آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

امامہ دم بخود اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی جبکہ لاؤنج میں آتے ہوئے سکندر عثمان اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکے تھے۔ حمین نے سکندر عثمان کو اندر آتے اور ہنستے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر، جاکر ان کی ٹانگوں سے لپٹا اور اس نے وہ مطالبہ ایک بار پھر پیش کیا۔
’’ایک دن آئے گا جب بے بی آپ کے پاس ہوگا۔‘‘ انہوں نے اسے تھپکتے ہوئے تسلی دی۔
’’ایک دن؟‘‘ حمین کی آنکھیں عادتاً گول ہوئیں۔ ’’آج کیوں نہیں؟‘‘
اس نے ضد کی۔ سکندر عثمان نے زمین پر بیٹھی کھلونوں سے کھیلتی ہوئی چنی کو دیکھا۔ جتنا ترحم اور احساسِ جرم سالار سکندر کے دل میں چنی کے لئے تھا، اتنا ہی ترحم سکندر عثمان کے دل میں اس بچی کے لئے تھا۔ وہ جیسے ان دونوں کا مشترکہ احساسِ جرم تھی۔
’’بیٹا! اسے واپس جانا ہے۔ وہ آپ کی بے بی نہیں ہوسکتی۔‘‘ سکندر عثمان نے اب حمین کو سمجھانے کی کوشش کا آغاز کیا۔
’’اسے کہاں جانا ہے؟‘‘ حمین کو سکندر عثمان کی بات پر ایک نیا جھٹکا لگا۔ وہ جیسے ہکا بکا انداز میں چنی کو دیکھنے لگا۔ ’’اپنی فیملی کے پاس۔‘‘ سکندر عثمان نے مختصراً کہا۔ وہ اسے یتیم خانہ کے بارے میں بتانا نہیں چاہتے تھے، نہ چنی کے حوالے سے مزید سوالوں کا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے تھے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا سوال اس صورتحال میں غلط ہوگیا تھا۔
’’لیکن ممی نے کہا تھا اس کی کوئی فیملی نہیں ہے۔‘‘
سکندر عثمان نے امامہ کو دیکھا۔ امامہ نے انہیں۔ ’’آپ کے بابا اس کو نرسری میں داخل کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ امامہ نے اس کے لئے ایک جواب ڈھونڈا۔
’’یہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی۔ ہمارا گھر اتنا بڑا ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلا کر ’’اتنا‘‘ پر زور دیا۔
سوال بے ساختہ تھا اور جواب بھی اسی میں تھا۔ بچے بعض دفعہ وہ حل چٹکی بجاتے پیش کردیتے ہیں جن سے بڑے آنکھیں چراتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ حمین کا یہ ’’حل‘‘ سالار سکندر نے بھی سنا جو اس وقت چند یتیم خانوں کا معلوماتی میٹریل اٹھائے لاؤنج میں داخل ہورہا تھا لیکن اس وقت حمین کا یہ حل ان سب کو حمین کی بچگانہ ضد اور فینٹسی سے زیادہ کچھ نہیں لگا تھا۔ وہ ابھی دو ہفتے اور پاکستان میں تھا اور وہ ان دو ہفتوں میں چنی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرلینا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے وہ اس کے رشتہ داروں سے کورٹ کے ذریعے چنی کی گارڈین شپ لینے کے لئے مالی معاملات طے کرنے میں مصروف تھا۔
’’یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔ یہ آپ کے دادا ابو کا گھر ہے۔‘‘ اندر آتے ہوئے سالار نے اس کے سوال کا جواب پیش کیا۔
حمین سوچ میں پڑا۔




’’آپ کے بابا صحیح کہہ رہے ہیں۔‘‘ امامہ نے جیسے اس کی خاموشی پرسکون کا سانس لیا۔ ’’ہمارے پاس گھر نہیں ہے۔‘‘ حمین الجھا۔ ’’یہ ہمارے ساتھ کنشاسا میں رہ سکتی ہے۔‘‘ حمین کو کنشاسا والے گھر کا خیال آیا۔ ’’لیکن وہ بھی ہمارا گھر نہیں ہے۔ ہم اسے جلد چھوڑ دیں گے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال میں۔‘‘
سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس کے ساتھ یوں بات کرنا شروع کردی جیسے وہ کسی بڑے آدمی سے بات کررہا ہو۔ اس کے تینوں بچے غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے اور یہ ان کے جینز میں ودیعت ہوئی تھی مگر یہ غیر معمولی ذہانت جو جبریل اور عنایہ کی شکل میں انہیں نعمت لگی تھی، حمین کی شکل میں مصیبت بن گئی تھی۔
حمین ابھی بھی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ جیسے چنی کے لئے ایک گھر کی تلاش میں تھا جہاں اسے رکھا جا سکتا اور امامہ کو گھر کے ذکر پر جیسے اپنا گھر یاد آگیا تھا۔ ’’ہمارے پاس ہمارا اپنا گھر کیوں نہیں ہے؟‘‘
’’ہمارا اپنا گھر ہوگا۔‘‘ امامہ نے حمین کو جیسے بہلایا۔
’’کب…‘‘
’’بہت جلد…‘‘
امامہ چائے بناکر سالار اور سکندر عثمان کو پیش کررہی تھی جو ملازم چند لمحے پہلے رکھ کر گیا تھا۔
’’اسی لئے منع کرتا تھا میں کہ فضول خرچیاں مت کرو۔ وقت پر ایک گھر بنالو، جیسے تمہارے سارے بھائیوں نے بنالئے۔‘‘ سکندر عثمان کو اس موضوع گفتگو سے وہ پلاٹ اور وہ انگوٹھی یاد آگئی۔
’’وہ پلاٹ اس وقت ہوتا تو چار پانچ کروڑ کا ہوچکا ہوتا۔ اس رِنگ کی اس وقت کی مارکیٹ پرائس سے ڈبل۔‘‘
سکندر عثمان نے روانی سے کہا۔ اپنے لئے چائے ڈالتی امامہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹکی، الجھی۔
’’کس رِنگ کی؟‘‘ اس نے جیسے حیران ہوکر سکندر عثمان سے پوچھا۔
’’جو رِنگ تم نے پہنی ہوئی ہے۔‘‘ سکندر عثمان نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ سالار کو غلطی کا احساس ہوا۔ اسے سکندر کو اس موضوع پر آنے سے پہلے موضوع بدل دینا چاہیے تھی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ امامہ نے بے یقینی سے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا۔ پھر سالار کو، پھر سکندر عثمان کو…
’’یہ پلاٹ بیچ کر آئی ہے؟‘‘
’’ہاں… ایک کروڑ 37 لاکھ کی… ذرا سوچو، دس گیارہ سال پہلے وہ پلاٹ نہ بکتا تو آج وہ اسلام آباد میں جس جگہ پر ہے اس سے چار پانچ گنا قیمت ہوچکی تھی۔ رنگ تو اتنی قیمتی نہیں ہوسکتی وقت کے ساتھ…‘‘
سکندر عثمان نے نہ امامہ کے تاثرات پر غور کیا تھا، نہ سالار کے… وہ روانی میں چائے پیتے ہوئے بات کہتے چلے گئے تھے۔ امامہ ساکت اور دم بخود سالار کو دیکھ رہی تھی جو اس سے نظریں چرائے چائے پینے میں مصروف تھا۔ وہ اس وقت یہی کرسکتا تھا۔ کمرے میں یک دم اپنی بات کے اختتام پر چھانے والی خاموشی سے سکندر عثمان کو لگا، کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے وہ رُکے، انہوں نے ساکت بیٹھی امامہ کو دیکھا، جو سالار کو گھور رہی تھی اور پھر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں انہیں اس خاموشی کی وجہ سمجھ میں آگئی۔
’’اسے اب بھی نہیں پتا؟‘‘ انہوں نے بے یقینی سے اپنے بیٹے سے پوچھا جس نے بک سامنے پڑی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا۔
’’اب… پتا چل گیا ہے۔‘‘ سکندر عثمان کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ فوری طور پر اس انکشاف کے بعد کس ردعمل کا اظہار کرتے جو ایک راز کو غیر ارادی طور پر افشا کرنے پر ان کی شرمندگی کو چھپالیتا۔
امامہ نے اپنے ہاتھ کی پشت کو پھیلا کر اس انگوٹھی کو دیکھا… پھر سکندر عثمان کو… پھر سالار کو… وہ اگر کہتا تھا کہ وہ انمول تھی تو غلط نہیں کہتا تھا۔ اس کی زندگی میں بہت سارے لمحے آئے تھے، جب اس کا دل بس سالار کے گلے لگ جانے کو چاہا تھا۔ کسی لفظ، کسی اور اظہار کے بغیر… احسان مندی اور تشکر کے لئے دنیا میں موجود سارے لفظ کبھی کبھی اس جذبے اور احساس کو کسی دوسرے تک پہنچانے کے لئے چھوٹے پڑجاتے ہیں جو انسان کے اندر سے کسی دوسرے کے لئے کسی چشمے کی طرح امڈتا ہے۔ اس کا دل بھی اس وقت سالار سے صرف لپٹ جانے کو چاہا تھا۔ بچوں کی طرح… وہ زندگی میں کتنی بار اسے اس طرح گونگا کرتا رہے گا۔
اس نے سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا جو اس کی زندگی کی کتاب کا سب سے خوب صورت ترین باب تھا۔ یہ اس انگوٹھی کی قیمت نہیں تھی۔ جس نے امامہ ہاشم کی زبان سے لفظ چھین لئے تھے۔ یہ دینے والے شخص کی بے لوث محبت تھی جس کے سامنے امامہ کھڑی نہیں ہو پارہی تھی۔ وہ کیا کہتی… وہ سالار سکندر سے کیا کہہ سکتی تھی۔
٭…٭…٭
’’تم نے رنگ اتاردی؟‘‘ اس رات سالار امامہ کے ہاتھ میں اس رنگ کو نہ پاکر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
’’میں بے وقوف نہیں ہوں کہ اتنی قیمتی رنگ ہر وقت پہنے پھروں۔‘‘ امامہ نے اسے جواباً کہا۔ وہ اپنے فون پر کچھ ٹیکسٹ میسجز چیک کرنے میں مصروف تھی۔ سالار ٹی وی پر کوئی نیوز چینل لگائے بیٹھا تھا، جب چینل سرفنگ کرتے ہوئے اس کی نظر امامہ کے ہاتھ پر پڑی تھی جو اس کے قریب صوفے پر بیٹھی اپنے فون میں گم تھی۔
’’تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھی اس کی قیمت۔‘‘ اس نے سالار سے کہا۔
’’صرف اسی خدشے کے تحت نہیں بتایا تھا تمہیں… اور دیکھ لو میرا اندازہ ٹھیک تھا… تم اسے بھی اب لاکر میں رکھ دوگی۔‘‘
سالار کچھ ناخوش سا دوبارہ ٹی وی کی طرف سے متوجہ ہوا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ خاموش رہی، پھر اس نے کہا۔
’’تو اور یہاں رکھوں… ساتھ لئے پھرنا بے وقوفی ہے، گم ہوجائے تو؟ مجھے پہلے بھی اس کے گم ہونے کا اتنا صدمہ ہوا تھا اور اب تو… ہارٹ اٹیک ہی ہوجائے گا مجھے جو ایک کروڑ سے بھی مہنگی انگوٹھی میں گم گردوں۔‘‘
’’تقریباً سوا دو کروڑ۔‘‘ سالار ٹی وی پر نظریں جمائے بڑبڑایا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔
’’کیا…؟‘‘
’’اس کی موجودہ قیمت…‘‘ وہ اسی انداز میں اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر بولا۔
’’اسی لئے تو نہیں پہن رہی… بے وقوفی تھی ویسے یہ…‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں کچھ توقف کے بعد کہا۔
’’کیا؟‘‘ سالار اس بار اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’ایک پلاٹ بیچ کر انگوٹھی خریدنا… اور وہ بھی اتنی مہنگی… میں تمہاری جگہ ہوتی تو کبھی نہ خریدتی۔‘‘
’’اسی لئے تم میری جگہ نہیں ہو امامہ…‘‘ سالار نے جتانے والے انداز میں اسے کہا۔ وہ نادم ہوئی تھی لیکن اس نے ظاہر نہیں کیا۔
’’وہ پلاٹ ہوتا تو آج اسے بیچ کر گھر بناچکے ہوتے ہم…‘‘ اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سالار سے کہا۔
’’تمہارے خوابوں کا ایکڑوں پر پھیلا ہوا گھر چند کروڑ میں بن جاتا؟‘‘
وہ اب اسے چڑانے والے انداز میں کچھ یاد دلارہا تھا اور امامہ کو ایک جھماکے کے ساتھ وہ اسکریپ بک یاد آئی، جس میں اس نے اپنے ممکنہ گھر کی ڈھیروں ڈرائنگز بنارکھیں تھیں… گھر کے نقشے ہی نہیں کمروں کی کلر اسکیم تک… گھر کے اندر کی سجاوٹ کی تفصیلات تک… اور وہ اسکریپ بک گھر کے بہت سے دوسرے سامان کے ساتھ سکندر عثمان کے گھر کی اوپری منزل کے دو کمروں میں اسٹور کئے ہوئے سامان کے ساتھ کہیں رکھی ہوئی تھی۔ دس سال پہلے امریکہ شفٹ ہونے کے بعد وہ اسکریپ بک اس کے پاس تھی لیکن وہاں سے کانگو جانے سے پہلے وہ اپنا کچھ سامان پاکستان چھوڑ گئی تھی اور اس میں وہ اسکریپ بک بھی تھی اور شاید اس کی قسمت میں بچنا تھا۔ اس لئے وہ بچ گئی تھی ورنہ کانگو میں پڑے اس کے باقی سامان کے ساتھ جل کر خاک ہوچکی ہوتی۔
’’اچھا کیا مجھے یاد دلادیا۔ میں تو کل ہی وہ اسکریپ بک نکالتی ہوں۔ مدت ہوگئی اسے دیکھے اور اس میں کچھ add کئے۔‘‘
امامہ کا ذہن برق رفتاری سے انگوٹھی سے ہٹ کر گھر پر چلا گیا تھا اور پتا نہیں کیا ہوا، پھر ٹی وی دیکھتے دیکھتے سالار کو امریکہ میں خریدے اور پھر بیچ دیئے جانے والے اس گھر کا خیال آیا تھا، جس کے بارے میں اس نے امامہ کو بتایا تک نہیں تھا۔
’’تمہیں ایک چیز دکھاؤں؟‘‘ سالار نے ریموٹ کا میوٹ کا بٹن دباتے ہوئے ٹی وی کی آواز بند کی اور سامنے ٹیبل پر پڑے اپنے لیپ ٹاپ کو اٹھالیا۔
’’کیا؟‘‘ وہ دوبارہ اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے چونکی۔
سالار اب لیپ ٹاپ کھول کر اس میں سے تصویروں والے حصے میں جاکر اس گھر کی تصویریں ڈھونڈ رہا تھا اور وہ چند منٹوں کی جدوجہد کے بعد اسکرین پر نمودار ہوگئی تھیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ امامہ نے ایک کے بعد ایک اسکرین پر نمودار ہونے والی ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے سالار کو دیکھا۔
’’ایک گھر… ایک جھیل… اس کے گرد پھیلا لان…‘‘
وہ اس کی بات پر ہنسی۔
’’وہ تو مجھے نظر آرہا ہے… لیکن کس کا گھر ہے؟‘‘




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!