گل موہر اور یوکلپٹس

”سب ٹھیک توہے نا، ہنی؟“ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے باوقار شخصیت کے حامل ذکا اللہ بیگ نے نظر کا چشمہ کو زیر کرتے موبائل فون سے نظر ہٹا کر بغور حنین کی طرف دیکھا۔پارٹی میں شرکت کے بعد سے اب تک حنین گم صم تھی۔ اگرچہ اپنی لاڈلی بیٹی کی یہ کیفیت پچھلے کچھ عرصے سے ان کے لیے نئی نہ تھی مگرانہیں محسوس ہوا کہ عموماً خالی آنکھوں سے خلاو ¿ں کو گُھورنے والی حنین کی آنکھیںآج خالی نہیں تھیں۔آج ان میں نمی اور کوئی گہری سوچ بھری ہوئی تھی اور جب سے وہ عبید اختر جیلانی کے گھر سے روانہ ہوئے تھے اس کی نظریں مسلسل گاڑی کی کھڑکی سے باہر تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگتے منظروں پر جمی تھیں۔
’ ©’پارٹی انجوائے کی؟“
”بالکل نہیں !“ اس نے بدستور باہر دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
”اوہو۔پھر تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنی بیٹی کے اندر کا موسم بدلنے کے لیے میری سب کوششیں بے کار ہی گئیں۔“
”موسم بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے پاپا۔ جیلانی انکل کے کتنے بچے ہیں؟“ اس نے اچانک عجیب سا سوال پوچھ لیا ورنہ ذکا اللہ بیگ کو یقین تھا کہ وہ اپنے گہرے دوست عبید اخترجیلانی کی کرخت صورت بیگم، دل پھینک بیٹے اور اپنی دنیا میں مست رہنے والی بیٹی کی کل تعداد کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھی۔ذکااللہ بیگ کو یکایک اپنی بیٹی کی یادداشت پر شک ہو گیا۔
” ہنی یہ کیسا سوال ہے؟ کیا تمہیں عبید انکل کی فیملی کے بارے میں علم نہیں۔ تم توان سب کو شروع سے بہت اچھی طرح جانتی ہو۔“
”نہیں پاپا۔مَیں عبید انکل کی اس فیملی کی بات کر رہی ہوں جس سے مَیں واقف نہیں۔“
”اوہ اچھا اچھا، اب سمجھا۔ لگتا ہے کسی نے تمہیں ان کے چھوٹے بیٹے جنید کے بارے میں بتا دیا ہے۔ وہ کبھی منظر عام پر نہیں آتا۔ کچھ و جوہات کی وجہ سے عبید اور اس کی فیملی اسے اپنے حلقہ احباب سے دُور رکھتے ہیں۔ عبید کی فیملی کے اتنا قریب ہونے کے باوجود مَیں بھی آج تک صرف دو ہی بارجنید اور اس کی یونانی گورنس سے مل سکا ہوں۔ poor boy تین برس کی عمر سے Autism کا شکارہو گیا تھا۔ اتنا معصوم اور کیوٹ کہ بیان سے باہرہے ۔ایک بارتم اسے دیکھ لو تو تمہیںیوں لگے گا جیسے چاند زمین پر اُتر آیا ہو ۔“
”جی مَیں نے بھی آج پہلی بار چاند کو زمین پر دیکھا۔“ حنین کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
”کیا مطلب، تم جنید سے ملی تھیں؟ کہاں اورکیسے، مگر وہ تو ہمیشہ اپنی گورنس کے ساتھ بنگلے کی بغل میں واقع انیکسی میں رہتا ہے۔ جیلانی صاحب اور ان کے تمام فیملی ممبرز نہ تو زیادہ خود ادھر جاتے ہیں نہ اپنے سوشل سرکلز میں کسی کو جنید کے بارے میں بتاتے ہیں اور نہ کسی سے اس کا ملنا پسند کرتے ہیں۔“
”اور مسزجیلانی؟ وہ توجنید کی ماں ہیں اور پھر بھی۔“مگرحنین کی بات مکمل نہ ہو سکی۔
”وہ جنید کی ماں نہیں ہیں ہنی ‘ ذکااللہ بیگ نے جونہی یہ انکشاف کیا شدید حیرت حنین کے چہرے کے تمام نقوش پر قابض ہو گئی۔“
”تو پھرجنید کی ماں کون ہے اور کہاں ہے؟“ حنین کی توجہ اب پوری طرح اپنے والد پر مرکوز ہو چکی تھی۔
”چھوڑو اس قصے کو ہنی، کوئی اور بات کرتے ہیں۔“ ذکا اللہ بیگ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی جسے حنین نے ناکام بنا دیا۔
”پاپا۔مَیں جنید کے بارے میں وہ سب کچھ جاننا چاہتی ہوں جو آپ کے علم میں ہے۔“
”جنیدعبیدکی دوسری بیوی ہیلن مارکوپولس کا بیٹا ہے۔ برسوں پہلے عبید نے Greece میں ایک بڑی شپنگ کمپنی کھولی تھی۔ ہیلن اس بزنس میں اس کی لوکل پارٹنر تھی۔ بلا کی خوبصورت تھی۔ یونانی حسن کی منہ بولتی تصویر۔ یہ پارٹنرشپ دھیرے دھیرے محبت اور پھر چوری چھپے ازدواجی رشتے میں بدل گئی۔ جیسا کہ تم جانتی ہو کہ مسزعبید ایک بہت shrewd اور commanding پرسنیلٹی کی مالک ہیں۔ عبیدکی شاہانہ سے شادی ، شادی کم اوراپنے سسر سے بزنس ڈیل زیادہ تھی۔ آج عبید کی تمام نفع دینے والی جتنی بھی کمپنیاں ہیں وہ دراصل شاہانہ جہیز میں اپنے ساتھ لائی تھی۔ عبید اگر آج بزنس ٹائیکون ہے اورملک بھر میں کنگ میکر سمجھا جاتا ہے، تو اس کے پیچھے شاہانہ اور اس کے والد کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ شادی پر اس بزنس ڈِیل کا ہی نتیجہ ہے کہ عبید کے تمام بزنس کی فنانس آج بھی شاہانہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں کے رشتے میں سب کچھ ہے۔ اگر نہیں توصرف محبت نہیں ہے۔ عبید کی زندگی میںمحبت کا خالی خانہ صرف ہیلن نے ہی پُر کیا تھا۔ افسوس کہ عبید اپنی دوسری شادی کو زیادہ عرصہ چھپا نہ سکا۔ شاہانہ کا رد عمل اس قدر شدید تھا کہ اگر عبیدہیلن کو نہ چھوڑتا، تو شاید سڑکوں پر آ جاتا۔ بزنس مین تو وہ تھا ہی، ہیلن اور اپنے نومولود بیٹے کی قربانی دے کر اپنا سب کچھ بچا لیا۔ سنا ہے عبید سے شدید محبت کرنے والی ہیلن، عبید کی جدائی اور بے وفائی برداشت نہ کر سکی۔ جنید کی پیدائش کے تقریباً دو اڑھائی سال بعد وہ ایک صبح اپنے گھرمیںمردہ پائی گئی۔
ہیلن کی وفات کے بعد اس کا تین سالہ بیٹا جنید Autism کا شکار ہو گیا، تو اللہ نے سخت دل شاہانہ کے دل میں رحم ڈال دیا اور اس نے اس شرط پر جنید اور اس کی گریک گورنس کوپاکستان لانے اور رہنے کی اجازت دے دی کہ وہ ان کے حلقہ احباب سے دُور رہیں گے۔ جنید کے پاکستان آنے اوررہنے کی اجازت میں دیگر شرائط کے علاوہ سب سے قابلِ ذکر شرط یہ تھی کہ ایتھنز کے مضافاتی علاقے میں ساحل سمندر پر واقع اپنی ماں کے آبائی گھر کے علاوہ اس کا عبید کی جائداد میں اور کوئی حصہ اور حق نہیں ہوگا۔ مَیں اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوں کہ عبید کو اپنے بیٹے جنید سے بہت پیار ہے۔ جب جنید پاکستان آیا،تو شروع شروع میں کاروباری مصروفیات کے باوجود وہ کافی وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارا کرتا تھا،مگر پھر شاہانہ کو اس پر بھی شدید اعتراض رہنے لگا۔کچھ عرصے بعد ایک ہی گھر کی چار دیواری تلے رہتے ہوئے بھی مہینے میں گنتی کے چند دن باپ بیٹے کی ملاقات کے لیے مختص کر دیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری مصروفیات نے ان دنوں اور ملاقاتوں کی تعداد مزید مختصر کر ڈالی۔ اب جبکہ عبیدجیلانی ملک کی نامی گرامی شخصیت بن چکا ہے اور اس کا نام، کام اور دام ملک کے سیاسی ایوانوں تک جا پہنچا ہے، توکافی عرصے سے مَیں نے اسے اپنے بیٹے کی کبھی خبر لیتے بھی نہیں دیکھا۔ کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں مگراسے اپنے بیٹے کی صورت تک دیکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ دوسرے لفظوں میںجنید اپنے باپ کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس سے کوسوں دُور ہے۔ جنید کا ذکر شاید عبید کو ذہنی طور پر ڈسٹرب کر دیتا ہے۔ سو اس کاقریبی دوست ہونے کے باوجوداب مَیں بھی اس ذکر کو نہیں چھیڑتا۔ خیر چھوڑو اس بات کو، تم بتاو ¿ کہ اتنے مہینوں بعد کسی سوشل gathering میں جانے کا تجربہ کیسا رہا؟ ذکااللہ بیگ نے گفتگو کا رخ موڑنے کی کوشش کی تو حنین نے منہ موڑ کر ایک بار پھر اپنی نظریں باہرکے مناظر پر مرکوز کر لیں۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!