آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

’’کیا مسئلہ ہے فرقان! تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتادیتے…؟ کیا چھپا رہے ہو تم؟ کیوں ضرورت ہے مجھے اتنے لمبے چوڑے ٹیسٹس کی؟‘‘
سالار اب پہلی بار واقعی کھٹکا تھا۔ فرقان کو احساس ہوگیا تھا کہ وہ اسے کچھ بتائے بغیر ٹیسٹ پر آمادہ نہیں کرسکتا تھا۔
’’میں صرف یہ کنفرم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی ٹیومر نہیں ہے۔‘‘
وہ دنیا کا مشکل ترین جملہ تھا جسے ادا کرنے کے لئے فرقان نے وہ سارے لفظ اکٹھے کئے تھے، یوں جیسے سالار سے زیادہ وہ اپنے آپ کو یہ تسلی دینا چاہتا تھا کہ جو وہ رپورٹس اور اس کا طبی علم اسے بتارہاتھا وہ غلط ثابت ہوجائے۔ ہر قیمت پر غلط ثابت ہوجائے۔
’’ٹیومر؟‘‘ سالار نے بے یقینی سے کہا۔
’’برین ٹیومر۔‘‘ فرقان نے اگلے دو لفظ جس وقت سے کہے… سالار اس وقت سے بھی انہیں بل نہیں سکا، اس کے کان جیسے سائیں سائیں کرنے لگے تھے، حواس اور دماغ ایک ساتھ ماؤف ہوئے تھے، کئی لمحے وہ بے یقینی سے فرقان کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
’’ٹیسٹس جو تم نے کروائے ہیں ہیں یہ انڈی کیٹ کررہے ہیں کہ…‘‘
وہ خود بھی وہ جملہ پورا نہیں کرپایا… زندگی کا خوفناک ترین لمحہ تھا وہ… اور خوفناک ہی لگ رہا تھا سالار کو… وہ پاکستان کے بہترین اونکالوجسٹ میں سے ایک کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور فرقانو کو اگر ایسی کچھ علامات نظر آئی تھیں تو وہ اندازے کی غلطی نہیں ہوسکتی تھی۔
٭…٭…٭




’’اوہ مائی گاڈ…‘‘ حمین نے امامہ کے ساتھ اسکول کوریڈور میں چلتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں قلقاری مارتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
Mummy! I have made you so famous.
امامہ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ اٹینڈ کرنے اسکول آئی تھی اور حمین کو پڑھانے والا ہر ٹیچر حمین کی ممی سے ملنے کا خواہش مند تھا… اور اسکول میں ہونے والی وہ پیرنٹ ٹیچرز میٹنگز جو کبھی سالار اور امامہ کے لئے جبریل اور عنایہ کی وجہ سے فخر کا باعث ہوتی تھیں، اب ایک کڑوی گولی تھی یا پھر تلوار کی دھار جس پر چلنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا، ہر ٹیچر کے پاس حمین کا ایک اعمال نامہ تھا جو وہ امامہ کودکھانا چاہتا تھا۔
“I am so disappointed.”
امامہ نے اپنے ساتھ چلتی ہوئی رئیسہ کو اپنے دائیں طرف سے بائیں طرف کرتے ہوئے حمین کو سرزنش کی، جو اس بات پر بے حد فخر محسوس کررہا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کی ممی ہر جگہ جانی جارہی تھی۔
’’دیکھو رئیسہ کی کسی نے شکایت نہیں کی… I am so proud of her ‘‘
امامہ نے اسے رئیسہ کی مثال دینی شروع کی۔
“I don’t think so.”
حمین نے ماں کی بات سے متاثر ہوئے بغیر کہنا شروع کیا۔
“Every teacher said that she can’t speak well.”
اس سے پہلے کہ وہ پھر شروع ہوجاتا، امامہ نے اسے روکنا ضروری سمجھا۔
’’وہ سیکھ لے گی، ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘
امامہ نے رئیسہ کا دفاع کرنا ضروری سمجھا لیکن جو حمین کہہ رہا تھا وہ غلط نہیں تھا… رئیسہ کو ایڈاپٹ کرتے ہوئے امامہ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس بچی کی پرورش سے بڑا چیلنج اسے لکھنا پڑھنا سکھانا تھا… اسے یہ مسئلہ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ وہ پیدائشی ذہین تھے… ماںباپ دونوں طرف سے اور ان کے لئے کوئی بھی چیز سیکھنا کیک واک تھی۔ رئیسہ کے ساتھ معاملہ مختلف تھا۔ وہ چیزوں کو مشکل سے پہچان پاتی اور انہیں یاد رکھنے کی دقت کا شکار رہتی۔ یہ اللہ کا شکر تھا کہ وہ autistic نہیں تھی نہ ہی اسے کوئی اور mental disability تھی، مگر وہ امامہ کے لئے ایک صبر آزما کام ضرور تھی اور رئیسہ کا کم ذہین ہونا اس کے بچوں سے بھی چھپا ہوا نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ رئیسہ سے بے حد مانوس ہونے کے باوجود یہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ ان تینوں سے different تھی۔
’’اس بار تمہارے بابا آئیں گے تو میں انہیں وہ ساری باتیں بتادوں گی جوتمہاری ٹیچرز نے تمہارے بارے میں کی ہیں۔‘‘ امامہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دھمکایا تھا۔
“My teacher back bite, why do you want to pick a bad habit?”
اس نے جیسے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اوکے، دیکھو پھر۔‘‘ امامہ نے اسے دھمکایا اور فون پر سالار کو کال ملائی۔ چند مرتبہ بیل جانے کے بعد فون اٹھالیا گیا، لیکن اٹھانے والا فرقان تھا، امامہ حیران ہوگئی۔ سالار لاہور میں تھا اور اس نے کچھ مصروفیات کی وجہ سے اپنی سیٹ آگے کروالی تھی۔ فرقان سے وہ جس دن پہلی بار لاہور آکر ملا تھا، اس نے امامہ کو بتایا تھا۔ اس نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ فرقان اس کے بار بار ہونے والے فلو کی وجہ سے اسے بلڈ ٹیسٹ کروانے کا کہہ رہا تھا اور امامہ نے اس سے کہا تھا کہ اسے فرقان کی بات مان لینی چاہیے۔
’’پتا نہیں مجھ سے کہہ رہا تھا میرے چہرے کے ایک حصے پر سوجن نظر آرہی ہے۔ میں نے کہا فلو ہمیشہ ناک کے اسی حصے ہوتا رہتا ہے، اب بھی ہے شاید اس وجہ سے، لیکن ساتھ سی ٹی اسکین کا بھی کہہ رہا ہے۔ کروالوں گا تاکہ اسے تسلی ہوجائے۔ ڈاکٹر آدھے پاگل ہوتے ہیں۔‘‘
اس نے تب امامہ سے کہا تھا، لیکن سالار نے اسے اگلے دن یہ بھی بتادیا تھا کہ وہ ٹیسٹ کروا آیا تھا، لیکن اس کے بعد امامہ اور سالار کی ان ٹیسٹ کی رپورٹس کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس نے خود ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ چونکہ سالار نے ٹیسٹ کے حوالے سے اسے کچھ بتایا نہیں تو اس کا مطلب یہی تھا کہ ٹیسٹ ٹھیک ہی رہے ہوں گے۔
اور اب فرقان ایک بار پھر سالار کے فون پر تھا تو یہ لاہور میں اس کی سالار سے تیسری ملاقات تھی ان چند دنوں میں… وہ سوچے بغیر نہیں رہ سکی، وہ اب اس سے اس کا اور بچوں کا حال پوچھ رہا تھا، لیکن اس کا انداز بے حد عجیب تھا، وہ خوش مزاجی جو اس کے طرز تخاطب کا حصہ ہوتی تھی، وہ آج امامہ کو مکمل طور پر غائب محسوس ہوئی۔
’’سالار ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہے تمہیں۔‘‘ اس نے ابتدائی علیک سلیک کے بعد اس سے کہا۔
’’فون آپ کو کیسے دے دیا اس نے؟‘‘ یہ بات امامہ کو بے حد حیران کن لگی تھی۔
’’ہاں وہ اسپتال میں آئے ہوئے تھے اور سالار کو مجھ سے کچھ کام تھا اسی لئے وہ یہاں ملنے آیا مجھے… ذرا واش روم تک گیا ہے تو فون یہیں چھوڑ گیا۔‘‘
فرقان نے روانی میں وہ جگہ بتائی جہاں وہ تھے، پھر اسی روانی میں امامہ سے اس جگہ ہونے کا جواز دیا، پھر فون اپنے پاس ہونے کی توجیہہ دی اور امامہ کے لئے اپنے بیان کو ناقابل یقین کردیا۔ وہ واش روم جاتے ہوئے اپنا فون کہیں چھوڑ کر جانے والوں میں سے نہیں تھا، وہ بھی ایک پبلک پلیس پر… بے شک وہ فرقان کا اسپتال ہی کیوں نہ ہوتا۔ وہ کھٹک گئی تھی، لیکن اس نے مزید سوال جواب کے بجائے فون بند کرکے سالار کی کال کا انتظار کرنا بہتر سمجھا۔
سالار ایم آر آئی کروا رہا تھا اور پچھلے چند دنوں میں اوپر تلے ہونے والے ٹیسٹ ان سارے خدشات کی تصدیق کررہے تھے جو فرقان کوہوئے تھے۔ اسے برین ٹیومر تھا لیکن اس کی نوعیت کیا تھی، یہ کس اسٹیج پر تھا۔ اس کی ہولناکی کیا تھی، یہ جاننے کے لئے ابھی مزید بہت سے ٹیسٹ اور ڈاکٹرز کی رائے ضروری تھی۔ سالار ابتدائی شاک کی کیفیت سے نکل چکا تھا، مگر اس کی زندگی یک دم جمود کا شکار ہوگئی تھی۔ وہ بھاگ دوڑ جو وہ پچھلے کئی سالوں سے کرتا آرہا تھا اور جس میں اس کی زندگی کے روز و شب گزر رہے تھے وہ عجیب انداز میں رُکی تھی۔
برین ٹیومر مہلک تھا اس کی تصدیق ہوچکی تھی، لیکن وہ کتنا جان لیوا تھا اور صحتیابی کے چانسز کیا تھے… علاج کیا تھا… کہاں سے ہوسکتا تھا… کتنی مدت اس کے لئے درکار تھی… اس کی صحت پر اس کے کیا اثرات ہونے والے تھے… اور ان سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس کی فیملی پر اس کی اس بیماری کے انکشاف کا کیا اثر ہونے والا تھا۔… وہ بتائے یا نہ بتائے… وہ چھپائے تو کس طرح…؟
اور وہ پہلا موقع تھا جب سالار سکندر نے پہلی بار بیٹھ کر اپنی زندگی کے بیالیس سالوں کے بارے میں سوچا تھا۔ گزر جانے والے بیالیس سالوں کے بارے میں اور باقی کی رہ جانے والی مدت کے بارے میں جو یک دم ہی دہائیوں سے سمٹ کر سالوں، مہینوں، ہفتوں یا دنوں میں سے کسی کا روپ دھارنے والی تھی۔
مہلت کا وہ اصول جو قرآن پاک کی بنیاد تھا۔ وہ سالار سکندر کی سمجھ میں آیا تھا، لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ وہ قانون اب اس کی اپنی زندگی پر لاگو ہونے جارہا تھا۔ اپنی زندگی کے خاتمے کا سوچنا، روز قیامت پر یقین رکھنے کے باوجود اس کے رونگٹے کھڑے کررہا تھا۔
’’میڈیکل سائنس بہت ترقی کرگئی ہے۔ ہر چیز کا علاج ممکن ہوچکا ہے۔ ٹیسٹ میڈیسنز آرہی ہیں۔ کوئی بھی بیماری اب ناقابل علاج تو رہی ہی نہیں۔‘‘
اس کے ٹیومر کے malignant ہونے کی تصدیق اسی دن ہوئی تھی اور اس تصدیق ہوجانے پر فرقان اس سے کم اپ سیٹ نہیں ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے گم صم بیٹھے سالار کو تسلی دینا شروع کی تھی۔ اپنے جملوں کی بے ربطی کے باوجود…
’’تم ابھی صرف یہ سوچو کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ سالار نے سراٹھا کر پہلی بار اسے دیکھا اور پھر کہا۔
’’تم ڈاکٹر ہوکر مجھ سے یہ بات کہہ رہے ہو۔‘‘ فرقان بول نہیں پایا۔ وہ دونوں بہت دیر تک وہاں چپ بیٹھے رہے تھے۔
’’تم فوری طور پر امریکا چلے جاؤ بلکہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ وہاں بہترین ڈاکٹرز اور اسپتال ہیں۔ ہوسکتا ہے وہاں اس کا علاج ہوجائے یا ہوسکتا ہے کوئی اور حل ہو۔‘‘ وہ اب ڈاکٹر بن کر نہیں، اس کا ایک عزیز دوست بن کر بات کررہا تھا۔
’’امامہ سے کیا کہوں؟‘‘ اس نے فرقان سے عجیب سوال کیا۔
’’ابھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے… ایک بار امریکا سے ٹیسٹ ہونے دوں… دیکھو، وہاں کے ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟‘‘ فرقاون نے اس سے کہا تھا۔
’’یہاں کے ڈاکٹرز کیاکہتے ہیں؟‘‘ فرقان اس کے اس سوال کو نظر انداز کرگیا تھا۔ وہ اسے وہ سب بتانے کی ہمت نہیں کرپارہا تھا جو وہ اپنے چند ساتھی ڈاکٹر سے سالار کی رپورٹ پر مشاورت کے بعد سن چکا تھا۔
’’پاکستان میں برین ٹیومرز کا علاج اور نیوروسرجری اتنیadvanced نہیں ہے جتنا امریکا میں… اس لئے یہاں کے ڈاکٹرز کی رائے میرے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
وہ نظریں چرائے کہتا گیا تھا، سالار صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ اسے فرقان کی بے بسی پر اپنے سے زیادہ ترس آیا، وہ اس سے کچھ چھپانا بھی نہیں چاہتا تھا اور کچھ بتانا بھی نہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!