ورثہ — ارم سرفراز

ایڈاپشن ایجنسی کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ مریم کی خلافِ مرضی کچھ اچانک ہی ہو گیا ۔ ماں کا رویہ بھی اس کے موقف کو کم زور کرنے کی ایک وجہ تھی ۔ وہ اور علی اس وقت بچوں کو لینے ائیرپورٹ جا رہے تھے اور نہ جانے کس بات سے وہی بات پھر نکل آئی جس سے مریم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر گھسا کر آنکھیں چرانے میں لگی رہتی۔ گھر سے نکلتے ہی اسے اپنی سکول والی دوست کا فون آ گیا ۔ فون تو اس نے کسی اور کام سے کیا تھا لیکن علی کو ان دونوں کا غیر حل شدہ تنازعہ یاد دلا گیا ۔
’’تمہیں پتا ہے نا کہ تمہاری اس نوکری مجھے بڑی کوفت ہوتیہے۔‘‘
’’تم نے کہا تھا تم صرف کچھ دن یہاں کام کرو گی پھر چھوڑ دو گی اور اب اتنے سال ہونے کو آرہے ہیں ۔‘‘ مریم کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بات بدل دے لیکن ہر بار یہ ممکن نہیں تھا اور علی کا اصرار بھی بڑھتا جا رہا تھا ۔
’’تمہیں تو ویسے بھی کسی بھی قسم کی نوکری کی ضرورت ہے ہی نہیں۔‘‘ علی نے اگلا نقطہ بھی جڑ دیا۔ اس کا لہجہ تناؤ یا غصے سے عاری تھا ۔ وہ جیسے اس کے دلائل سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مسلسل مایوس ہورہا تھا ۔ اپنے مخالف سے بحث کرنا اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب وہ اپنے نقطۂ نظر سے آپ کا قطعی اتفاق چاہنے کے بہ جائے آپ کا مؤقف سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ۔
’’مجھے تمہاری بات سمجھ آتی ہے علی اور مجھے افسوس ہے کہ میری یہ نوکری تمہاری تکلیف کی وجہ بنتی ہے۔‘‘ مریم کی آواز کم زور تھی ۔
’’اگر بات سمجھ آتی ہے تو پھر چھوڑو یہ جھگڑا ۔ میں تو ایک ہی ٹاپک پر بحث کرتے کرتے بھی تھک گیا ہوں۔‘‘ علی نے اکتا کر کہا۔
مریم نے اس کی طرف دیکھا۔ تنگ تو وہ بھی آ گئی تھی اور اسے اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ علی کو اپنی ضد چھوڑنے کی عادت نہیں تھی ۔ بحث ، دلیل یا پیار سے وہ اکثر اپنی ہی بات منوا لیتا تھا ۔ مریم کو اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا ۔ لیکن اپنی نوکری والی بات اس کے لیے عام بات نہیں تھی ۔ اس سے اسے فرق پڑتا تھا لیکن فرق تو علی کو بھی پڑ رہا تھا ۔ کسی نے تو اپنی ضد چھوڑنی ہی تھی ۔
’’ٹھیک ہے علی ! میں یہ جاب چھوڑ دیتی ہوں۔‘‘ اس نے اچانک ہی بات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’میں بھی تنگ آ گئی ہوں ۔ ہمیں اب بحث کے لیے واقعی کوئی نیا ٹاپک ڈھونڈھ لینا چاہیے ۔‘‘ اس کی بات سے علی کا اترا ہوا چہرہ یک دم کھل اٹھا ۔اس نے مسکرا کر مریم کی طرف دیکھا۔ اس کے آنکھوں میں تشکر کی جھلک تھی ۔ مریم تھی ہی اتنی اچھی کہ اسے امید تھی کہ وہ جلد یا بہ دیر اس کی خوشی کے لیے اپنی پسندیدہ جاب چھوڑ ہی دیتی ۔
’’تھینک یو مریم۔‘‘ اس نے نرم آواز میں کہا۔
’’ اور تم فکر مت کرو، میں ہماری اگلی بحث کے لیے کوئی زیادہ چٹ پٹا ٹاپک تلاش کروں گا۔‘‘ اس کی بات پر مریم مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔ بچے بھی گھر آ رہے تھے۔ اچھا تھا کہ وہ دونوں بھی اپنے اختلافات بھلا کر ان کا خوشدلی سے استقبال کرتے ۔
مریم اور علی نے بچوں کے ننھیال میں گھلنے ملنے اور ملاقاتوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی تھی ۔ دونوں کو اندازہ تھا کہ بچوں کو اپنی پاکستانی جڑوں سے جوڑے رکھنے کا یہ بہترین ذریعہ تھا ۔ شازیہ اور نذیر کے ساتھ نہ صرف بچوں کو مزہ آتا تھا بلکہ وہ کئی نصیحتیں بھی غیر محسوس انداز میں ان کی گھٹی میں ڈالتے رہتے۔ رائنا کے برعکس عمر کا مزاج سنجیدہ تھا ۔ نانا نانی کی باتوں پر غور کرنا، سمجھنا اور اپنانا اس کی عادت تھی ۔ رائنا کے پاس ایک ہزار سوال ہوتے تھے جن کے جوابات وہ دلائل کے بغیر نہ سنتی تھی۔ بعض دفعہ اسے دیکھ کر مریم کو اپنا بچپن یاد آجاتا اور ہر دفعہ یہ احساس اس کے اندر خوف اور بے چینی پیدا کرتا تھا ۔
مریم اور علی نے اپنا اور دونوں بچوں کا رابطہ اسلامک سینٹر سے بھی مستقل رکھا ہوا تھا ۔ بچے یہاں نہ صرف ویک اینڈ کلاسز لیتے بلکہ سینٹر کے ذریعہ ان کا اسلامی اور باالخصوص پاکستانی کمیونٹی میں اچھا ملنا ملانا ہو چکا تھا۔ یہ بھی امریکا میں نئی نسلوں کا اپنی شناخت برقرار رکھنے کی جانب انتہائی ضروری اقدامات میں سے ایک تھا ورنہ جس معاشرے میں وہ رہتے ہیں وہاں بے لگامی کا انجام کٹی پتنگ کی مانند تھا جس کو نہ اڑان کی سمت کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ اپنی پہچان کا ۔
٭…٭…٭




مریم نے جب غیر جانب داری سے اپنی ایڈاپشن ایجنسی کی نوکری کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے وہاں کام کرنے کی ضد بے وقوفانہ تھی لیکن وہ اپنے دل اور محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔دوسری طرف علی تھا جو اپنی بیوی سے اس معاملے میں تھوڑی سی ہم دردی کی توقع کر رہا تھا تو کچھ غلط بھی نہیں کر رہا تھا ۔ وہ اس کی نوکری کی اصل وجوہات سے واقف ہی نہیں تھا اور جس بات سے وہ لاعلم تھا ، اس بات کو وہ سمجھ ہی کیسے سکتا تھا ۔ یہ بات مریم کے اندر ندامت پیدا کرتی تھی کہ وہ علی کو بالواسطہ اس کا تکلیف دہ ماضی یاد کروانے کی ذمہ دار بنتی ہے ۔
جب علی بارہ سال کا تھا تو اس کے والدین کا انتقال ایک حادثے میں ہو گیا تھا ۔ حادثے کے وقت علی بھی ان کے ساتھ تھا لیکن شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ بچ گیا۔ امریکا میں کوئی بھی قریبی رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے اس کا قانونی طور پر مستقل کوئی انتظام ہونے تک اسے ایک امریکی خاندان کے پاس عارضی طور پرفوسٹر کیئر میں بھیج دیا گیا۔یہ وقت علی کے لیے ایک ایسے خوف و ہراس اور ذہنی خلفشار کا دور ثابت ہوا جو ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن پر نقش ہو گیا۔ حادثے کے فوراً بعد نہ صرف ماں باپ کے بچھڑنے کا غم تھابلکہ ایک اندھیر اور غیر محفوظ مستقبل بھی کسی خوف ناک جن کی طرح اسے ہڑپ کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا ۔
علی نے فوسٹر ہومز میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور لا پروائیوں کی بے شمار داستانیں سن رکھی تھیں جس کے نتیجے میں ایسے لا وارث بچوں کو اکثر یکے بعد دیگرے کئی گھر بدلنے پڑ جاتے تھے ۔ سب سے بڑھ کر وہ اس بات سے خوف زدہ تھا کہ اسے اس کے مذہب سے ہٹا دیا جائے گا اور کوئی اور مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا ۔ بارہ سالہ بچے کا دماغ چار پانچ مہینے تک صبح سے لے کر شام تک انہی تکلیف دہ سوچوں اور خوف میں مدغم رہتا لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا ۔ جرمنی میں مقیم علی کے چچا ، جو اپنے بڑے بھائی سے کسی ناچاکی کی بنا پر کئی سالوں سے نہیں ملے تھے، اس نازک موقع پر اپنی ذمہ داری سے نہیں کترائے ۔ بھائی اور بھابی کے انتقال کی خبر انھیں دیر سے ملی تھی لیکن ملتے ہی انہوں نے جرمنی سے ہی علی کو قانون گود لینے کی کروائی شروع کر دی تھی اور امریکا میں اس ایڈاپشن ایجنسی سے بھی رابطہ کر لیا تھا جس کے ذریعے علی کو فوسٹر ہوم میں بجھوایا گیا تھا ۔ جب وہ علی کو امریکا سے لے کر جرمنی پہنچے تو ان کے دونوں بیٹوں اور جرمن بیوی نے اپنے خاندان کے نئے فرد کا خوش دلی سے استقبال کیا ۔ ان کے گھر میں علی کو تحفظ اور سکون کے ساتھ ساتھ چچا کی شفقت بھی ملی تھی ۔ گو کہ تکلیف دہ دور گزر گیا تھا لیکن چچا کے گھر کا پرسکون اور محفوظ وقت بھی اس کے دماغ سے فوسٹر ہوم میں گزارے گئے پانچ مہینوں کی دہشت نہ نکال سکا ۔ ہائی اسکول تک کی تعلیم اس نے جرمنی میں حاصل کی اور پھر وہ مزید تعلیم کے لیے امریکا آ گیا۔
علی اپنے ایکسیڈنٹ اور اپنے ماں باپ کا ذکر کبھی نہیں کرتا تھا۔ وہ اس واقعہ کو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح بھولے رکھنا چاہتا تھا لیکن مریم کا ایڈاپشن ایجنسی میں نوکری کرنا اسے لا شعوری طور پر ہمہ وقت اس دور کی یاد دلاتا تھا ۔ اسے احساس تھا کہ مریم کا مقصد ان لاوارث بچوں کے لیے اچھے گھر ڈھونڈنا تھا لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں بھی مجبور تھا جو اس کی زندگی کی مشکلترین یادوں کو اس نوکری کے حوالے سے اس کے سامنے لے آتی تھیں ۔ وہ زور زبردستی کا قائل نہیں تھا اور مریم کو محض اپنی خوشی کے لیے کسی کام کو چھوڑنے یا اپنانے کے لیے نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن وہ اس تلخی سے بھی ڈر گیا تھا جو اس کے نا چاہتے ہوئے بھی مریم اور اپنے ما بین متواتر ہونے والی بحث کا نہ صرف حصہ بن رہی تھی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہو رہا تھا ۔
اس کے نزدیک اپنے گھر کے سکون کی خاطر ان دونوں کے مابین خفگی کو طول دینے سے بہتر تھا کہ اس پکتے ہوئے ناسور کو ایک ہی جھٹکے میں کاٹ کر پھینک دیا جائے اور یہی اس نے کیا تھا ۔ اس کے حساب سے اگر مریم نوکری کرنا ہی چاہتی تھی تو اس کو اس سے کہیں بہتر نوکری مل سکتی تھی۔
علی کو کبھی یہ اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مریم اس اڈوپشن ایجنسی میں نوکری برائے نوکری کرتی ہی نہیں تھی؛ وہ تو اپنی زندگی کی ایک lifeline تھامے بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
گزرے ہوئے سالوں میں اس کا دوست اسے باقاعدگی سے بچی کے بارے میں تمام معلومات سے آگاہ رکھتا ۔ اس کا دوست تو اسے تصاویر، اسکول کی رپورٹ کارڈز اور اکثر جیتے جانے والے سرٹیفکیٹ وغیرہ بھی بھیجنا چاہتا تھا لیکن ان سب کے لیے اس نے اسے منع کر دیا تھا ۔اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اس کے دوست کے گھر میں بچی بہت پیار، اور ناز و نعم سے پل رہی تھی۔ یہ سن کر اسے بالکل حیرت نہیں ہوئی تھی کہ بچی نہایتذہین تھی ۔ بچی کا پسِ منظر اور شان دار وراثت جانتے ہوئے اسے اس کی ذہانت کے حوالے سے کچھ اور سننے کی توقع بھی نہیں تھی ۔
سات سال تک تو اسے بچی کو دیکھنے میں کوئی خاص تجسس نہیں تھا لیکن اچانک ہی ساتویں سال اسے ایک نظر دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی اور چند ہی مہینوں میں شدت پکڑ گئی ۔ اسے سمجھ آیا کہ اپنے خون سے محبت اور اس کی کشش کیا چیز ہوتی ہے ۔ یہ تو محبت اور شفقت کی وہ داستان ہوتی ہے جس کا ہر حرف ازل سے لے کر ابد تک معمولی سی بھی رد و بدل کے بغیر دلوں اور جذبوں پر کندہ ہوتا ہے ۔
وہی کشش جو سات سال پہلے اسے کھینچتی ہوئی نیو آرلینز لے گئی تھی، اب دوبارہ اس پر کمندیں ڈال رہی تھی ۔وہ کولوراڈو اپنے دوست کے گھر گیا اور اس نے سات سال کی خوب صورت اور ذہین بچی سے ایک بار ملاقات کیا کی، وہ تو جیسے زیر ہی ہو گیا ۔ اس کے دوست نے بچی سے اس کا تعارف اپنے بہت اچھے دوست کی طرح کروایا تھا۔
اس نے بچی کو ہسپتال میں گود میں لیے بیٹھنے کے بعد پہلی دفعہ گلے لگا کر پیار کیا اور ایک بار پھر اسے اپنے فیصلے کے درست ہونے پر یقین ہوا ۔اس ملاقات کے بعد اس کے اندر بچی کو باقاعدہ دیکھتے رہنے کی خواہش جاگی۔ کیوں نہ جاگتی، وہ تو اس کا قیمتی اثاثہ تھی ۔ سب سے اچھی بات تو یہ تھی کہ اس کے پاس بچی کو اکثر دیکھنے کا راستہ بھی موجود تھا ، بے شک دور سے اور ایک غیر متعلقہ فرد کی طرح ہی سہی ۔ اس نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ اس کی بیوی کو بھی ایک ریاست سے دوسری ریاست میں رہائش کی تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ ۔ اپنے پہلے فیصلے پر اسے ہمیشہ فخر محسوس ہوا تھا ۔ لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسی زعم میں کیا گیا دوسرا فیصلہ آنے والے وقت میں بہت سی زندگیوں میں کس قدر اذیت لے کر آنے والا تھا ۔
٭…٭…٭
مریم اور علی کے ائیرپورٹ پہنچنے کے کچھ دیربعد ہی رائنا اور عمر کا جہاز لینڈ ہو گیا ۔ دونوں بچے بے انتہا خوش اور پر جوش تھے ۔ نانا نانی نے دل بھر کر انہیں مزے کروائے تھے ۔ رائنا نے نئے اسٹا ئل سے بال کٹوائے ہوئے تھے ۔
’’عینی باجی مجھے اپنی ایک ہیر ڈریسر دوست کے پاس لے کر گئیں تھیں۔‘‘ علی کی تعریف پر اس نے بڑے فخر سے باپ کو بتایا ۔ عینی باجی ، چوبیس سالہ نورالعین ، لاس اینجلس میں شازیہ کے پاکستانی ہمسایوں شمیم اور تنویر کی بیٹی اور رائنا کی رول ماڈل تھی ۔
’’واقعی اچھے لگ رہے ہیں تمہارے بال رائنا۔‘‘ عمر سے بات کرتے کرتے مریم نے بھی اس بار ذرا غور سے رائنا پر نظر ڈالی۔ اچھے نظر آنا اور پھر اپنی تعریف سننا ان دنوں رائنا کا محبوب ترین مشغلہ تھا ۔ ایک تو وہ پیاری بھی تھی اور کچھ اس عمر کا فتور بھی تھا ۔ علی اب عمر سے اس کی پڑھائی کے بارے میں سوال کر رہا تھا ۔ پیار محبت اپنی جگہ لیکن بچوں کی پڑھائی کے معاملے میں وہ کوئی لحاظ نہیں رکھتا تھا ۔
رات کے کھانے کے دوران رائنا کے پاس جون میں متوقع عینی باجی کی شادی کی باتوں کے علاوہ کوئی موضوع نہیں تھا۔ عینی کا ہونے والا شوہر پڑھا لکھا تھا اور لاس اینجلس کے قریبی شہر سین ڈیاگو میں رہتا تھا ۔ شمیم تو اسی بات پر خوش تھیں کہ ان کی لاڈلی بیٹی شادی کے بعد بھی ان سے کچھ ہی گھنٹوں کے فاصلے پر رہے گی نہ کہ کسی دور دراز ریاست میں ۔ ان ساری باتوں کا مریم کو سرسری سا علم تو تھا، لیکن اب ان میں اضافی تفصیلات مع مرچ مسالہ ، رائنا صاحبہ مسلسل ان سب کے گوش گوار کر رہی تھیں ۔
’’ڈیڈی آپ کو پتا ہے عینی باجی اپنا Masters سین ڈیاگو یونیورسٹی سے کریں گی۔‘‘ اس نے علی کو فخریہ بتایا ۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس خبر سے باپ بے حد خوش ہوگا کہ عینی شادی کے بعد بھی بہت اچھی یونیورسٹی سے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنے والی ہے۔
’’یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔‘‘ علی نے اسے مُسکرا کر دیکھا۔ اس کا جواب حسب توقع تھا ۔
’’اور مما آپ کو پتا ہے شمیم آنٹی عینی باجی کی شادی پورے پاکستانی اسٹائل میں کریں گی۔‘‘ رائنا کا عینی نامہ جاری تھا ۔
’’شادی تو شادی ہوتی ہے۔‘‘عمر نے اسے گھورا ۔
’’یہ پورے پاکستانی کا کیا مطلب ہوا؟‘‘
’’تمہیں کیا پتا؟‘‘ رائنا نے جیسے اس کا مذاق اُڑایا ۔
’’ان باتوں کا لڑکیوں کو زیادہ پتا ہوتا ہے ۔ تم بھی تو شادی میں جاؤ گے،خود ہی دیکھ لینا۔‘‘ اس کے جواب پر عمر لاپروائی سے کندھے اُچکا کر رہ گیا ۔
’’شمیم آنٹی نے کہا ہے کہ وہ ایک زبردست سی ماین بھی کریں گی اور مہندی بھی۔‘‘ اس نے ایک اور خبر دی ۔ عمر قہقہہ مار کر ہنس پڑا ۔ علی اور مریم بھی مُسکرا دیے ۔
’’تو کیا عینی باجی کا ہونے والا شوہر ماین ہے ؟‘‘ عمر نے پوچھ کر گویا کچھ دیر پہلے کا حساب برابر کیا ۔ رائنا چڑ کر مریم کی طرف مڑی ۔
’’ما ین ہی تو ہوتا ہے نا مما ؟صحیح کہہ رہی ہوں نا میں ؟‘‘ رائنا نے ماں کی تائید چاہی۔
’’وہ جو traditional پاکستانی شادیوں میں ایک event ہوتا ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹا! ماین نہیں، مایوں ہوتا ہے۔‘‘ مریم پیار سے اس کی طرف دیکھ کر مُسکرائی ۔
’’اور کیا تمہیں نہیں پتا کہ ماین کس کو کہتے ہیں؟‘‘ علی نے اب اسے دیکھا۔
’’اتنی تو معلومات ہونی چاہئیں تمہارے history کے سبجیکٹ میں ۔‘‘
’’ہاں ڈیڈی ! مجھے پتا ہے کہ mayan جنوبی افریقہ کی کسی قدیم سوسائٹی کا نام تھا۔‘‘ رائنا تھوڑی کھسیانی ہوئی۔
’’لیکن میں سمجھی کہ اس occasion کا بھی یہی نام ہے۔‘‘
اپنی عینی باجی کی شادی اٹینڈ کرنے کا اشتیاق رائنا کی باتوں سے صاف ظاہر تھا ۔ شازیہ کے ذریعے مریم اور علی کو شمیم اور تنویر کی طرف سے شادی کا بلاوا بھی مل چکا تھا ۔ شادی کا باقاعدہ کارڈ آنا تو ایک رسمی سی بات تھی ۔
’’اچھا بھئی آپ لوگ اب یہ ما ین وا ین چھوڑیں، میری نئی والی پہیلی بوجھیں۔‘‘ عمر اب میدان میں کودا ۔ اسے نئی نئی پہیلیاں سوچنے اور بجھوانے میں بے انتہا دل چسپی تھی ۔
’’اب یہ شروع جائے گااور بولے جائے گا۔‘‘ رائنا نے آنکھیں گھما کر بے زار ہونے کی ایکٹنگ کی لیکن عمر کو بہن کی حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ۔مریم ان لوگوں کو chill کرتا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے ابھی کچن بھی سمیٹنا تھا ۔
وہ کچن میں تھی جب شازیہ کا فون آ گیا ۔ مریم نے ٹیکسٹ کر کے بچوں کے پہنچنے کی اطلاع تو انہیں ائیرپورٹ پر ہی دے دی تھی لیکن فون پر بات نہیں ہوئی تھی ۔ ویسے مریم کو اندازہ تھا کہ شازیہ کے فون کرنے کی اصل وجہ علی اور اس کے مابین جاب کے بارے میں ہونے والی چپقلش کے متلعق نہ صرف پوچھنے بلکہ اس کا حل بھی نکالنے کی بے چینی ہو گی۔ مریم کو ان کی عادت کا پتا تھا ۔ حسبِ توقع انھیں اس کا جاب چھوڑنے کا فیصلہ سن کر اطمینان ہوا تھا ۔
’’تم نے بھی تو ایک ایسی بے معنی تکرار لگائی ہوئی تھی جس کا کوئی حاصل ہی نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے نرم لہجے میں اسے سمجھایا۔
’’تمہاری ضد صرف ایک deadend سڑک تھی ۔‘‘
’’شاید ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ مریم کی آواز میں افسوس در آیا۔
’’شاید یہ سڑک کہیں پہنچ ہی جاتی اگر میں شروع میں اتنا وقت ضائع نہیں کرتی۔‘‘
’’لیکن اس چیز کی قیمت تمہارے گھر کا سکون اور اپنے شوہر کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہوتے۔‘‘ شازیہ حقیقت پسندی سے نفع نقصان کی بات کر رہی تھیں لیکن مریم کو ان کی باتیں ظالمانہ لگیں۔
’’بس یہ سوچ کر مطمئن ہو جاؤ کہ وہ اچھے ہاتھوں میں ہے۔ تمہارے لیے یہی کافی ہونا چاہیے۔‘‘ مریم کے لیے اب یہ سوچ لینا کافی نہیں تھا۔ اپنے خون سے سینچی اس کلی کی مہک اسے بے قرار کیے رکھتی تھی ۔ اس کے لیے اس کی فطری محبت اسے سونے نہیں دیتی۔
’’کچھ بھی نہ کیے بغیر صرف سوچے جانا بڑا مشکل کام ہے امی جی۔‘‘ وہ آہستہ سے صرف اتنا ہی بول پائی ۔
’’مشکل اس لیے ہے کیوں کہ تم اسے مشکل بنا رہی ہو۔ تم ایک ایسی بے نام اور بے شناخت پرچھائی کی جست جو میں ہو جسے چھونا تو دور کی بات، مجسم ہونے پر تم پہچان بھی نہیں پاؤ گی ۔‘‘ شازیہ نے پھر اسے سچ کی مار ماری ۔ ماں کا یہ لہجہ مریم اچھی طرح پہچانتی تھی۔ یہ ان کی کوفت اور اشتعال کی انتہا ہوتی ہے ۔ ایک لال جھنڈی کہ اب ان کی طرف سے زیرِ بحث موضوع پر ہر قسم کے مذاکرات ختم ۔ مریم کو اندازہ بھی تھا کہ ماں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو اور ماضی کے بند قفل کھولنا یقینا ان کے لیے ذہنی دباؤ کا سبب بن جانا تھا ۔ اپنے اوپر لہروں کی مانند امنڈ امنڈ کر آنے والے پچھتاووں ، ندامتوں اور افسوس کے منہ زور جذبوں پر بند باندھنا صرف اس کی اپنی ذمہ داری تھی ۔ بار بار ماں کا کندھا تلاش کرنا اور ان جذبوں کو واجب قرار دینا ان کے ساتھ سراسر نہ انصافی تھی ۔ شازیہ ٹھیک ہی کہتی تھیں، اس کھیل کا اب ختم ہو جانا ضروری تھا ۔ اس کی نوکری کی طرح۔
فون بند کرنے کے بعدوہ کچن میں اسٹول پر ہی بیٹھ گئی ۔ کچن تو سمٹ چکا تھا پر اندر کا پھیلاوا تھا کہ کسی صورت سمٹنے میں ہی نہیں آتا تھا ۔ فیملی روم سے ٹی وی چلنے اور بچوں اور علی کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ کھڑکی سے باہر رات کا اندھیرا اس کا ماضی تھا ۔ وہ اپنے ماضی کو کسی کوٹ کی طرح اتار کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ ایسا کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ تاریک ہو یا روشن، ماضی ہمیشہ انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ جس طرح ایک مثبت اور پرمسرت ماضی لوگوں کے حال کو چمک اور رونق بخشتا رہتا ہے، اسی طرح ایک اندھیر ماضی اپنی ٹھنڈی اور افسردہ انگلیاں مستقل ان کے حال کی مسکراہٹوں اور فرحت کے گرد لپیٹے رکھتا ہے۔
٭…٭…٭
وہ جب بھی اب جوان ہوتی اس بچی کو دیکھتا اور اس سے باتیں کرتا تو اُس افسوس اور پچھتاوے کی انتہا کا سوچ کر ہی خوف زدہ ہو جاتا تھا جو یہ فیصلہ نہ کرنے کی صورت میں اس کا مقدر بن جاتے ۔ بااختیار ہونے کے باوجود اپنے ہی خون کوکہیں رلتا چھوڑ کر وہ کبھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔اگر وہ ایسا کرتا تو مہیب ملال ایک آسیب کی طرح عمر بھر اس کا پیچھا کرتا ۔
وہ بہت پیاری بچی تھی۔ اس کے موہنی چہرے کے خدوخال اور گفتگو کے انداز میں دوسروں کی بھی شباہتیں عیاں تھیں۔ اس نے اپنا گھر دوست کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر لیا تھا ۔ اب بچی کی زندگی کا حصہ بننا اس کے لیے بے حد آسان ہو گیا تھا ۔ وہ اکثر ان کے گھر آ جاتی اور اپنے اسکول کی اور دوستوں کی کہانیاں اسے اور اس کی بیوی کو سناتی ۔ وہ اپنے اسائنمنٹس اور کلاس پراجیکٹس میں بھی اس کی مدد لیتی تھی ۔ بچی کے نزدیک وہ اس کے ماں باپ کا ایک بڑا قابلِ اعتبار اور معتبر فیملی فرینڈ تھا جس کی رائے پر اسے اعتماد تھا ۔ عمر کے ساتھ بچی کی دانش مندی اور مستقبل سے متعلق عزائم میں اضافہ ہوا تھا۔ اپنے شان دار گریڈز اور overall اکیڈمک پرفارمنس کی بنا پر اس کا داخلہ بہت اچھی یونیورسٹی میں ہو گیا تھا۔ کچھ اور عرصے میں اچھے گھرانوں سے اس کے لیے پیغامات بھی آنے لگے ۔ اس کے دوست نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کے مشورے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ اس بات کے لیے وہ اپنے دوست کا بے حد ممنون تھا۔
بچی کی اعلیٰ تربیت اور بہترین تعلیمی ریکارڈ دیکھ کر اس کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے ۔ ماضی میں جو ہوا تھا سو ہوا لیکن نیو آرلینز میں کیے جانے والے ایک واحد فیصلے نے ان پچھتا ووں کی زہریلی کڑواہٹ کا کافی حد تک ازالہ کر دیا تھا ۔
٭…٭…٭
دو ہفتے بعد مریم نے اسکول میں بہ طور اسکول سائیکولوجسٹ اپنی نئی نوکری شروع کر دی تھی ۔ کام اچھا اور اس کی ڈگری کے مطابق تھا لیکن مصروف رہنے کے باوجود اس کا ذہن اکثر اپنی پرانی جاب کی طرف بھٹک جاتا۔ اس کا دل ان لاوارث بچوں کا سوچ کر دکھ جاتا جن کے یا تو والدین تھے ہی نہیں یا پھر انھیں پیدا کرنے کے باوجود انھیں ان کی ضرورت نہیں تھی ۔ ان معصوموں کے نقصان کا ازالہ بھلا کوئی کس طرح کر سکتا تھا جو بہت کم عمر تھے ان کی لا علمی تو ان کے لیے ایک نعمت تھی لیکن جو سمجھ بوجھ رکھتے تھے، وہ اپنی ذات اور اس کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں کے متعلق ایسی ایسی وضاحتیں طلب کرتے کہ وہ پریشان ہو جاتی اور دل خون کے آنسو روتا ۔ مریم جانتی تھی کہ ان کے ایک محفوظ مستقبل کے لیے اس کی کوئی بھی کوشش سمندر میں قطرے کی مانند تھی لیکن پھر بھی، تھی تو سہی ۔
اگر علی کو اڈوپشن ایجنسی میں اس کے کام کرنے کی خاموش ضد کے پیچھے وجوہات کا علم نہیں تھا تو وہ اس لیے کیونکہ اس نے علی کو کبھی کچھ بتایا ہی نہیں تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے اس واحد راز میں جب اسے شریک ہی نہیں کیا تھا تو وہ اس سے کیا گلہ کرتی ۔ لیکن اب اتنے سالوں بعد ان کے ایک بے انتہا شفاف اور دیانت داری پر مبنی رشتے میں اس کا یہ راز اس کے اپنے دل میں بددیانتی کے سوال اٹھانے لگا تھا ۔ اس کی وہ نوکری اس گھٹن سے نجات کا ایک چھوٹا سا روزن تھی ۔ اور اب وہ بھی بند ہو چکا تھا۔ لیکن روزن ہو یا نہ ہو، سانس نے تو چلنا ہی ہوتا ہے ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!