آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)

’’تم اب بہت بہادر ہوگئی ہو۔‘‘ اس رات سالار نے اس سے کہا تھا۔ اس نے اپنے دن کی روداد سنائی تھی فون پر…
’’کیسے؟‘‘ وہ اس کے تبصرے پر حیران ہوئی تھی۔ ’’تم آج ایک بار بھی روئی نہیں مجھے اپنے پیرنٹس سے ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے۔‘‘ وہ چپ رہی پھر اس نے سالار سے کہا۔
’’آج ایک اور بوجھ میرے کندھوں اور دل سے ہٹ گیا ہے۔ بہت دیر سے ہی سہی لیکن اللہ تعالیٰ نے گمراہی سے نکال ہی لیا ہے میرے ماں باپ کو۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ سالار! دیر سے ہی سہی پر قبول ہوجاتی ہیں۔‘‘
امامہ کے لہجے میں ایک عجیب طمانیت تھی جسے سالار نے ہزاروں میل دور بیٹھے بھی محسوس کیا تھا۔
’’تمہاری ہوجاتی ہیں۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں امامہ سے کہا۔
’’کیا تمہاری نہیں ہوتیں؟‘‘ اس نے جواباً پوچھا۔
’’میری بھی ہوتیں ہیں لیکن تمہاری زیادہ ہوتی ہیں۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
’’الحمدللہ۔‘‘ امامہ نے جواباً کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ ’’تم میرے پیرنٹس کو اولڈ ہوم سے نکال کر ایک گھر لے دو سالار… ان کے پاس میرے لئے جائیداد کا جو حصہ ہے اسے بیچ کر… بے شک کوئی چھوٹا گھر ہو لیکن انہیں وہاں، اولڈ ہوم میں نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
’’میں پاپا سے کہہ دوں گا وہ کردیں گے یہ کام… ان کا خیال بھی رکھیں گے۔ تم اگر اسلام آباد میں مستقل رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو امامہ… تم اور بچے وہاں…‘‘
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ’’میں یہاں مستقل نہیں رہنا چاہتی… میں تمہارے پاس رہنا چاہتی ہوں اور واپس آرہی ہوں اسی تاریخ کو۔‘‘
٭…٭…٭




’’ممی! حمین کب بڑا ہوگا؟‘‘ اس دن جبریل نے اپنی آرٹ بک میں کچھ بناتے ہوئے امامہ سے پوچھا جو روتے بلکتے حمین کو ہمیشہ کی طرح تھپک تھپک کر خاموش کرنے اور کچھ کھلانے کی کوشش کررہی تھی اور اس کوشش میں بے حال ہورہی تھی اور اس کی یہ حالت جبریل اور عنایہ بغور دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ مہینے پہلے کانگو میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ اس ہوٹل میں دو تین مہینے رہنے کے بعد۔
’’بڑا تو ہوگیا ہے۔‘‘ امامہ نے اس کے سوال اور انداز پر غور کئے بغیر کہا۔
’’تو پھر روتا کیوں رہتا ہے؟‘‘ امامہ بے چارگی سے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھ کر رہ گئی۔
’’آپ اس سے پوچھ لیں کہ اس کو کیا چاہیے۔‘‘ وہ امامہ کو جیسے مسئلے کا حل بتا رہا تھا۔
’’میں پوچھ نہیں سکتی اور وہ بتانہیں سکتا۔‘‘ امامہ اب بھی اسے اٹھائے لاؤنج میں ٹہلتے ہوئی اسے تھپک رہی تھی اور وہ اسی طرح روتے ہوئے اس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے مچل رہا تھا۔ وہ اسے نیچے بٹھا دیتی تو وہ گود میں اٹھائے جانے کے لئے ہاتھ بلند کرکر کے دھاڑیں مارتا… اور یہ ڈرل دن میں دو تین بار کا معمول تھا… رونا حمین سکندر کا من پسند مشغلہ تھا۔ وہ بغیر آنسوؤں کے گلا پھاڑ پھاڑ کر روتا تھااور پھر رونے کے بیچوں بیچ کوئی بھی دل چسپ چیز نظر آنے پر یک دم رونا بن دکرکے اس کا جائزہ لینے میں مصروف ہوجاتا اور جب اس کام سے فارغ ہوجاتا تو ایک بار پھر اپنے رونے کے سلسلے کو وہیں سے جاری کرتا جہاں اس نے چھوڑا تھا۔
سات آٹھ ماہ کی عمر میں ہی اس نے بیک وقت چار دانت نکالنے شروع کرلئے تھے جو خرگوش کے دانتوں کی طرح اس کے منہ کے درمیان میں تھے اور اس کے رونے اور ہنسنے پر نظر آتے تھے۔
’’اس کو جلدی کس بات کی ہے؟‘‘ بیک وقت چار دانتوں کو نکلتے دیکھ کر سالار نے کہا تھا۔ جبریل اور وہ حمین سکندر کے بارے میں ایک جیسے تاثرات اور خیالات رکھتے تھے۔
’’یہ تم خود اس سے پوچھ لو۔‘‘ امامہ نے جواب دیا تھا۔
حمین کو پالنا اس کے پہلے دو بچو ں کی نسبت زیادہ تھکانے اور آزمانے والا کام ثابت ہورہا تھا۔ حمین سکندر ان چار دانتوں کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے بھی صرف بڑوں کے کھانے والی ہر اس چیز میں دلچسپی محسوس کرتا تھا جو چٹخارے والی ہوتیں… اپنے پوپلے منہ کے ساتھ بھی چپس اس کی پسندیدہ خوراک تھی جسے وہ صرف چبا نہیں نگل بھی سکتا تھا… وہ چپس کا پیکٹ تک پہچانتا تھا اور ایسا ممکن نہیں تھا کہ جبریل اور عنایہ اس کے قریب بیٹھ کر کوئی چیز اطمینان سے اسے کھلائے بغیر خود کھالیتے۔
وہ ایک عجیب و غریب بچہ تھا… اور یہ بیان اس کے بارے میں سالار سکندر نے دیا تھا جس کا خیال تھا اس نے ایسی مخلوق کبھی نہیں دیکھی۔
سکندر عثمان نے اس سے کہا تھا۔ ’’میں نے دیکھی ہے۔ وہ تمہاری کاپی ہے۔‘‘
’’یہ زیادتی ہے۔‘‘ سالار نے ان کی بات پر احتجاج کیا تھا، وہ اور طیبہ ان لوگوں کے پاس کانگو آئے ہوئے تھے جب وہ دونوں حمین سکندر کے ہاتھوں بننے والی ان کی درگت دیکھ رہے تھے۔ وہ تب دس ماہ کا تھا اور سب سے پہلے جو لفظ اس نے بولنا شروع کیا تھا وہ ’’سالار‘‘ تھا اور ہر بار سالار کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ بے حد خوشی سے ہاتھ پاؤں مارتا۔ سالا، سالا چلاتے ہوئے اس کی طرف جانے کی کوشش کرتا تھا۔
یہ پہلا لفظ تھا جو اس نے بولنا شروع کردیا تھا۔ جبریل اور عنایہ کی طرح وہ بھی جلدی بولنا سیکھ رہا تھا۔ اس میں چیزوں کی شناخت اور پہچان کی صلاحیت بھی ان دونوں کی طرح منفرد تھی لیکن اس کی بولنے کی صلاحیت ان دونوں سے بھی اچھی تھی۔
’’بیٹا بابا!‘‘ پہلی بار سالار کے لئے وہ لفظ سن کر ہنسی سے بے حال ہونے کے باوجود امامہ نے اس لفظ کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وہ سالار پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے توڑ توڑ کر سکھا رہی تھی… ’’با…با۔‘‘
’’سالا۔‘‘ حمین نے ماں کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے سالار کے لئے وہی لفظ استعمال کیا جو وہ سالار کے لئے ماں کو پکارتے سنتا تھا۔
’’تم اسے بابا مت سکھاؤ، صرف لگوادو میرے نام کے ساتھ، یہ بھی غنیمت ہوگا میرے لئے۔‘‘
سالار نے اسے مشورہ دیا تھا… وہ بہر حال کچھ زیادہ محظوظ نہیں ہوا تھا اس طرز تخاطب سے جو سکندر عثمان اور طیبہ کے لئے ایک تفریح بن گئی تھی۔
اور پانچ سالہ جبریل بدھا کے سے تحمل اور دانائی کے ساتھ اپنے اس اکلوتے چھوٹے بھائی کو دیکھتا رہتا تھا جس نے ان کے گھر کے امن اور سکون کو پچھلے تقریباً ایک سال سے تہ و بالا کرکے رکھا ہوا تھا۔ پہلے اس کا خیال تھا حمین بڑا ہوجائے اور چلنا شروع ہوجائے تو ٹھیک ہوجائے گا لیکن جب بالآخر اس نے چلنا شروع کیا تو دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس ’’مسئلے‘‘ کا غلط ’’حل‘‘ تھا۔
حمین سکندر کو پیر نہیں پر مل گئے تھے… اور وہ اب کہیں بھی جاسکتا تھا اور کہیں سے مراد ’’کہیں‘‘ بھی تھا۔ اور اس کی فیورٹ جگہ باتھ روم تھی۔ وہ بھی وہاں اس وقت جانا پسند کرتا تھا جب جبریل اسے باتھ روم میں جاتا دکھائی دیتا… اور جبریل نے اس کے ہاتھوں کئی بار خاصی شرم ناک صورت حال کا سامنا کیا… جس باتھ روم کو بچے استعمال کرتے تھے، اس باتھ روم میں لاک نہیں تھا اور دروازے کا ہینڈل گھما کر اسے کھولنا حمین کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ جبریل کے لئے حمین کی موجودگی میں باتھ روم جانا، جان جوکھوں کا کام بن جاتا تھا۔ وہ امامہ یا ہیڈی کے آس پاس نہ ہونے پر باتھ روم کے دروازے کے اندرونی طرف باتھ روم میں پڑی ان سب چیزوں کو رکاوٹوں کے طور پر دروازے کے سامنے ڈھیر کرکے پھر باتھ روم کا استعمال کرتا تھا۔
سالار سکندر اگر اسے ’’عجیب و غریب‘‘ کہتا تھا تو حمین سکندر، باپ کے دیئے گئے اس ٹائٹل پر پورا اترنے کی کوشش کررہا تھا اور پوری دل جمعی کے ساتھ… کبھی کبھی ان سب کو لگتا تھا، حمین سکندر کو کوئی بھی کنٹرول نہیں کرسکتا تھا… مگر دنیا میں ہر فرعون را موسی ہوتا ہے اور چنی کی ان کی زندگی میں آمد ایک ایسی ہی نعمت کے طور پر ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
نائب صدر کے طور پر سالار سکندر نے افریقہ کے لئے کسی انسان کی طرح نہیں مشین کی طرح کام کیا تھا۔ اس کی ملازمت کادورانیہ افریقہ کی تاریخ کے سنہری ترین سالوں میں گردانا جاتا تھا۔ وہ افریقہ میں تقرر ہونے سے پہلے افریقہ کی معیشت کا ماہر سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں اپنے قیام کے دوران سالار سکندر افریقہ کے انسائیکلو پیڈیامیں تبدیل ہوگیا تھا۔ افریقہ کا کوئی ملک یا علاقہ ایسا نہیں تھا جس کے بارے میں معلومات اس کی انگلیوں پر نہیں تھیں اور جہاں اس نے کانٹیکٹس نہیں بنائے تھے۔
وہ ورلڈ بینک کی نمائندگی کرتے ہوئے افریقہ کی فلاح اور ترقی کے لئے کام کی خواہش رکھتے ہوئے جیسے وہاں ایک دو دھاری تلوار پر چل رہا تھا… اسے ورلڈ بینک یعنی عالمی طاقتوں کے اہداف بھی حاصل کرنے تھے۔ انہیں ناراض بھی نہیں کرنا تھا اور اسے افریقہ میں افریقی عوام کی فلاح و بہبود کو بھی مدنظر رکھنا تھا… وہ مشکل ترین اہداف کے حصول کے لئے نامساعد ترین حالات میں کام کررہا تھا… اور کامیابی سے کررہا تھا… پیٹرس ایباکا کی موت اور اس سے پیدا ہونے والے حالات ورلڈ بینک کے لئے ایک وقتی جھٹکا تھے۔ وہ مصلحتاً پسپا ہونے پر مجبور ہوئے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ افریقہ کے لئے عالمی طاقتوں کی پالیسیاں بدل گئی تھیں…اور سالار یہ بات بخوبی جانتا تھا… تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ سب کچھ نظروں سے اوجھل اور یادداشت سے محوہونا شروع ہوگیا تھا۔ غریب قوموں کی یادداشت ان کے پیٹ کے ساتھ بندھی ہوتی ہے۔ پیٹ خالی ہوتا ہے تو ان کی یادداشت بھی خالی ہوجاتی ہے۔
پیٹرس ایباکا بھی بہت جلد اپنی قوم کی یادداشت سے غائب ہونا شروع ہوگیا تھا… اور سالار کو اس بات کا اندازہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ وقتی ابال ہے جو کچھ عرصہ اس قوم کو مشتعل رکھے گا، اس کے بعد زمینی حقائق انہیں یہ سب بھولنے پر مجبور کردیں گے۔ اور زمینی حقائق یہ تھے کہ افریقہ کے عوام اپنی ہر ضرورت کے لئے ترقی یافتہ قوموں پر انحصار کرتے تھے۔ ان کی روزی روٹی ان کے پروجیکٹس میں کام کرکے ہی چلتی تھی۔ ان کے اپنے لیڈرز اور حکومتیں کرپٹ تھیں، چور تھیں، جو ملکی وسائل کو صرف اپنے فارن بینک اکاؤنٹس کو بھرنے کے لئے استعمال کرتی تھیں ،اپنے ملک اور عوام کی زندگی اور حالات بدلنے کے لئے نہیں۔
افریقہ میں سب کچھ تھا۔ اپنے حالات بدلنے کی نیت نہیں تھی… اور یہ نیت کوئی دوسرا انسان ان کے اندر پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ سالار سکندر بھی نہیں اور یہ وہ حقائق تھے جن سے مغربی دنیا واقف تھی تو افریقہ بھی انجان نہیں تھا۔
سالار سکندر کی وجہ سے اگر کوئی فرق پڑا تھا تو صرف یہ کہ اگر پہلے ان پروجیکٹس کا دس فی صد وہاں کے عوام کی بہتری پر خرچ ہورہا تھاتو اب اس کا تناسب بیس سے تیس فیصد کے درمیان ہوگیا تھا… وہ اس سے بڑی تبدیلی نہیں لاسکتا تھا۔ وہ بیس سے تین فیصدوسائل بھی اگر ٹھیک استعمال ہوتے تو وہاں بہتری کی رفتار چار گنا کی جاسکتی تھی اور یہ کام سالار نے کیا تھا۔ وہ ان وسائل کے استعمال کو سو فیصد شفاف نہیں بناسکتا تھا لیکن اس کے استعمال کا فوکس ٹھیک کرسکتا تھا۔ ترجیحات درست کرسکتا تھا اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہا تھا۔
ایک نائب صدر کے طور پر افریقہ میں اس کی اور اس کے آفس کی کارکردگی اور استعداد دنیا کے دوسرے خطوں میں کام کرنے والے نائب صدور کے مقابلے میں بہترین تھی۔ وہاں شروع ہونے والے پروجیکٹس کیس اسٹڈیز کے طور پر دوسرے خطوں میں ورلڈ بینک کے دوسرے نائب صدور اٹھانے پر مجبور ہوگئے تھے… وہ ورلڈ بینک کا سربراہ نہیں تھا لیکن سالار سکندر نے اپنے آپ کو بہت نمایاں نہ رکھتے ہوئے بھی ورلڈ بینک کے باقی تمام نائب صدور کو نہ صرف کنارے لگا کر غیر فعال کردیا تھا، بلکہ ورلڈ بینک کے اس اگلے صدر کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا تھا جسے پیٹرس ایباکا کی موت کے دوران پیدا ہونے والے کرائسس پر قابو نہ پاسکنے کی پاداش میں پرانے صدر کو ہٹا کر تعینات کیا گیا تھا۔
وہ تین سال مسلسل ’’ٹائم‘‘ کے مین آف دائیر کے طور پر اس کے سرورق کا حصہ بنا تھا اور ورلڈ بینک کے ساتھ ہونے والے اس پروجیکٹ کے بارے میں اختلافات سے پہلے وہ ورلڈ بینک کے حلقوں میں ایک بہت زیادہ پروفیشنل ورکر کی شہرت رکھتا تھا جو ہر لحاظ سے غیر متنازعہ اور بے حد اچھی شہرت کا مالک تھا… اور اب اس شہرت کو ’’خراب‘‘ کرنے والی شے صرف ایک تھی۔ اس کا ’’بنیاد پرست‘‘ مسلمان ہونا جو اس ایک تقریر کے علاوہ اور اس کے لائف اسٹائل کے علاوہ اس کے کام اور پالیسیوں میں کبھی نہیں جھلکا تھا…
سالار سکندر کی ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے کے قریب آرہا تھا۔ بینک نے یہ دورانیہ ختم ہونے سے دو سال پیشتر ہی سالار سکندر کو ملازمت میں توسیع کی آفر کی تھی اور اس نے یہ آفر قبول نہیں کی تھی۔ پھر اس آفر کو وقفے وقفے سے بار بار بہتر پیکجز کے ساتھ اسے اصرار کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا… لیکن سالار کا انکار قائم رہا تھا۔ وہ افریقہ میں اپنے قیام کو اب ختم کرنا چاہتا تھا اور ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ امریکن حکومت کے لئے بھی یہ تشویش کی بات تھی۔ افریقہ کو سالار سکندر سے زیادہ بہتر کوئی نہیں چلا سکتا تھا۔ اس بات پر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کوئی دورائے نہیں تھیں اور نہ ہی امریکن حکومت کو کوئی شبہ تھا… اس نے پچھلے چند سالوں میں صرف ورلڈ بینک کی ساکھ اور امیج ہی افریقہ میں بدل کر رکھ دیا تھا بلکہ اس نے امریکہ حکومت کے لئے بھی وہاں خیر سگالی کے جذبات دوبارہ پیدا کرنے میں بہت کامیابی حاصل کی تھی… اس کا ورلڈ بینک کو اس وقت چھوڑ کر جانا ان کے لئے بہت بڑا دھچکا ہوتا… لیکن وہ رکنے پر تیار نہیں تھا اور امریکن حکومت کو سوچنا پڑرہا تھا کہ وہ اسے ایسی کیا چیز پیش کرے جو اسے روک سکے۔
ورلڈ بینک کی صدارت ہی یقینا ایسا ایک تاج تھا جو اس کو پہنا کر اسے روکا جاسکتا تھا۔ سالار سکندر اس عہدے کے لئے موزوں ترین اور کم عمر ترین امیدوار تھا مگر اس عہدے پر سالار سکندر کی تعیناتی امریکی حکومت کے لئے خود ایک مسئلہ بن گئی تھی… وہ ایک ’’بنیاد پرست‘‘ مسلمان کو ورلڈ بینک کا صدر نہیں بناسکتے تھے اور وہ اس ’’بنیاد پرست‘‘ مسلمان کو کسی اور چیز کی آفر کرکے روک بھی نہیں پارہے تھے۔ یہ فیصلہ انہیں کرنا تھا کہ کیا اس کی مسلم بنیاد پرستی کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ابھی امریکی حکومت اور ورلڈ بینک کے پاس اس بارے میں سوچنے کے لئے وقت تھا کیوں کہ سالار کی ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے میں ایک سال باقی تھا۔
اس ایک سال میں سالار سکندر کی زندگی میں تین بڑے واقعات ہوئے تھے اور تینوں نے اس کی زندگی پر بہت گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ گہرے اور ہمیشہ رہ جانے والے… اور یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ ان واقعات نے ایک بار پھر اس کی زندگی بدل دی تھی۔
چنی غلام فرید بھی اس کی زندگی میں اس کی آخری اور چوتھی اولاد کے طور پر اسی سال آئی تھی۔ اس کی زندگی کا پہلا بڑا واقعہ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تسکین — امینہ خان سعد

Read Next

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!