آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

’’اوکے۔‘‘ حمین نے بے حد اطمینان سے کہا۔ ’’لیکن میں اپنے بال ڈائی تو کرسکتا ہوں۔‘‘
جبریل نے اس بار اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا وہ بالوں کے بعد چنی جیسے… ناخنوں کو بھی اپنانے کے بارے میں سوچنا شروع کردے۔
امامہ نے سالار کو اس بچی کو اٹھائے دیکھا تھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ بیٹھی اس وقت چائے پی رہی تھی اور وہ چائے پینا ہی بھول گئی تھی۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’بعد میں بتاؤں گا۔ تم اسے نہلا کر کپڑے بدل دو اس کے، پھر میں اسے ڈاکٹر کو دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے چنی کو گود سے اتارتے ہوئے کہا تھا۔
امامہ کچھ الجھی تھی لیکن وہ اسے لے کر چلی گئی تھی اور اس کو نہلانے کی کوشش کے آغاز میں ہی اسے پتا چل گیا تھا کہ اس بچی کے بالوں کو کاٹے بغیر اس کو نہلایا نہیں جاسکتا۔ اس کے سر میں بڑے بڑے پھوڑے تھے اور ان پھوڑوں سے رسنے والی پیپ نے اس کے بالوں کی لٹوں کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا تھا کہ اب ان کا کھلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس نے شیونگ کٹ میں پڑی قینچی سے چنی کے سارے بال جڑوں تک کاٹ دیئے تھے… وہ اس کا سر گنجا نہیں کرسکتی تھی کیوں کہ وہ پھوڑوں سے بھرا ہوا تھا… امامہ کو اس بچی کو نہلاتے ہوئے بہت رحم اور ترس آیا تھا اور بے حد حیرانی بھی ہوئی تھی اسے… چنی بالکل چپ چاپ بیٹھی نہاتی رہی تھی۔ اس نے عام بچوں کی طرح رونا دھونا نہیں مچایا تھا… نہ ہی اپنے بال کٹنے یا ان پھنسیوں اور پھوڑوں پر ہاتھ لگنے پر کسی تکلیف کا اظہار کیا تھا۔
بیڈ روم میں جبریل اور عنایہ باتھ روم میں جاکر اس بچی کی صفائی ستھرائی کو بذات خود جاکر دیکھنے سے حمین کو روکنے کی کوششوں میں مصروف تھے جنہیں اس کام پر امامہ تعینات کرکے گئی تھی۔
وہ بالآخر جب چنی کو بالکل کریوکٹ میں نہلا دھلا کر حمین ہی کا ایک جوڑا پہنائے باہر لائی تھی تو اسے دیکھ کر سب سے پہلی چیخ مارنے والا حمین ہی تھا۔
“Oh my God! Momy you have made her uglier horrible and you have destroyed my most favourite shirt.”
اس کو دوہرا غم تھا چنی کے بالوں کے ساتھ ساتھ اپنی شرٹ کو اس کے جسم پر دیکھ کر بھی دکھ ہوا تھا۔
“Momy she was girl. You have made her a boy. God will never
forgive you for that.”
’امامہ کو اس کی اس بات پر ہنسی آئی۔ سالار ٹھیک کہتا تھا۔ وہ ’’عجیب و غریب‘‘ ہی تھا اور چنی اس ساری گفتگو کے دوران خاموشی سے… اپنے اس نئے خاندان کو دیکھ رہی تھی۔
وہ اس گھر میں ہمیشہ کے لئے رہنے آئی تھی لیکن اس وقت کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ مہمان نہیں تھی۔
٭…٭…٭




’’اور اب اس کا کروگے کیا؟‘‘ امامہ نے اپنے بیڈ پر سالار اور اپنے درمیان پرسکون گہری نیند میں خراٹے لیتی چنی کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا جو بیڈ کے دوسری جانب نیم دراز تھا اور وہ بھی اس وقت چنی ہی کو دیکھ رہا تھا جو اس بات سے مکمل طور پر بے خبر اور بے نیاز تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔
زندگی میں پہلی بار کسی نے محبت اور شفقت کے ساتھ اس کا پیٹ بھر جانے تک اسے کھانا کھلایا تھا اور وہ بے حد رغبت سے امامہ اور حمین کے ہاتھوں سے لقمے لے لے کر کھاتی رہی تھی۔ خاص طور پر حمین کے ہاتھوں سے جو بہت ضد کرکے اس کارِ خیر میں شامل ہوا تھا۔
’’اوہ! مائی گاڈ!‘‘ حمین نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پہلا ہی لقمہ کھانے پر جیسے خوشی اور جوش کے عالم میں اپنے مخصوص انداز میں چیخ مارتے ہوئے نعرہ لگایا تھا۔
“Mummy, she likes Me.” اس نے ٹماٹر کی طرح سرخ ہوتے ہوئے امامہ کے کانوں میں وہ ’’سرگوشی‘‘ کی تھی جو لاؤنج میں بیٹھے ہر شخص نے سنی تھی۔ چھ فٹ دُور بیٹھے جبریل نے ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر بے حد تحمل سے اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے ایک جوابی ’’سرگوشی‘‘ کی۔
“She is the only who like You.”
امامہ نے حمین کے انکشاف کو اسی طرح نظر انداز کیا تھا جس طرح حمین نے جبریل کے تبصرے کو۔ وہ اس وقت چنی کو کھانا کھلانے میں مصروف تھا اور یہ ایک ’’اہم‘‘ ترین کام تھا جو اسے سونپا گیا تھا۔
چنی پلکیں جھپکائے بغیر حمین اور امامہ کو باری باری دیکھتے ہوئے ان کے ہاتھ سے کھانا کھاتی رہی تھی۔ بے حد سکون اور اطمینان سے جو حیران کن تھا اور وہ سکون و اطمینان اس وقت بھی اس کے وجود سے جھلک رہا تھا جو نیند میں تھا اور جسے دیکھتے ہوئے سالار بے حد گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس نے کچھ دیر پہلے ہی امامہ کو اس کے اور اس کے باپ اور خاندان کے حوالے سے پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کو اپنے احساسِ جرم کے ساتھ آگاہ کیا تھا اور چنی کے لئے امامہ کی ہمدردی اور ترس میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا لیکن اس کے باوجود اہم ترین سوال وہی تھا جو امامہ نے پوچھا تھا۔
’’میں اسے کسی Orphanage یا ویلفیئر ہوم میں داخل کروانے کے لئے لے کر آیا ہوں۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے، مجھ پر اتنی ذمہ داری تو آتی ہے کہ میں اس کی زندگی خراب ہونے نہ دوں، جو وہاں رہ کر ہوجائے گی جہاں یہ تھی۔‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے امامہ سے کہا۔
’’تم احساسِ جرم کا شکار ہورہے ہو؟‘‘ اس کے اعتراف کے باوجود امامہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
’’ہاں… جو کچھ اس کے باپ نے اپنے خاندان کے ساتھ کیا، اس میں، میں بھی قصور وار ہوں۔ تھوڑی سی زیادہ کنسرن دکھا دیتا تو یہ سب نہ ہوتا جو ہوگیا۔‘‘ سالار اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ امامہ نے اس کا ہاتھ تھپکا۔
’’تم اسے اپنے پاس رکھ کر کسی یتیم خانہ میں داخل نہیں کرواسکتے، خاص طور پر اس صورتِ حال میں جب اس کے رشتہ دار موجود ہیں اور کورٹ نے انہیں اس کی گارڈین شپ بھی دے رکھی ہے۔ وہ تمہارے خلاف قانونی کارروائی کرسکتے ہیں۔‘‘
امامہ نے جیسے اسے خبردار کیا تھا۔
’’مجھے پروا نہیں ہے، اس کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام کرلوں گا میں… فی الحال تو میں نے اپنی لیگل ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اس کے بارے میں مجھے ایڈوائس کریں… کورٹ کو اپروچ کیا جاسکتا ہے۔ اس بچی کے لئے… گارڈین شپ بدلی جاسکتی ہے۔ کوئی بہتر رشتہ دار ڈھونڈا جاسکتا ہے یا پھر کسی ویلفیئر ہوم کو اس کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔‘‘
وہ امامہ سے کہہ رہا تھا اور اس ساری گفتگو کے دوران سالار سکندر نے ایک لمحہ کے لئے بھی اس بچی کو گود لینے کے آپشن پر سوچا ہی نہیں تھا، وہ صرف اس بچی کی بہتر نگہداشت چاہتا تھا اور اس کے لئے روپیہ خرچ کرنے پر تیار تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ پاکستان میں قیام کے دوران ہی چنی کے لئے کوئی بہتر جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
یہ خیال پہلی بار اس گھر میں حمین کو آیا تھا جو دوسرے دن امامہ سے چنی کا نام پوچھنے کی جدوجہد کررہا تھا۔
’’مجھے یاد ہی نہیں رہا تمہارے بابا سے اس کا نام پوچھنا۔‘‘
امامہ کو اس کے استفسار پر یاد آیا۔ سالار اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ چنی، امامہ اور تینوں بچوں کے ساتھ لاؤنج میں تھی جہاں وہ عنایہ کے تھمائے ہوئے کچھ کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔ اس کے سر اور جسم پر موجود الرجی پر اب وہ کریم لگی ہوئی تھی جو امامہ تھوڑی دیر پہلے اسے ڈاکٹر کو دکھا کر تشخیص کرانے کے بعد لے کر آئی تھی۔
’’ Can I name her?‘‘
’’نہیں، تم یہ نہیں کرسکتے۔‘‘ اس سے کچھ فاصلے پر ایک کتاب پڑھتے ہوئے جبریل نے جیسے اسے لگام ڈالنے کی کوشش کی۔
’’کیوں؟‘‘ حمین نے اپنا پورا منہ اور آنکھیں بیک وقت پوری طرح کھول کر، انہیں گول کرتے ہوئے تعجب کی انتہا پر پہنچتے ہوئے کہا۔
’’کیوں کہ اس کا پہلے ہی ایک نام ہے۔‘‘ جبریل نے اسی ٹھنڈے انداز میں اس کے سوال کا جواب ایسے دیا جیسے اسے حمین کی کم عقلی پر افسوس ہورہا ہو۔
’’تمہیں اس کا نام پتا ہے؟‘‘ تڑاق سے اگلا سوال جبریل کی طرف اچھالا گیا۔
’’نہیں…‘‘ جبریل گڑبڑایا۔ ’’مجھے اس کا نام نہیں پتا۔‘‘
حمین نے اسی انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسی ڈرامائی انداز میں کہا۔ ’’ممی اس کا نام نہیں جانتیں۔‘‘ وہ اب امامہ کی طرف متوجہ تھا جو عنایہ کے لئے کچھ ڈرائنگ کررہی تھی۔ ’’عنایہ کو اس کا نام نہیں پتا۔‘‘ اس نے اب اپنے دونوں ننھے ننھے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پھیلایا۔ ’’اوہ پوری دنیا میں کسی کو بھی اس کا نام نہیں معلوم!‘‘
وہ جیسے عدالت میں اس کا کیس لڑنے کے لئے سردھڑکی بازی لگا رہا تھا۔
’’اور تم… کیا تم نہیں چاہتے کہ کہ اس کا کوئی نام ہو؟‘‘
اس کے انداز میں اس قدر ملامت تھی کہ ایک لمحہ کو جبریل کو بھی مدافعانہ انداز اختیار کرنا پڑا۔ وہ بری طرح گڑبڑایا۔
’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘‘
’’میں نے خود سنا ہے۔‘‘ حمین نے اپنے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں مکمل طور پر گول کرتے ہوئے اہم گواہ کا رول ادا کیا۔
جبریل نے فوری طور پر اپنا چہرہ کتاب کے پیچھے چھپانے میں عافیت سمجھی تھی۔ وہ اس چھوٹے بھائی کو تو تب ہی چپ نہیں کروا سکا تھا جب اسے بولنا نہیں آتا تھا اور اب چپ کروانا؟
’’حمین! اس کے پیرنٹس نے اس کا کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا ہوگا۔ وہ اتنی بڑی ہے۔‘‘
امامہ نے اس بار مداخلت کرنی ضروری سمجھی۔ حمین کو اس کی بات پر جیسے کرنٹ ہی لگ گیا۔
’’پیرنٹس!‘‘ اس کے حقل سے عجیب سی آواز نکلی تھی۔ جبریل کو کتاب ہٹا کر اسے دیکھنا پڑ گیا۔ ’’اوہ! مائی گاڈ۔‘‘ حمین کی آواز صدمہ زدہ تھی۔’’ پھر یہ ان کے پاس کیوں نہیں ہے؟‘‘
اس نے اسی صدمے میں امامہ سے جیسے احتجاجاً کہا تھا اور یہ وہ سوال تھا جس کا جواب امامہ نہیں دے سکتی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سوال کے جواب میں چنی کے خاندان کے بارے میں اسے کیا بتائے۔ اس کی خاموشی نے حمین کو جیسے اور بے تاب کیا۔
’’کیا اس کا کوئی بھائی یا بہن بھی نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں! اس کا کوئی نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے جواب دیا۔ حمین کا چہرہ کھل اٹھا۔
’’تب تو میں اس کا نام رکھ سکتا ہوں۔‘‘ گفتگو جہاں سے شروع ہوئی تھی گھوم پھر کر وہیں آگئی تھی۔ حمین اپنی کوئی بات نہیں بھولتا تھا۔ یہ اس کے ماں باپ کی بدقسمتی تھی۔
’’اوکے… تم اس کانام رکھ لو۔‘‘ امامہ نے جیسے ہاتھ جوڑنے والے انداز میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالے اور دوبارہ عنایہ کی ڈرائنگ کی طرف متوجہ ہوگئی۔
’’ممی! کیا یہ ہمارے ساتھ رہے گی؟‘‘ حمین نے ایک اور سوال سے اسے مشکل میں ڈالنا ضروری سمجھا۔
’’نہیں…‘‘ امامہ نے اسی طرح کام میں مصروف اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا۔
’’کیوں؟‘‘ حمین نے جیسے چیخ نما انداز میں سوال کیا۔ امامہ صرف گہری سانس لے کر رہ گئی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ حمین کے پاس سوال ختم ہوجائیں یا وقتی طور پر کسی وقت رُک جایا کریں۔’’ جب تمہارے بابا آئیں گے تو ان ہی سے پوچھنا۔‘‘ اس نے بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کی کوشش کی۔
’’ممی! کیا ہم اس کو اڈاپٹ کرسکتے ہیں۔‘‘ امامہ کا دماغ گھوم گیا تھا اس سوال پر۔
’’نہیں… یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ کوئی دوسری صورتِ حال ہوتی تو وہ اس سوال پر ہنس پڑتی لیکن محمد حمین سکندر نے اپنے ماں باپ کی حس مزاح کو ختم کردیا تھا۔ ان کی برداشت کے پیمانے کے ساتھ ساتھ…
’’تم اسے اڈاپٹ کیوں کرنا چاہتے ہو؟‘‘ جبریل نے جیسے ہول کر کہا تھا۔
’’کیوں کہ مجھے ایک بے بی چاہیے۔‘‘
اس نے بے حد نروٹھے انداز میں کسی سے نظریں ملائے بغیر اعلان کیا۔ جبریل جیسے غش کھا گیا تھا۔




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!