تسکین — امینہ خان سعد

میں ان کے بازوئوں میں جاتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو کمرے میں صرف ماما، بابا، وہ خاتون اور ان کے ساتھ آئے ہوئے وہ شخص تھے جن کو میں نے بے ہوشی سے پہلے دیکھا تھا۔
ماما میرے سرہانے اور وہ خاتون میرے پائوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خاتون زاروقطار رو رہی تھیں اور ماما کی آنکھیں بھی بھری ہوئی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان لوگوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے پانی کا چھڑکائو کیا ہو۔ جب میں نے پوری طرح آنکھیں کھولیں تو وہ چاروں میرے اور قریب آگئے۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ ہماری بیٹی کو ہوش آگیا۔‘‘ بابا بولے۔
’’سکینہ، میری جان، ٹھیک ہو؟ مجھ سے بات کرو بیٹی۔‘‘ ماما نے کہا۔
میں دو منٹ تک سب کو باری باری دیکھتی رہی پھر ہمت کر کے اٹھ کر بیٹھی۔
’’ماما… ماما یہ میرے … امی ابو ہیں۔‘‘ میں نے اٹکتے ہوئے کہا اور میرے آنسو گرنے لگے۔ ماما نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا۔ وہ خاتون یعنی میری امی اب چپ ہو چکی تھیں۔
’’اللہ بہت رحیم ہے سکینہ۔ اللہ نے اتنے سالوں بعد تمہیں ان سے اپنے ہی گھر میں ملوا دیا۔ یہ خود چل کر تمہارے پاس آگئے۔‘‘ ماما نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ میرے امی اور ابو جن سے میں سات سال کی عمر میں بچھڑی تھی آج اچانک میرے سامنے موجود تھے۔ میرے ابو یعنی میرے سگے باپ نے آگے بڑھ کر میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ ’’بیٹا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے، تم الحمد للہ نہ صرف زندہ ہو بلکہ اتنے اچھے اور شریف لوگوں کے خاندان کا حصہ ہو۔‘‘
اگلے آدھے گھنٹے تک میں اور امی گلے لگ کر روتے رہے۔ جب رو رو کر دل کچھ ہلکا ہوا تو امی بولیں، ’’تم کہاں چلی گئی تھیں اس رات۔ ہم نے تمہیں کہاں کہاں نہیں تلاش کیا۔‘‘




’’شروع میں تو تمہاری ماں جیسے نیم پاگل ہو گئی تھی۔‘‘ ابو بھی آنسوئوں کے ساتھ بولے۔
’’سکینہ کو بھی سنبھلنے میں بہت عرصہ لگا۔ بہت بیمار ہو گئی تھی یہ بھی۔‘‘ ماما نے امی اور ابو کو بتایا۔
’’ارے بھئی اب تو ڈبل منہ میٹھا کر وانا پڑے گا سب کا دل ناز، یہ تو بڑی خوشی کا موقع ہے۔ اب دکھ بھری باتیں فی الحال بند کرو۔‘‘ بابا نے ماما کو تاکید کی۔
’’ابو میں بابا کے ساتھ حیدر آباد آئی تھی آپ لوگ وہاں نہیں تھے۔ بابا نے آپ لوگوں کو ہر جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر۔‘‘ میرے اندر کے سوالات جیسے باہر آنے کو بے چین تھے۔
ہاں بیٹا تمہیں آرام سے بیٹھ کر ساری تفصیل بتائیں گے۔ تمہارا احوال بھی جاننا ہے پر جیسا کہ بھائی صاحب کہہ رہے تھے یہ تو ڈبل خوش کا موقع ہے ابھی تو بس مٹھائی کھا کر شکرانے کے نفل ادا کرنے چاہئیں۔‘‘ ابو نے کہا۔
میں خوش تھی مگر مزید الجھ رہی تھی، ’’کیا مطلب ڈبل خوشی؟‘‘ میں نے سوچا۔ ’’قسمت سے امی ابو سے اپنے ہی گھر میں ملاقات ہو گئی ہے‘ ہاں مگر وہ رشتہ ؟ وہ رشتہ جس کی وجہ سے وہ لوگ یہاں آئے ہیں؟ کیا میرے اپنے ہی چھوٹے بھائی کا رشتہ میرے لیے آیا تھا؟ اُف خدایا! اور یہ لوگ تو ایسا محسوس ہو رہا ہے اب بھی اس کی خوشی منا رہے ہیں، ساری حقیقت جاننے کے بعد بھی؟‘‘ میری سوچوں نے مجھے بہت الجھا دیا۔
ماما جو کہ مجھے اچھی طرح سمجھتی تھیں، کچھ بھانپتے ہوئے بولیں: ’سکینہ اپنے بھائیوں اور بہن سے نہیں ملو گی؟‘‘
’’چھوٹے بھائی ہمدان کو تو میں بالکل نہیں پہچان پائی تھی مگر بہن ؟ میری تو کوئی بہن نہیں تھی۔‘‘ مجھے سوچتے ہوئے حیرت ہوئی۔
’’سکینہ تمہاری گمشدگی کے تین سال بعد اللہ نے ہمیں تمہاری بہن سے نوازا۔ وہ تم سے تقریباً دس سال چھوٹی ہے۔ مرینہ نام ہے اس کا‘‘۔ امی مجھے اس بہن کے بارے میں بتانے لگیں جس کے وجود سے میں اب تک واقف نہ تھی۔
’’وہ جو یہاں بیٹھی تھی؟ سامی سے ایک سال چھوٹی ہوئی۔ سامی، ہاں سامی کہاں ہے ماما؟ اس کو آپ نے کیا بتایا؟‘‘ میںنے ماما کی طرف دیکھ کر بے چینیسے پوچھا۔
’’بیٹا وہ آپ کے بہن اور بھائیوں کے ساتھ لان میں ہے۔ صوفیہ بھی انہیں کمپنی دے رہی ہے۔‘‘ پھر ماما امی کی طرف دیکھ کر بولیں: ’’ہمارے سامی کو بھائیوں کا بہت شوق تھا۔ جب چھوٹا تھا تو کہتا تھا کہ میرے دوستوں کے بھائی ہیں وہ ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہیں اور میرا ایک بھی بھائی نہیں ہے۔ اب اس کا یہ شوق بھی پورا ہو گیا، ایک نہیں تین تین بھائی آگئے۔
’’کیا مطلب تین تین؟ یعنی میرے جانے کے بعد کوئی بھائی بھی پیدا ہوا تھا؟‘‘ میں نے ایک دم حیرانی سے پوچھا۔ وہ چاروں میری بات سن کر ہنس پڑے۔
’’سکینہ تمہیں اپنے ماموں کا بیٹا نادر یاد ہے؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’کچھ کچھ۔‘‘ میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’بس وہ تیسرا بھائی ہے۔‘‘ امی کی یہ بات سنتے ہی ماما نے جھٹ سے کہا۔
’’مگر تمہارا نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے بھائی نادر کا ہی تو رشتہ لے کر آئے ہیں یہ لوگ۔ اس کے آفس سے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی تم بے ہوش ہوگئی تھیں۔ وہ بھی باقی بچوں کے ساتھ ابھی لان میں موجود ہے۔‘‘
’’اوہ تو یہ لوگ امی کے بھتیجے کا رشتہ لائے تھے۔‘‘ یہ سوچ کر میری الجھن کچھ کم ہوئی۔
’’امی تو ماموں اور ممانی نہیں آئے۔‘‘
’’بیٹا ماموں اور ممانی نے تو ہمارا بڑا ساتھ دیا۔ حیدر آباد سے ہمارا سارا سامان منگوا کر ہمیں اپنے ہی گھر میں رکھ لیا تھا۔ تمہیں بڑا تلاش کیا تمہارے ماموں نے۔ بس زندگی نے ان کا زیادہ ساتھ نہ دیا۔ آج سے دس سال پہلے ان دونوں کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔‘‘
مجھے سمجھ نہ آیا کہ میں کس طرح ری ایکٹ کروں۔
’’یہی بات ہم دل ناز بہن کو مل کر بتانا چاہتے تھے کہ اب ہم ہی نادر کے ماں باپ ہیں۔‘‘
سولہ سال کا عرصہ واقعی بہت طویل ہوتا ہے۔ امی اور ابو کی زندگیوں میں بہت سی تبدیلیاں آچکی تھیں اور میری زندگی تو مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔
کاغذات میں میری اور سامی کی ولدیت مختلف تھی۔ ماما اور بابا نے اسی وجہ سے میرا اور سامی کا داخلہ دو الگ اسکولوں میں کروایا تھا تاکہ ولدیت سے متعلق سوالات ہم دونوں میں سے کسی کو نہ الجھائیں۔
بابا نے اپنی دور اندیشی کے باعث بہت سال پہلے سامی کو اتنا آئیڈیا دیا تھا کہ میں بہت چھوٹے ہوتے ماما اور بابا کے پاس آئی تھی۔ میرا تعلق ماما کے خاندان سے ہے۔
میری پیدائش کے بعد میرے ماں باپ کہیں چلے گئے تھے اور جاتے وقت مجھے ماما بابا کو گود دے گئے۔
سامی نے مجھے ہمیشہ اپنی سگی بہن ہی سمجھا تھا۔ اس نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ اس کو یقین ہے کہ بابا نے یہ سب کہانی بنائی ہے اور میں اس کی سگی بہن ہی ہوں۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ بابا ایسا کیوں کریں گے تو اس نے کہا، ’’تاکہ میں آپ سے کبھی نہ لڑوں کہ کہیں لڑائی کے بعد آپ اپنے اصلی امی ابو کے پاس نہ چلی جائیں۔‘‘
’’تم ہمارے ساتھ چلو سکینہ۔‘‘ امی نے کہا۔ میں نے ماما کی طرف دیکھا۔
’’سکینہ بیٹے! آپ کاجو دل چاہے آپ وہ کرو۔ ہماری طرف سے پوری اجازت ہے۔‘‘ ماما بڑے حوصلے سے بولیں مگر ان کی آنکھوں میں خوشی اور غم ایک ساتھ اس طرح نظر آئے جس طرح ایک ماں کی آنکھوں میں بیٹی کی شادی والے دن اس کو رخصت کرتے ہوئے ہوتے ہیں۔
میں جانا بھی چاہتی تھی اور نہیں بھی۔ میں عجیب سی کشمکش کا شکار ہو رہی تھی۔ اس وقت جو میری ذہنی حالت تھی وہ بیان کرنا ممکن نہیں۔
’’کیا ہم سب ایک ہی گھر میں نہیں رہ سکتے؟‘‘ میرے دل نے سوال کے ساتھ ساتھ خواہش کی۔
’’شاید میرا ابھی جانا مناسب نہیں۔ سامی بہت حساس ہے، وہ تو بہت ڈسٹرب ہو جائے گا۔‘‘ میں نے سوچا۔
جب میں نے کچھ دیر تک کوئی جواب نہ دیا، تو بابا بولے ’’آپ لوگ چاہیں تو آج رات یہیں قیام کر لیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے ابھی ہم چلتے ہیں کل صبح میں سکینہ اور سامی کو آکر لے جائوں گا۔‘‘ ابو نے کہا۔
باہر موجود کسی کو کوئی علم نہیں تھا کہ اندر کیا ہو رہا ہے، سوائے صوفیہ اور نادر کے۔
چاروں بڑوں نے یہی مناسب سمجھا کہ آرام سے بیٹھ کر ان کو تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔ اگلے دن کا پلان بنا کر امی ابو گھر لوٹ گئے۔
ایک ہی وقت میں ہنسنا اور رونا، یہ میرے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بڑا عجیب احساس تھا۔ اندر تک گہرائی میں خوشی محسوس ہو رہی تھی مگر مجھے اس دن احساس ہوا کہ مجھے زندگی میں کسی قسم کی محرومی نہیں تھی ورنہ آج محرومی کے مٹنے کا احساس ہوتا۔ مجھیمجرموں کا خوف اور ان کی آزادی سے جینے پر شکایت تھی۔
کیا تھا’ کوئی تشنگی؟ جس کو میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا نام دوں؟ میں خوشی کے ساتھ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گئی تھی۔ ایک طرف امی ابو جو کہ سولہ سال بعد مجھے ملے تھے۔ ان کا گھر، میرے بھائی اور ایک نئی بہن۔
دوسری طرف ماما بابا جو کہ اب میرے لیے شاید امی ابو سے بڑھ کر تھے۔ سامی کے لیے میرے دل میں کتنا پیار تھا، اس کا احساس مجھے اس دن ہوا جب میں چاہتے ہوئے بھی سامی کی وجہ سے امی اور ابو کے ساتھ نہیں گئی تھی۔
مجھے مسرت تو ہو رہی تھی مگر وہ تسکین حاصل نہ ہوئی جس کی مجھے تلاش تھی۔
وہ رات کسی نہ کسی طرح گزر ہی گئی۔ صبح صبح سامی میرے کمرے میں آیا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا سب سے پسندیدہ ٹیڈی بیئر (Teddy Bear) تھا۔ یہ اس کے بچپن کا کھلونا تھا مگر سامی اتنا بڑا ہو کر بھی اب تک اس ٹیڈی سے دلی طور پر وابستہ (attached) تھا۔ وہ اسے الماری میں چھپا کر رکھتا تھا تاکہ کسی کو اس بات کا پتا نہ چلے اور کوئی اس کا مذاق نہ اُڑائے۔چار سال پہلے جب ماما اور بابا کچھ گھنٹوں کے لیے کہیں دور درس پر گئے ہوئے تھے تو میں نے مذاق میں وہ teddy چھپا دیا تھا۔ سامی اس کو ڈیڑھ گھنٹے تک پاگلوں کی طرح تلاش کرتا رہا اور جب وہ تھک کر روتے ہوئے ماما کے موبائل پر فون کرنے لگا تو میں نے جلدی سے وہ ٹیڈی لا کر دے دیا تھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا تھا کہ اس ٹیڈی کی سامی کی نظر میں کیا اہمیت ہے۔
سامی نے ہاتھ بڑھا کر وہ teddy مجھے دیا۔
’’یہ میرا سب سے فیورٹ ہے، x-box (ویڈیو گیم) سے بھی زیادہ۔‘‘
’’تو پھر اپنی فیورٹ چیز مجھے کیوں دے رہے ہو‘‘؟ میں نے پوچھا۔
’’کیوںکہ آپ اس سے بھی زیادہ فیورٹ ہو۔‘‘ یہ کہہ کر سامی نے مجھے گلے لگا لیا۔
’’یعنی ماما بابا اس کو بتا چکے ہیں۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
’’آپ تیار نہیں ہوئیں، ماموں آپ کو لینے آنے والے ہیں۔‘‘ سامی نے پیچھے ہٹ کر کہا۔
’’ماموں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی، آپ کے ابو! میرے ماموں ہیں نا۔‘‘ سامی بابا نے کہا۔ وہ بات جومجھے بابانے بچپن میں بتائی تھی وہ سچ نکلی آپا۔‘‘ سامی نے نظریں نیچی کر کے کہا۔
’’پر میں تمہاری بہن ہوں۔‘‘
’’وہ تو آپ یقینا ہیں!‘‘ سامی زور دے کر بولا۔ ’’ماما کہہ رہی تھیں کہ اگر آپا کو کوئی اعتراض نہ ہو تو مجھے بھی ماموں کو ابو ہی پکارنا چاہیے۔‘‘
’’اعتراض؟ نہیں نہیں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں پر سامی، تم کیا بابا کو ابو بولنا؟‘‘ میںنے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’نہیں بابا تو ہیں ہی میرے ابو اور مجھے انہیں بابا کہنا اچھا لگتا ہے پر ماموں کو کیا ہم دونوں ابو کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’یہ واقعی ماما بابا کا بیٹا ہے، اس کا دل کتنا بڑا ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
’’ہاں تو ابو ہم دونوں کو لینے آرہے ہیں، تم بھی تو تیار نہیں ہوئے؟‘‘
’’نہیں ابھی آپ جائیں میں شام کو ماما بابا کے ساتھ آئوں گا۔‘‘




Loading

Read Previous

نصیب — تنزیلہ احمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!