”پلیز تاجور ایک منٹ دیں۔“ وہ کسی کام سے لان میں نکلی تو مراد نے اسے موقع دیکھ کر جالیا۔
”جی!“ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا (اب کیا کہنا ہے آپ نے نظروں نظروں میں اتنا کہہ دیا ابھی بھی کچھ باقی ہے) وہ اندر ہی اندر تپ رہی تھی۔
”آپ مجھے غلط مت سمجھئے گا میں بالکل سیدھے اور صاف راستے سے آپ کو پروپوز کرنا چاہتا ہوں۔“مراد نے سیدھے اور صاف بنا کسی تمہید کے اُس سے اپنا مدعا بیان کر دیا۔
”جی کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔“ اب کی بار وہ بالکل ہی بوکھلا اُٹھی۔
”کیا آپ واقعی نہیںسمجھیں؟ وہ حیران تھا اپنی عقل پہ کہ اتنی آسان سی بات وہ آسانی سے سمجھا نہیں پایا۔ اسی وقت وہاں کچھ مہمانوں کا شور بُلند ہوا تو اس نے جلدی سے ایک کارڈ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور آگے بڑھ گیا اور وہ ہکّا بکّا سی کارڈ کو دیکھ رہی تھی۔ کارڈ کے پیچھے ”پلیز میں آپ کے فون کا 12 بجے تک انتظار کروں گا پھر مایوس ہو جاﺅں گا۔“ لکھا ہوا تھا۔
٭….٭….٭