آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

سالار ایک ہفتے کے بعد واپس کانگو چلا گیا تھا اور امامہ اسلام آباد سے لاہور، سالار کے ساتھ آئی تھی پھر وہیں اگلے دو ہفتے رہی تھی۔ کچھ دن ڈاکٹر سبط علی کے پاس اور کچھ دن سعیدہ اماں کے پاس… جو ان ہی دنوں پاکستان آئی ہوئی تھیں۔
وہاں سے واپس اسلام آباد آنے پر امامہ اور بچوں کو سکندر عثمان اور طیبہ کے ساتھ بہت سا وقت گزارنے کو ملا تھا اور اس کے واپس جانے میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا، جب سکندر عثمان نے بڑے غور و خوض کے بعد اس کو ہاشم مبین کے بارے میں بتایا تھا۔
’’وہ کئی دفعہ مجھ سے ملنے آئے ہیں، تمہارا نمبر لینے کے لئے… یا تمہارا ایڈریس لینے کے لئے لیکن میں اتنی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کہ تمہارا اور ان کا رابطہ کرواتا کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا تم پھر پریشان ہو…‘‘
سکندر عثمان اسی سے کہہ رہے تھے۔
’’لیکن مجھے لگا میں بہت زیادتی کروں گا تمہارے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی… اگر میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کروں۔‘‘
وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ’’وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’یہ سوال انسان ماں باپ سے نہیں پوچھتا۔‘‘ سکندر عثمان نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا تھا۔ اس کے حلق میں جیسے پھندا لگا تھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے، یہ سوال انسان ماں باپ سے نہیں پوچھتا لیکن اسے تو یہ بھول ہی گیا تھا کہ اس کے ماںباپ بھی ہیں… زندگی کے سولہ سترہ سال اس نے ان کے بغیر گزارے تھے… ان کے ہوتے ہوئے بھی… وہ آج بھی ان سے محبت کرتی تھی۔ آج بھی ان کے بارے میں جذباتی تھی لیکن پچھلے کچھ سالوں نے سب بدل دیا تھا… وسیم کی موت نے… جبریل اور عنایہ اور حمین نے… اور سالار نے۔
’’اب ملنے کا فائدہ نہیں ہے۔‘‘
اس نے سرجھکا کر سکندر عثمان سے کہا اور اسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ ان سے ملنے سے انکار کررہی تھی۔ وہ تو صرف اپنے خاندان سے ملنے کے لئے منتیں ہی کرتی رہی تھی۔ انکار تو ہمیشہ دوسری طرف سے ہوتا تھا… آج پہلی دفعہ وہ انکار کررہی تھی… کچھ نہ کچھ بدلا تھا امامہ میں… یا پھر سب کچھ ہی بدل گیا تھا۔
’’ماں باپ کے بارے میں ہم فائدے اور نقصان بھی نہیں سوچتے… صرف حق اور فرض سوچتے ہیں۔‘‘
سکندر عثمان نے ایک باہر پھر بڑی رسانیت سے اس سے کہا تھا۔ انہوں نے اس باربھی ٹھیک کہا تھا۔سرجھکائے وہ اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پر جیسے ماضی کو ایک فلم کے فلیش بیک کی طرح گزرتے دیکھ رہی تھی… اور وہ یہ فلم اتنی بار دیکھ چکی تھی کہ اب وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی، وہ اپنی یادداشت کے اس حصے کو ہی جیسے کاٹ کر خود سے الگ کردینا چاہتی تھی۔
’’پاپا میں اب اس معلق پل پر نہیں جھول سکتی۔ میرے بچے ہیں، اب میں اپنی ذہنی الجھنیں ان تک منتقل نہیں کرنا چاہتی۔ میںبہت خوش اور پُرسکون ہوں اپنی زندگی میں… بس ایسے ہی رہنا چاہتی ہوں… کسی لعنت ملامت کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتی اب… کسی معافی تلافی کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے اب… جو گزر گیا… بس گزر گیا۔ میں واپس پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہتی۔‘‘
وہ سکندر عثمان سے کہہ رہی تھی اور اسے اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں کب برسنا شروع ہوئی تھیں۔
’’امامہ! وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔‘‘ وہ جامد ہوگئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کیا ردعمل دے خوش ہو؟ وہ خوش تھی… رو پڑے؟ وہ پہلے ہی رو رہی تھی۔ اللہ کا شکر ادا کرے؟ وہ ہمیشہ کرتی رہتی تھی۔




’’وہ مسلمان نہ بھی ہوتے تب بھی میں تمہیں کہتا تم ان سے مل لو… ہم سب بہت خامیوں والے انسان ہیں… غلطیاں، گناہ سب کرتے رہتے ہیں۔ سب ایک جیسے ہی ہیں… کچھ خوبیوں میں اچھے… کچھ خامیوں میں برے… لیکن سب سے بہتر شاید وہ ہوتا ہے جو درگزر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو… اور بعض گناہوں کی سزا جب اللہ دے دیتا ہے تو پھر ہمیں نہیں دینی چاہیے۔‘‘
سکندر عثمان نے اسے سمجھایا تھا۔ وہ اس کے اندر کی کیفیت سے بے خبر تھے… ہوتے تو یہ سب نہ کہتے… سوال معافی کا تو تھا ہی نہیں… اولاد اور ماں باپ کا تعلق معافی پر تو کبھی کھڑا کیا ہی نہیں جاسکتا… گلے شکوے کا وقت بھی اب گزر چکا تھا… وہ ان کا سامنا اس لئے نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ اپنے وجود کو بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس نے بے حد مشکل سے اپنے آپ کو سمیٹاتھا… سالار کے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اپنے گھر کے لئے۔
اس نے سکندر عثمان سے بحث نہیں کی تھی۔ وہ اگلے دن ہاشم مبین سے ملنے پر بھی تیار ہوگئی تھی لیکن وہ اس رات سو نہیں سکی تھی۔ کچھ لوگوں کے رو برو ہونے کے لئے آپ ساری عمر ترستے رہتے ہیں اور پھر جب ان کا ہونا طے پاجاتا ہے تو سمجھ نہیں آتا انسان ان کا سامنا کرے گا کیسے۔
آج سے کچھ سال پہلے ہاشم مبین نے یہ کام کیا ہوتا تو اس وقت وہ ساتویں آسمان پر ہوتی۔ اپنے خاندان کو اپنے دین پر لے آنے، گمراہی کے راستے سے پلٹ آنے کے لئے اس نے بڑے سال دعائیں مانگی تھیں… اور اس خاندان کا معزول سربراہ اب جب تائب ہوگیاتھا تو امامہ اپنے دل کی کیفیت کو سمجھ ہی نہیں پارہی تھی۔
وہ اگلی سہ پہر آئے تھے… وہ کمرے میں آئی تو باپ پر پہلی نظر ڈالتے ہی رو پڑی تھی، نہ رونے کا تہیہ کئے ہوئے بھی… وہ بے حد ضعیف لگ رہے تھے۔ یہ تنتنے والا وہ وجود نہیں تھا جس سے وہ ساری عمر ڈرتی رہی تھی۔
ہاشم مبین نے اسے گلے لگایا تھا۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ بھی بڑے حوصلے سے ان سے مل کر الگ ہوئی تھی، پہلے کی طرح… عادتاً ان سے لپٹی نہیں رہی تھی اور پھر وہ آمنے سامنے دو صوفوں پر بیٹھ گئے تھے… اس کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا… وہ دونوں تھے اور طویل گہری خاموشی تھی… پھر اس خاموشی کو ہاشم مبین کی ہچکیوں اور سسکیوں نے توڑا تھا۔ وہ بوڑھا آدمی اب بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا تھا۔
امامہ انہیں چپ چاپ بیٹھی دیکھتی رہی تھی، وہ بھی بے آواز رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے برسنے والے آنسو اس کی تھوڑی سے ٹپکتے ہوئے اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔
’’وقت واقعی بہت بڑا ظالم ہوتا ہے… مجھ سے بہت بڑا گناہ ہوگیا۔ میں نے بہت ظلم کیا اپنے آپ پر… اپنے خاندان پر، پتا نہیں کیسے ہوگیا یہ سب کچھ؟‘‘
ہاشم مبین روتے ہوئے اعتراف کررہے تھے اور امامہ کو یاد آیا تھا انہوں نے ایک بار اس سے کہا تھا کہ جو کچھ وہ کرنے جارہی تھی وہ اس پر بہت پچھتائے گی۔ ایک وقت آئے گا کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ واپس پلٹ کر ان سے معافی مانگنے آئے گی، اور تب وہ اسے معاف نہیں کریں گے… وقت واقعی بڑا بے رحم اور ظالم ہوتا ہے… اس کے سامنے بیٹھ کر بچوں کی طرح روتا ہوا یہ بوڑھا شخص اس کا اپنا باپ نہ ہوتا تو وہ آج بہت فخر محسوس کرتی کہ اس کا سرنیچا نہیں ہوا تھا۔ کسی اور کا ہوا تھا، پرسارا دکھ یہی تھا کہ اس کا باپ اگر اپنے کئے کی سزا پارہا تھا تو بھی تکلیف اسی کو ہورہی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے امامہ! مجھے تمہاری بددعا لگ گئی۔‘‘ ہاشم مبین نے روتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کبھی بددعا کرنے کا خیال ہی نہیں آیا ابو… آپ کے لئے کیا، کسی کے لئے بھی۔‘‘
اس نے بالآخر ہاشم مبین سے کہا تھا… وہ آج اس تنتنے کے ساتھ اس کے سامنے ہوتے تو وہ انہیں کہتی کہ انہیں اس کی بددعا نہیں لگی۔ انہیں نبی کریمﷺ کی توہین کرنے کی سزا ملی ہے… وہ رتبہ جو اللہ تعالیٰ نے صرف انہیں عطا کیا تھا اس رتبے کو کسی اور کو دے دینے کا خمیازہ بھگت رہا تھا ان کا خاندان، وہ صرف قادیانی نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اس مذہب کی تبلیغ بھی پوری جانفشانی سے کی تھی… پتا نہیں کتنوں کو گمراہ کیا تھا اور اس گمراہی کے بدلے میں کتنوں کی عاقبت خراب کی تھی، ورنہ ان کے خاندان میں کبھی یہ تو نہیں ہوا تھا جو ان کے ساتھ ہورہا تھا… وہ کروڑ پتی تھے او رساری عمر آسائشوں میں گزارنے کے بعد وہ اپنا بڑھاپا اولڈ ہوم میں گزارنے پر مجبورہوگئے تھے… ان کے خاندان میں پہلی بار کوئی ایسے بے گھر، بے درد ہوا تھا لیکن ان کے خاندان میں گمراہی کی روایت بھی ہاشم مبین ہی کی قائم کردہ تھی۔
’’آپ نے دیر سے کیا لیکن صحیح اور اچھا فیصلہ کیا۔‘‘ یہ ایک جملہ کہتے ہوئے امامہ کو بے حد تکلیف ہوئی تھی، اسے وسیم یاد آیا تھا۔ سعد یاد آیا تھا۔ اسے اپنا وہ خاندان یاد آیا تھا جو سارے کا سارا غیر مسلم تھا اور غیر مسلم ہی رہنے والا تھا… واپس تو یا وہ پلٹی تھی یا مبین ہاشم۔
’’تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں، بہت وقت لگادیا میں نے تمہارے سامنے آنے میں… لیکن بس معافی مانگنا چاہتا تھا تم سے اور تمہاری ایک امانت تھی میرے پاس… وہ مرنے سے پہلے تمہیں دے دینا چاہتا تھا۔‘‘
ہاشم مبین نے بالآخر اپنی ہچکیوں اور سسکیوں پر قابو پالیا تھا۔ وہ اب اپنے ساتھ لائے ہوئے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اسے دے رہے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے لفافہ تھامے بغیر ان سے پوچھا تھا۔ ’’جائیداد میں تمہارا حصہ… اسی حصے کے لئے تمہارے بھائیوں کو خفا کردیا ہے میں نے… وہ یہ بھی لے لینا چاہتے تھے مجھ سے… لیکن میں تمہاری چیز انہیں نہیں دے سکتا تھا۔ ساری عمر تمہیں کچھ نہیں دے سکا… کچھ تو دینا چاہتا تھا تمہیں مرنے سے پہلے۔‘‘
وہ ان کی بات پر رو پڑی تھی۔’’ ابو اس کی ضرورت نہیں تھی مجھے، اس کی ضرورت نہیں ہے مجھے، میں اسے لے کر کیا کروں گی… اگر میرے بھائیوں کو میرا حصہ دے دینے سے ان کی زندگی میں آپ کے لئے کوئی گنجائش نکلتی ہے تو آپ یہ انہیں دے دیں۔‘‘
ہاشم مبین نے بے حد مایوسی سے نفی میں سرہلایا تھا۔ ’’میں ان کے لئے اب ’’غیر مسلم‘‘ ہوں، امامہ…وہ مجھے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک چکے ہیں جیسے کبھی میں نے تمہیں اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا۔‘‘ وہ شکست خوردہ انداز میں کہہ رہے تھے۔
’’پھر آپ میرے حصے کو بیچ کر اپنے لئے کوئی گھر لے لیں… کوئی جگہ… میرے پاس اب سب کچھ ہے۔ آپ کا کوئی روپیہ پیسہ اب میری ضرورت نہیں رہا۔‘‘ امامہ نے وہ لفافہ پکڑ کر ان کے بیگ میں واپس رکھ دیا تھا۔
’’تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟‘‘ انہوں نے رنجیدگی سے کہا۔
’’میں آپ کو معاف کرنے نہ کرنے والی کون ہوتی ہوں ابو… یہ فیصلہ تو آپ کے لئے اللہ کو کرنا ہے… میں تو صرف یہ دعا کرسکتی ہوں کہ اللہ آپ کو معاف کردے… بڑی معافی تو وہاں سے آنی چاہیے۔‘‘
وہ سرجھکائے بیٹھے رہے، پھر انہوں نے کہا۔
’’تم ہم سے ملتی رہوگی نا؟‘‘ ہاشم مبین کے چہرے پر اس ملاقات کے دوران پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی۔
’’میں جائیداد کا یہ حصہ تمہارے بچوں کے نام کردیتا ہوں امامہ۔‘‘
’’ابو میں آپ کی جائیداد اور روپے پیسے میں سے کچھ بھی نہیں لوں گی۔ میں لوں گی بھی تو سالار واپس کردے گا۔‘‘ اس نے ہاشم مبین کو دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
ہاشم مبین کچھ دیر بیٹھ کر پھر اسے ساتھ لے کر اس کی ماں سے ملوانے گئے تھے۔ سکندر عثمان اور ان کی بیوی بھی ساتھ گئے تھے۔ وہ ایک اور جذباتی ملاقات تھی۔




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!