آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

چنی سے سالار سکندر کا غائبانہ تعارف ہمیشہ بے نام رہا تھا… غلام فرید کے حوالے سے سکندر عثمان سے اسے کئی بار خبریں ملتی رہی تھیں، بالکل اسی طرح گاؤں میں قائم اس اسکول کے بہت سے دوسری ملازمین کے بارے میں پتا چلتا رہتا تھا۔ سکندر عثمان نے غلام فرید کے ذریعے گاؤں کی مسجد کے امام کو پہنچائی جانے والی امداد کے بارے میں بھی سالار کو مطلع کردیا تھا کیوں کہ یہ امداد سالار کے کہنے پر ہی سکندر عثمان نے شروع کی تھی۔ غلام فرید کو اس امداد میں ہیر پھیر کے نتیجے میں ملازمت سے فارغ کرنے کا حکم بھی سالار ہی کا تھا۔ بددیانتی اوربے ایمانی اس کے لئے قطعاً ناقابل برداشت تھی اور یہ معاملہ اسے اس لئے زیادہ سنگین اور زیادہ ناقابل برداشت لگا تھا کہ جس رقم میں ہیر پھیر کیا گیا تھا وہ مسجد کے لئے دی گئی تھی اور مسجد کی رقم میں بددیانتی کرنے والے شخص کو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں سمجھتا تھا۔ سکندر عثمان بھی غلام فرید کو دی جانے والی اس سزا کے حق میں تھے۔ اس لئے انہوں نے سالار سکندر کی ہدایت پر پوری طرح عمل درآمد کیا تھا۔
غلام فرید کے ہاتھوں ایک بچی کے سوا اپنے پورے خاندان کا قتل سکندر عثمان کو بری طرح ہلاگیا تھا۔ اس دل خراش واقعہ کو میڈیا نے بہت دن اچھالا تھا… غلام فرید سے پوچھے جانے والے سوالوں کے جوابات وہ ہیڈ لائنز کی شکل میں دکھاتے اور چھاپتے رہے تھے جو صرف سکندر عثمان ہی نہیں سالارکی نظروں سے بھی گزرتے رہے تھے، اپنی فیملی کو اس طرح بے رحمی سے مار دینے والا شخص میڈیا کو ذہنی عدم توازن کا شکار لگ رہا تھا کیونکہ وہ اس حادثے کی توجیہات ہر روز بدل دیتا تھا۔
’’اسے اپنی بیوی کے کردار پر شک تھا… اس لئے اس نے اپنے خاندان کو مارا۔‘‘
یہ حادثے کے فوراً بعد میڈیا کی طرف سے بریکنگ نیوز حاصل کرنے کے چکروں میں نشر اور شائع ہونے والی پہلی خبر تھی۔
یہ ایک غیر ذمہ دار صحافی نے اندازاً بناکر اپنے ٹی وی پر نشر کی تھی اور باقیوں نے آنکھیں بند کرکے اس کی تقلید کی تھی۔ ڈیسک جرنلزم کی یہ چھوٹی سی بددیانتی کئی سالوں بعد کسی شخص کے گلے کا پھندا بن جانے والی تھی، یہ اس صحافی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔
جوں جوں غلام فرید سے مختلف صحافیوں کو ملنے اور بات کرنے کا اتفاق ہوتا رہا، مختلف انکشافات سامنے آتے رہے۔ وہ پہلی خبر چھپ گئی تھی۔ اب اس قتل کی وجہ غربت سامنے آئی تھی۔ بیوی سے لڑائی جھگڑے تھے۔ گھر میں بھوک اور بیماری تھی۔ رشتہ داروں اور قرض خواہوں کے اپنی رقم کے تقاضے تھے اور ان سب کے آخر میں اسکول کی ایک نوکری سے ایک مالی بددیانتی پر نکالا جانا اور بے گھر کیا جانا تھا جو سکندر عثمان اور سالار کو احساسِ جرم میں مبتلا کئے ہوئے تھا۔




وہ اب غلام فرید کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ اس کی بچ جانے والی واحد اولاد کی دیکھ بھال اور کفالت کی ذمہ داری اٹھا لیتے اور سالار کے کہنے پر وہ سکندر عثمان نے اٹھالی تھی۔ وہ اس کے لئے ماہانہ رقم بھیجتے تھے جو اس کے رشتہ دار آکر لے جاتے تھے اور کبھی کبھار سکندر عثمان کے کہنے پر وہ چنی کو لاکر انہیں دکھا بھی جاتے تھے تاکہ انہیں یہ تسلی رہے کہ وہ رقم واقعی اس پر خرچ ہورہی تھی۔ اس کی مناسب دیکھ بھال ہورہی تھی اور وہ محفوظ ہاتھوں میں تھی۔ یہ شاید اسی طرح چلتا رہتا اگر اس سال سالار اپنی فیملی کے ساتھ دو ہفتوں کے لئے پاکستان نہ آتا… اور ایک لمبے عرصے کے بعد سکندر عثمان کے بجائے خود گاؤں اسکول دیکھنے نہ جاتا وہاں جاکر غلام فرید کی بیٹی کا خیال آنے پر اس کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش پیدا نہ ہوتی اور ہمیشہ کی طرح چنی کے رشتہ دار کو چنی کو اسکول لے کر آنے کے بجائے اسکول ہی کی انتظامیہ کے چند لوگوں کے ساتھ سالار خود اچانک اس کے گھرنہ چلا جاتا۔
جس ڈیڑھ سال کی چنی کو سالار سکندر نے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ اسے سات آٹھ ماہ کی ایک بچی لگی تھی۔ بے حد کمزور… دبلی پتلی… اس کی سانولی رنگت یرقان جیسی پیلاہٹ لئے ہوئے تھی۔ اس کا جسم اور چہرہ کسی جلدی انفیکشن کے نتیجے میں چھوٹے بڑے رسنے والے پیپ زدہ دانوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے سیاہ بال دھوپ ، گندگی میں رہ رہ کر بھوری لٹوں میں تبدیل ہوچکے تھے جو دھلنے اور کنگھی نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس کے اوپری دھڑ پر جو فراک تھا، وہ بوسیدگی اور خستہ حالی کو تو ظاہر کر ہی رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کے سائز سے بہت بڑا ہونے پر یہ بھی ظاہر کررہا تھا کہ وہ اس سے پہلے بھی کوئی اور استعمال کرتا رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں جیسے وہ جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہو، ہاتھ پیروں کے بڑھے ہوئے اور میل سے بھرے ٹیڑھے میڑھے ٹوٹے ہوئے ناخن یہ ظاہر کررہے تھے کہ اس کی دیکھ بھال کتنے اچھے طریقے سے ہورہی تھی۔
جس وقت سالار اس گھر کے صحن میں داخل ہوا وہ گھر کے کچے صحن میں دانہ چگتی ہوئی مرغیوں کے پاس بیٹھی تھی اور اسی دانے پر گندگی کو بلاتکلف اپنے منہ میں ڈال رہی تھی۔ سالار نے اس بڑے صحن کے ایک کونے میں مرغیوں کے پاس بیٹھی اس بچی کو غور سے دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی کفالت کے لئے معقول رقم بھیجنے کے باوجود وہ اس حال میں ہوسکتی تھی۔
چنی کے رشتہ دار بے حد نروس اور گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ سالار کو اندر لائے تھے اور مہمان خانے میں اسے بٹھانے کی کوشش کی تھی۔ سالار کو جلدی تھی۔ اسے صرف ایک نظر اس بچی کو دیکھنا تھا اور واپس جانا تھا۔ گھر کے اندرونی حصے میں جانے کے بجائے یہ کام وہ وہیں صحن میں کھڑے کھڑے نمٹانا چاہتا تھا اور چنی کے رشتہ داروں کی یہ بدقسمتی اور چنی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس وقت وہیں صحن میں تھی۔ وہ لوگ presentation اور display کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اسے اب سجا سنوار نہیں سکتے تھے۔
’’یہ بس ایسے ہی رہتی ہے۔ جتنی بار بھی کپڑے بدلو، یہ جاکر مرغیوں میں گھس جاتی ہے۔ حمیدہ! ارے او حمیدہ! ذرا دیکھ چنی کو۔ کپڑے بدلوا صاحب نے ملنا ہے۔‘‘
گھر کے مالک نے بے حد گھبرائے اور شرمندہ سے انداز میں چنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیوی کو آواز لگائی تھی اور وہ پہلا موقع تھا جب سالار نے چنی کو بغور دیکھا تھا اور وہ بھی اپنا نام پکارے جانے پر کچھ خوف زدہ انداز میں اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
حمیدہ نے ہنگامی بنیادوں پر لپک کر چنی کو اندر لے جانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن سالار نے روک دیا، وہ جو چھپانا چاہتے تھے، اسے چھپا نہیں پائے تھے اس لئے وہ اسے سالار کے پاس لے آئے تھے۔
حمیدہ کی گود میں اٹھائی ہوئی، بہتی ہوئی نزلہ زدہ ناک والی اس بچی کو دیکھتے ہوئے سالار سکندر کو عجیب رحم آیا تھا اس پر… وہ افریقہ میں بچوں کو اس سے بھی برے حالات میں دیکھ چکا تھا لیکن ان بچوں کے ساتھ سالار سکندر کا کوئی احساسِ جرم نہیں تھا… جو چنی کو دیکھتے ہوئے اسے محسوس ہوا تھا۔
’’نہیں نہیں۔ اس کو نہ اٹھائیں، یہ بڑی گندی ہے جی… آپ کے کپڑے نہ خراب کردے۔ اس کو ابھی لیٹرین میں جانا نہیں آیا۔‘‘
حمیدہ سے پہلے اس کے میاں نے سالار کو اس بچی کو اٹھانے سے روکا تھا۔ سالار نے اس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بچی کو اٹھالیا تھا اور چنی بڑے آرام سے کسی جھجک کے بغیر اس کے پاس آگئی تھی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار سالار سکندر جیسے حلیے والا کوئی شخص دیکھا تھا۔ سالار نے اسے تھپکتے ہوئے پچکارا تھا۔ وہ پلکیں جھپکائے جواب دیئے بغیر لیکن اس سے چپکے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔
’’ہاں بس تھوڑی بیمار سی رہتی ہے۔ شروع سے ہی ایسی ہے۔ ڈاکٹر کی دوائی سے فرق نہیں پڑا۔ اب پیر صاحب سے دم کراکے لائے ہیں۔ انہوں نے تعویذ بھی دیا ہے گلے میں ڈالنے کے لئے۔ حمیدہ! وہ تو نے ڈالا نہیں ابھی تک۔‘‘
سالار، میاں بیوی سے اب اس بچی کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور وہ گڑبڑائے ہوئے اس کے چہرے اور جسم پر رستے ہوئے دانوں کی وجوہات اور علاج بیان کررہے تھے۔
سالار سکندر کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہ غلط جگہ پر تھی۔ اس کا خیال نہیں رکھا جارہا تھا اور اس کی کفالت کے لئے دی جانے والی امداد اس پر استعمال نہیں ہورہی تھی۔ پتا نہیں وہ کون سی ذہنی رو تھی جس میں اس نے چنی کو فوری طور پر وہاں سے لے جانے اور کسی دارالامان میں داخل کروانے کا فیصلہ کیا تھا یا کسی ایسی جگہ جہاں پر وہ بچی اچھی طرح پرورش کر پاتی اور اس ذہنی رو میں یہ فیصلہ اس نے چنی کے رشتہ داروں کو سنا بھی دیا تھا۔ ان کے احتجاج کے باوجود وہ چنی کو وہاں سے لے آیا تھا اور وہ اسے روک نہیں پائے تھے۔ بدحواسی اور پریشانی کے باوجود… وہ چنی کو نہیں لے جارہا تھا۔ ان کا ماہانہ وظیفہ لے جارہا تھا اور وہ پیسے بند ہوجاتے تو… اس تو کے آگے ان سب کو بہت ساری فکریں لاحق ہوگئی تھیں لیکن سالار کے ساتھ اسکول کی انتظامیہ بھی تھی اور کچھ سیکیورٹی اہلکار بھی، وہ زبانی احتجاج کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکے تھے۔
حیران کن بات یہ تھی کہ اس سارے شور شرابے اور احتجاج میں چنی بے حد اطمینان اور پرسکون انداز میں سالار کی گود میں چڑھ اس کا کالر پکڑ رہی تھی… اس کے گھر سے نکلتے ہوئے بھی وہ بے قرار اور پریشان نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھائے جاتے ہوئے۔
اس گاؤں سے اسلام آباد واپسی پر سالار اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا رہا تھا اور چنی برابر والی سیٹ پر بیٹھی دروازے کی کھڑکی سے چپکی بے حد خاموشی اور اطمینان سے پورا راستہ باہر دیکھتی رہی تھی۔ وہ اگر بے چین ہوئی تھی تو صرف تب، جب سالار نے اسے گاڑی میں بٹھائے ہوئے اسے سیفٹی بیلٹ باندھنے کی کوشش کی تھی، جو اس کے ہاتھ پاؤں مارنے پر سالار نے کھول دی تھی، اسے اس وقت حمین یاد آیا تھا۔ وہ بھی اس عمر میں اسی طرح سیفٹی بیلٹ سے جان چھڑاتا تھا۔
سیفٹی بیلٹ کھول دینے پر وہ ایک بار پھر سے پرسکون ہوگئی تھی۔ پورا راستہ سالار اسے وقتاً فوقتاً دیکھتا رہا لیکن وہ اس قدر اطمینان کے ساتھ شیشے سے باہر نظر آنے والی سڑک اور اس پر گزرنے والی ٹریفک کو دیکھنے میں مگن تھی کہ اس نے ایک بار بھی پلٹ کر گاڑی کے اندر موجود سالار کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سالار اس کا یہ انہماک دیکھ کر مسکراتا رہا تھا۔ اس نے رستے میں ایک جگہ رک کر اسے ایک جوس کا ڈبہ اور بسکٹ کا ایک پیکٹ لے کر دیا تھا۔ وہ منٹوں میں دونوں چیزیں کھا گئی تھی یوں جیسے وہ کئی دنوں کی بھوکی تھی۔
اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کے سفر کے دوران سالار اس بچی کی رہائش کے لئے مناسب ترین جگہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس وقت اس نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اسے خود پالے گا۔ وہ اتنی بڑی ذمہ داری لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اگر سوچ بھی لیتا تو بھی یہ کام امامہ سے پوچھے بغیر نہیں کرسکتا تھا۔
جو بھی ممکنہ باتیں چنی کے لئے اس کے ذہن میں آرہی تھیں، وہ خود ہی انہیں مسترد کرتا رہا تھا۔ اسلام آباد پہنچنے پر گھر کے گیراج میں اس کے بچوں نے بھاگتے ہوئے اس کا استقبال کیا تھا او رگاڑی کے اندر چنی کو سب سے پہلے ساڑھے تین سالہ حمین نے دیکھا تھا اور اس کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح گول ہوگئی تھیں، یوں جیسے اس نے جنگل کا کوئی جانور دیکھ لیا ہو۔ اس نے کھڑکی کے شیشے سے ناک اور منہ چپکائے ہیلو کہہ کر چنی کو مخاطب کیا تھا جو کھڑکی کے اندر والی سائیڈ سے شیشے سے چہرہ چپکائے ہوئے تھی اور حمین دوسری طرف سے۔ وہ کچھ خائف ہوکر تھوڑا سا پیچھے ہٹی تھی… اس سے پہلے کہ حمین کوئی اور حرکت کرتا… سالار گاڑی سے نکل کر دوسری طرف آچکا تھا۔ اس نے حمین کو ہٹا کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور چنی کو باہر نکال لیا۔ چنی سے آنے والے بدبو کے بھبھکے سب سے پہلے حمین نے ہی محسوس کئے تھے… اس نے بے اختیار اپنی ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے باپ سے کہا۔
“Oh my God! she is so smelly and dirty and ugly.”
وہ بے اختیار ناک پر ہاتھ رکھے کہتا گیا تھا جبکہ جبریل اور عنایہ کچھ فاصلے پر کھڑے کسی تبصرے اور سوال کے بغیر گھر میں باپ کے ساتھ آنے والے اس مہمان کو دیکھ رہے تھے۔
’’حمین۔‘‘ سالار نے اسے ڈانٹنے والے انداز میں پکارا ور گھورا…
Oh but then that’s ok…..
May be she likes to live like this
I mean some people like to be different
I like her hairstyle…. she is cool….
حمین نے ہمیشہ کی طرح باپ کی پھٹکار کے بعد سیکنڈز میں اپنا بیان تبدیل کیا اور اپنی بات کے آخر میں چنی کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے باپ سے کہا۔
“Baba I also want to have her hair style.”
سالار نے اس کی زبان کی قینچی کو نظر انداز کردیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سائز کا خاموش نہ ہونے والا ’’جن‘‘ تھا جو اس گھر کے افراد کے اردگرد ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا اور اس کے سوالات… ختم نہ ہونے والے سوالات نے امامہ اور سالار کی آئیڈیل والدین بننے کی ہر خواہش، خوبی اور معلومات کو ختم کردیا تھا۔
“I think she is Goldi lock.”
حمین کی تعریفوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ اب باپ کو یہ جتا کر خوش کرنا چاہتا تھا کہ اسے وہ بچی اچھی لگی تھی۔
’’یہ گولڈی لاک نہیں ہے، گندی ہے اس نے کئی ہفتوں سے اپنے بال نہیں دھوئے بلکہ شاید کئی مہینوں سے۔‘‘
جبریل نے اسے ٹوک کر بتایا تھا… وہ تینوں اب سالار کے پیچھے پیچھے اندر جارہے تھے۔
’’آل رائٹ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کول نہیں ہے۔‘‘
جواب پھر تڑاخ سے ہی آیا تھا، جبریل بے اختیار پچھتایا… اس نے اس کے تبصرے کا جواب دے کر سالار کے پیچھے لگنے والی بلا اپنے پیچھے لگالی تھی۔
’’اگر میں کئی مہینوں تک اپنے بال نہ دھوؤں تو میرے بال بھی ایسے ہی ہوں گے، میرا مطلب ہے گولڈں براؤن یا ایش گرے یا مسٹر ڈیلو۔‘‘ اس کا ذہن اب کہیں سے کہیں پہنچ گیا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ جبریل نے بے حد سخت لہجے میں فل سٹاپ لگایا۔




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!