نصیب — تنزیلہ احمد

آئیے! مجھ سے ملیے ، میرا اور حضرتِ انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاید میں تب ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا جب انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔
میرے اچھے ہونے کی دعائیں دی اور مانگی جاتی ہیں۔کوئی میری بلائیں لیتا ہے ، میرے صدقے واری جاتا ہے ، تو کوئی مجھے کوسنے دیتا ہے۔ کسی کے لیے میں ہی سب کچھ ہوں، ان کی خوشیوں اور خوش حال زندگی کی ضمانت اور کسی کے لیے ان کی تمام ناکامیوں اور مشکلوں کا ذمہ دار، صرف اور صرف میں قرار پاتا ہوں۔
انسان نے تو مجھے بہت ارزاں کر دیا ہے۔ ہر چیز، ہر عمل، ہر بات بلا چون و چرا میرے سر تھوپ دیتا ہے۔ چاہے اس میں میرا کوئی قصور نہ ہو تو بھی۔ چاہے سب ان کا اپنا کیا دھرا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر آخر میں قصور وار میں ہی ٹھہرایا جاتاہوں، کیوں کہ میں نصیب جو ہوا… لوگوں کا اپنا نصیب۔
یہ درست ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کے نصیب میں ہو، مگر صرف میں ہی تو سب کچھ نہیں ہوں، تو پھر ہر بات کا الزام مجھ پر ہی کیوں؟ ذمہ دار میں ہی کیوں؟
انسان اشرف المخلوقات ہے، عقل اور شعور رکھتا ہے۔ پاک رب نے درست اور غلط ہر چیز اس کے سامنے کھول کے رکھ دی ہے تا کہ انسان راہنمائی حاصل کر سکے۔ اپنے معاملات درست کر سکے، مگر نہیں! انسان وہی کرتا ہے جو اسے ذاتی طور پر پسند ہو اور جو وہ کرنا چاہتا ہو اپنی خوشی اور مرضی میں وہ اس بات سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے کہ یہ وہ غلط کر رہا ہے یا درست۔
سچ تو یہ ہے کہ برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ جب انسان کا کیا دھرا نقصان کی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے، تو وہ مجھے کوسنے دینا شروع کر دیتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟کیوں اس کا نصیب ہی خراب ہے ؟ کیوں اس کے نصیب میں ہی یہ سب لکھا تھا؟ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے، تو کیا خود کو جانچے پرکھے بغیر سارا الزام مجھ پر یعنی معصوم ’’نصیب‘‘ پر دھر دیناکیا درست عمل ہے؟ کیا یہ غلطی پہ غلطی نہیں؟
محنت نہ کرنا، کوشش نہ کرنا، اچھے کام نہ کرنا اور بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور پھر دعا کرنا کہ دنیا کی ہر خوشی، دولت اور کامیابی حاصل ہو جائے، نصیب بہترین اور شان دار ہو، کیا یہ سب انسان کو زیب دیتا ہے؟ یہ بھی سچ ہے کہ میرا انسان کی زندگی میں عمل دخل شروع سے ہے اور آخر تک رہے گا۔ بہت ساری نعمتیں صرف نصیب ہی سے ملتی ہیں، یہ ہی اٹل حقیقت ہے۔
مگر سب کچھ نصیب کے سر دھر کر خود ہاتھ پائوں چھوڑ کر بیٹھے رہنا بھی تو انتہائی بے وقوفی ہے۔ سچ ہے کہ جو نصیب میں ہوتا ہے انسان کو مل کر رہتا ہے، چاہے گمان سے کتنا ہی باہر کیوں نا ہو اور جو نصیب میں نہ ہو وہ سامنے ہو کر بھی نہیں ملتا، مگر زیادہ کی ہوس کو نصیب بنا کر جو میسر ہے اس کی بھی ناقدری کرنا، اسے بھی پسِ پشت ڈال دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟
اور آخر میں پھر وہی ہوتا ہے کہ انسان سب کچھ گنوا کر روتا ہے، تڑپتا ہے، مجھے کوسنے دیتا ہے، مگر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادارک نہیں کرتا، اپنی اصلاح نہیں کرتا بلکہ سب کچھ نصیب کے سر تھوپ کر خود مہان بن جاتا ہے کہ دیکھو! میں کتنا اچھا ہوں کہ میں نے اپنے نصیب پر صبر کیا۔
اب آپ ہی بتائیے کیا یہ جائز اور ٹھیک عمل ہے؟ کیا سب کیا دھرا میرا ہی ہے؟کیا میں یعنی ’’نصیب‘‘ ہی انسان کے حالات کا قصورار ہوں؟ کیا یہ سب خطائیں میری ہیں؟ صرف اور صرف نصیب کی؟ انسان کی نہیں؟ آپ ہی ذرا سوچیے اور انصاف پر مبنی فیصلہ کیجیے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

Read Next

تسکین — امینہ خان سعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!