حنین نے وہ دن بہ مشکل اپنے گھرگزارا۔ایک عجیب سی کشش تھی جنید میں کہ ا س کا چہرہ، دانائی اور معصومیت سے بھری باتیں حنین کی ذات کے تنگ آنگن میں کبھی خوشگوار بادِ صبا تو کبھی لطیف بادِ سموم کی طرح ہر طرف رقصاں رہنے لگی تھیں۔اس کی حبس بھری زندگی میں ٹھہرا ہوا موسم تبدیل ہو رہا تھا۔
”بے بی تم میں ایک بہت بڑا پرابلم ہے۔ تم جس طرف لگ جاتی ہو پھر اِدھر اُدھر نہیں دیکھتی اور آخر میں نقصا ن صرف تمہارا ہی ہوتا ہے۔“ دفعتہ اسے اپنی مرحومہ ماں کی کہی ہوئی ایک پرانی بات یاد آگئی۔زندگی میں اس نے واقعی زیادہ تر نقصانات اسی وجہ سے اٹھائے تھے۔اِدھر دل اس کے کان میں سرگوشی کرتا اُدھر وہ دماغ کے سب در بند کر کے دل کے پیچھے پیچھے چل پڑتی۔انٹر میڈیٹ کی طالبہ تھی تو دل نے نئے ٹیلنٹ کے لیے منعقد کیے گئے ایک فیشن ایونٹ میں شرکت کے لیے اُکسایا اور پھر اس نے کئی سال تک دانیال ملک سے ملاقات تک کسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔دل ہی نے اسے فیشن کی دنیا کو چھوڑ کر پہلے ٹی وی ڈراموں اور پھر فلموں کی راہ دکھائی اوریہ اس کا دل ہی تھا جس نے اسے اپنے سے دگنی عمر مگر مقناطیسی شخصیت رکھنے والے دانیال ملک کی طرف ایسامائل کیا کہ بات شادی پر ہی جا کر ختم ہوئی۔ وہ تو شکر ہے اُس کا پاﺅں بھاری نہیں ہوا۔
ماں اپنے بچے کی کسمساہٹ سے اس کا مسئلہ سمجھ لیتی ہے سواس کی مرحومہ والدہ نے چھوٹی سی عمر میں ہی اپنی بیٹی کا اصل مسئلہ ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا تھا۔ جب تک حیات رہی اس کی والدہ اپنا کام کرتی رہی اور حنین اپنا۔اب تک دل کی بات سننے پر نقصان ہمیشہ حنین ہی کا ہوا تھا، مگر اس کا دل ہر بار اسے یہی کہتا ”حنین ایک بازی اور سہی۔ہاری ہوئی پچھلی سب بازیوں کے سب نقصان اس بار پورے ہو جائیں گے۔“
اور اب دل تھا کہ اسے ایک بارپھر ایسی راہ کی طرف کھینچ رہا تھا جو متن، حدود اربعہ، سیاق و سباق اور منطق سے بالکل عاری تھا۔
ایک ایسا نوجوان جواپنی عمرکے بیشتر حصے میں Autism کا شکار رہا تھا عمر کے فرق کے باوجود وہ نہ جانے کیوں دو ملاقاتوں ہی میں اس کے حواس پر سوار ہو گیا تھا۔
اس نے کچھ دیر دماغ کو رسمی سی تکلیف ضرور دی، لیکن پھر دل کی بات کو اپنی گاڑی کے کِی رنگ کی طرح انگلی میں لپیٹا اوراگلے ہی روز ایک بار پھر جنید سے ملنے نکل پڑی۔
”آپ اس روزکہہ رہے تھے کہ آپ کواندر اور باہر کا مطلب معلوم نہیںکیوں کہ آپ جو دیکھتے ہیں، جہاں رہتے ہیں، وہ سب کچھ اندر ہے۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ باہر اسے کہتے ہیں جسے ہم نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ مَیں آپ کو باہر دکھا سکتی ہوں۔ وہ باہر جو آپ نے نہیں دیکھا اور بہت دنوں سے مَیں نے بھی نہیں دیکھا۔ کیامیرے ساتھ باہر چلیں گے؟“
جنیدنے دس ہزار سوال اپنے چہرے پر سجائے اور اپنا آئینہ حنین کے عین سامنے رکھ دیا۔
”باہر کیا ہوتا ہے، جو اندر نہیں ہوتا؟“ اس کی نظریں یوکلپٹس کے آخری سرے پر ٹِکی ہوئی تھیں۔
”سمندر….سمندر اندر نہیں ہوتا۔“جو جواب حنین کے منہ سے بے ساختہ نکلا وہ جیسے ٹھیک نشانے پر بیٹھا۔
”سمندر؟۔مَیں نے اس کے بارے میں بہت پڑھا ہے، سنا ہے مگر کبھی دیکھا نہیں۔“
”سمندر کو صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ کر پڑھنا چاہیے۔ پھر زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ آپ میرے ساتھ سمندر پر چلیں گے؟ ایتھنا میم سے permissionلینا میری ذمہ داری۔“
جنیدنے خالی نظروں سے ایک بار حنین کو دیکھا اور پھر نہ سمجھنے کے انداز میں انگلیاں مسلنے لگا۔ کیفیت یوں تھی جیسے کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا ہو۔
”مگر مم….مجھے پاپا کی طرف سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔“ ایک نیا مسئلہ درپیش ہوگیا لیکن ایتھنا نے پشت سے آ کر جنید کے کاندھے پر اپنا مہربان ہاتھ رکھ کر گویا مسئلہ حل کر دیا۔
”آپ اپنا فرینڈ کا ساتھ سمندر پر جاتا مائی چائلڈ۔اگر کوئی پوچھتا، تو ام خود سر کو بتا دیتا۔“ جانے سے پہلے ایتھنا حنین کا بازو پکڑ کراسے الگ لے گئی اورایک عجیب سا انکشاف کیا۔
”سویٹی….for unknown reason جنید کی لائف میں کوئی الیکٹرانک ڈیوائس نہیں ہوتا۔آپ نے دیکھا امارے گھر میں کوئی موبائل فون،ٹی وی ، لیپ ٹاپ، ٹیب یا کمپیوٹر نہیں ہوتا۔موبائل فون کی ringtone سے وہ irritate ہوجاتا۔if you don’t mind اگرpossible ہوتو جب تک آپ جنید کے ساتھ ہوتا اپنا فون silent پر رکھ سکتا؟ جب تک آپ اس کے ساتھ ہوتا، آپ کو تھوڑا خیال کرنا پڑتا۔ ایک اور important بات، جتنا دیر آپ جنید کے ساتھ ہوتاجتنا maximum possible ہوتا آپ پلیزہر وقت اس سے کوئی نہ کوئی بات کرتا رہتا۔“
”حنین: (چہرے پر حیرت) کوئی ایشو نہیں۔ آپ بالکل بے فکر رہیں، مگر ایسا کیوں ہے؟“
” سویٹی….Autism پرکافی ریسرچ ہوتا، مگرunfortunately ابھی تک بہت سا کیوں کا کوئی جواب نہ ہوتا۔“
٭….٭….٭