ماما کی بات سن کر امی خوشی سے کھل اٹھیں اور سب کا منہ میٹھا کرانے کا انتظام کرنے کچن کی طرف چلی گئیں۔
’’ماما کیا کسی نے نادر بھائی سے پوچھا ہے؟ انہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟‘‘
’’جب تم کمرے میںمرینہ سے باتیں کر رہی تھیں تو ہم چاروں بڑوں نے اسے بلا کر بات کی تھی۔‘‘
’’تو وہ کیا بولے؟‘‘ میںنے تجسس سے پوچھا۔
’’اس نے کہا بھلا مجھے کیا اعتراض میری تو لاٹری لگ گئی ہے‘‘، امی نے مسکرا کر کہا اور نادر کی مذاق کی عادت کا سوچ کر میرے چہرے پر بھی گہری مسکراہٹ آگئی۔
میں نے تین چار دن امی ابو کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا۔
دو دن میں نے سفیان، ہمدان اور مرینہ سے خوب باتیں کی۔ سامی بھی شام کو آجایا کرتا، پھر ہم سب مل کر مختلف گیمز کھیلتے۔ نادر آفس سے کافی لیٹ آرہے تھے اور تھکاوٹ یا شاید میری وجہ سے کھانے کے بعد جلد ہی اپنے کمرے میں چلے جاتے۔
امی نے بتایا کہ آج کل ان کے دفتر میں زیادہ کام آیا ہوا ہے، ورنہ عام طو رپر چھے بجے تک آجاتے ہیں۔ وقت اچھا گزر رہا تھا۔ تیسرے دن میں نے امی سے واپس ماما بابا کے گھر جانے کی اجازت لی۔ امی نے کہا کہ نادر آفس سے آکر مجھے مرینہ اور ہمدان کے ساتھ چھوڑ آئیں گے۔
دوپہر کے کھانے کے بعد ہم سب لائونج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اچانک سفیان نے امی سے کہا، ’’امی میری سب دوست تو اس دفعہ پورٹ گرینڈ (Port Grand) جا رہے ہیں نیو ایئر منانے۔‘‘
’’وہاں تو سنا ہے ہر سال بڑا ہی رش ہوتا ہے۔‘‘ امی نے کہا ۔
’’بھئی اس سال تو میرے دوست گھر آئیں گے رات گزارنے۔‘‘ ہمدان نے اپنا پلان سنا ڈالا۔
’’امی میں بھی پورٹ گرینڈ جائوں گا، کنسرٹ اور فائر ورکس دیکھنے۔‘‘ سفیان کے ضد بھرے انداز پر امی سر ہلاتے ہوئے بولیں: ’’اچھا چلے جانا مگر اپنے ابو سے اجازت لے کر۔‘‘
یہ باتیں سن کر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی، یعنی اس گھر کے افراد ابھی بھی نیو ایئر مناتے ہیں۔ اس رات میں ان لوگوں سے جدا ہوئی تھی ، میں نے کتنی عذیت اٹھائی تھی مگر یہ لوگ اس رات کے بارے میں ایسے بات کر رہے تھے جیسے اس رات اس گھرانے کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوا تھا اور باقی لوگوں کی طرح ان کے لیے بھی یہ صرف خوشی اور ہلہ گلہ کا دن تھا۔
ان سوچوں میں الجھ کر میں تیزی سے اٹھی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔امی میرے پیچھے آئیں۔
’’کیا ہوا سکینہ؟‘‘ امی نے مجھ سے پوچھا۔
’’امی اس گھر میں آپ لوگ ابھی بھی نیو ایئر مناتے ہیں؟‘‘ میں نے آنسوئوں کے ساتھ پوچھا۔’’میرے ساتھ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اس رات اور میرے بھائیوں کو نیو ایئر کی پڑی ہے۔‘‘
’’سکینہ‘‘ امی نے میرے آنسو پونچھے۔ ’’اب تم ہمارے ساتھ ہو، یہ سال تو ویسے ہی خوشی کا ہے۔‘‘
’’یعنی آپ کہہ رہی ہیں کہ اتنے سال انہوںنے نیو ایئر پر کچھ نہیں کیا اور اچانک میرے ملتے ہی نیو ایئر منانے کا خیال آگیا؟‘‘
’’نہیں بیٹا میں نے یہ نہیں کہا۔ میرے مطابق اہم بات یہ ہے کہ اب تم ہمارے ساتھ ہو۔‘‘ امی نے گہرا سانس لیا۔ ’’دیکھو بیٹا تمہارے جانے کا ہم سب کو بہت رنج و غم تھا، مجھے اور تمہارے ابو کو شدید تکلیف تھی مگر اس وجہ سے ہم باقی بچوں کو مزید تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے لیے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی زندگی میں مگن رہیں۔ ویسے بھی وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے، بہت سی چیزیں نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ان کا چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر حق تھا۔‘‘
’’پر میں نے تو اس خوشی کا حق سامی سے چھینا ہوا تھا۔‘‘ میںنے دل میں سوچا۔
’’امی میں ابھی گھر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اس وقت؟ بیٹا نادر کو آنے دو وہ خود چھوڑ آئے گا۔‘‘
مجھے ایک دم خیال آیا کہ پانچ بجے سامی ڈرائیور کے ساتھ آئے گا مجھ سے ملنے۔ میں نے گھڑی دیکھی تو تقریباً سوا چار ہو رہے تھے۔ ’’میں ذرا واش روم جا رہی ہوں‘‘، میں نے امی کو کہا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ اگلے آدھے گھنٹے تک میں ٹھنڈے پانی کے نیچے شاور میںکھڑی رہی۔ پانی کے ساتھ آنسو بھی بہتے رہے۔ جب میں تیار ہو کر باہر لائونج میں آئی تو سامی آچکا تھا۔
’’سامی تم آگئے؟ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔ میں کمرے سے اپنا سامان لے کر آتی ہوں، تم سب سے مل کر گاڑی تک پہنچو۔‘‘
’’آپا! مرینہ تو کہہ رہی تھی کہ آپ لوگ رات کو نادر بھائی کے ساتھ آئیں گے؟‘‘ سامی نے معصومیت سے کہا۔
’’نہیں جب ابھی گاڑی آئی ہوئی ہے تو اُن کو کیوں تکلیف دینی۔‘‘
میرا جواب سن کر سفیان اور ہمدان مجھے چھیڑنے لگے، ’’اوہو! اُن کو تکلیف؟ ابھی سے اتنا خیال‘‘؟
میں نے ان کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ سب کو خدا حافظ کہہ کر میں سامی کے ساتھ ماما کے گھر کے لیے روانہ ہو گئی۔
اچانک ہمیں دیکھ کر ماما حیران تو ہوئیں مگر خوشی میں کوئی سوال جواب نہیں کیے۔ بابا بھی آفس سے آچکے تھے۔ ماما نے فوراً چائے کی میز سجانی شروع کر دی۔
’’پتا ہے آپا! ماما آج بہت اچھے اچھے کھانے بنا رہی ہیں۔‘‘ سامی نے ایکسائٹڈ (excited) ہو کر بتایا۔
’’کیوں آج ایسی کیا خاص بات ہے؟ کیا کوئی مہمان آرہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے بھئی! پہلے تو میری بیٹی تین دن بعد آئی ہے اور دوسرا نادر پہلی دفعہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ اب ہونے والے ’’داماد‘‘ کے لیے اہتمام تو کرنا پڑتا ہے۔‘‘ امی نے میری کمر پر تھپکا۔
’’آپ کو کس نے کہا کہ وہ … میر امطلب ہے نادر یہاں کھانا کھائیں گے؟‘‘
’’تنزیلا بہن نے فون کر کے بتایا تھا کہ نادر، مرینہ اور ہمدان تمہیں آج رات چھوڑنے آئیں گے۔ تو میںنے تنزیلا بہن سے کہا کہ آپ سب تشریف لے آئیں اور کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘ سامی نے بے تابی سے پوچھا۔
’’پھر یہ کہ اتنے کم وقت میں وہ دعوت کسی مصروفیت کی وجہ سے قبول نہ کر پائیں اور معذرت کر لی‘‘۔
’’اوہ ہ ہ!‘‘ سامی نے مایوسی کا اظہار کیا۔
’’البتہ! انہوں نے کہا کہ نادر، مرینہ اور ہمدان ضرور آپ لوگوں کے ساتھ ڈنر کریں گے۔‘‘
’’اُف! امی نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
’’نادر پتا نہیں میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ میں تو منہ اٹھا کر سامی کے ساتھ آگئی۔ اب وہ کھانے پر آئیں گے بھی یا نہیں؟‘‘
’’کیا سوچ رہی ہو سکینہ؟‘‘ امی نے مجھے سوچوں میں گم پا کر پوچھا۔ ’’کچھ نہیں، پتا نہیں نادر کو پتا ہے یا نہیں، میں تو سامی کے ساتھ آگئی، اب وہ آئیں گے یا نہیں؟‘‘
’’آجائیں گے وہ ، اگر تم فون کر کے خود انوائیٹ (invite) کر لو تو کیوں نہیں آئیں گے۔‘‘ امی نے چھیڑتے ہوئے پیار سے کہا۔
میرا موڈ کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ میں کسی کو فی الحال فون کرنے کے موڈ میں نہیں تھی اور نہ ہی میں نادر کو یہ پتا لگنے دینا چاہتی تھی کہ میرے دل میں کوئی خفگی ہے۔ ویسے بھی نادر تو اس بات چیت کا حصہ بھی نہیں تھے۔
’’امی آپ فون کر دیجئے پلیز! میں فریش ہو کر آتی ہوں۔‘‘
میں ہاتھ دھو کر جلدی سے آگئی کہ بابا کو چائے کی میز پر مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔ بابا چائے پر گپ شپ کر کے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں گم سم بیٹھی ٹی وی کو تک رہی تھی۔
’’سکینہ کچھ سنائو، کتنا مزہ آیا تنزیلا بہن کے گھر؟‘‘
’’بہت مزہ آیا لیکن آپ کو بہت مس کیا۔‘‘
پھر میں اچانک سامی سے مخاطب ہوئی۔ ’’سامی‘‘۔
’’جی آپا۔‘‘ وہ صوفے پر بیٹھا اپنے فون میں گیم کھیل رہا تھا۔
’’تم نیو ایئر پر اپنے دوستوں کے ساتھ‘‘، میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سامی میری بات کاٹتے ہوئے بولا، ’’نہیں آپا سوری وہ تو میں ایسے ہی کہہ رہا تھا، ویسے بھی میرے ایگزیمز (exams) ہونے والے ہیں۔ میرے پاس تو کہیں جانے کا ٹائم نہیں۔ وہ تو…‘‘ سامی نے امی اور میری طرف دیکھ کر شرمندگی سے کہا۔
’’نہیں تم اپنا پلان رکھو۔‘‘
’’سامی جائو بیٹا اپنے کمرے میں جائو اور پڑھائی کرو، ابھی مرینہ اور ہمدان آجائیں گے تو پڑھائی نہیں ہو سکے گی۔‘‘
سامی کو اندر بھیج کر ماما مجھے غور سے دیکھنے لگیں جیسا کہ میرے اندر کے احساسات، میرے چہرے کے تاثرات سے جاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔
’’ماما‘‘ مجھے پتا تھا کہ ماما چاہتی ہیں کہ میں کھل کر انہیں اپنے دل کا حال بتائوں۔
’’ادھر آئو! میری گود میں سر رکھ کر آرام سے لیٹ جائو۔‘‘ ماما کے بلانے پر میں فوراً صوفے پر لیٹ گئی اور ان کی گود میں سر رکھ لیا، یہ ہی مجھے چاہیے تھا۔
’’ماما! سفیان اور ہمدان ہر سال نیوا ئیر مناتے ہیں۔ میں نے سامی پر اتنی سخت پابندی لگائی مگر میرے وہ بھائی جن کے پاس سے میں جدا ہو کر اُس درد ناک صورت حال سے گزری، وہ تو ہر سال خوشیاں مناتے رہے۔‘‘
’’تو کوئی بات نہیں اب تو آپ ان سب کو مل گئی ہو نا، وہ بچے اگر کچھ خوشیاں منانا چاہتے ہیں نئے سال کی تو اپنا دل بڑا کر لو بیٹا۔‘‘
’’ماما! آپ نے سامی کی دفعہ تو مجھے کبھی نہیں سمجھایا۔ جب میں نے امی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ زندگی رک نہیں سکتی اور کسی ایک کی وجہ سے باقی بچوں کی خوشیاں مارنے کا حق کسی کو نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے رک کر گہرا سانس لیا، ’’امی کی بات سن کر مجھے احساس ہواکہ آپ لوگ تو جب میں بولتی زندگی آگے بڑھے تو آگے بڑھاتے، جہاں میں آپ لوگوں کو روک دیتی، آپ رک جاتے، کیوں ماما؟ آپ نے ایسا کیوں کیا، اپنے اور خاص طور پر سامی کے ساتھ؟‘‘ میں نے آنسوئوں کے ساتھ پوچھا۔
’’سکینہ کسی کی تکلیف کم کرنے سے زندگی کی اصل خوشی ملتی ہے۔ ان لوگوں کے ہر سال باہر جانے سے کسی اور کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تھی مگر اگر ہم جاتے یا سامی کو جانے دیتے تو تمہیں تکلیف ضرور ہوتی۔ آپ کے بابا نے کوشش کی تھی آپ کو آہستہ آہستہ سمجھانے کی مگر … مگر ان کو احساس ہو گیا تھا کہ اگر ہم زندگی اپنے حساب سے گزارتے جائیں گے تو آ پ کے زخم پکے ہوتے جائیں گے۔‘‘ ماما نے رک کر میرے گال سے آنسوں پونچھے۔
’’آپ کے بابا نے کہا تھا کہ انہیں اُس دن اصل خوشی اور تسکین ملے گی جس دن ہماری سکینہ مکمل طور پر سکون میں ہو گی۔‘‘
’’آپ لوگ فرشتے ہیں۔‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا اب تو خوشی محسوس کرنے کا موقع ہے، اپنا دل کسی کی طرف سے خراب نہ کرنا۔ سب تمہارے اپنے ہیں تمہارے چاہنے والے۔ اپنی طرف بڑھتی ہر خوشی کو خوش آمدید کہو۔
تمہارے امی ابو زندہ ہیں، ہم زندہ ہیں، تمہارے پاس دو دو ماں باپ کی دعائیں ہیں۔ آگے بڑھو سکینہ۔ برے لوگ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اللہ کی رحمت کو ہر طرف محسوس کرو۔‘‘
ماما سے بات کر کے مجھے واقعی بہت اچھا محسوس ہوا تھا۔ یہ احساس بھی ناقابل بیاں ہے۔ میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہی تھی کہ حقیقت میں میرے دو دو ماں باپ ہیں اور وہ بھی اتنے چاہنے والے، اپنی جان چھڑکنے والے۔پھر بھی میں شکر کرنے میں کنجوسی کر رہی تھی۔
نادر لوگ وقت پر پہنچ گئے۔ ماما نے واقعی کافی اہتمام کر رکھا تھا۔ شاہدہ آنٹی اور صوفیہ کو بھی بلایا تھا مگر صوفیہ کی نانی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ لوگ ان کو دیکھنے گئے ہوئے تھے۔