احساس — صبغہ احمد
یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے بالکل سامنے فوڈ سٹریٹ پر جاتی سڑک پر آج بہت زیادہ رونق تھی۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل اُمڈتے چلے
یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے بالکل سامنے فوڈ سٹریٹ پر جاتی سڑک پر آج بہت زیادہ رونق تھی۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل اُمڈتے چلے
میں عاشق مزاج سا بندہ نجانے اب تک کتنوں کے دل سے کھیل چکا تھا اور یہ شغل جاری ہی رہتا اگر وہ پری وش
سحر کی بلوریں ضیا میں لہلہاتے کماد کے کھیتوں میں ساربانوں کی آواز بڑی دور تک پھیلتی ایسی دل دوز لے پیدا کرتی کہ دوڑ
’’ارم ارم میرے کپڑے استری نہیں کیے؟ تم نے میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں۔‘‘ عامر نے اپنی بیوی ارم کو نیند سے جگاتے
’’نایاب گوہر علی! یہ نام کتنا مکمل ہے۔‘‘ ’’ہے نا ؟‘‘وہ نڈھال سا دیوار سے لگا کہہ رہا تھا ۔ ’’دیکھو اسد !‘‘ اپنا ہاتھ
’’سنو! سنو،جان ڈالو نا مجھ میں۔ دیکھو دیکھو یہ ہاتھ نہیں ہل رہے۔ دیکھو یہ آنکھیں، میری آنکھیں۔ جھپکنی ہیں میں نے۔ سنو اٹھو، اٹھو
وہ تاریک راہداری سے گزرتے ہوئے خوف زدہ ہورہا تھا۔ سامنے چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔
ان دنوں زندگی کی ٹرین بھی کیسے چھکا چھک کرتی گزرتی جارہی تھی۔ عمر رفتہ کے ڈبے بھی تیزی سے آنکھوں کے آگے سے گم
چودھری افضل اپنے چھوٹے بھائی چودھری انور اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ جب نذیرا ایک کتے کو لیے اس کے
میری زندگی میں ’’اچانک‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔جو بھی ہوتا ہے اچانک ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایم اے بھی اچانک کیا حالاں کہ