معصوم سوال — ناہید حیات
’’دادی دیکھیں پھر میری گاڑی لے کر بھاگ رہی ہے۔ مجھے دے نہیں رہی۔‘‘ عون، ماہا کے پیچھے بھاگتا ہوا دادی کے کمرے میں داخل
’’دادی دیکھیں پھر میری گاڑی لے کر بھاگ رہی ہے۔ مجھے دے نہیں رہی۔‘‘ عون، ماہا کے پیچھے بھاگتا ہوا دادی کے کمرے میں داخل
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لیے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنے کا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ
اٹخ پٹخ، جھاڑ پونچھ، چیزیں یہاں سے اٹھا وہاں رکھ، وہاں کی اٹھائی سٹور میں اور سٹور کا فالتو سامان ردی والے کو، مہینوں سے
وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔
’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور ہوں اللہ بھلا کرے گا۔‘‘ وہ خود کو سڑک پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہماری گاڑی تک آیا تھا۔
پیرس سے واپسی پر اس کی زندگی کے ایک نئے فیز کا آغاز ہوا تھا۔ ابتدائی طورپر وہ اسلام آباد میں اس غیر ملکی بینک
نیوہیون واپس آنے کے بعد اس نے زندگی کے ایک نئے سفر کو شروع کیا تھا۔ اس رات اس جنگل کے ہولناک اندھیرے اور تنہائی
شاہ میر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کھانے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا! کفگیر سے اُٹھنے والا شور اور چوڑیوں کی کھنک آپس میں
اگلے چند ماہ جو اس نے امریکہ میں گزارے تھے وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی
گاڑی اس بڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی جو تقریباً سنسان تھی۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسٹیئرنگ پر دایاں ہاتھ رکھے اس نے
Alif Kitab Publications Dismiss