ورثہ — ارم سرفراز

لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر عبید نے اپنے گھر کے پچھلے لان میں امرود، انار، لیموں ، نارنجی، اور کڑی پتے تک کے جھاڑ لگائے ہوئے تھے۔ کیلی فورنیا ہی امریکا کی ان چند ریاستوں میں سے تھا جہاں کا موسم کئی ایسے پھلوں ، سبزیوں، اور پودوں کی مناسب افزائش کی اجازت دیتا ہے۔ رائنا اور عمر تو گرمیوں کی چھٹیوں میں نانا نانی کے گھر کے پھل خود سے توڑ کر کھانے کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔
ان لوگوں کو وہاں پہنچے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ رائنا کو اپنی عینی باجی کی یاد ستانے لگی۔ وہ عینی سے ملنے بے چین تھی۔مریم بھی اس کے ساتھ چلی آئی ۔ حسبِ توقع عینی بھی رائنا کو دیکھ کر اتنی ہی خوش ہوئی تھی جتنا کہ رائنا۔ وہ رائنا کو بچپن سے دیکھ رہی تھی اور اسے پتا تھا کہ رائنا اس سے بہت متاثر ہے۔ امریکا میں نوعمر مسلمان بچوں کے لیے مثبت mentors کی اہمیت کا عینی کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ وہ اپنے اسلامک سینٹر میں ہفتے میں ایک دفعہ رائنا کی عمر کی لڑکیوں کی میٹنگ بھی کرتی تھی جہاں لڑکیاں اپنے commonموضوعات پر ڈسکشن کرتی تھیں۔ سیاٹل میں رہنے کے باوجود رائنا، عینی سے رابطے میں رہتی اور اس بات کی مریم نے خاص طور پر بہت حوصلہ افزائی کی تھی۔
علی بھی عینی کا مداح تھا اور اکثر اس کی تربیت اور پختہ سوچ کی تعریف کرتا رہتا۔
’’امریکا میں مسلمان لڑکے لڑکیوں کے لیے ہماری ہی کمیونٹی سے mentors ہونا انتہائی ضروری ہے۔‘‘ وہ اکثر مریم سے کہتا :
’’ بچے ان سے ایسے بھی سوالات اور باتیں کرنے سے نہیں ہچکچاتے جن کے جوابات ضروری ہوتے ہیں لیکن جو وہ اپنے ماں باپ سے نہیں کر پاتے ۔‘‘ اب مریم اسے کیا بتاتی کہ اس بات کی صداقت کو خود اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
شمیم ان دونوں سے مل کر بہت خوش ہوئیں ۔ رائنا فوراً ہی عینی کی تلاش میں سیڑھیوں سے اوپر دوڑ گئی ۔ کیلی فورنیا میں کثیر تعداد میں پاکستانی مقیم تھے اور خوشی کے موقعوں پر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونے والوں یا دکھ کے موقعوں پر غم بانٹنے والوں کی کمی نہ ہوتی۔ فیملی روم کا سارا فرنیچر دیوار سے لگا ہوا تھا اور بیچ میں گوٹا لگی پیلی چادروں پر گاؤ تکیے اور ڈھول پڑا تھا۔ ایک طرف خوب صورتی سے سجایا گیا تخت رکھا ہوا تھا۔ شمیم کی کچھ سہیلیاں اس وقت بھی وہاں موجود تھیں۔ کچن کے کاؤنٹر پر ایک بڑی ڈھکی ہوئی ، شیشے کی بیضوی ٹرے دو تین طرح کی مٹھائیوں سے بھری ہوئی تھی۔
شمیم، مریم کا اپنی دوستوں سے تعارف کروا رہی تھیں کہ رائنا اچھلتی کودتی عینی کے ہمراہ نیچے آئی۔ رائنا کے ہاتھ میں جامنی اور زعفرانی رنگ کا جوڑا تھا۔ شفون کے کپڑے پر نہایت نازک کورے دبکے کا کام تھا اور ساتھ میں کمخواب کا چوڑی دار پاجامہ تھا ۔ شفون کے بڑے سے دوپٹے کی چاروں طرف بھی چوڑی سی بیل ٹکی ہوئی تھی ۔
’’مما دیکھیں ! یہ عینی باجی نے میرے لیے لیا ہے شادی پر پہننے کے لیے۔‘‘ رائنا کا چہرہ چمک رہا تھا۔ ایک تو اتنا خوب صورت جوڑا اور وہ بھی عینی باجی کی طرف سے، رائنا کی تو جیسے عید ہو گئی تھی۔ اس کا کھلکھلانا دیکھ کر کمرے میں موجود سبھی عورتیں مسکرا رہی تھیں ۔
’’اور دیکھیں! ساتھ میں یہ بھی ہیں ۔‘‘ اس نے فٹ سے ہاتھ میں پکڑے بیگ سے میچنگ پراندہ اور کھسے برآمد کیے ۔
’’شمیم آنٹی ! یہ تو آپ نے بڑا تکلف کیا۔ ‘‘ مریم اتنا خوب صورت اور مہنگا تحفہ دیکھ کر شرمندہ سی ہو گئی۔ عینی اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔
’’ارے تکلف کیسا مریم آنٹی ؟‘‘ عینی نے مسکرا کر رائنا کی طرف دیکھا جو اب احتیاط سے کپڑے تہ کرنے میں لگی تھی۔
’’رائنا تو میری چھوٹی بہن کی طرح ہے اور امی نے تو یہ خاص طور پر اسی کے لیے بنوایا ہے۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے عینی! رائنا تو ابھی سے سین ڈیاگو کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچ رہی ہے تا کہ تم سے قریب رہ سکے۔‘‘مریم نے ہنس کر عینی کو بتایا ۔
’’ہاں رائنا! تم بالکل یہی کرنا۔‘‘ شمیم نے پیار سے رائنا کی طرف دیکھا ۔
’’پھر تم کچھ سالوں میں عینی کے بچوں کی پہلے baby ستٹنگ کرنا اورپھر ان کی mentor بن جانا۔‘‘ سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔ رائنا ہاتھ میں گلاب جامن پکڑے بیٹھی تھی اور اسے یہ مشورہ بے حد بھایا۔
’’زبردست آئیڈیا ہے شمیم آنٹی۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’اور ویسے بھی سین ڈیاگو میں بڑی پڑھی لکھی مسلمان فیملیز رہتی ہیں۔ میری شادی بھی وہیں پر آرام سے ہو سکتی ہے۔‘‘ کمرے میں موجود سب لوگوں کا قہقہہ بے اختیاری تھا۔ مریم مسکرا کر رہ گئی ۔
٭…٭…٭




عینی کی شادی کی تمام تقریبات کے انتظامات بہترین تھے ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ مریم کافی عرصے بعد کوئی ایسی شادی اٹینڈکر رہی تھی جس کی تمام تقریبات میں وہ انوائٹڈتھی ۔ لہٰذا ان سب لوگوں نے شادی دل کھول کر انجوائے کی ۔ عینی کا نکاح شادی والے دن کی صبح ہی قریبی اسلامک سینٹر میں ہوا تھا ۔ نکاح کے وقت سادگی سے نفیس سے کام والے سفید کرتے پاجامے میں ملبوس عینی شام میں گہرے لال اور ہرے رنگ کے بھاری کام دار غرارے ، خوب صورت گلو بند، کندھے تک آتے آویزوں اور دل کش نگوں کے ٹیکے کے ساتھ ، آنکھوں کو خیرا کر رہی تھی ۔ شمیم نے نہ جانے کتنی بار اس پر رفعِ نظر کی دعا پڑھ پڑھ کر پھونکی تھی۔ مریم نے دل ہی دل میں دعا کی کہ وہ بھی اپنی رائنا کی رخصتی ایک اتنے ہی اچھے گھر میں اتنی ہی دھوم دھام اور فخر سے کر سکے۔
’’یہ شادی تو کسی بھی کرسچین شادی سے کئی گنا بہتر تھی ۔‘‘ رائنا نے ہال سے واپسی پر اپنی رائے دی۔
’’آپ میری شادی بھی ایسے ہی کریے گا نانو۔‘‘اس نے شازیہ کو جیسے ہدایت کی۔
’’انشا اللہ میری جان!‘‘ شازیہ نے پیار سے اسے دیکھا۔
’’بالکل ایسی ہی کریں گے۔‘‘
’’ویسے کامران بھائی بھی بہت ہینڈسم ہیں۔‘‘ اسے دلہا پر تبصرہ کرنا یاد آیا۔
’’ایسا ہی لڑکا بھی ڈھونڈ لیجیے گا۔‘‘ شازیہ کی ہنسی نکل گئی۔
’’ہاں ہاں ! بالکل ایسا ہی ڈھونڈیں گے۔‘‘ انہوں نے پھر اسے تسلی دی۔ نذیر بھی ہنس رہے تھے۔
’’رائنا!ابھی سے کیا فکر ہے تمہیں؟‘‘مریم نے اسے گھورا۔
’’آپ کو نہیں پتا مما! بہت ڈھونڈتے ہیں تو پھر کہیں جا کر اچھا لڑکا ملتا ہے۔‘‘ اس نے جیسے ماں کو عقل دی۔
’’میں نے اکثر آنٹیوں کو یہی باتیں کرتے سنا ہے۔‘‘
عمر نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔ مریم ، نذیر اور شازیہ بہن بھائی کی کھٹ پٹ خوب انجوائے کر رہے تھے ۔
٭…٭…٭
مریم اور بچوں کی سیاٹل واپسی میں دو تین دن ہی رہ گئے تھے ۔ اس دن دونوں بچے نذیر کے ساتھ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور شازیہ کچن میں تھیں۔ مریم کو ایک ضروری لیٹر کے لیے اسٹمپ کی ضرورت تھی۔ وہ نذیر کی اسٹڈی میں گھسی ان کے ٹیبل کی دراز میں کاغذ الٹ پلٹ کر رہی تھی جب بالکل اوپر پڑے ایک غیر تہ شدہ دستاویز پر اس کی نظر پڑی ۔ وہ عینی کے نکاح نامے کی کاپی تھی ۔مریم کو عینی کا خیال آ گیا اس نے سوچا وہ کتنی حسین دلہن بنی تھی۔ مریم کو پتا تھا کہ نذیر عبید نکاح کے گواہوں میں سے ایک تھے اور شاید اسی لیے نکاح نامے کی کاپی بھی ان کے پاس تھی۔ اس نے سرسری سی نگاہ نکاح نامے پر دوڑائی اور دوسرے ہی لمحے جیسے گھر کی چھت اس کے سر پر آ گری ۔ مریم کو لگا جیسے اس کی سانس بند ہو گئی ہو ۔ واقعی سانس لینا ہی بھول گئی تھی ۔ اس کے ہاتھوں پیروں سے جان نکل گئی ۔ وہ ایک لمحہ بھی مزید کھڑی رہتی تو یقینا گر جاتی ۔ بے جان ٹانگوں سے لڑکھڑاتی ہوئی وہ کھڑکی کے پاس پڑی آرام کرسی پر گرپڑی ۔ اپنے لرزتے ہاتھوں میں تھمے نکاح نامے کو اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا ۔
گو کہ کاغذ کے اوپر موجود حروف اتنے ہی روشن تھے جتنی کہ کھڑکی سے چھن چھن کر آنے والی سنہری دھوپ لیکن اس کا ذہن ان سے مکمل طور پر انکاری ہو رہا تھا۔ وہ الفاظ اس کے لیے ناقابلِ یقین تھے ۔
عینی کے باپ کے نام کے خانے میں زیدان خان کا نام لکھا تھا۔
یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ شمیم کے شوہر کا نام تنویر احمد ہے ۔ عینی کے باپ کے خانے میں تنویر احمد کا نام لکھا ہونا چاہیے تھا نہ کہ وہ جو اسے نظر آ رہا تھا ۔ اس کی منطق اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ دنیا میں زیدان خان نامی صرف ایک ہی شخص نہیںہے لیکن دل اس منطق کو جھٹلا رہا تھا اور اسے جھنجوڑ جھنجوڑ کر یقین دلا رہا تھا کہ دنیا میں بے شک زیدان خان نامی لاکھوں لوگ ہوں ، لیکن مریم کی دنیا میں اس نام کا صرف ایک ہی آدمی تھا اور وہ یہی تھا ۔
ناقابلِ یقین بات یہ بھی تھی کہ اس کے اپنے باپ نذیر عبید کا نام سر پرست والے خانے میں لکھا ہوا تھا، گواہ کے خانے میں نہیں اور تنویر احمد کا نام ایک گواہ کے طور پر تھا ۔ ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے اپنے باپ اور زیدان خان کے نام ایک اتنے حساس نوعیت کے قانونی اور شرعی دستاویز پر ایک ساتھ موجود تھے ؟ یہ ہرگز ایک اتفاقی مطابقت نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے بے یقینی اور وحشت کے عالم میں دو تین بار نکاح نامہ اس امید کے ساتھ پڑھا کہ جو بھی اس نے پہلی بار پڑھا، وہ محض نظر کا دھوکا تھا لیکن اس کاغذ کے ٹکرے پر کچھ بھی نہیں بدلا ۔ سب نام انہی خانوں میں اس طمطراق کے ساتھ موجود رہے گویا وہی ان کی جائز جگہ تھی ۔ مریم ہاتھ میں وہ کاغذ کا ٹکرا لیے اٹھ کھڑی ہوئی جس نے لمحوں میں اس کی ہستی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے تھے۔ اسے شازیہ سے کچھ ضروری سوالات کرنے تھے۔
٭…٭…٭
شازیہ کچن میں تھیں۔ عمر ان سے جاتے وقت لازانیہ کی فرمائش کر کے گیا تھا اور اس کی ہر فرمائش پوری کرنا ان پر جیسے فرض تھا۔ مریم خاموشی سے کچن ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں تہ کیا ہوا کاغذ تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بنا ماں کو دیکھتی رہی۔ اس کے آنے اور بیٹھنے کی آواز انھیں آ گئی تھی اور اب وہ اس کے بولنے کی منتظر تھیں۔ لیکن وہ نہیں بولی۔ اس وقت وہ بولنے نہیں، صرف سننے آئی تھی۔ اس کی طرف سے کچھ دیر مزید خاموشی پر شازیہ خود ہی مڑیں۔
’’تمہیں اسٹمپس مل گئے ؟‘‘ انہوں نے اس کے تاثرات پر غور نہیں کیا تھا۔ ان کی نظر اس کے ہاتھ میں موجود کاغذ پر پڑی۔
’’تمہیں اگر یہ لیٹر آج کی تاریخ میں میل کرنا ہے تو جلدی سے لفافہ باہر رکھ آؤ۔ ڈاکیا آنے ہی والا ہوگا۔‘‘ وہ سمجھیں شازیہ کے ہاتھ میں وہ خط ہے جو وہ میل کرنا چاہتی تھی ۔ اچانک انہیں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف چپ بلکہ بے حس و حرکت تھی۔ وہ کام چھوڑ کر اس کی طرف آئیں ۔
’’مریم ، تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ انہوں نے اس کی کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
’’پتا نہیں امی جی۔‘‘ اس کی آواز بے حد شکست خوردہ اور کھوئی کھوئی سی تھی۔ شاید اس لیے کیوں کہ زندگی کی کھوئی ہوئی چیزیں ’تلاش‘ کرنے کا وقت آ گیا تھا۔
’’آپ بیٹھ جائیں ۔‘‘اس نے سامنے کی کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔ شازیہ بیٹھی نہیں بلکہ انہوں نے آہستگی سے اس کے بے جان ہاتھ میں تھما ہوا کاغذ لیا اور اسے کھولا ۔ ایک ہی نظر میں وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیئں ۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئیں ۔
’’یہ تمہارے دیکھنے کے لیے نہیں تھا۔‘‘ ان کی آواز نرم تھی ۔
’’کیا یہ وہی زیدان خان ہے؟‘‘ مریم کی آواز اس کے اپنے کانوں کو اجنبی لگی۔
’’ہاں۔‘‘
مریم کا دل چاہا کہ کاش ان کا جواب ’نہ ‘ میں ہوتا ۔ اس کے خوف میں اضافہ ہوا ۔
’’شمیم آنٹی کی بیٹی کی ولدیت میں اس آدمی کا نام کیوں لکھا ہوا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا ۔ شازیہ نے گہرا سانس لیا ۔
’’اس لیے کہ وہی اس کا باپ ہے۔ عینی، شمیم اور تنویر کی سگی بیٹی نہیں ہے۔‘‘ شازیہ نے کہا نہیں تھا، اسے ایک بھاری پتھر دے مارا تھا۔
’’وہ ان کی adopt بیٹی ہے۔ زیدان خان کی بیٹی۔ ‘‘ کچھ گتھیاں سلجھ گئیں تھیں اور کچھ ڈوریں مزید الجھتی جا رہی تھیں۔
’’لیکن دنیا میں موجود لاکھوں بچوں میں سے شمیم آنٹی نے زیدان خان کی ہی بیٹی کو گود کیوں لیا؟‘‘ مریم نے الجھن بھری نظروں سے ماں کو دیکھا ۔ شازیہ کے آنکھوں میں ترحم ابھرا۔
’’ہماری درخواست پر۔‘‘ انہوں نے آہستگی سے جواب دیا ۔
’’آپ کی؟‘‘ الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ان کی اب ضرورت نہیں رہی تھی ۔ سارے جواب مل اسے گئے تھے۔
’’آپ کا مطلب ہے؟‘‘ جوابات ملنے کے باوجود اس کا بے یقین ذہن پھر بھی تصدیق چاہ رہا تھا۔
’’ہاں مریم! وہ تمہاری بیٹی ہے۔‘‘ مریم کو سمجھ نہیں آیا کہ اس کی زندگی میں اتنا بڑا بھونچال لانے والے وہ الفاظ اس کی سگی ماں نے اس قدر سکون سے کیسے ادا کیے تھے ۔ وہ بے حس و حرکت شازیہ کو دیکھ رہی تھی ۔ شازیہ نے نکاح نامے کو تہ کر کے ٹیبل پر رکھ دیا اور اپنی بات جاری رکھی۔
’’عینی کی پیدائش کے کچھ ہی گھنٹوں بعد تنویر نے تمہارے ابو کے ساتھ جا کر اسے adopt کرلیا تھا۔ یہ کام کچھ مہینوں سے چل رہا تھا۔ اس لیے سب کام فور اً ہو گیا ۔ عینی کو گود میں لینے والے سب سے پہلے تمہارے ابو ہی تھے۔ شمیم اور تنویر ہمارے بہت پرانے دوست اور بے اولاد تھے۔ ان کا کسی بچے کو گود لینے کا ارادہ نہیں تھا لیکن وہ ایک مسلمان ماں باپ کی لاوارث بچی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے راضی ہو گئے تھے ۔ یہ حقیقت کہ عینی تمہاری بیٹی ہے، صرف میں یا تمہارے ابو ہی جانتے ہیں یا اب تم جان گئی ہو۔ شمیم اور تنویر شروع سے کولوراڈو میں مقیم تھے ۔ عینی جب پانچ چھے سال کی تھی تو وہ لوگ لاس اینجلس شفٹ ہو گئے ۔ عینی جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی، ہمارے اندر اس کی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ بننے کی خواہش ہمیں بھی ان لوگوں کے قریب لاس اینجلس لے آئی۔‘‘ مریم بت کی طرح ساکت ان کی باتیں سن رہی تھی۔ باتیں کیا تھیں، پے درپے کچوکے تھے جو شازیہ اس کی روح پر لگا رہی تھیں۔
’’اس کی زندگی کا حصہ؟‘‘مریم نے ان کا آخری فقرہ درشتی سے کاٹا۔
’’اور آپ کے خیال میں کیا مجھے حق نہیں تھا کہ میں بھی اس کی زندگی کا کوئی حصہ بن سکتی؟‘‘ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی اپنی ماں نے اسے اس کی سگی اولاد سے جانتے بوجھتے محروم رکھا تھا ۔
’’نہیں مریم! تمہارا اس پر کوئی حق نہیں تھا۔‘‘ ان کی آواز اور لہجہ دونوں برف کی طرف ٹھنڈے تھے۔
’’کیوں کہ تم نے اپنی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ تمہارے ابو اور میں نے تو اس ساری تباہی کے ملبے کو اس طرح سمیٹا کہ اس کی بازگشت بھی تم تک پہنچ نہیں پائی ۔‘‘
’’تو پھر اسے اس طرح اپنے جاننے والوں میں adopt کیوں کروایا؟‘‘ مریم کی آواز میں غصہ تھا۔
’’چھوڑ دیتے اسے وہیں کہیں یتیم خانے میں کسی کے بھی لیے۔ یہ اس تکلیف سے تو بہتر ہوتا کہ میں ساری عمر اس سے واقف رہی لیکن اس کی شناخت سے لا علم ۔‘‘ اس کی بات پر شازیہ استہزایہ ہنسیں۔
’’واقعی مریم؟ کیا تمہارے خیال میں ہمیں یہی کرنا چاہیے تھا؟‘‘ ان کی آواز کا ٹھنڈا پن اب حقیقت پسندی میں تبدیل ہو چکا تھا۔
’’تمہارے خیال میں کیا ہمارے لیے یہ ممکن تھا کہ ہم جانتے بوجھتے اپنی اکلوتی اولاد کی بیٹی کو کسی غیر مسلمان یتیم خانے میں چھوڑ کر ، ہاتھ جھاڑ کر آگے بڑھ جاتے تاکہ وہ بے دین لوگوں کے گھروں میں دھکے کھاتی پھرتی اور نہ جانے کیا سے کیا بن جاتی ؟ نہ اسے اپنی اصل باپ کا نام پتا ہوتا نہ اپنے دین سے واقفیت ہوتی ؟ نہیں مریم ہم جانتے بوجھتے یہ نہیں کر سکتے تھے ۔ اس کے ہو جانے کو تو ہم نے برداشت کر لیا تھا لیکن اس کے کھو جانے کو ہم کبھی بھی برداشت نہیں کر پاتے ۔ اپنا ورثہ بڑی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے مریم ! اس کی محبت، اس سے عشق خون میں نہیں، سانسوں میں چلتا ہے ۔ دنیا میں کسی بھی دین یا قومیت کا غیرت مند فرد اپنے ورثے کو اپنے ہاتھوں سے آگ میں نہیں جھونک سکتا ۔ مرے ہوؤں کو تو سب ہی روتے ہیں لیکن زندوں کو رونا بڑا دل گردہ مانگتا ہے اور یہ ہم میں نہیں تھا۔ کچھ دیر توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئیں۔
’’کیا یہی وہ وجہ نہیں ہے جس نے تمہیں پچھلے کئی سال سے خوار کیے رکھا ہے کہ تمہاری بچی کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے؟ کن ہاتھوں میں پل رہی ہے؟‘‘
’’میری تکلیف اور کرب کا آپ کو اندازہ تھا لیکن آپ نے مجھے پھر بھی نہیں بتایا؟‘‘ مریم کے لہجہ کا غصہ اب الزام میں بدل گیا تھا۔
’’کس طرح کی ماں اپنی سگی بیٹی کے ساتھ یہ کرتی ہے؟‘‘
’’ایک سمجھ دار ماں ، مریم۔‘‘ شازیہ نے اس کا ہاتھ تھپکا۔
’’ایک با شعور اور معاملہ فہم ماں اپنی بیٹی کے ساتھ وہی سب کچھ کرتی جو میں نے کیا۔ تم نے تو اپنی عقل ہوا کے حوالے کر دی تھی۔ کیا ہم بھی یہی کرتے؟ عینی ہمارا خون ہے مریم ۔ اس کے وجود کا آغاز لاکھ ناگوار حالات میں ہوا ہو لیکن ہے تو وہ معتبر گھرانے کا چشم و چراغ ۔ ہم نے وہی فیصلہ کیا جو اس کے لیے اور ہمارے لیے ان حالات میں بہترین فیصلہ تھا۔ اور اللہ نے اس کا ثمر بھی خوب دیا ہے۔”
’’لیکن میں بھی تو آپ ہی کی طرح اس کی زندگی کا ایک حصہ ہو سکتی تھی امی جی۔‘‘ شازیہ کی حقیقت پسندی مریم کی سمجھ سے بالا تر تھی۔
’’نہیں!‘‘ انہوں نے اس کی بات کو ایک ہی لمحے میں رد کر دیا۔
’’اگر تم اس کی زندگی کا معمولی سا بھی حصہ ہوتیں تو تم اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑی رہتیں۔ نہ تمہاری کسی اچھے گھر میں عزت سے شادی ہو سکتی نہ کمیونٹی میں تمہاری کوئی حیثیت ہوتی۔‘‘ وہ اٹھ کر الیکٹرک کیٹل میں چائے کے لیے پانی بھرنے لگیں۔
’’تم پڑھی لکھی تھیں، خوب صورت تھیں اور اچھے خان دان سے تھیں۔ ہم نے تمہارے ماضی کو تمہاری کسی بھی خوبی کو گہنانے سے بچایا تھا اور اللہ نے ہماری مدد کی۔ تمہارے شفاف ماضی کی بنا پر ہی تمہیں اتنا اچھا، پڑھا لکھا اور مسلمان لڑکا مل گیا اور تمہاری زندگی کی گاڑی بہ خوبی چل پڑی ۔‘‘
’’لیکن میں زیدان سے شادی کر لیتی اور عینی کو بھی رکھ لیتی۔‘‘ اس کے الفاظ میں پچھتاوا جھلک رہا تھا۔ شازیہ اپنا سر ہلاتے ہوئے ہنس پڑیں ۔ ان کی بیٹی ابھی تک خوش فہمیوں کے دائروں میں ہی چکرا رہی تھی۔
’’مریم! تم بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ تمہارے خیال میں زیدان اپنا بہترین مستقبل اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی خاندانی عزت، داؤ پر لگاتے ہوئے تم سے شادی کر لیتا؟ باالفرض وہ اس بچے کو قبول کرتے ہوئے اس بات پر راضی ہو بھی جاتا تو کیا اس کے پٹھان والدین اپنے اکلوتے وارث کی ناجائز اولاد کو اپنا نام دینے پر تیار ہو جاتے ؟ نہیں مریم ایسا صرف کتابوں اور مغربی کلچر میں ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے خاندانوں، اپنے مذہبی اقدار ، اپنی روایتوں، اپنے رسم و رواج ، سماجی حیثیت، اور سب سے بڑھ کر اپنے روایات کی حفاظت ہماری طرح اپنے بیش قیمت اثاثوں کی مانند نہیں کرتے۔ زیدان تو چھوڑو، تمہاری بچی اور تمہارے ماضی کی دھول کے ساتھ کوئی بھی تم سے شادی نہیں کرتا کم از کم کوئی مسلمان تو ہرگز نہیں کرتا۔ ہم نے جو فیصلہ کیا تھا ۔ وہ کئی بے خواب راتوں کی سوچ وبچار کا نچوڑ تھا۔ ہم نے اپنا ورثہ محفوظ کیا ہے مریم۔ یہی تو ہماری زندگی کا حاصل ہے۔‘‘
چائے کا پانی پک چکا تھا۔ شازیہ نے دو مگوں میں چائے بنائی اور ایک مگ اس کے سامنے رکھ دیا ۔ اپنا مگ لے کر وہ دوبارہ اس کے سامنے بیٹھ گیئں ۔ مریم سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کی اندر ایک عجیب سی تھکن اتر رہی تھی اور اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر رہی تھیں ۔
’’مریم! ایک مسلمان عورت چاہے کتنی بھی مغرب یافتہ کیوں نہ ہو جائے، اس کی زندگی عزت سے اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جب اسے ایک اچھی قدریں رکھنے والا مسلمان ساتھی مل جائے۔ ورنہ اس میں اور ایک کٹی پتنگ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔عینی تمہاری زندگی میں ہوتی تو یہ کبھی بھی ممکن نہ ہوتا۔ اور عینی کی شخصیت کا کیا ہوتا ؟ کبھی یہ سوچا ہے تم نے؟ ‘‘ مریم کی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو اب اس کے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔
’’تم نے سالوں پہلے اچھا کیا تھا کہ میری نصیحت مان کر ماضی کو ماضی ہی رہنے دیا ۔ اب بھی یہی کرو۔‘‘ شازیہ اسے پھر سمجھا رہی تھیں۔
’’یہ سب کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر رائنا کے لیے۔ عینی ایک مضبوط اور لاجواب بچی ہے اور اب تو اس کی شادی بھی ہو گئی ہے۔ اس وقت ماضی کو کھود کر نکالنا سب کی خاص طور پر تمہارے تینوں بچوں کی ، زندگیوں میں بھونچال لے آئے گا ۔ دفن ہوئی باتوں کو دفن ہی رہنے دو۔ عینی کو صرف یہ پتا ہے کہ وہ adoptedہے اور اس کے باپ کا نام زیدان خان ہے۔ وہ آدمی اس کے لیے صرف ایک نام ہے اور کچھ نہیں ۔ان ناموں کو نام ہی رہنے دو ۔ انھیں شکلیں دینے کی کوشش مت کرو اور نہ اس کی یا کسی اور کی زندگی میں نئے رشتے متعارف کروا۔‘‘
’’کیا شمیم آنٹی کو پتا ہے؟‘‘ مریم کو خیال آیا۔
’’شمیم اور تنویر کو کچھ نہیں پتا سوائے اس کے کہ انہوں نے ہماری درخواست پر ایک پاکستانی مسلمان لڑکی کی لاوارث بچی کو ایک اچھا گھر اور پرورش دے کر اس کے ساتھ نیکی کی ہے۔ عینی، شمیم اور تنویر کے سونے گھر میں بہار لے آئی تھی ۔ انہوں نے خود بھی کبھی کچھ اور جاننے کی کوشش نہیں کی ۔‘‘ مریم کو اندازہ ہوا کہ اگر اس کے والدین نے اس کے ماضی کو دفنانے کا بیڑا اٹھایا تھا تو انہوں نے واقعی مکمل طور پر یہ کام کیا تھا۔
’’ہم نے ماضی کو لوئی سیانا میں چھوڑ دیا تھا مریم ، اسے وہیں رہنے دو۔‘‘ شازیہ کی آخری بات میں ایک واضح تنبیہ تھی ۔
ماں کی باتوں میں چھپی گہری سچائی اور منطق، قطرہ قطرہ مریم کے اندر ٹپک رہی تھی ۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہیں تھیں وہ۔ اپنی جوان ہوتی بیٹی کو ، جس کو وہ امریکا میں رہتے ہوئے مغرب کی کلچر کی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتی رہتی تھیں اور اسلامی اقدار سکھا رہی تھیں، عینی کی پیدائش کی وہ کیا وضاحت دیتیں؟ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کو کیا بتاتیں؟ اور عینی کے نئے شوہر اور اس کے سسرال والوں کا کیا ہوتا؟ کیا وہ عینی کی ذات سے وابستہ اندھیروں کو قبول کر لیتے ؟ ابھی تو ساری توڑ پھوڑ صرف مریم کے اندر قید تھی۔ باہر آجانے پر وہ بلا شبہ ایک ہول ناک بربادی کا موجب بن جاتی ۔
’’اپنے ابو سے کسی قسم کا کوئی سوال مت کرنا ۔‘‘ شازیہ نے اسے تاکید کی۔
’’انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سال اپنے آپ سے یہ پوچھتے گزار دیے کہ ان سے کیا غلطی ہوئی تھی۔‘‘
مریم نے گہرا سانس لیا۔ دو رنگوں کا امتزاج ہمیشہ ایک دل کش نیا رنگ نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ ایک خستہ، بے کیف اور اداس سا مٹیالا رنگ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کے شکستہ رنگ کو صرف اس موہوم امید پر اپنے حال کے کھلکھلاتے رنگوں پر نہیں پھینک سکتی تھی کہ شائد اس کا نتیجہ ایک دلفریب سا نیا رنگ ہی ہو ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے حال کے کھلکھلاتے رنگوں نے واپس گھر آ جانا تھا۔ مریم نے اپنے ماضی’ کے بارے میں سوچا جو اس وقت ہنسی خوشی سین ڈیاگو میں اپنی زندگی کی بنیاد رکھ رہی تھی۔ اس معصوم کے اوپر اچانک ہی ایک اس قدر شکستہ حال اور گراں بارماضی کے بوجھ کو لاد دینا سراسر ظلم ہوتا ۔
بیٹی کی خاموشی سے شازیہ کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی باتیں اس کی سمجھ میں آ گئی ہیں ۔ انہوں نے اس کے سامنے سے نکاح نامہ اٹھایا اور کچن سے نکل گئیں۔ انہیں پتا تھا کہ اسے اب سنبھلنے میں ایک عرصہ لگنا تھا ، کچھ گھنٹے نہیں۔
مریم کچن ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ۔ کون کہتا تھا کہ غلطیاں اور خطائیں وقت کی دھول میں دفن ہو جاتی ہیں ۔ وہ کبھی بھی دفن نہیں ہوتیں بلکہ تاحیات زندگی کے ساتھ ایک روگ کی طرح لگی رہتی ہیں۔ کبھی بد دعائیں بن کر، جو آسیب کی طرح نصیبوں کو کھا جاتی ہیں اور کبھی ایسے گناہوں کی صورت جن کا کفارہ ادا کرتے کرتے زندگی تمام ہو جاتی ہے پر قرض ختم نہیں ہوتا ۔
دونوں صورتوں میں انسانوں کی غلطیاں پیروں میں بیڑیوں کی طرح پڑی اپنی یاد دلاتی رہتی ہیں ۔ اس کے خون میں گردش کرتی رہتی ہیں ۔ بھولنے کی کوشش محض خوش فہمی ہوتی ہے لیکن زندگی گزارنے کی آس لیے ڈوبتے کو خوش فہمیوں کے تنکے بھی بہت ہوتے ہیں ۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!