نامراد

صحن میں اماں کلام پاک پڑھنے آئی لڑکیوں کو سبق دے رہی تھیںپڑھو ”اعوذُ باللّٰہ من الشیطن الرجیم“ چھوٹی اور درمیانی عمر کی لڑکیاں جھوم جھوم کر پڑھ رہی تھیں۔ ایک جانب بڑی عمر کی چند بچیاں بیٹھی درس لے رہی تھیں۔ جس میں وہ انہیں عورتوں کے فرائض کے بارے میں بتا رہی تھیں: ”جہنم عورتوں سے بھرا ہوگا کیوں کہ وہاں شوہر کی نافرمان عورتیں بڑی تعداد میں موجود ہوں گی۔ ہمیشہ ہمیں اپنے شوہروں کو خوش رکھنا چاہیے اور غلطی پر معافی مانگنی بھی ضروری ہے۔“ وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں اور اسی حساب سے پاس بیٹھی تاجور کے دماغ میں گناہ اور ثواب کا معیار گڈمڈ ہو رہا تھا۔ جب نہ رہا گیا تو بول اُٹھی۔ ”اماں ایک بات بتائیں کیا غلطی ہمیشہ صرف عورت کی ہوتی ہے، مرد کبھی غلط نہیں ہو سکتا؟
”کیوں نہیں ہو سکتا مگر ہمارے معاشرے میں مرد کو سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ اُس کی ہر بات پر سر جھکانے کا حکم ہے اور پھر گواہی بھی تو ایک مرد اور دو عورتوں کی برابر مانی گئی ہے۔“
”اماں عورت نافرمان کس لیے کہلاتی ہے کیا اُس نے اپنے رب کی نہ مانی؟ یا اس نے اپنے شوہر کی نہ مانی؟“ بہت دیر اماں کا درس سُننے کے بعد دماغ کے بلبلاتے کیڑے کو تاجور نے زبان کے ذریعے نکال پھینکا۔
”یقینا جو شوہر کی نہ مانے اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی؟“ اماں نے سوچ کر مگر ذرا گڑ بڑا کر جواب دیا۔ ”لیکن شوہر کی ہر بات تو ماننے والی نہیں ہوتی اگر وہ کہے کہ بنا پردہ غیر مرد کے سامنے آو ¿ یا میری ہر غلط بات صحیح مانو تو عورت کو کیا کرنا چاہیے؟ اپنے شوہر کی مانے یا اپنے رب کی مانے؟ یہاں وہ کس کی نافرمان ہوگی اماں؟“ اس نے ایسے بے پروائی سے سوال کیا، جیسے اماں سے تازہ سبزی کی قیمت پوچھ رہی ہو۔ اماں کو سوچ میں پڑا دیکھ کر وہ اور دلیر ہوئی۔
”یقینا اللہ کی ماننا ضروری ہے تو آپ مان لیں اماں اس دور کی عورت جہنم میں اس لیے قطعاً نہیں جائے گی کہ وہ اپنے شوہروں کی نافرمان یا ناشکری ہے کیوں کہ آج کے پچھتر فیصد شوہر اپنی منواتے ہیں اپنے اللہ کی منوانے سے اُن کو کوئی غرض نہیں۔“
”کیا کفر بک رہی ہے تو سوچ سمجھ کر بولا کر جھلّی اللہ کی پکڑ ہوجاتی ہے۔“ وہ گالوں کو پیٹنے لگیں۔ ”اماں اللہ پاک چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کرنے لگے توجہنم میں جگہ ہی نہ بچے۔ اللہ کا ایک نام غفورالرحیم بھی ہے۔ اماں کیوں بھول جاتی ہیں؟ آپ اور مغفرت اس نے صرف مردوں کے لیے نہیں تمام مردو زن کے لیے رکھی ہے۔ میں تو اپنے رب سے بہت پر اُمید ہوں میں جتنی بھی نافرمان یا ناشکرگذار ہوں سچے دل سے تو بہ پر وہ معاف کردے گا۔ آپ بچوں کو ایسا سبق کیوں نہیں دیتیں کہ دیکھو اگر نافرمانی یا ناشکر گذاری ہوجائے تو اللہ سے معافی مانگو اس کے بندے سے مانگ کر شرک مت کرو۔“ اماں حیران سی تھیں اپنی شاگرد بچیوں کے سامنے اپنے پڑھائے ہوئے سبق کی ردِکفر سن رہی تھیں۔ ساری عمر اپنے شوہر کی ہر غلط کو صحیح مانتی آئیں اور یہ آج کی بچی انہیں جھٹلا رہی تھی۔ ہر چند اس بچی نے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہوا تھا لیکن وہ اور اُن کے شوہر تو اسلام کے ٹھیکے دار تھے بھلا ایک بچی سے کیسے ہار جاتے۔ ”دیکھ تاجور تیرے میاں صاحب نے سُن لیا تو غضب ہوجائے گا وہ پہلے ہی تیرے یونی ورسٹی جانے پر سخت ناراض تھے۔ وہ تو میں نے بہت زور لگا کر انہیں قائل کیا۔ اب یہ کیا کفر سیکھ کر آئی ہے تو….“
”یہ ہرگز کفر نہیں اماں میں تو اپنے اللہ کی مہربانیوں کی بات کر رہی ہوں۔ آپ جانتی ہیں اس کے ننانوے نام کیوں ہیں؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنے ہر نام کی طرح مہربان ہے۔ صرف کسی نام پر بندے کا اعتماد اور اعتقاد پکا ہو۔ میرا اعتقاد غفور الرحیم پر ہے تو وہ مجھ پر ضرور رحم کرے گا۔ آپ یہ سکھائیے ان بچیوں کو کہ وہ اللہ سے ڈریں نہیں پیار کریں، محبت کریں اور تعلق قائم کریں۔ آپ جنت کے بجائے جہنم کا احساس دلا کر انہیں جہنم کی آگ میں جلنے کا ہنر سکھا رہی ہیں۔“
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی میاں صاحب کے کھنکھارنے کی آواز آئی۔ وہ حجرے سے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ضرور کھنکھارتے اور اندر موجود لوگوں کو احساس دلاتے کہ اگر کوئی بے پردہ ہے تو پردہ کرے۔ اسی لمحے تاجور نے سر پر دوپٹہ لیا اور کچن کی جانب بڑھ گئی۔ میاں جی اس وقت گھر آکر چائے پیتے اور تھوڑا آرام کرتے تھے۔ اس نے کیتلی چولہے پر چڑھا دی۔ روبی (ملازمہ) اس وقت آرام کرتی تھی اور اُس نے خود ہی یہ ذمہ داری اپنے سر لی تھی۔ وہ دل کی بہت نرم تھی۔ بالے کے علاوہ حجرے کے اکثر ملازمین سے اس کو دلی لگاﺅ تھا اور وہ کسی نہ کسی طرح اُن کی مدد کرتی رہتی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!