وہ بہت تکلیف سے اپنا سامان سمیٹ رہی تھی۔ زیور اور کپڑے مراد کی ہدایت کے مطابق اس نے بالکل نہیں چھیڑے۔ لیکن اپنی چند کتابیں اور ضرورت کا سامان ایک بیگ میں رکھ لیا۔ اپنی ڈگریاں، پاسپورٹ، آئی ڈی کارڈ وغیرہ ایک بیگ میں رکھ اس نے بیڈ کے نیچے رکھ دیا۔ وہ اب کمرے کی ایک ایک چیز پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ بچپن سے اب تک اس کمرے میں اس نے اپنا ڈھیر سارا وقت گزارا تھا۔ گیارہ بج چکے تھے۔ وہ اپنی پرانی تصویریں نکال کر بیٹھی تھی۔ ابا اور اماں کے ساتھ بچپن سے اب تک لی گئی بہت ساری تصاویر تھیں۔ کہیں کلاس میں ٹرافی لیتے ہوئے، کسی پارک میں اور کسی محفل میں غرض ہر تصویر پر ہاتھ رکھ کر وہ رو رہی تھی۔
آنسو تصاویر کو بھگو رہے تھے۔جیسے ہی گھنٹے نے بارہ کا الارم بجایا۔ وہ بیگ اُٹھا کر چادر لپیٹ کر پچھلے دروازے کی جانب نکل آئی۔ اماں ابا کے کمرے کی کھڑکی کے پاس سے ہو کر گزرنا تھا۔ ان کے کمرے کی بتی اب تک روشن تھی۔ قدم اس کمرے کی کھڑکی تک پہنچتے پہنچتے خود بہ خود آہستہ ہو گئے۔ دل ان کی آواز آخری بار سُننے کو بے چین ہو اُٹھا۔ اس وقت وہ دونوں اس کی ہی بات کر رہے تھے۔
”آپ کو بتاﺅں کچھ دن پہلے سکینہ آئی تھی۔“ اماں کی آواز خاموشی کا سینہ چاک کرتے ہوئے ابھرئی۔
”مراد کے رشتے کی بات کر رہی تھی کہ میاں جی سے کہو میرے بیٹے کے لیے کوئی اچھا رشتہ بتائیں۔“
وہ قدرے اونچی آواز میں بات کر رہی تھیں یا شاید سناٹے میں ان کی آواز زیادہ اُبھر کر آرہی تھی۔ تاجور کا پورا وجود گویا کان بن گیا۔
”ہاں ہاں ضرور دیکھیں گے اچھا لڑکا ہے، بلکہ فرزانہ کیسی رہے گی اس کی ماں بہت پریشان ہے۔ بتاﺅ اُسے خوب صورت بھی ہے خوب سیرت بھی رشتہ ہو جائے تو اس کی ماں کی فکر بھی کم ہو گی۔“ وہ کافی فکرمند تھے فرزانہ کے لیے۔
”جی میں بات کروں گی لیکن میاں صاحب….“ وہ کچھ کہتے کہتے ہچکچائیں۔
”ہاں بولو۔“ وہ سر جھکائے تسبیح پڑھ رہے تھے۔
”میں نے سُنا ہے فرزانہ کا ارادہ کسی اور کے ساتھ شادی کا تھا کہیں ایسی بات کر کے….“
”لاحول ولاقوة! آپ بھی بیٹی والی ہیں ایسی احمقانہ بات کر کے گویا اپنی بیٹی پر الزام لگا رہی ہیں۔“ وہ گرجے۔
”اللہ نہ کرے۔ آپ کیسی بات کر رہے ہیں میاں صاحب جو میں نے سنا کہہ دیا۔“ ہاتھ دل پر پڑا تھا بیٹی کے بارے میں کوئی ایسی بات کرے وہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔
”تم نہیں جانتیں ہمارے گھرانوں کی بیٹیاں جان سے جاتی ہیں مگر ماں باپ کی عزت کو چوراہوں پر نیلام کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ جیسے تم فرزانہ کے لیے کہہ رہی ہو کیا تاجور کے لیے ایسا سوچ سکتی ہو؟“ وہ تھوڑا غصّے سے بولے۔
”خدا نہ کرے میاں جی میرا یہ مطلب ہرگز نہ تھا۔ میں جانتی ہوں ہمارے گھروں کی بیٹیاں ایسی نہیں۔ وہ تو جیسا سُنا ویسا کہہ دیا۔“وہ شرمندہ تھیں۔
”ویسے بھی گھر سے ماں باپ کی عزت کا جنازہ اُٹھانے والی بیٹیاں تمام عمر نامراد رہتی ہیں۔ میں نے یہ سبق اپنی بیٹی کو گھُٹی میں پلایا ہے۔ مجھے اپنے خون پر پورا بھروسہ ہے۔“ کتنا فخر تھا اماں کے لہجے میں اور تاجور جہاں کھڑی تھی کھڑی ہی رہ گئی۔
٭….٭….٭