ورثہ — ارم سرفراز

اتوار کا دن تھا۔ رائنا اور عمر اسلامک سینٹر گئے ہوئے تھے۔ علی انہیں پِک کرنے کے لیے نکلا تھا۔ ویکینڈ کے سنڈے اسلامک اسکول میں دونوں بچوں کو وہ باقائدگی سے بھیجتے تھے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں چار دن دونوں بچے قرآن پڑھنے بھی اسلامک سینٹر جاتے تھے ۔ لڑکوں کو وہاں کے امام اور لڑکیوں کے لیے ایک خاتون عالمہ کا انتظام تھا۔ بچوں کا شروع سے اپنے دین سے جڑے رہنا بے انتہا ضروری تھا اور اس بات کا اندازہ علی سے بھی زیادہ مریم کو تھا۔اپنی کمیونٹی اور لوگوں سے گٹھ جوڑ نہ صرف بچوں کی شخسی نشو نما کی تعمیر کی ا ایک ناگزیر اینٹ تھی بلکہ یہ ایک غیر مذھب اور سرکش تہذیب و تمدن کے درمیان ان کے لیے اپنی حدود کا تعین کرنے اور اپنی اجتمائی پہچان اور استحکام کے لیے بھی ضروری تھا۔
مریم کوفی کا مگ لیے پچھلے لان میں آ گئی تھی۔ لان بہت well maintained اور بڑا تھا۔ ایک سائیڈ پر ماربل کے چوڑے ، سفید سلیب کے درمیان بڑے سائز کی بار بی کیو گرل بھی لگی ہوئی تھی ۔ ایک تین لوگوں کے بیٹھنے کا جھولا بھی تھا جس پر اب ان چاروں میں سے کسی کو بھی بیٹھے کئی مہینے گزر چکے تھے ۔ گھر کے پچھلے حصے کا یہ لان گرمیوں میں ہی استعمال ہوتا تھا لیکن پھر بھی اتنا نہیں جتنا کہ جب دونوں بچے چھوٹے تھے۔ بچوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مصروفیات بھی بڑی ہو گئی تھیں۔ اس سال بھی گرمیوں کی چھٹیاں سر پر کھڑی تھیں اور اسے اور بچوں کو عینی کی شادی میں لوث انجیلس جانا تھا ۔
بچوں کی سوچ سے اس کا ذہن عمر کی طرف بھٹکا ۔ عمر اچھا بچا تھا۔ وہ نذیر سے بہت متاثر تھا اور ان کی باتیں نہ صرف سنتا تھا بلکہ ان پر عمل بھی کرتا تھا ۔ لیکن رائنا کی طرف سے مریم کو اکثر الجھن رہتی تھی۔ اس کے پاس بہت سوال ہوتے تھے جن کے لیے وہ مںطقی جوابات کا مطالبہ کرتی تھی ۔ صرف کہہ دینے یا سمجھا دینے سے رائنا شاز و نادر ہی کوئی بات مانتی تھی اور تسلی بخش وجوہات جانے بغیر ٹلتی نہیں تھی۔
“مسلمان لڑکے اور لڑکیاں date کیوں نہیں کر سکتے ؟” وہ مریم کو زچ کرتی، ” اگر مسلمان لوگ غیر مذھب کے لوگوں سے date نہیں کر سکتے تو مسلمانوں کے ساتھ کرنے میں کیا حرج ہے ؟”
“مسلمان لڑکیاں بغیر آستین کے کپڑے کیوں کہیں پہن سکتیں؟ دوسری مسلمان لڑکیاں تو پہنتیں ہیں، پھر آپ مجھے کیوں نہیں پہننے دیتیں ؟” ایک اور سوال آتا۔
“اگر مسلمان لڑکے کرسچین اور یہودی لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں تو پھر لڑکیاں کیوں نہیں کر سکتیں؟”
رائنا کے بیشتر سوالات اسلام اور مغرب کے درمیان معاشرتی اور تہذیبی فرق کے متعلق ہوتے تھے ۔ رائنا بے انتہا زہین تھی اور بڑی ہو رہی تھی ۔ اسی حساب سے اس کے سوال بھی ایک تواتر سے امڈے آ رہے تھے۔ مریم تو اسلامک سینٹر کی عالمہ ، اپنی ماں ، اور عینی کی مشکور تھی کہ وہ ان سوالات کی بوچھاڑ کا مقابلہ کرنے میں اس کے مددگار تھے ۔ رائنا کی عمر میں وہ خود بھی ایسی ہی تھی اور شاید یہی بات اسے خوف و ہراس میں مبتلا رکھتی تھی ۔ حقیقت پسندی کی نظر سے اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ رائنا کی عمر میں وہ خود رائنا سے بھی بڑھ کر منہ زور تھی ۔ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ شازیہ جیسا کڑا نظم و ضبط رکھنے والی ماں بھی اسے لگامیں نہ ڈال سکی ؟
٭…٭…٭




اس کی پیدائش اور پرورش امریکا کی ریاست انڈیانا کے ایک مضافاتی شہر میں ہوئی تھی ۔ وہ ایک خاموش اور کم آبادی والا علاقہ تھا جس میں گورے امریکن زیادہ اور دوسری جگہوں کی رہنے والے، باالخصوص مسلمان بہت کم تھے ۔ایک ہی بیٹی ہونے کے باوجود نذیر اور شازیہ عبید دونوں نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ مریم کی تربیت پر ان کے لاڈ پیار کے کوئی منفی اثرات نہ پڑ سکیں ۔ مضافات میں دوسرے شہر ان سے کافی دور واقع تھے اور مسلمان خاندان ویسے بھی گنتی کے تھے، لہٰذا سب سے ملاقاتیں بھی زیادہ تر عیدوں اور دوسرے تہواروں پر ہی ہو پاتی تھیں ۔اس علاقے کا اسلامک سینٹر بھی ان کے گھر سے دور تھا۔ نذیر عبید فطرتاً خاموش طبع تھے ۔ لہٰذا انہیں یہ پرسکون اور بڑے شہروں کے ہنگامے سے عاری ماحول پسند تھا ۔ نوکری بھی ان کی اچھی تھی۔ ان لوگوں کا پاکستان آنا جانا دو تین سال میں ایک مرتبہ ہی ہو پاتا تھا۔
مریم دسویں گریڈ میں تھی جب ایک پٹھان فیملی ان سے دو گلی چھوڑ کر شفٹ ہوئی۔ ملک خان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ جڑواں بیٹیاں مریم سے تین سال چھوٹی اور بیٹا زیدان خان اس سے دو سال بڑا تھا۔ وہ ہائی اسکول کے آخری سال میں تھا ۔ اس نے ایک دو مہینوں میں ہی پورے اسکول میں اپنی تعلیمی قابلیت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ زیدان خان کا اپنی آگے کی پڑھائی اور career کے بارے میں عزم قابل ستائش تھا جس کی بھنک مریم کو اپنے ماں باپ کے علاوہ اسکول کی دوستوں سے بھی ملتی رہتی تھی۔ یہ زیدان خان کی وجاہت سے زیادہ اس کی لیاقت ہی تھی جس نے مریم کی متجسس اور مشتاق فطرت کو اپنی جانب کھینچا تھا۔
چند ہی ہفتوں میں شازیہ کی زیدان کی ماں نیلوفر سے اور نذیر عبید کی ملک صاحب سے اچھی سلام دعا ہو گئی۔ دونوں فیملیز اکثر ایک دوسرے کے گھر ڈنر ، برنچ اور لنچ کرنے لگیں تھیں۔ ایک دوسرے کے اتنے قریب ایک مسلمان فیملی کا ہونا جن کے بچے بھی تقریباً ہم عمر ہی تھے، دونوں خاندانوں کو ایک آئیڈیل صورتِ حال لگی تھی ۔ زیدان اکثر اپنے آگے کے پلانز نذیر اور ملک خان کے ساتھ ڈسکس کرتا اور ان کی رائے بھی لیتا تھا۔ اس نے امریکہ کی بہترین یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے apply کرنا شروع کر دیا تھا۔ ادبی مزاج رکھنے والے نذیر عبید کو زیدان خان کا یہ ambition بے حد بھاتا تھا۔
’’اس ملک میں مسلمانوں کی بہترین سرمایہ کاری، ان کی قابل اور پڑھی لکھی اولاد ہے ۔‘‘وہ اکثر کہتے تھے۔ ملک خان بھی نذیر عبید کے اس نظریے سے سو فیصد متفق تھے۔
رائنا کی عمر میں مریم بھی ایک منچلی، پراعتماد، اور سوالات سے بھرپور، second generation پاکستانی امریکن تھی جس کی تسلی منطق سے ہی ہوتی تھی ۔ شازیہ کے دیے گئے جوابات اکثر اسے مطمئن کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ ہائی اسکول میں آنے تک مریم کو اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ امریکا اتنا پھیکا، بدمزہ اور سنسان نہیں جتنا کہ وہ شہر جہاں اس نے اپنی ساری زندگی گزاری تھی ۔ اب زیدان خان کی اپنی متوقع یونیورسٹیز کے بارے میں گفتگو اور ان مشہور امریکی شہروں کی گہما گہمی کے قصے جہاں یہ یونیورسٹیز تھیں، گویا اسے ایک نئی دنیا دکھا رہی تھی جہاں جانا اس کے لیے بھی اتنا ہی ممکن تھا جتنا کہ زیدان کے لیے۔ کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینا مریم کو اچانک ’رہائی‘ کا ایک ممکن راستہ نظر آرہا تھا۔
اس نے دونوں خاندانوں کی gatherings کے دوران مردوں کی گفتگو،خاص طور پر زیدان خان کے تبصروں میں ، زیادہ دل چسپی لینا شروع کر دی ۔ یہ بات چیت خواتین کے ما بین ہونے والی کسی بھی مذاکرے سے کہیں زیادہ تفریحی ہوتی تھی ۔ زیدان کے پاس اپنی گاڑی تھی جس میں وہ اپنی بہنوں کو ان کے اسکول چھوڑتا ہوا اپنے ہائی اسکول چلا جاتا تھا ۔ ان تینوں نے مریم کو بھی ساتھ لیتے جانے کی پیش کش کی ۔ اس بات کی اجازت دیتے ہوئے شازیہ شروع میں تھوڑی متذبذب تھیں لیکن زیدان نہ صرف سنجیدہ اور ذمہ دار تھا بلکہ اس کے گھر والوں سے ان لوگوں کا اچھا میل جول بھی تھا ۔ لہٰذا انہوں نے اسے پک اینڈ ڈراپ کی اجازت دے دی۔ رضامندی دیتے ہوئے شاید یہ ان کا اپنی تربیت پر اندھا اعتماد تھا جس نے ان کی نظروں سے مریم اور زیدان کی غیر پختہ اور حساس عمروں اور ماحول کے اثرات کو مخفی کر دیا تھا ۔ وہ یہ بھول گئیں کہ کچھ ہو نہ ہو ، زیدان ایک لڑکا اور ان کی بیٹی ایک بہت حسین لڑکی تھی ۔
گو کہ زیدان کی بہنوں سے بھی مریم کی اچھی دوستی تھی لیکن ایک ہی اسکول میں ہونے کی وجہ سے اس کی زیدان سے بھی گہری دوستی ہو گئی ۔ ایک ہی یونیورسٹی جا کر پڑھنے کا منصوبہ پھلتے پھولتے ایک دوسرے سے شادی بھی کرنے کے فیصلے تک پہنچ گیا ۔ انہوں نے اپنے یہ منصوبے کسی کو بتائے نہیں تھے۔ ان کا آپس میں اسکول پراجیکٹس اور اسائنمنٹس میں مدد لینے اور دینے کے بہانے بھی ایک دوسرے کے گھروں اور لائبریری میں کافی ٹائم گزرنے لگا ۔ اس سے بھی زیادہ جتنا کہ مناسب یا ضروری تھا۔
پھر زیدان کے لیے ان تمام یونیورسٹیز سے جوابات آنے شروع ہو گئے جہاں اس نے کچھ مہینے پہلے apply کیا تھا۔ حسبِ توقع اس کا داخلہ ملک کی کئی بہترین یونیورسٹیز میں ہو گیا تھا۔ اس کے پاں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔ اس کی پوری فیملی تو اس کی کارکردگی پر فخر کر ہی رہی تھی، ساتھ ہی مریم بھی بے انتہائی خوش تھی ۔ وہ زیدان کی کام یابی کو اپنے مستقبل کی تناظر میں دیکھ رہی تھی اور اس کی خوش حالی میں اسے اپنی خوش حالی نظر آ رہی تھی ۔
ان دنوں ملک خان اپنی پوری فیملی کے ساتھ زیدان کی یونیورسٹیز دیکھنے نیو یارک گئے ہوئے تھے، جب شازیہ، مریم کو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں ۔مریم کا کچھ دن بعد ایک ضروری پراجیکٹ تھا۔ وہ ماں کی زبردستی سے سخت بے زار ہوئی۔
’’امی جی میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘وہ شازیہ پر چڑی ۔
’’آپ کو پتا ہے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا کتنا برا لگتا ہے۔‘‘
’’چاہے تمہیں برا لگے یا اچھا، جانا تو تم نے ہے۔‘‘ شازیہ بھی اڑ گئیں ۔
’’تم نے اپنی پڑھائی کو بہت سر پر چڑھا لیا ہے۔ کئی ہفتوں سے تمہاری شکل بھی اتری ہوئی ہے اور پیٹ بھی آئے دن خراب رہتا ہے۔‘‘ شازیہ اس کی دن بہ دن خراب ہوتی صحت پر فکرمند تھیں۔
لیکن ڈاکٹر نے ان علامات کے پیچھے جو وجہ بتائی اس نے شازیہ کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی۔ ان کی زبان گنگ ہو گئی ۔ مریم کے تو پیٹ میں جیسے کسی نے چھرا گھونپ دیا ہو ۔ اس کا دم گھٹنے لگا اور سانس بند ہونے لگی۔ اسے لگا جیسے وہ مر چکی ہو اور جہنم میں آ گئی ہو۔ یقینا جہنم رسید لوگوں کے اندر بھی اسی طرح کی وحشت اور آگ بھر جاتی ہوگی جیسی اس کے اندر اچانک بھر گئی تھی۔ شازیہ ایک لفظ بولے بغیر اسے گاڑی میں لیے گھر واپس آ گئیں۔
گھر آنے تک پورا راستہ شازیہ خاموش رہی تھیں ۔ وہ فولادی اعصاب کی مالک تھیں اور زندگی نے انہیں اکثر ان اعصاب کی آخری حدوں تک بھی آزمایا تھا لیکن وہ ٹوٹی نہیں تھیں۔ لیکن اب جس ہول ناک نوعیت کی بربادی منہ کھولے ان کے گھر کو تہس نہس کرنے کھڑی تھی، اس کا تو انہوں نے کبھی اپنے بدترین خیالوںمیں بھی تصور نہیں کیا تھا۔ وہ گنگ ہو گئیں تھیں اور ان کی یہ خاموشی مریم کی دہشت میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ماں اس پر چیخے ، چلائے اس سے باز پرس کرے، لیکن ماں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔
شازیہ عبید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو مصیبت میں رونا دھونا مچا کر قیمتی وقت برباد کرنے کے بجائے ایک لمحہ بھیضائع کیے بغیر اس مصیبت کا حل تلاش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ آفت تو مجسم حقیقت بن کر سر پر کھڑی تھی۔ اب سوال تو عزت آبرو بچا کر اس آفت کو سر سے اتارنے کا تھا ۔ عزت کا تحفظ شازیہ کو اپنے اور نذیر سے بھی زیادہ اپنی اس اکلوتی اولاد کے لیے تشویش ناک حد تک لازمی نظر آ رہا تھا جو بے عزتی کے اس آسیب کو ان کے گھر میں لانے کی ذمہ دار تھی ۔
’’کون تھا وہ؟‘‘ گھر میں گھستے ہی یہ ان کا پہلا سوال تھا۔ان کی آواز کسی بھی جذبے سے عاری تھی ۔
’’زیدان خان؟‘‘انہوں نے مریم کی خاموشی پر خود ہی اندازہ لگایا ۔
مریم صرف سر ہلا کر رہ گئی۔ وہ مر چکی تھی اور مردہ لوگوں کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔
’’اپنے کمرے میں جاؤ، میں تم سے بعد میں بات کروں گی۔‘‘ انہوں نے جیسے اسے اپنی نظروں سے دور کیا ۔ وہ کسی گہری سوچ میں تھیں۔ ان کا ذہن حل ڈھونڈنا چاہتا تھا لیکن ان کی اندر کی توڑ پھوڑ اس قدر پُرزور تھی کہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں پا رہی تھیں۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ مریم پر چیخیں ، چلائیں اور اس سے پوچھیں کہ اس نے اپنے ماں باپ کو کس گناہ کی سزا دی ہے۔ لیکن انہیں اندازہ تھا کہ اگر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں لگ جاتیں تو ضروری کام پیچھے چلے جاتے ۔ اور ضروری کام فوری غور طلب تھے۔
اپنے کمرے کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے ، کارپٹ پر بیٹھی مریم کو شدت سے ماں کی گالیوں اور پھٹکار کی آرزو ہوئی۔ ان کی خاموشی کی مار سے تو کچھ بھی بہتر ہوتا لیکن شازیہ نے نہ صرف اس دن اس کی یہ آرزو پوری نہیں کی، بلکہ کبھی نہیں کی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اس تمام بدبختی کا مورد الزام مریم کو کم اور خود کو زیادہ ٹھہرا رہی تھیں۔ مریم تو بچی اور ان کی امانت تھی۔ وہی اس امانت کی حفاظت نہیں کرپائی تھیں۔ چوک انھیں سے ہوئی تھی ۔ خیانت کا قصوروار امانت کو ٹھہرانا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
مریم کو اس دن سمجھ آیا کہ وہ مایوسی اور یاسیت کی کون کی دہلیز ہوتی ہے جس پر پہنچ کر لوگ خود کشی کی حرام موت کو گلے لگاتے ہیں ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے کود جائے اور اپنی نہیں تو اس زندگی کی سانسیں ختم کر دے جس نے اس کی اتنی مضبوط ماں کی گویائی چھین لی تھی۔ لیکن وہ اس قدر بزدل تھی کہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی۔ اور اگر وہ بزدل نہ ہوتی تو اس آفت میں پھنستی ہی کیوں؟ وہ زیدان کو ہی نہ روک دیتی؟ اب بہادری دکھا کر گیا وقت واپس نہیں آ سکتا تھا ۔ اسے اپنے آپ سے کراہیئت محسوس ہو رہی تھی۔
شازیہ نے اسے نذیر کا پیغام پہنچا دیا تھا کہ وہ کوئی بات کرنا تو دور اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے لہٰذا وہ ان سے دور رہے ۔ ماں باپ کی خاموشی مریم کے لیے کسی بھی مار پیٹ اور غصے کے اظہار سے کئی گنا بڑا عذاب تھی ۔ وہ کمرے میں بند ہو گئی تھی اور کھانے کے نام پر بہ مشکل وہ سینڈوچ کھا رہی تھی جو شازیہ خاموشی سے اس کے کمرے میں رکھ جاتی تھیں۔ اسے اندازہ تھا کہ غذا کی سادگی جان بوجھ کر نہیں تھی بلکہ شاید اس کی طرح گھر کے دوسرے دو افراد یہ سینڈوچ بھی نہیں کھا پا رہے تھے ۔ اور واقعی شازیہ تو دن رات اس ڈاکٹر کی کھوج میں مصروف تھیں جو اس بلا کو ان کے سر سے ٹالنے کے لیے راضی ہو جائے ۔ وہ کھانا کیا پکاتیں اور کیا کھاتیں۔
بالآخر ایک اچھے گائناکالوجسٹکا پتا نکال کر وہ مریم کو اس کے پاس لے گئیں لیکن اس نے تو ان کے بدترین خدشات پر ٹھپا لگا دیا۔ تین مہینے کا ٹائم گزرنے اور مریم کی عمر دیکھتے ہوئے وہ کام قانونی طور پر جائز نہیں تھا جس کی امید میں وہ وہاں گئیں تھیں۔ اگر یہ ممکن بھی ہوتا تو اس وقت تک نذیر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ جان بوجھ کر ایک زندگی کا خون اور ایک سنگین گناہ اپنے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ انہیں ہر حال میں کسی اور راستے کا انتخاب کرنا تھا چاہے وہ کتنا ہی خاردار کیوں نہ ہو۔
مریم کی زندگی پر ایک فل اسٹاپ لگ چکا تھا۔ وہ اسکول نہیں جا رہی تھی اور اس کا فون پہلے دن ہی شازیہ نے لے لیا تھا۔ ویسے بھی اسے کسی چیز کی آرزو نہیں رہی تھی ۔ وہ صرف ماں باپ کی طرف سے سزا سننے کی منتظر تھی۔ ایک ہفتے بعد شازیہ نے اس کے سامنے بیٹھ کر بات کی۔
’’تم نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرنا، خاص طور پر زیدان سے۔‘‘ ان کے لہجہ اور سنجیدہ تھا، بالکل ویسا جیسے وہ مالی کو لان کی دیکھ بھال کے متعلق ہدایات دے رہی ہوں۔
’’میں نہیں چاہتی کہ کسی کو بھی کچھ معلوم ہو۔‘‘
’’لیکن امی جی زیدان کو تو بتانا۔‘‘ آنکھیں نیچے کیے وہ ہکلائی ۔
’’کیوں؟‘‘شازیہ نے درشتی سے اس کی بات کاٹی۔‘‘
’’تاکہ تم اسے قصور وار ٹھہراؤ ؟ اور اسے یہ جتاؤ کہ اس نے تمہاری زندگی برباد کر دی ہے؟‘‘ وہ پہلی مرتبہ اپنے غصے اور اشتعال کا اظہار کر رہی تھیں۔
’’نہیں مریم ! یہ زیدان کی غلطی نہیں ہے۔ یہ سراسر تمہاری غلطی ہے اور شاید تم سے بھی بڑھ کر ہماری غلطی ہے۔ کوئی نادان اور بے عقل انسان ہی اس بات کا الزام کسی اور کو دے گا، خاصکر زیدان کو۔ اس نے اگر ڈاکا ڈالا تو وہ اس لیے کہ ہم نے اپنی چیز کی حفاظت کی ہی نہیں۔‘‘ان کی سانس پھول گئی اور مریم تو جیسے سانس لینا ہی بھول گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ امی جی کی خاموشی زیادہ ظالم تھی یا ان کے غصے کا اظہار۔
’’جو خطا ہوئی سو ہوئی، اب کیا اس کا ساری دنیا میں اشتہار لگاتے پھریں ؟ لوگوں کو دعوت دیں کہ آؤ ہم پر انگلیاں اٹھاؤ ، ہماری تربیت پر تھوکو، اور ہماری جزا اور سزا کا حساب کتاب کرو؟‘‘ پہلی بار شازیہ کا لہجہ روہانسی ہوا۔
’’تو پھر اب میں کیا کروں؟‘‘ مریم کے اندر ایک نئی دہشت جاگی ۔ کوئی راستہ نکلنے کی ایک موہوم سی امید جو دل میں تھی، وہ شازیہ نے ایک ہی جھٹکے میں گل کر دی تھی ۔
’’تم نے جو کرنا تھا وہ تم کر چکیں ۔‘‘ شازیہ کی آواز میں لوہے جیسی کاٹ تھی۔
’’اب ہم اس تمام گند کو سمیٹیں گے جو تم نے ہماری زندگیوں میں پھیلایا ہے۔‘‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور اپنا لہجہ ہم وار کیا ۔
’’تمہارے ابو اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اور تم لوئی سیانا کے ایک شہر میں اپارٹمنٹ لے کر بچے کی پیدائش تک وہیں رہیں گے ۔ پھر اسے گم نام ایڈاپشن میں دے کر واپس آ جائیں گے۔ آگے وہ جانے اور اس کا نصیب۔‘‘ انہوں نے ریاست لوئی سیانا کے ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے نما شہر کا نام لیتے ہوئے اسے فیصلہ سنایا۔
’’لیکن ابو یہاں اکیلے کیسے رہیں گے؟‘‘ مریم نے بے ساختہ سوال کیا ۔ جو خاک کا طوفان سر پر کھڑا تھا، اس سے زیادہ اسے خاندان اور زندگی کی ترتیب اور تنظیم میں خلل کی فکر تھی۔ وہ غیر شعوری انداز میں حقیقت سے آنکھیں چرا رہی تھی۔
’’اگر وہ اپنی اکلوتی اولاد کی زندگی کو اپنی آنکھوں کے سامنے راکھ کا ڈھیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں تو پھر وہ کچھ مہینے اکیلے بھی رہ سکتے ہیں۔‘‘ شازیہ نے جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیا۔
’’وہ سب کو یہی بتائیں گے کہ ہم کسی رشتہ دار کے پاس کچھ مہینوں کے لیے کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔ اسکول سے leave کے لیے ہم اپلائے کرچکے ہیں۔‘‘
پھر شازیہ اس کو لے کر تین دن کے اندر اندر ملک خان اور ان کی فیملی کی واپسی سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ اس خاندان کے کسی بھی فرد سے مریم کا سامنا ہو۔مریم کو بعد میں ماں سے ہی پتا چلا تھا کہ زیدان نے روڈ آئی لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی مہینوں میں اس کی تمام فیملی بھی وہیں شفٹ ہو گئی تھی۔
لوئی سیانا میں گزارے جانے والے وہ چند ماہ مریم کی زندگی کا بدترین وقت تھا جو اس نے صرف اور صرف اپنے آپ سے نفرت کرتے گزارا ۔ بچے کا تو اسے خیال ہی نہیں آتا تھا ۔ اس کے لیے وہ اس کے پیٹ میں پلنے والا ایک ایسا ناسور تھا جس کا چند ہی ماہ میں مستقل علاج ہونے والا تھا ۔ اس کی نوعمری یکایک غائب ہو گئی تھی۔ وہ ایک نوعمر لڑکی سے ایک تھکی ہوئی عورت میں تبدیل ہو گئی تھی جس کے دل میں مر جانے کے علاوہ کوئی خواہش نہیں تھی۔ ڈاکٹرکے پاس آنے جانے کے علاوہ وہ تمام وقت اس چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی چار دیواری کے اندر خالی الذہنی کی کیفیت میں کتابیں پڑھتے یا پھر ‘کب، کیسے، اور کیوں ‘ کے تانے بانے سلجھاتے گزارتی ۔ شازیہ سے بھی اس کی بات چیت بہت کم ہوتی تھی ۔ اگر مریم اپنے اندرونی محاذ پر لڑ رہی تھی تو شازیہ بھی اس گھاؤ کو مندمل کرنے کی ایک خاموش جدوجہد اور جنگ میں الجھی ہوئی تھی ۔ مریم کو ماں کی اذیت کا احساس تھا لیکن وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے ہاتھوں جتنا خسارہ ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
بچے کی پیدائش مقررہ وقت سے دو ہفتے پہلے ہی ہوگئی تھی۔ بعد میں ہسپتال کے کمرے میں اکیلے لیٹے مریم کو اچانک ادارک ہوا کہ کوئی بھی ماں اپنی کھو جانے والی اولاد کو کبھی نہیں بھول سکتی۔
اتنے مہینے اس وجود سے لا تعلق رہنے اور اسے اپنی ہر سوچ سے غیر وابستہ رکھنے کے باوجود، اچانک وہ اس بچے کو اپنے دل سے نکال نہیں پا رہی تھی جہاں اس نے اپنی ایک ہی آواز سے جگہ بنا لی تھی۔ مریم نے اسے دیکھا تھا نہ چھوا تھا۔ شازیہ نے بھی اس کے بارے میں ایک لفظ بھی اسے نہیں بتایا تھا۔ ان کے ہونٹوں پر ایک چپ اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اسے پتا تھا کہ وہ شدید کرب سے گزر رہی تھیں، لیکن اظہار کرنا ان کی فطرت نہیں تھی۔
تین ہفتے بعد وہ دونوں انڈیانا لوٹ آئے تھے۔ نذیر عبید کسی بزنس ٹرپ پر گئے ہوئے تھے۔ ملک خان اور ان کی فیملی وہاں سے جا چکی تھی ۔اس نے دوبارہ اسکول جوائن کر لیا تھا لیکن وہ پرانی مریم کو لوئی سیانا میں ہی دفن کر آئی تھی۔ اسے اب پڑھائی کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں رہی تھی۔ سارے سوال ختم ہو گئے تھے۔ زندگی نے سب سوالوں کے بہت ہی مفصل اور سفاک جوابات دے دیے تھے۔ بہت سال لگے تھے ان تینوں کو دوبارہ ایک ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں نذیر نے اس سے بات کرنی تو شروع کی تھی محض رسمی سی۔ لیکن مریم اس کے لیے بھی ان کی ممنون تھی ۔ ہائی اسکول میں بہترین گریڈز کی بنا پر مریم کا ایڈمشن Illinois کی بہت اچھی یونیورسٹی میں ہو گیا۔ اس کے یونیورسٹی چلے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد نذیر اور شازیہ نے مستقل طور پر لاس اینجلسشفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
کئی سال گزرنے کے بعد گو کہ مریم کو لوئی سیانا کا واقعہ ایک خواب سا لگنے لگا تھا لیکن ایک کسک ہمہ وقت اس کے دل پر موجود رہتی۔ مریم کی ملاقات علی سے Illinois میں ہی ہوئی تھی۔ وہ مریم سے شادی کا خواہش مند تھا اور نذیر اور شازیہ نے بھی اسے پسند کیا تھا۔ وہ ایک ہنس مکھ اور پڑھا لکھا مسلمان تھا اور مریم کی بھی اس سے اچھی بن رہی تھی۔ اس کی شادی کے دن شازیہ اور نذیر کو لگا کہ مریم کی لائی ہوئی سنگین افتاد کے حل کے لیے انہوں نے جو بھی ہنگامی اقدام اٹھائے تھے، وہ بالکل مناسب تھے۔
اپنی زندگی کا جو پینڈورا باکس مریم اپنے طور پر مقفل کر کے کسی دریا میں پھینک چکی تھی، وہ رائنا کی پیدائش پر ایک بارود بھرے تحفے کی طرح تیرتا ہوا پانی کی سطح پر آ گیا۔ رائنا کی پیدائش پر اسے اس معصوم کی یاد دل میں آئی جو دن بہ دن بڑھتی ہی چلی گئی۔ اسے صرف یہی پتا تھا کہ وہ بھی ایک بیٹی تھی۔ اس کی ہی بیٹی جو اب نجانے کہاں تھی۔
عمر کی پیدائش کے بعد یہ کسک چبھتے ہوئے گہرے ملال کی شکل اختیار کر گئی ۔ اڈوپشن ایجنسی میں نوکری بھی اسی ملال کے علاج کی ایک کڑی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ علی کے لیے اس کا وہاں کام کرنا باعثِ تکلیف تھا لیکن اس جگہ سے اس کی بھی تو یادیں جڑی تھیں۔ ایسی یادیں جو اب زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ کیسی تھی، کہاں تھی، کس کی گود میں پل رہی تھی اور کس حال میں تھی، تنہائی کے لمحات میں اس کا ذہن انہی سوالات کے دائروں میں گھومتا رہتا۔ وہ اس امید پر روز نوکری پر جاتی تھی کہ شاید اس سسٹم کے اندر رسائی حاصل کرنے سے اسے اس تک پہنچنے کا بھی کوئی سرا ہاتھ لگ جائے۔ وہ تو صرف اس کو ایک نظر دیکھ لینے پر ہی راضی تھی۔ اور اب وہ امید بھی نہیں رہی تھی۔
مریم نے ٹھنڈا سانس لیا۔ حال میں واپس لوٹ آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ اس نے ابھی لاس اینجلس جانے کی ٹکٹیں بھی کنفرم کروانی تھیں۔ شمیم اور تنویر کی طرف سے شادی کا کارڈ اور بلاوے کا فون بھی آ چکا تھا ۔صرف بچے اور مریم ہی جا رہے تھے کیونکہ علی نے اپنے کسی ضروری پراجیکٹ کی وجہ سے معذرت کر لی تھی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے امی جی سے رائنا کے کپڑوں کے بارے میں بھی مشورہ کرنا تھا۔ رائنا تو خود ہی انٹرنیٹ پر بیٹھی اپنی عزیز از جان عینی باجی کی شادی میں پہننے کے لیے کئی جوڑے پسند کر چکی تھی۔ ان میں سے تین چار مریم نے اب بیٹھ کر فائنل کرنے تھے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اندر سے بچوں کی باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!