نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

روڈ پر اِکا دُکا گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ سورج نے مکینوں کو گھروں سے نکلنے سے باز رکھا ہوا تھا۔
’’اُف! اللہ کی پناہ یہ گرمی۔‘‘ اس نے رومال سے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔ ستمبر شروع ہونے والاتھا‘ مگر گرمی کے مزاج نہیں بدلے تھے۔
دوپہر تقریباً ڈھل چکی اور سائے بڑھنے لگے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی‘ لیکن اس کے باجود فضا میں حبس اس قدر زیادہ تھا کہ وہ اسٹیشن پر کھڑے کھڑے پسینے میں نہا گئی۔ ’’یا اللہ کوئی رکشا جلدی سے بھیج دے۔‘‘ اس نے قریب سے گزرتے سواریوں سے بھرے رکشوں کو بے زاری سے دیکھتے ہوئے دل سے دعا کی تھی۔ تب ہی ہارن کی تیز آواز نے اس کا دل دھڑکا دیا۔ گاڑی والا ہارن پر ہاتھ رکھ کے اٹھانا بھول گیا تھا۔
اس نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور اگلے ہی پل کھل اٹھی۔ چادر سنبھالتی وہ تیزی سے گاڑی کی طرف آئی ۔ فرنٹ سیٹ پر موجود خوب رو نوجوان نے اس کے لیے اگلا دروازہ کھولا تھا۔
’’شکر ہے آپ آگئے ورنہ آج میرا حشر ہو جاتا۔‘‘ وہ بیٹھتے ہی شروع ہوگئی۔ نوجوان نے خاموشی سے بیک مرر میں دیکھتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔
’’اگر مزید اس گرمی میں کھڑی ہوتی تو مر ہی جاتی۔‘‘ اس سے پہلے کہ اس کی بات مکمل ہوتی، وہ نوجوان درمیان میں ہی بول پڑا۔
’’تمہارا کب ختم ہو رہا ہے آخری سمیسٹر؟ ‘‘سادہ سے لہجے میں سمپل سا سوال۔ وہ اس کی شانِ بے نیازی پر اندر ہی اندر تلملا گئی۔ اسے دیکھ کر ابھرنے والا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ خود بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آج اسے گھر جانا تھا، تب ہی اس وقت کیمپس کے باہر کھڑی بس کا انتظار کررہی تھی۔ بس تو کیا، کوئی خالی رکشا بھی نہیں آیا تھا۔
اسے لگا شاید وہ اس کے روڈ پر کھڑے ہونے سے خفا تھا۔ تب ہی جواب میں وضاحت بھی دے گئی، مگر شاید کبھی کبھی وضاحتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا۔ کچھ ہی دیر میں وہ بس پر تھے ۔ سبین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اسے لگا۔ وہ اسے گاؤں تک چھوڑ کے آئے گا، مگر وہ ٹکٹ لے کر واپس آگیا۔
’’چلو! تمہیں سیٹ دکھا دوں اور ہاں، یاد سے کسی کو فون کر دینا کہ تمہیں لینے اسٹاپ پر ضرور آجائے۔‘‘ وہ اس کا بیگ اٹھاتے ہوئے بولا۔
سبین جو اس کی گاڑی کو دیکھ کر پرجوش سی ہوئی تھی ۔ اب مرجھا سی گئی تھی۔
٭…٭…٭




آسمان پر پھیلتی سرمئی نیلاہٹ کے ساتھ ہی باورچی خانے سے کھٹ پٹ کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ جھنجھلاہٹ سے کروٹیں بدلتے اسے ایک گھنٹا گزر گیا، مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
برتنوں کے شور کے ساتھ ساتھ صحن میں بیٹھی دادی کی آواز بھی اس کے کانوں سے ہو کر سر پر ڈنڈے برسا رہی تھی۔ تنگ آکر اس نے منہ سے چادر ہٹائی اور جھٹکے سے پلنگ سے اٹھ گئی۔ پچھلی دو راتوں سے وہ جاگ رہی تھی ۔ آج فجر کے بعد نیند نے بھولے سے دستک دی، تو گھر کے فوجی ماحول نے اسے سونے نہ دیا ۔ دادی محترمہ کا حکم تھا کہ زمین پر صبح کی پہلی کرن پڑتے ہی چولہا جل جائے۔ دیر کرنے سے گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے اور بھلا ہو اماں کا جو اپنی فولادی قوت جہیز میں لائی تھیں۔
اگر اماں ہلکے سے بھی تپائی پر برتن رکھ دیتیں تو یوں معلوم ہوتا گاؤں کی بڑی عمارت گر گئی ہو۔صبح جلدی جلدی میں اماں برتن پٹختیں تو گاؤں کے سب لوگ بے دار ہو جاتے ۔یہ گونج دار آواز گاوؑں والوں کے لیے الارم کا کام دیتی۔الارم بھی وہ جس کے بجنے کے بعد کسی کا سونے کو دل ہی نہ چاہے۔
’’السلام علیکم!‘‘ سر تھامے وہ کمرے سے نکل آئی۔ سامنے چارپائی پر دادی تشریف فرماں تھیں اور اماں کو ایسے مشوروں نواز رہی تھیں جیسے اماں نو بیاہتا ہوں اور کل رات ہی دہلیز پر قدم رکھا ہو۔
’’وعلیکم السلام! اُٹھ گئی پتر؟‘‘ دادی نے مشورے روک کر اپنی شہری پوتی کو پیار سے دیکھا۔
’’جی! ہلکی سی آواز میں کہہ کر وہ چارپائی پر ان کے برابر بیٹھ گئی۔ دادی کو وہ کیا بتاتی کہ پچھلی دو راتوں سے جاگ رہی ہے۔
’’گڑیا ناشتا بناؤں تمہارے لیے؟‘‘ اماں نے کچن ہی سے آواز لگائی۔
’’بس چائے دے دیں اماں۔‘‘ اس پر بے زاریت چھائی ہوئی تھی۔
پتر! صبح صبح یہ کلموا پانی نہ پیا کر، تازہ دودھ پیا کر۔ کالا پانی پی پی کر دیکھ رنگ کیسا کملا گیا ہے۔‘‘ دادی نے اپنے مخصوص انداز میں محبت سے سمجھایا۔
’’دادی مجھ سے صبح صبح دودھ نہیں پیا جاتا ۔‘‘سبین نے منہ بنا کر کہا۔
اس سے پہلے کہ دادی اپنی نصیحتوں کی پٹاری کھولتیں، اماں ناشتا لیے صحن میں آگئیں۔ دادی بسم اللہ پڑھ کر رغبت سے دودھ ، اصلی گھی کا پراٹھا اور بھنی مرغی نوش فرمانے لگیں۔ چائے کا کپ تھامے وہ ان کوحیرت سے دیکھتی رہ گئی۔
٭…٭…٭
چائے سے سر درد میں کچھ کمی آئی تو اس نے اُٹھ کے کپڑے تبدیل کیے، بال بنائے اور اماں کو بتا کر اپنی بچپن کی سہیلی نیلم کے گھر چلی گئی۔ گاؤں آئے اسے دو روز ہو گئے تھے، مگر اپنی سستی کی وجہ سے وہ گھر سے نہیں نکلی تھی۔ سب سہیلیاں خود ہی آکے مل گئی تھیں۔
’’السلام علیکم چچی! دروازے پر دستک دے کر وہ اندر آئی تو بینا چچی صحن میں ہی بیٹھی نظر آگئیں۔‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘ چاولوں سے بھرا تھال نیچے رکھ کے چچی خوش دلی سے ملیں۔
’’واہ بھئی! آج تو سبین نے یہاں کا رخ کیا ہے۔‘‘ چچی نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
’’نیلم کمرے میں ہے، جا بیٹا اندر چلی جا۔‘‘چچی نے اسے پیار دیتے ہوئے کہا تو وہ کمرے میں چلی گئی۔
نیلم صاحبہ بڑے مزے سے خراٹے لے رہی تھیں۔ اس نے کمرے میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو اسٹڈی ٹیبل پر اپنی مطلوبہ چیز پا کر اس کے چہرے پر شریر سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور پانی سے بھرا جگ نیلم پر تیزی سے انڈیل دیا۔ ایک چیخ کے ساتھ گھبرا کے اٹھی، سامنے سبین پیٹ پر ہاتھ رکھے کھڑی ہنس رہی تھی۔ نیلم نے اسے خون خوار نظروں سے دیکھا، دونوں کا قہقہہ ایک ساتھ کمرے میں گونجا تھا۔
’’صبح بہ خیر!‘‘ سبین نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’بدلہ اُدھار رہا۔‘‘ نیلم نے ناک سکیڑ کر کہا۔
’’کیا ہوا بیٹا؟‘‘ بینا چچی کی آواز پر دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا‘ جہاں بیناچچی حیران و پریشان کھڑی دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔ کچھ لمحے بعد اُن کے چہرے پر بھی مسکراہٹ اُمڈ آئی۔
’’تم دونوں نہیں سدھرنے والی۔‘‘ بینا چچی نے ہنس کے کہا۔
’’امی سبین کے لیے سینڈوچ اور بروسٹ بنا لیں ۔‘‘نیلم نے ماں کو مخاطب کیا۔
’’سبین کے لیے یا تمہارے لیے ؟‘‘ بینا چچی نے اسے گھورا۔
’’دونوں کے لیے ۔‘‘ نیلم نے مسکرا کر کہا۔
’’چچی بس سینڈوچ بنا دیں‘ میں نے آپ کے ہاتھ کے سینڈوچز تو ہاسٹل میں بہت مس کیے۔‘‘
بینا چچی خود بھی پڑھی لکھی تھیں اور انہوں نے جدید کھانے بنانا‘ کراچی میں مقیم اپنی نند سے سیکھے تھے جو ہر سال چھٹیوں میں گاؤں کا ضرور چکر لگاتی تھیں۔
باتوں باتوں میں وقت کیسے گزرا‘ پتا ہی نہیں چلا۔ تپتی دوپہر شام میں تبدیل ہو رہی تھی۔ سبین ایک خوش گوار دن گزار کر نیلم سے اس کے گھر آنے کا وعدہ لے کر لوٹ آئی۔
دادی صحن میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں اور اماں کچھ دیر سستانے کے لیے کمرے میں پلنگ پر لیٹی تھیں۔ وہ بھی خاموشی سے اماں کے ساتھ لیٹ گئی ۔کچھ دیر بعد اسے نرم گداز ہاتھوں کا لمس اپنے سر پر محسوس ہوا۔ سبین نے موندی موندی آنکھوں سے دیکھا اماں مسکراتے ہوئے اس کا سر سہلا رہی تھیں۔
’’کیا بات ہے؟ آج چودھرانی جی کو ہم پر بڑا پیار آرہا ہے؟‘‘ سبین نے شریر لہجے میں کہا۔
’’جب کڑیاں بڑی ہو جائیں تو ان کی جدائی کی سوچ ہر وقت ماں باپ کو بے چین رکھتی ہے۔‘‘ سبین نے چونک کر دیکھا‘ اماں کی آنکھیں نم تھیں۔
’’میں نے آپ سے دور نہیں جانا، وہ لاڈ سے ماں کے گلے لگ گئی۔
’’چل پگلی! ایک دن ہر کڑی نے رخصت ہونا ہوتا ہے۔‘‘ اماں نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگائی۔
’’سبین! تیرے بابا بتا رہے تھے کہ بھائی فخر، بھابی اور سب بچے اسی ماہ گاؤں آرہے ہیں۔ اکتیس کو وہ لوگ تیرے اور زین کے ویاہ کا کہہ رہے ہیں۔ وقت ہی کتنا ہے؟ آج پانچ تاریخ ہے اور تیاری کے لیے ہفتہ دو ہفتہ ہے، بس پھر تو تو مایوں بیٹھ جائے گی۔‘‘ اماں نے فکر مندی سے کہا۔
’’اماں اتنی جلدی ؟‘‘ سبین کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ دو دن تو ہوئے تھے اسے ہوسٹل سے گاؤں آئے۔
’’بیٹا! بھائی فخر تیری پڑھائی ختم ہونے کا کب سے انتظار کر رہے تھے۔ پھر سردیوں کی چھٹیوں میں سب رشتے دار بھی جمع ہوتے ہیں۔اچھا ہے، سب شریک ہو جائیں گے۔ نیک کام میں مزید دیر کرنا مناسب نہیں۔ اماں اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔
’’کل خریداری کرنے نیلم کے ساتھ شہر چلی جانا۔ تمہارے بابا لے جائیں گے تم دونوں کو۔‘‘ اماں مزید پروگرام ترتیب دینے لگیں اور وہ غائب دماغی سے سر جھکائے سنتی رہی۔
٭…٭…٭
رات دھیرے دھیرے اپنے پنکھ پھیلا رہی تھی۔ شام ڈھلتے ہی ٹھنڈ میں بھی اضافہ ہوگیا۔ چاروں طرف پھیلے امرود کے درخت اندھیرے میں چھپ گئے تھے۔
چاند کی ہلکی سی روشنی کھیتوں کو روشن کیے ہوئے تھی۔ سوچوں کا جہاں آباد کیے چھت کی منڈیر پر وہ مضطرب کھڑی تھی۔ ذہنی طور پر وہ خود کو تیار نہیں کر پا رہی تھی۔ یہ سب تو بہت پہلے سے طے تھا کہ ایک نہ ایک دن اسے زین کی سنگت میں نئی دنیا آباد کرنی ہی تھی ‘ مگر اتنی جلدی اس نے یہ نہیں سوچا تھا۔
ہائے اللہ!نیلم کو اپنے عقب میں دیکھ کر سبین کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلگئی۔
’’کن خیالوں میں گم ہو؟‘‘وہ بھی اس کے ساتھ چھت کی منڈیر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
’’زین کے گھر والے عید پر شادی کا کہہ رہے ہیں۔‘‘ سبین نے اسے بتایا۔
’’تو اس میں دکھی ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘ نیلم نے اپنی نظریں اس کے پریشان چہرے پر ٹکاتے ہوئے کہا۔
’’یار! مجھے زین سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘سبین آسمان کو تکتے ہوئے اپنا خدشہ زبان پر لے آئی۔
’’زین سے ڈر؟ کیوں؟ وہ کوئی بھوت ہے کیا؟‘‘نیلم نے ہنستے ہوئے کہا۔ اسے حیرت ہوئی۔
’’نہیں یار!‘‘وہ مضطرب تھی۔
’’کھل کے بتا سبین کیا بات ہے ؟ ‘‘نیلم نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔ سبین نے گاؤں آتے وقت زین سے ہونے والی ملاقات کا قصہ من و عن نیلم کے گوش گزار کر دیا اورساتھ ہی اپنے دل میں جنم لینے والے سب خدشات بھی اسے بتا دیے۔نیلم خاموشی سے سنتی رہی۔
’’اُف سبین! اس بے کار سی بات کو تم دل پر لے بیٹھی ہو؟ کیا پتا زین بھائی اس وقت پریشان ہوں۔‘‘نیلم نے غصے سے کہا۔
’’جو بھی ہو‘ بھلا اپنی منگیتر کے ساتھ کوئی ایسے کرتا ہے ۔‘‘سبین نے منہ پھلا کے کہا۔ اس کی ستواں ناک غصے سے سرخ ہو رہی تھی۔
’’تم دونوں اس وقت تنہا تھے‘ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ جھجک رہے ہوں۔‘‘ نیلم کو اس وقت وہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!