عجیب مضمحل رات تھی جو حنین کی آنکھوں میں رات بھر کانٹے کی طرح چبھتی رہی۔ بڑی مشکل سے نیند نے شب بیداری اور اس کے اندر رواں اضطراب کو شکستِ فاش دی تھی۔
وہ شایدابھی کچھ دیر سوئی رہتی لیکن سِرکے ہوئے دبیز پردے کی اوٹ سے سورج کی ایک کرن چپکے سے اس کے خواب ناک بیڈ روم میں چلی آئی اورموقع پاتے ہی اس نے اپنی خوشگوارحرارت سے حنین کے گال پر دستک دے ڈالی۔حنین کسمسا ئی اور پھر جونہی شبِ گزشتہ کے کسی گہرے خیال نے اس کی آنکھوںپرزور سے دستک دی، اسے جیسے کرنٹ سا لگا اور وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر ساکت بیٹھی کل رات کے واقعے کو اسی ترتیب سے سوچتی رہی اور پھر اپنے بیڈ روم سے باہر بالکونی میں چلی آئی۔ٹھنڈے ستون کے ساتھ لگ کر اپنے لان میں لگے گل موہر کے پیڑ پر لگے آتشی سرخ پھولوں پر نظریں جمائے کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی اور پھر دفعتہ اسے نہ جانے کیا خیال آیاکہ بغیر ناشتا کیے اپنی گاڑی پر عبید اختر جیلانی کے گھر پھر سے آن پہنچی۔اسے دیکھ کرگیٹ کیپر کے چہرے پر حیرت اور عدم واقفیت کے تاثرات ابھرے ہی تھے کہ اس نے اپنا تعارف کروایا جس پر گیٹ فوراً کھل گیا۔
اس کے سامنے عبید اختر جیلانی کے گھر کا پھولوں اور سبزے سے مزین وہی وسیع و عریض لان تھا اور اس کے پاردوسرے سرے پر وہ خالی بنچ نظر آ رہا تھاجہاں کل رات اس کی جنید سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ دونوں ہاتھ بغل میں دبائے اس بنچ کے پاس پہنچی تو عین سامنے اسے بنگلے کی پشت سے لگی ایک بہت گھنی عشق پیچاںبیل سے ڈھکی انیکسی کا نِیم وا دروازہ نظر آگیا۔ متجسس نظروں سے قدرے ہچکچاتے اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے دروازے پر دستک دی تو اندر کہیں دُور جیسے کوئی کرسی چرچرائی۔چندہی لمحوں بعد دروازے پر ایتھنا موجود تھی۔کچھ دیر تو وہ حنین کو اجنبیت بھری نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر یکایک اس کے چہرے پر شناسائی سے بھرپورمسکراہٹ ابھر آئی۔
” ام جانتا آپ کون۔“
”جی، مگرمَیں نے تو ابھی اپنا تعارف بھی نہیں کروایا۔“ حنین کے چہرے پر جب حیرت طلوع ہوا کرتی تھی، تو اس کے دونوںابرو ¿ںکے اندرونی کونے اوپر اٹھ کر اس کے حسن کودو آتشہ بنا دیا کرتے تھے۔
”ضرورت نہیں ہوتاسویٹی۔جنید my child ۔وہ اپنی آنکھوں میں جو کچھ نیا لے کر آتا۔ ام کو وہ صاف نظر آتا۔ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتا۔ وہ خود سب کچھ ام کو بتادیتا۔“
”Amazing …. اورآپ جنید کی ؟“