جزا — نایاب علی
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
کسی اپنے کی موت انسان کو پل بھر میں کس طرح خاک کردیتی ہے یہ کوئی امامہ سے پوچھتا۔ وسیم اور سعد کی موت نے
پورے گاؤں کو سانپ سونگھ گیا۔ پنچایت کا فیصلہ تھا ہی ایسا… شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا چولہا جلا ہو۔ ہر طرف سناٹا
’’باجی! آپ کہاں تھیں؟‘‘ اگلی صبح وہ ملازمہ کے بیل دینے پر جاگی تھی۔ دروازہ کھولنے پر اسے دیکھتے ہی ملازمہ نے پوچھا۔ ’’میں چند
صبح اُٹھ کر اس نے مُندی مُندی آنکھوں سے موبائل اُٹھایا اور Inboxمیں آئے ہوئے بہت سے میسجز کو چھوڑ کر احسن کا میسج پڑھا…
مجھے پتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو۔اس بار پورے دو ماہ بعد جو آیا ہوں۔کیا کرتا گڑیا کی شادی جو تھی۔ رخصتی کے وقت
’’بیت العنکبوت ‘‘ وہ اس ہفتے پھر اسے اپنے ساتھ کراچی لے کر گیا لیکن اس بار وہ رات کی فلائٹ سے واپس آگئے تھے۔
’’رول نمبرچار! عمر صدیق ۔۔کہو آج کیا نیا بہانہ ہے ؟ ‘‘ ’’استاد جی! ابھی چوہدری صاحب نے کٹائی کی رقم نہیں دی۔جیسے ہی پیسے
اماں کے گھر آئے ہوئے عمیرہ کو دوسرا دن تھا اور وہ کچن میں عائزہ کی مدد کرکے نکل رہی تھی کہ دروازے پر بجتی
عام سے گھر کے عام سے کمرے میں دوپلنگ ساتھ ساتھ بچھے ہوئے تھے۔ ایک پر چھے سالہ گڈی اور پانچ سالہ ننھی لیٹی ہوئی
Alif Kitab Publications Dismiss