آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

وہ آفر میڈیا کے ذریعے سے منظر عام پر آگئی تھی اور ورلڈ بینک کے اگلے ممکنہ صدر کے طور پر سالار سکندر کا نام بہت سی جگہوں پر اچھالا جانے لگا تھا۔ اس کے خاندان اور حلقہ احباب کے لئے یہ بے حد فخر کا باعث بننے والی خبر تھی اور سالار سکندر کے انکار کرنے کے باوجود کہ اس نے یہ عہدہ فی الحال قبول نہیں کیا، کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ اس آفر کو قبول کرنے سے انکار کرسکتا تھا یا اسے انکار کرنا چاہیے۔
سکندر عثمان خاص طور پر اس کے اس فیصلے سے بالکل بھی خوش نہیں ہوئے تھے کہ وہ اس آفر کو قبول کرنے کے بجائے کہ اپنے کیرئیر کی اس اسٹیج پر ورلڈ بینک سے علیحدگی اختیار کرکے کچھ اور کرے گا… انہوں نے سالار سکندر سے ’’اور‘‘ کی تفصیلات جاننے میں بھی ذرّہ برابر دلچسپی نہیں لی تھی۔ ان کا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ وہ ورلڈ بینک کا صدر کیوں نہیں بننا چاہتا تھا۔ ایک عام باپ کی طرح وہ بھی اپنی اولاد کے لئے دنیاوی کامیابی چاہتے تھے اور وہ دنیاوی کامیابی سامنے موجود تھی۔ بس ہاتھ بڑھا کر تھام لینے تک دُور۔
’’تم عقل سے پیدل ہو اور ہمیشہ پیدل ہی رہوگے…‘‘
انہوں نے سالار کے ساتھ اپنی شدید خفگی کا اظہار میڈیا میں اس کے آفس کی طرف سے آنے والی اس خبر کے بعد کرتے ہوئے کہا تھا، جس میں اس کے آفس نے یہ بیان ریلیز کردیا تھا کہ وہ ورلڈ بینک کی صدارت کا عہدہ سنبھالنے میں اپنی ذاتی وجوہات کی بناء پر انٹرسٹڈ نہیں اور صرف نائب صدر کے طور پر افریقہ میں اپنی ٹرم کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔
سالار چند دن کے لئے پاکستان آیا ہوا تھا اور سکندر عثمان نے ضروری سمجھا تھا کہ وہ ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش ضرور کرتے اور اس کوشش کے دوران سالار کی بتائی ہوئی وجہ پر وہ سیخ پا ہوگئے تھے۔ ان کی وہ اولاد ساری عمر عجیب و غریب باتیں اور کارنامے کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئی تھی۔
’’تم ورلڈ بینک کا صدر نہیں بننا چاہتے… وہ عہدہ جو پلیٹ میں رکھ کر تمہیں پیش کیا جارہا ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ انداز میں اس سے کہہ رہے تھے جو ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا بے حد خاموشی سے باپ کی لعنت ملامت سن رہا تھا۔
’’تم سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام بنانے کا خیالی پلاؤ پکاتے اور کھاتے رہنا چاہتے ہو۔‘‘ وہ اتنا تلخ ہونا نہیں چاہ رہے تھے جتنا تلخ ہوگئے تھے۔’’ تمہاری طرح ڈھیروں لوگ یہ خیالی پلاؤ بنارہے ہیں ساری دنیا میں اور بناتے ہی چلے جارہے ہی۔ نہ پہلے کوئی کچھ کرسکا تھا… نہ ہی آئندہ کچھ ہونے والا ہے۔‘‘ وہ سالار سکندر کو جیسے آئینے میں وہ عکس دکھانے کی کوشش کررہے تھے جو ان کے خیال میں اسے کوئی دکھا نہیں پارہا تھا۔
’’اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے اس ذہنی فتور کے پیچھے امامہ کا ہاتھ ہوگا… اس سے مشورہ تو کیا ہوگا نا تم نے۔‘‘
وہ بیٹے کی رگ رگ کو جانتے تھے اور اس وقت انہیں سالار کے ساتھ ساتھ امامہ پر بھی غصہ آرہا تھا۔




’’ہر نسل اسے خیالی پلاؤ سمجھے گی تو پھر یہ صدیوں تک خیالی پلاؤ ہی رہے گا… کسی ایک نسل سے کسی ایک فرد کو اٹھ کر اس کے لئے کچھ کرنا ہوگا… صرف حرام حرام کہہ کر تو ہم اس سودی نظام کے اندر نہیں جی سکتے…‘‘ سالار سکندر کو اپنے باپ کی باتیں کڑوا سچ لگی تھیں لیکن وہ انہیں نگلنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
’’تم جانتے ہو سالار! یہ موجودہ نظام ہے، اسے ہٹانا کیوں مشکل ہے؟‘‘ سکندر عثمان نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ ’’کیوں کہ یہ افراد کا بنایا ہوا نظام نہیں ہے… ریاستوں کا بنایا ہوا نظام ہے… فلاحی ریاستوں کا… وہ بے شک اسلامی نہ ہوں لیکن وہ اپنے اندر اس نظام کو چلا کر کم از کم اپنے معاشرے میں لوگوں کو ایک فلاحی سسٹم دیئے ہوئے ہیں… تم افراد کو چیلنج کرسکتے ہو، تم ریاستوں کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ جب تک مسلم ممالک خود ایک مضبوط اقتصادی نظام بنانے کی کوشش نہیں کرتے، جب تک اسلامی فلاحی ریاستوں کی شکل میں سامنے نہیں آتے، کچھ نہیں بدلے گا… کہیں بھی… دنیا ایسی ہی رہے گی، جیسی ہے… اقتصادی نظام کیا، ہر نظام صرف طاقت ور کا چلے گا… کمزور کی ’’عقل‘‘ میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی… سکہ طاقت ور کا چلتا ہے… یہ سود کی جنگ نہیں ہے۔ یہ قوموں کی جنگ ہے… ہم مسلمان ہیں۔ نکمے اور نااہل ہیں۔ قوم کے لئے نہیں اپنے لئے جیتے ہیں۔ اس وقت اس لئے مار کھا رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے جب تک ایسے ہی رہیں گے… وہ یہود نصاریٰ ہیں۔ یہ ان کے عروج کی صدی ہے، وہ باعلم اور باعمل ہیں۔ اپنی زندگیاں اپنی قوموں کے لئے قربان کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں، اس لئے وہ راج کررہے ہیں اور راج کرتے رہیں گے جب تک ان کے اندر یہ جذبہ موجود ہے… ہم بددعائیں دے دے کر کسی قوم کو زوال نہیں دلاسکتے… ہم دہشت گرد بن کر بھی کسی قوم کے کچھ لوگ مار سکتے ہیں، کچھ عمارتیں تباہ کرسکتے ہیں۔ خوف پھیلا سکتے ہیں… لیکن دنیا پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لئے ہمیں مغربی اقوام سے بڑھ کر باعمل ہونا پڑے گا… اور یہ مقابلہ بہت مشکل ہے اور یہ مقابلہ افراد نہیں کرتے، اقوام کرتی ہیں، متحدہ ہوکر۔‘‘
سکندر عثمان نے جو بھی کہا تھا ٹھیک کہا تھا۔ سالار سکندر بھی کچھ سال پہلے تک ایسے ہی سوچتا تھا اور اس کی سوچ آج بھی وہی ہوتی تو وہ باپ کی ہاں میں ہاں ملاتا۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں… جب تک کسی قوم کے افراد صرف اپنے لئے جئیں اور مریں گے، تب تک کچھ نہیں بدلے گا… جب لوگ قوم کے لئے سوچنا شروع کردیں گے سب کچھ بدل جائے گا۔‘‘
اس نے سکندر عثمان سے کہا۔
’’جن معاشروں اور اقوام کی مثالیں آپ دے رہے ہیں ان کے ڈھیروں افراد نے اپنی زندگیاں لیبارٹریز، لائبریریز اور اپنے اسٹڈی ٹیبلز پر صرف اس خواب اور عزم کے ساتھ گزاری تھیں کہ جو کام وہ فرد کے طور پر کررہے ہیں، وہ ان کی قوم کے لئے بہتر ثابت ہو۔ ان میں سے کوئی بھی پرسنل گلوری کے لئے زندگی قربان نہیں کررہا تھا، نہ وہ بانی اور موجد کے طور پر کوئی پہچان بناکر تاریخ کا حصہ بننا چاہتے تھے… وہ بس اسٹیٹس کو توڑنا چاہتے تھے… اپنی قوم کے ’’کل‘‘ کو اپنے آج سے بہتر چاہتے تھے… اور یہی خواہش میری بھی ہے… ایک کوشش اپنی قوم کے لئے مجھے بھی کرلینے دیں… مقالے اور کتابیں لکھ لکھ کر اپنا بڑھاپا میں نہیں گزارنا چاہتا پاپا۔‘‘
سکندر عثمان بہت دیر تک بول ہی نہیں سکے تھے۔ اس نے ان ہی کی باتوں کا حوالہ دے کر ان سے بحث کی تھی اور ہمیشہ کی طرح وہ بحث جیت گیا تھا۔
’’ورلڈ بینک کے کتنے صدر گزرے ہیں مجھ سے پہلے… کسی کو نام بھی یاد نہیں ہوگا… انہوں نے ورلڈ بینک کے طور پر کیا کارنامے کئے ہوں گے، یہ بھی کسی کو یاد نہیں… یاد اگر کسی کو ہے تو ورلڈ بینک کا نام یاد ہے… کسی ہر کارے اور پرزے کا نام کسی کو یاد نہیں رہے گا… میں ایسے کسی ہر کارے اور پرزے کے طور پر تاریخ کا قصہ بننا نہیں چاہتا… ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں، شاید اس میں کامیاب ہوجاؤں اور ناکام بھی رہا تو بھی کوئی احساسِ جرم تو نہیں ہوگا… یہ احساس تو نہیں رہے گا کہ میں سود کھانے اور کھلانے والوں کے ساتھ زندگی گزار کر مرا۔‘‘
سکندر عثمان، سالار سکندر کی دلیلوں کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکے تھے۔ تب بھی نہیں جب وہ ایک ٹین ایجر تھا… اور اب بھی نہیں۔ اب اس کے پاس جو دلیل تھی، وہ بے حد وزنی ہوگئی تھی۔
’’ٹھیک ہے تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو، کرو۔‘‘
انہوں نے بے حد مایوسی سے کہا۔ ’’تم نے پہلے کبھی میری بات نہیں مانی تو اب کیسے مانوگے… مجھے بس افسوس یہ رہے گا کہ تم بہت زیادہ کامیاب ہوسکتے تھے، اس سے کئی گناہ زیادہ ترقی حاصل کرسکتے تھے لیکن تمہارے ذہنی فتور نے ہمیشہ تمہاری ٹانگ کھینچی اور یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں، ضرورت سے زیادہ ذہین ہر مسلمان کا مسئلہ ہے… تم لوگ ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان جھولتے رہتے ہو… نہ خود چین سے رہتے ہو نہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو رہنے دیتے ہو۔‘‘
وہ طنز کرنے کے بعد اب ایک روایتی باپ کی طرح اسے مطعون کررہے تھے۔ سالار مسکرا دیا۔ وہ باپ کی مایوسی کو سمجھ سکتا تھا۔ وہ ان کا خواب توڑ رہا تھا۔
’’مجھے یقین ہے پاپا! میں جو بھی کرنے جارہا ہوں وہ صحیح ہوگا۔ اس لئے آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ اس نے سکندر کو تسلی دی۔
’’اور یہ یقین تمہیں کیوں ہے؟‘‘ سکندر اس کی تسلی کے باوجود طنز کئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔
’’کیوں کہ آپ نے زندگی میں جب جب مجھے جس بھی فیصلے سے روکا ہے، وہ میرے لئے بہت اچھا ثابت ہوا ہے… آپ کی ممانعت گڈلک چارم ہے میرے لئے۔‘‘
سکندر عثمان ٹھیک کہتے تھے، وہ واقعی ڈھیٹ تھا مگر اس نے سینس آف ہیومر اپنے باپ سے ہی لیا تھا، جن کا پارہ لمحہ میں چڑھا اور اترا اور وہ ہنس پڑے۔
’’کمینے!‘‘
’’شکریہ۔‘‘ سالار نے جوابی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
٭…٭…٭
’’اور یہ فلو کب سے چل رہا ہے تمہارا؟‘‘ فرقان نے سالار سے پوچھا تھا۔ وہ تقریباً آٹھ مہینے کے بعد مل رہے تھے اور سالار ڈاکٹر سبط علی سے ملاقات کے بعد فرقان کی طرف آیا تھا۔ دو دن بعد اس کی واپسی کی فلائٹ تھی اور فرقان نے بالکل ڈاکٹروں والے انداز میں اس کے فلو کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا تھا۔
’’یہ تو اب ایک ڈیڑھ ماہ سے کچھ مستقل ہی ہوگیا ہے، آتا جاتا رہتا ہے۔ سر دردکے ساتھ، شاید کسی چیز سے الرجی ہے۔‘‘ سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
’’تم کوئی میڈیسن لے رہے ہو؟‘‘ فرقان نے پوچھا۔
’’ہاں وہی اینٹی بائیوٹک لیکن کبھی اثر ہوجاتا ہے، کبھی نہیں۔‘‘ سالار نے بتایا۔
’’تو تم بلڈ ٹیسٹ وغیرہ کروالو، کہیں کوئی اور مسئلہ نہ ہو۔‘‘ فرقان اس وقت مرکے بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ مسئلہ اتنا بڑا ہوسکتا ہے… وہ کسی معمولی بیماری کو دریافت کرنا چاہتا تھا اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اگلے دو دن لاہور میں اس کے کہنے پر سالار کے کروائے جانے والے ٹیسٹس نے فرقان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی، اسے یہ یقین ہی نہیں آیا تھا کہ یہ رپورٹس سالار کی ہوسکتی ہیں۔
’’کیوں مزید ٹیسٹس کیوں؟ کوئی ایسا سیریس مسئلہ تو نہیں ہے مجھے… فلو ہے، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ دوسرے دن مزید ٹیسٹ کا کہنے پر سالار نے ایک بار پھر لاپرواہی سے اس کی بات ہوا میں اڑانے کی کوشش کی تھی۔ اسے لاہور میں اس دن کاموں کا ایک ڈھیر نپٹانا تھا اور اس ڈھیر میں کسی ہاسپٹل میں جاکر کچھ ٹیسٹ کروانا اس کے لئے بے حد مشکل کام تھا۔ فرقان خود میں اتنی ہمت پیدا نہیں کرسکا کہ وہ اسے بتا پاتا کہ اس کے ابتدائی ٹیسٹ کس چیز کی جانب اشارہ کررہے تھے۔
’’یہ ضروری ہے سالار! کام ہوتے رہیں گے، کام ہوجاتے ہیں لیکن صحت پر کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ فرقان نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
’’صحت بالکل ٹھیک ہے یار! صحت کو کیا ہوا ہے… ایک معمولی فلو ہونے پر تم نے ڈاکٹروں کی طرح مجھے بھی ہاسپٹلز کے چکروں پر لگادیا۔‘‘ سالار نے اسی انداز میں کہا تھا۔
’’اور ویسے بھی اگلے مہینے مجھے امریکہ جانا ہے، وہاں میڈیکل چیک اپ کروانا ہے مجھے اپنا… تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہے…‘‘
وہ اب اسے ٹالنے کی کوشش کررہا تھا اور فون پر اسے کہہ رہا تھا کہ اسے کسی سے ملنا تھا اگلے پندرہ منٹ تک۔
’’سب ٹھیک نہیں ہے سالار!‘‘ فرقان کو بالآخر اسے ٹوکنا پڑا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ سالار اس کی بات پر ٹھٹکا۔
’’میں تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں آدھے گھنٹے میں۔‘‘ فرقان نے فون پر مزید کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا تھا۔
سالار اس کے انداز پر الجھا تھا لیکن اس نے اسے صرف ایک ڈاکٹر کا پروفیشنلزم سمجھا تھا جو اسے اپنی صحت کے حوالے سے فکر مند دیکھ کر اپنی ذمہ داری کا ثبوت دے رہا تھا۔
’’تم فوری طور پر کہیں نہیں جارہے… مجھے اس ہفتے میں تمہارے تمام ٹیسٹس کروانے ہیں اور اس کے بعد ہی تم کہیں جاسکتے ہو۔‘‘
فرقان واقعی نہ صرف آدھے گھنٹے میں اس کے پاس پہنچ گیا تھا بلکہ اس نے سالار کو اپنی سیٹ کینسل کروانے کے لئے بھی کہہ دیا تھا۔




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!