانتے ہوئے بھی تصدیق کرنا چاہی۔
’’ماشا اللہ خوش ہے مگر تھوڑی پریشان ہے۔ کیوں نہ اس کی پریشانی دور کر دی جائے؟‘‘
’’کیسی پریشانی؟‘‘ امی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’اس کا دل دونوں گھروں کے بیچ اٹک رہا ہے۔ تو بھئی اس ہفتے تو سکینہ اس گھر کو اپنا گھر پوری طرح سمجھے، یہاں چند راتیں گزارے مگر ایک ہفتے بعد یہ گھر سکینہ کا سسرال اور ہمارا گھر اس کا میکہ ہو گا۔‘‘ ماما نے بڑی خوشی خوشی کہا۔ میں ماما کی بات سن کر چونک گئی۔
’’سسرال؟ میکہ؟ کیا مطلب؟ اس طرح تو ماما آ پ مجھے مزید پریشان اور بے چین کر رہی ہیں۔‘‘
’’سکینہ تمہیں نادر کیسا لگا؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’نادر بھائی، ٹھیک لگے۔ بچپن سے کافی مختلف۔ پہلے کم گو ہوتے تھے اب کافی مذاق کرتے ہیں۔ کھانے کی میز پر تو ان کے چٹکلے کافی مزاحیہ تھے۔‘‘
’’بیٹا ہم لوگ چاہتے ہیں کہ تمہاری اور نادر کی شادی ہو جائے۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ایک دو ہفتے بعد منگنی رکھ لیتے ہیں اور دو مہینے بعد شادی۔ منگنی اور شادی کے درمیان تم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بھی مل جائے گا۔‘‘
امی کی اس تفصیل پر مجھے شرم آگئی۔ نادر بھائی مجھے اچھے لگے تھے۔ وہ کافی ہینڈسم ہو گئے تھے اور ان کی حس مزاح کافی اچھی تھی۔ ان کی بیوی کم سے کم بور تو نہیں ہو گی، میں نے سوچا۔
’’کیا سوچ رہی ہے میری بٹیہ‘‘، ماما کی آواز سے میں چونکی۔
’’کچھ نہیں جو آپ لوگوں کو بہتر لگے، بابا کو اعتراض تو نہیں؟‘‘ میں نے ماما کی طرف دیکھ کر دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں ان کو تو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ تو نادر سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔‘‘ پھر ماما امی سے متوجہ ہوئیں، ’’پر مجھے اعتراض ہے۔‘‘
یہ سن کر امی کے تاثرات خوشی سے پریشانی میں بدل گئے۔ ’’کیا نادر یا ہمارے گھرانے سے آپ کو کوئی شکایت ہے؟‘‘ امی نے فوراً پوچھا۔
’’بھلا سکینہ کے گھرانے سے ہمیں کوئی شکایت ہو سکتی ہے؟ بھئی مجھے تو اطمینان ہو گیا ہے کہ میری نازوں سے پلی بیٹی کی کوئی روایتی ساس نہیں ہو گی بلکہ ماں کا پیار ملے گا۔ بھئی میں تو یہ چاہتی ہوں کہ منگنی کی جگہ ان دونوں کا نکاح ہو جائے۔‘‘




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!