آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

وہ پاکستان میں امامہ کے قیام کا تیسرا ہفتہ تھا… وہ شروع کے دو ہفتے لاہور میں ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں کے پاس گزار کر اب باقی دو ہفتے اسلام آباد رہنے آئی تھی۔ زندگی اب یوں بھاگم دوڑ میں گزر رہی تھی کہ اسے اس ’’برابر والے گھر‘‘ کو دیکھ کر بار بار اداس ہونا بھی یاد نہیں رہا تھا… وہ گھر بک چکاتھا۔ امامہ جانتی تھی اور اس کے کھلے کشادہ لان پر اب مزید تعمیرات ہوچکی تھیں۔ گھر کا نقشہ بھی کچھ کا کچھ کردیا تھا اس کے نئے مکینوں نے…
سکندر عثمان اور طیبہ اب وہاں اکیلے رہتے تھے… طیبہ وقتاً فوقتاً اپنے سب بیٹوں کے پاس دوسرے ملکوں میں آتی جاتی رہتی تھیں، لیکن ان کا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں ہی گزرتا تھا…امامہ اور اس کے بچوں نے سکندر عثمان اور ان کی روٹین کی زندگی کو اسی طرح توڑا تھا جیسے ان کے باقی بچوں کا اپنی فیملیز کے ساتھ آنا توڑتا تھا۔
سالار پاکستان امامہ کے ساتھ آیا تھا۔ ان کی فلائٹ اسلام آباد ہی کی تھی۔ دو تین دن امامہ اس کے ساتھ وہاں رہتی پھر اس کے ساتھ لاہور چلی جاتی اور پھر وہاں سعید اماں اور ڈاکٹر سبط علی کے پاس کچھ دن گزار کر واپس اسلام آباد آجاتی اور پھر وہیں سے واپس کانگو چلا جانا تھاا سے…
وہ وہاں ان کی آمد کا دوسرا دن تھا جب سالار نے اسے امریکہ میں اپنے کسی پرانے دوست کے بارے میں بتایا تھا جو اب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان میں مقیم تھا اور سالار سکندر سے ملنا چاہتا تھا، اسے مبارک باد دینے کے لئے…
سالار اپنے پرسنل وزٹ پر تھا لیکن اس ایک ہفتے میں بھی اسے مسلسل بہت سے سرکاری عہدے داران اور احباب سے ملنا تھا جو اس کو ورلڈ بینک کی نائب صدارت سنبھالنے پر ابھی تک ذاتی طور پر مل کر مبارکباد نہیں دے سکے تھے۔
کئی سالوں بعد سعد اپنی فیملی کے ساتھ سالار سے ملنے اس کے گھر آیا تھا اور سالار فوری طور پر اسے پہچان ہی نہیں سکا تھا… وہ مکمل طور پر باریش تھا اور اس کی داڑھی اسی فی صد سفید ہوچکی تھی جسے رنگنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ وہ بے حد مہنگے برانڈ شلوار قمیض میں ملبوس تھا لیکن شلوار اس کے ٹخنوں سے اوپر تھی… وہ فربہی مائل تھا اور اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کھانے پینے کا شوقین تھا اور ایکسرسائز سے اسے دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ نقاب لئے ہوئے اس کی بیوی، ایک آٹھ سالہ بچہ اور دو چھوٹی بچیاں تھیں۔
وہ اور اس کی بیوی سالار اور امامہ سے بڑی گم جوشی سے ملے تھے۔ امامہ جانتی تھی سعد، سالار کے شناساؤں میں سے تھا، قریبی دوستوں میں سے نہیں، لیکن اس کے باوجود سعد اپنی گپ شپ اور بلند و بانگ قہقہوں کے دوران سالار کے اس کے ساتھ امریکہ میں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں ایسے ایسے قصے نکال کر سناتا رہا جیسے وہ اور سالار بہترین اور بے حد گہرے دوست رہے تھے… یار غار قسم کے دوست۔
’’مجھے تو ہمیشہ سے ہی اندازہ تھا کہ سالار بڑی ترقی کرنے والا تھا بس ذرا قبلہ خراب تھا اس کا … وہ میں کھینچ کھینچ کر ٹھیک کرتا رہتا تھا۔‘‘
چائے پینے کے دوران اس نے امامہ پر جیسے ایک انکشاف کیا۔ سالار اور امامہ نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرا کر رہ گئے۔
’’اور اب دیکھیں بھابھی! کیسا بدلا ہے؟ میری کوششیں کیسے رنگ نہیں لاسکیں، اس کا مجھے بڑا افسوس ہے۔‘‘ سالار نے جتانے والے انداز میں کہا۔ سعد نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔




’’ارے ہم پر کہاں کسی کا رنگ چڑھنا تھا۔ ہم پر تو اپنا ہی رنگ بڑا پکا تھا۔ بھابھی یہ آپ کا شوہر نائٹ کلبز اور ڈسکوز کا بڑا شوقین تھا… مجھے بھی کھینچ کھینچ کر لے جانے کی کوشش کرتا رہتا تھا… نت نئی لڑکیوں سے دوستی تھی اس کی… بڑی رنگین زندگی گزاری ہے اس نے۔‘‘
سالار نے سعد کے بارے میں ٹھیک کہا تھا، وہ نہیں بدلا تھا… بیشتر لوگ خود کو بہترین مسلمان ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے ہر عیب اور خامی کو دکھانے اور جتانے کی وبا میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کا اسلام انہیں صرف مقابلہ اور موازنہ سکھاتا ہے… پردہ پوشی نہیں… وہ کسی انسان کے حال اور کامیابیوں پر اسے مبارک باد تو دے سکتے ہیں اس پر رشک بھی کرسکتے ہیں۔ اسے اپنا دوست کہنے پر فخر بھی کرسکتے ہیں لیکن اس کے ماضی کے سابقوں اور لاحقوں کو بھلائے بغیر… دل آزادی اور دل شکنی ان کے اسلامی گناہوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوتے… سعد بھی یہی کررہا تھا… وہ اپنی بیوی کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ کتنے ’’نیک‘‘ شخص کی بیوی تھی جو دنیاوی کامیابیوں میں سالار سکندر سے پیچھے ہوسکتا تھا لیکن مومن تھا اور روحانی، دینی اور اخلاقی اعتبار سے اس سے بے حد بہتر تھا۔
احساس کمتری کی یہ ایک بے حد بھیانک شکل ہوتی ہے، جس میں کوئی شخص یہ بھی طے نہیں کر پاتا کہ اسے دوست کے ساتھ دوستی کرنی ہے یا دشمنی۔
سعد اب اپنے انکشاف سے جیسے خود ہی محظوظ ہوتے ہوئے اپنی پلیٹ میں ایک نیا کباب لیتے ہوئے ہنس رہا تھا۔ امامہ کا چہرہ پھیکا پڑا تھا… بہت سے انکشافات کسی کے لئے بھی بے تاثر اور بے اثر نہیں ہوسکتے، وہ بھی جب کوئی انکشاف اس طرح کھلے عام اتنے توہین آمیز انداز میں کیا گیا ہو۔
’’بھابھی! بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے سعد… میری کافی رنگ برنگی لڑکیوں سے دوستی تھی لیکن سعد کو صرف ایک ہی رنگ کی لڑکی پسند تھی اور میں ذرا شوقین مزاج تھا… ڈسکوز اور نائٹ کلبز آتا جاتا رہتا تھا ان لڑکیوں کے ساتھ، لیکن سعد ظاہر ہے میرے جیسا شوقین مزاج نہیں تھا، اس لئے وہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گھر پر ہی رہنا پسند کرتا تھا۔‘‘
کباب تو سعد نے پلیٹ میں رکھ لیا تھا لیکن پلیٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے ہی بچی تھی۔
سالار سکندر نے کئی سالوں کے بعد ایسی کم ظرفی اور بے لحاظی کا مظاہرہ کیا تھا جو اس کا ایک زمانے میں شناختی نشان تھا اور اسے سعد کے تین کم سن بچوں ا ور بیوی کے سامنے اس گھٹیا پن کا مظاہرہ کرنے پر خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن سعد کے کسی اور ممکنہ تمغۂ امتیاز کو اپنے سینے پر سجانے سے روکنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی حفاظتی اقدام کارگر نہیں ہوسکتا تھا۔
’’کیا نام تھا اس کا… ہاں اسٹیفنی… اب تو علیک سلیک ہی رہ گئی ہوگی یا وہ بھی نہیں ہے؟‘‘ اس کی یادداشت سفاکانہ حد تک تیز تھی اور اس وقت اس نے سعد کا قتل ہی کردیاتھا… سعد کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا باہر رہ گیا تھا۔ سالار یک دم اس طرح گفت گو کرنے لگا تھا جیسے وہ کسی بار یا پارک میں اکیلے بیٹھے تھے اور ان کے آس پاس کسی دوسرے شخص کا کوئی وجود نہیں تھا… اس سب کی ابتدا سعد نے کی تھی لیکن انتہا اب سالار کررہا تھا۔ سعد جواب کیا دیتا، اس کا تو سانس لینا بھی محال ہوگیا تھا۔
امامہ اس کی بیوی کے تاثرات دیکھ نہیں پائی تھی۔ اس کے چہرے پر نقاب تھا لیکن اس کی آنکھیں یہ بتانے کے لئے کافی تھیں کہ وہ سالار کے انکشافات سے خوش نہیں ہوئی تھی۔ خود امامہ کو بھی سالار کا یہ جوابی وار کچھ زیادہ نہیں بھایا تھا۔
’’بھابھی! آپ کچھ لیں۔‘‘ اس نے صورت حال کو سنبھالنے کی بروقت کوشش کرتے ہوئے سعد کی بیوی، عالیہ کی توجہ اس گفت گو سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔
’’نہیں، بچے اور یہ لے رہے ہیں بس، کافی ہے۔ ہم کچھ دیر پہلے ہی کسی لنچ سے آئے ہیں تو مجھے بالکل طلب نہیں ہے۔‘‘
امامہ کو عالیہ کا لہجہ بے حد کھردار لگا تھا۔ وہ سعد کی طرح باتونی نہیں تھی یا پھر شاید سالار کے وہاں بیٹھے ہونے کی وجہ سے اور سعد کے اس سے مسلسل باتیں کرتے رہنے کی وجہ سے اسے زیادہ بولنے کا موقع نہیں مل پارہا تھا۔
’’آپ تو ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتیں نا؟‘‘ کیا سوال تھا جو سعد کی بیوی کی زبان سے امامہ کے لئے نکلا تھا… کمرے میں یک دم خاموشی نہیں، سکتہ چھایا تھا۔ وہ تجسس نہیں تھا، جوابی وار تھا… سعد سے نہیں آیا تھا اس بار اس کی بیوی سے آیا تھا۔
’’نہیں، الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ چائے کا کپ ہونٹوں سے ہٹا کر امامہ نے بے حد مشکل سے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔ بعض لاحقے کبھی سابقے نہیں بنتے… وہ بھی ایک ایسا ہی حصہ تھا اس کی زندگی کا… جس کا تعارف اس کا رنگ پھیکا کرنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔
’’اوہ اچھا… مجھے انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا۔‘‘ وہ اسی بے نیازی سے سعد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی۔ ’’تو بھابھی! آپ پھر کوئی ادارہ جوائن کریں نا… آپ کو تو بہت زیادہ اصلاح اور علم کی ضرورت ہوگی۔ جب تک آپ پاکستان میں ہیں، آپ میرے ساتھ ایک مدرسے میں چلیں۔ وہاں درس قرآن بھی ہوتا ہے اور آپ کی روحانی اور اخلاقی تربیت…‘‘
’’آپ کا بہت شکریہ لیکن مجھے اسلام قبول کئے اور قادیانیت چھوڑے سولہ، سترہ سال ہوچکے ہیں اور میں ایک حافظ قرآن کی بیوی ہوں۔‘‘ امامہ نے اس کی بات بڑی نرمی سے کاٹی تھی۔
’’وہ تو میں بھی ہوں۔‘‘ عالیہ نے اسی انداز میں کہا۔ ’’لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
’’آپ کو نہیں پڑا ہوگا مجھے پڑا ہے۔‘‘
’’بھابھی! آپ کو اس حوالے سے جب بھی ہماری مدد کی ضرورت پڑے ہم حاضر ہیں۔ اب میل جول تو ہوتا ہی رہے گا… میں انشاء اللہ اس سال وقت نکال کر تبلیغ کے لئے کچھ دنوں کے لئے کانگو بھی آؤں گا تو آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ ویسے بھی اچھا رہے گا اگر ہمارے بچے آپس میں ملتے جلتے رہیں۔‘‘ سعد نے اپنی طرف سے بروقت موقع پر مداخلت کرتے ہوئے گفت گو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
’’جی بھابھی! ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ۔ ہمارے بچوں کو آپس میں ملتے رہنا چاہیے اور ہمیں بھی…بہت سی چیزوں میں آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ہماری رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ عالیہ نے اپنے شوہر کی گفت گو کو مکمل کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’اگر کبھی ایسی ضرورت پیش آئی تو میں اور امامہ ضرور آپ سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں گے لیکن فی الحال مجھے لگتا ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑ رہی۔‘‘
اس بار سالار نے اس گفت گو میں مداخلت کرتے ہوئے جیسے ایک فل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی تھی۔
’’یار! بچے کہاں ہیں تمہارے؟ تم ان سے تو ملواتے، میں چاہ رہا تھا احسن اور جبریل بھی آپس میں متعارف ہوجاتے۔‘‘
سعد سالار کو کم از کم اس حد تک ضرور جانتا تھا کہ وہ اس کے لہجے کی بے رخی اور بے اعتنائی کو پہچان لیتا اور وہ اس نے پہچان لی تھی اور ایک بار پھر اس نے بات بدل کر ماحول کو خوشگوار کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’جی جی ضرور، بچے ابھی لاہی رہا ہوگا ملازم۔ باہر لان میں کھیل رہے تھے…‘‘ امامہ نے سعد کی اس کوشش کو کامیاب کرنے میں ساتھ دیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہاں کوئی اور بات ہوتی، ملازم کے ساتھ عنایہ اور جبریل کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ سعد نے بڑی گرم جوشی سے ان دونوں کو پیار کیا تھا، پھر جبریل اور احسن کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا… چار ساڑھے چار کا جبریل اور سات آٹھ سال کے احسن سعد کی وہ پہلی ملاقات تھی لیکن وہ آخری ملاقات نہیں تھی…
وہ دونوں ایک جیسے تھے۔ مزاجاً کم گو… ریزروڈ، بہت تمیزدار… جبریل احسن سے عمر میں بہت چھوٹا ہونے کے باوجود اچھا قد کاٹھ رکھتا تھا اور دیکھنے میں ان کے درمیان عمر کا فرق اتنا نمایاں نہیں تھا… چھ سالہ آسیہ اور چار سالہ مروہ، احسن کی نسبت اتنی ریزروڈ نہیں تھیں۔
وہ لوگ آدھ گھنٹہ اور بیٹھے تھے اور پھر انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر چلے گئے تھے۔ وہ ایک یادگار اور خوشگوار ملاقات نہیں تھی لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ہر ملاقات ایسا ہی تاثر لئے ہوئے رہنے والی تھی۔
سعد اور عالیہ کے جانے کے بعد سالار اور امامہ نے اس ملاقات کے دوران ہونے والے انکشافات کو دہرایا تھا، نہ ان لوگوں کے بارے میں گفت گو کی تھی۔ ان کا خیال تھا وہ ان کی زندگی میں صرف شناساؤں کی کیٹیگری میں رہنے والے لوگ تھے، ان کا حلقہ احباب بننے والے نہیں تھے۔ انہیں اس وقت یہ اندازہ بالکل نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں خاندان ایک عجیب و غریب رشتے میں جڑنے والے تھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!