عائشہ ربانی اوراپنے والد کی بات مان کر حنین کو ہمیشہ کی طرح فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا!
اس کے والد کے گہرے دوست ، ملک کے بہت بڑے بزنس ٹائیکون اور حال ہی میں فائبرآپٹک پلانٹ کے نئے بزنس میں ان کے پارٹنر عبید اللہ جیلانی کا دل پھینک بیٹا سعد اللہ جیلانی اس کے ساتھ ایسا چپکا کہ جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔اس سے کافی کم عمر ہونے کے باوجود اسے یہاں تک کہہ بیٹھا کہ وہ لڑکپن سے اس کا کرش رہی ہے۔اس دوران سعد کی بہن اریج جیلانی کی اپنے بھائی کو سمجھانے اور باز رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیںاور حنین کواپنا ضبط ایک بار پھر پوری شد و مد کے ساتھ آزمانا پڑا۔پہلا موقع ملتے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنی کنپٹیاں مسلتے ہوئے وہ عبید اللہ جیلانی کے اس انتہائی پرشور اور پر آسائش روم سے باہر نکل آئی۔
لیکن باہر اندر سے کہیںزیادہ گمبھیرمسائل اس کے منتظرتھے۔
چودھویں کا چانداسے طنزیہ نظروں سے گُھور رہا تھا۔
”ہنی۔تم اس کائنات کا سب سے خوبصورت سیارہ ہو اور اس سیارے پر تمہارے سِوا جوصرف ایک اور شخص بستا ہے، وہ مَیں ہوں۔ صرف مَیں تمہاری زبان سمجھتا ہوں۔ وہ لفظ جو تم کہتی ہو وہ بھی اور جو تم نہیں کہتی ہو وہ بھی۔“ دانیال کی خوابناک آواز اس کی سماعتوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح قطرہ قطرہ اُترنے لگی۔
”لگتا ہے تمہیں میری زبان سمجھ نہیں آتی۔ صرف وہ بات کِیا کرو جو مَیں کہوں۔ ورنہ اس خوب صورت دہانے میں جو گز بھر لمبی زبان ہے نا کسی روزاسے گدّی سے کھینچ لوں گا۔“
دفعتہ علیحدگی سے کچھ عرصہ پہلے اسی دانیال کے زہر آلود الفاظ اس کی سما عتوں میں کڑواہٹ گھولنے لگے، تو کرب کی پیلاہٹ اس کے چہرے اور درد کی نیلاہٹ اس کے ہونٹوں میں اترنے لگی۔ اس نے بے ساختہ اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
کانوں پر ہاتھ رکھتے ہی وہ آوازیں تو دم توڑ گئیں لیکن چانداور اس کی روشنی اسی بے رحمی کے ساتھ اس کے بدن، روح اوریادداشت کو نوچتے رہے۔
اور پھر دھیرے دھیرے اس نے کانوں سے اپنے ہاتھ ہٹائے اور تلخ یادوں کی اس دلدل سے باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پاو ¿ں مارنے لگی۔ دفعتہ اسے اپنے پاس کہیں ہلکی ہلکی مبہم باتوں کی صدا سنائی دی۔ آواز تنہا سڑک پر بگھی اور گھوڑے کے ٹاپوں کی سر تال ایسی تھی ۔ پہلے تو حنین نے اسے اپنا وہم سمجھتے ہوئے سر جھٹکا لیکن سرتال کا وہ آہنگ اسی طرح قائم تھا۔اس نے خوفزدہ انداز میں متوحش نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا اور جانے کے لیے مڑنے ہی لگی تھی کہ اچانک اس کی نظریں نیم تاریکی میں وسیع وعریض لان کے بیچوں بیچ ایک بنچ پرپڑیں۔
کوئی وہاںبیٹھاتھا۔
اورآواز بھی وہیں سے آ رہی تھی۔
اس نے اپنی پُتلیاں سکیڑتے ہوئے وہاں دیکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اورکچھ نہ بن پڑا تواپنی متجسس طبیعت سے مجبور ہو کرآہستہ آہستہ محتاط انداز میں اس طرف بڑھنے لگی حتیٰ کہ وہ اس بنچ کے عین پیچھے اتنا قریب پہنچ گئی کہ وہ اب سب کچھ صاف سن سکتی تھی۔
اس شخص کی آواز اور لہجے میں بچوں جیسی معصومیت اور صداقت کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی۔حنین کی طرف پشت کیے اس کی آمد سے بے خبرچہرہ آسمان کی طرف اٹھا ئے ، اپنی دونوں ٹانگیں بنچ پر رکھے اور ان کے گرد اپنے دونوںبازوو ¿ں کا حصار بنائے وہ ٹکٹکی باندھے آسمان کی طرف دیکھ رہا اور نہ جانے کس سے مخاطب تھا۔
”مَیں سارا دن آپ کا انتظار کرتا ہوں چندا ماموں۔ سارادن آپ کو ڈھونڈتا رہتا ہوں، مگر آپ کہیں بھی نہیںملتے۔ جانتا ہوں آپ کی مجبوری ہے، مگر کیا کروں۔ مجھے آپ سے پیار ہی اتناہے۔ یوکلپٹس، سندباد، ایتھنااور آپ کے سوا میرا اور کوئی دوست بھی تو نہیںہے۔ پہلے تو مَیں کسی سے اس طرح بات نہیں کرسکتا تھا، اب کر سکتا ہوں، بہت سی باتیں۔ آج جب مَیں باہر آیا، تو آپ یوکلپٹس کے کاندھے پر سر رکھے میری کل رات والی باتوں کا جواب سوچ رہے تھے نا۔ مجھے پتا تھا، تو پھر بتائیے نا ہم پورا مہینا کیوں نہیں مل سکتے؟ بتائیے کہ کوئی اس دنیا میں میری زبان کیوں نہیں سمجھتا، بتائیے کہ مَیں آپ کو کیسے چُھو سکتا ہوں۔ چندا ماموںمَیں آپ کو چُھونا چاہتا ہوں۔ آپ کے گلے لگنا چاہتا ہوں، آپ سے بہت پیار کرتا ہوں نا اس لیے۔ اگر اب بھی آپ چپ رہے، تو ایک دن مَیں سب کو چھوڑ کر، چھے گھوڑوں والی رتھ پر بیٹھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے پاس آ جاو ¿ں گا۔“
اس کے انداز میں ایسی معصومیت اورایساکربناک اثر تھا کہ حنین قطرہ قطرہ اس اندازِ تکلم میں ڈوبتی چلی گئی۔اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اجنبی اپنے لہجے میں اس کی زبان بول رہا ہے۔
اور اس کا آخری جملہ سن کر نہ جانے کیوں حنین کے ضبط کا بندھن ٹُوٹ گیا۔اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کے تازہ تازہ نِیم مندمل زخم کی اطراف میں دونوں انگوٹھے رکھ کر انہیں اتنی زور سے دبادیا کہ درد کی شدت سے پورے وجود میں ٹیسیں اُٹھنے لگیں ہوں۔
ضبط کرتے کرتے بھی بے اختیار اس کے منہ سے بے ساختہ ہلکی سی سسکی نکل گئی۔
سسکی نکلتے ہی لان میں سوائے جھینگر کی مدھم آوازوں کے باقی سب آوازیں تھم گئیں۔
وہ بولتے بولتے رک گیا۔
یقینا حنین کی سسکی اس تک پہنچ گئی تھی۔
وہ بے اختیار بینچ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کچھ دیر بالکل ساکت اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور پھر وہ دھیرے دھیرے ہچکچاہٹ اور خوف کے ساتھ حنین کی طرف مڑا۔
وہ دیومالائی مردانہ وجاہت، تیکھے یونانی دیوتاو ¿ں جیسے نقوش، سرخ و سپید رنگت، کھلی کھلی حیران آنکھوں کا مالک نوجوان تھا۔
وہ یا تو چودھویں کا چاند تھا جو زمین پر اُتر آیا تھایا پھر آسمان پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے چودھویں کے چاند کا صاف شفاف عکس تھا!
اسے ایک نظر دیکھتے ہی حنین کو اس بات میں کوئی شک و شبہ نہ رہا کہ اس نے اپنی زندگی میں اس سے خوبصورت نوجوان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا!
وہ کچھ دیر اپنی حیران آنکھوں سے حنین کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں نظر سے زیادہ حیرت بھری ہوئی تھی اور اس پر خوف کا مسحور کن حاشیہ تھا۔جب اس نے حنین کو بھی اپنی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھا، تو نظریں چرانے کے سے انداز میں نگاہیںزمین پر گاڑ دیں۔
اس مرگ آسا خاموشی میں حنین کویوں محسوس ہوا جیسے وہ دنیا کے کسی آخری کونے میں کھڑی دنیا میں بھیجے گئے پہلے انسان کے سامنے کھڑی تھی اور اس تخلیق کی شکل میں وہ اس کے خالق کا دلکش پَرتو دیکھ رہی تھی۔
”آئی ایم سوری! آپ اپنے چندا ماموں سے بات کر رہے تھے اور مَیں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا۔کیا مَیں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کون ہیں؟“ سکوت کی بھاری سِل کو ہلانے کے لیے حنین ہی کو پہل کرنا پڑی۔
اپنی انگلیاں مسلسل مسلتے ہوئے وہ زمین پراپنی متلاشی نظریں یوں گھما رہا تھا جیسے حنین کے سوال کا جواب کسی بچے کے گھاس میں گم ہو جانے والے نئے کسی سکے کی طرح وہیںکہیں مخفی تھا۔
”مَیں؟مَیں تو کوئی بھی نہیں ہوں۔ سب ….سب یہی کہتے ہیں۔ آخر کار جواب مل ہی گیا۔
”سب ….سب کون؟ آپ کن کی بات کر رہے ہیں؟“ حنین الجھ سی گئی۔
”وہی جن کا یہ گھر ہے۔“ نظریں مسلسل زمین پر گاڑے اس نے عبید اختر جیلانی صاحب کے بنگلے کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ انکل جیلانی کی بات کر رہے ہیں؟آپ ان کے؟“
نوجوان نے ہلکی سی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ ایک دلفریب نظر حنین پر ڈالی اور گویا نئے سرے سے اگلے وضاحتی جواب کی پلاننگ کرنے لگا۔
”وہی تو میرے پاپا ہیں اور مَیں ان کا بیٹا،جنید۔ “
حنین کو یہ سن کر ایسالگا جیسے چاند آسمان سے چِینی کے برتن کی طرح زمین کے سنگ مر مر فرش پر گرا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے جا بجا پھیل گئے۔
”جی کیا کہا آپ نے؟ آپ عبید انکل کے بیٹے ہیں؟“ شدید حیرت نے حنین کو ملگجے اندھیرے کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔اس نے پھر سے اثبات میں سر ہلا کر تصدیق کی۔
”بس میرے پاپامجھ سے بات نہیں کرتے ۔ نہ وہ، نہ ممّی،نہ سعد، نہ اریج نہ اور جانے کیوں کسی کو میری زبان نہیں آتی۔ پہلے کی اور بات تھی، اب تو مَیں صاف صاف بول سکتا ہوں۔ پھر بھی، جب لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے نا، تووہ خاموشی کی سُولی پر چڑھ کر وقت سے بہت پہلے مر جاتے ہیں۔ یہ مَیں نے نہیں کہا، کل ایک کتاب میں پڑھا تھا۔ وہ سب مجھ سے کبھی بات نہیں کرتے تو مجھے لگتا ہے۔ جیسے مَیں بھی آہستہ آہستہ مر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے اب مجھے بھی ان کی زبان سمجھ نہیں آتی اور نہ انہیں میری….آپ کو میری زبان سمجھ آ رہی ہے نا؟“
عجیب معصومیت اورکرب میں لپٹا ہوا سوال تھا۔
کچھ ایسا ضرور تھا جو اس کے لفظوں سے جھانکتا تھا ۔ نہ صاف چھپتا تھا اور نہ سامنے آتا تھا۔ صرف لہجے سے عیاں ہوتا تھا۔
کچھ دیر کے لیے حنین کے منہ سے چاہتے ہوئے بھی اس کے سوال کاکوئی جواب نہ نکل سکا۔ وہ خود بھی تو کئی مہینوں سے اسی بے زبانی اور خاموشی کا شکار تھی۔
جب فوری طور پر کوئی جواب نہ بن پڑا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو جگنو کی ڈاروں کی طرح نکل آئے اور نِیم اندھیرے میں لَو دینے لگے ۔اندھیرا توسج گیا، البتہ کوئی چپکے سے کرب کی زرد شال اس کے کاندھوں پر ڈال گیا۔
”مجھے آپ کی زبان پوری طرح سمجھ آ رہی ہے، مجھے تو لگتا ہے جیسے ہم دونوں ایک ہی زبان بولتے ہیں۔‘ ‘ اپنی طرف سے اس نے بھیگے لہجے میں جواب دیتے ہوئے اپنے بھیگے عارض صاف کیے لیکن نمی کا احساس جنید تک جا پہنچا۔
”آآپ رو کیوں رہی ہیں؟ اچھا اچھا، مَیں سمجھ گیا۔ میری طرح یہاںآپ کی زبان بھی کوئی نہیں سمجھتا ہو گا، اس لیے نا۔ جب کوئی میری زبان نہیں سمجھتا تو، مَیں۔ بھی بالکل آپ کی طرح روتا ہوں۔ چندا ماموں نے مجھے سمجھایا تھا کہ آپ اورمیرے جیسے لوگ دراصل زمین کے نہیں ہوتے۔ ہمارا اصل دیس چاند ہوتاہے۔ ہم چاند پر رہنے والے لوگ جب غلطی سے زمین پر آ جاتے ہیں، تو یہاںکوئی ہماری زبان نہیں سمجھتا اور پھر ہم اپنے بچھڑے دیس کو یاد کر کر کے روتے رہتے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں، جب مَیں اپنی چھے گھوڑوں والی رتھ پر بیٹھ کراپنے دیس واپس جاو ¿ں گا نا، توآپ کو اپنے ساتھ بٹھا کر لے جاو ¿ں گا۔ ہم راستے میںخوب باتیں کریں گے۔ پھرہم کبھی نہیں روئیں گے، ٹھیک ہے نا؟“
حنین اس کی معصومانہ انداز میں خود کلامی کے سے انداز میں کی گئی باتیں سن کرمسلسل روتی اور بار بار اپنے آنسو صاف کرتی رہی۔
”ارے….آپ ابھی تک رو رہی ہیں؟ اب تو ہم باتیں بھی کر رہے ہیں۔“
”آئی ایم سوری جنید۔پچھلے کچھ عرصہ زمین پر رہنے والے کچھ لوگوں کے پاگل پن کی وجہ سے شاید مَیں ضرورت سے زیادہ حساس ہو گئی ہوں۔ اسی لیے میری آنکھوں میں نمی مستقل ٹھہر گئی ہے۔ مجھے چھوڑیں، آ پ بتائیے آپ اپنے چندا ماموں سے جو سوال کرتے ہیں ان کا جواب کیسے ملتا ہے اور آپ کوکیسے سمجھ میں آتا ہے؟“
” جس طرح ایتھنامیری ہر بات میرے کہے بغیر سمجھ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے، جن سے دل ملا ہو ان کی ہر بات کہے بغیر صاف صاف سمجھ آتی ہے۔ میرے چندا ماموں بھی بہت اچھے ہیں۔ ان سے مَیں جو بھی سوال کرتا ہوں اس کا جواب مجھے اپنے کانوں میں سنائی دیتا ہے۔ ان کے پاس جواب نہ ہو تو، وہ اللہ میاں سے جواب لے کر دیتے ہیں۔“
”بہت اچھی بات۔ اچھا یہ بتائیے آپ نے چندا ماموں سے کبھی کوئی ایسا سوال پوچھا جس کا جواب انہیں معلوم نہیں تھا جس کا جواب انہوں نے اللہ میاں سے لے کر دیا تھا؟“