نامراد

گھر پہنچتے ہی مراد کی کال اس کے موبائل پر آئی۔ وہ کمرہ بند کر کے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی اور کال ریسیو کی۔
”جی مراد“ آواز میں بشاشت بھرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”تا ج کیسی ہو؟“ دوسری طرف بہت بے تابی تھی۔
”میں بالکل ٹھیک آپ کہاں ہیں اس وقت۔“ اس نے سرگوشی میں جواب دیا نظریں دروازے پر تھیں۔
”میں اور عمر نکاح خواں کے پاس آئے ہوئے ہیں۔ تم بارہ بجے تک دروازے پر تیار رہنا عمر کا دوست اپنی بیوی کے ہمراہ تمہیں پک کر لے گا۔“
”مگر مراد سب اتنی جلدی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے ابھی تک تذبذب کا شکار لگ رہی تھی۔
”جلدی کا کیا مطلب تاج؟ کیا تم راستہ بدلنے کا تو نہیں سوچ رہی ہو؟۔“ نہ جانے عمر کو اس لمحے وہ اتنی کمزور کیوں لگی۔
”بالکل نہیں مگر میاں جی اور اماں کا خیال آتا ہے میرے بعد وہ کیسے زندہ رہیں گے؟“
”دیکھو تاج کسی نہ کسی کو تو کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔“ مراد اس کی حالت سمجھ رہا تھا۔
”مگر میری ہمت کیوں ٹوٹ رہی ہے مراد؟“ آنسو اس کے رخساروں کو بھگو رہے تھے۔
وہ پھر پلٹ رہی تھی واپس اپنی پرانی محبتوں کے مرکز کی جانب۔ اس پر ماں باپ کی محبت حاوی ہو رہی تھی۔ ظاہر سی بات ہے سالوں کی محبت کا سیاہ صفحہ اتنی ان منٹ روشنائی تو نہیں رکھتا کہ یکدم صاف ہو جائے۔
”مجھے کیوں لگتا ہے تاج محبت میں میرے ہاتھ صرف گھاٹا ہی آئے گا اور تم مجھے بیچ بازار میں چھوڑ کر الگ ہو جاﺅ گی۔“ وہ بدگمانی کی انتہاﺅں پر تھا۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور فون ایک طرف پھینک دیا۔ وہ بوکھلا کر فون پر فون ملا رہی تھی لیکن اس نے کوئی کال ریسیو نہ کی۔تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ آپ نہیں جانتے مراد میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں مگر ایک درخت جس کی جڑیں آپ کے اندر تک موجود ہوں کھینچ کر نکالنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے آپ یہ نہیں جانتے۔ سارا زمانہ اسی وقت آپ کے ساتھ ہے اور میں اپنا یہ فیصلہ تنہا کر رہی ہوں اس میں بار بار ٹوٹنے کی تکلیف بھی میں ہی اٹھاﺅں گی۔ آپ مجھے کیوں نہیں سمجھ رہے۔“ وہ خود کلامی کرتے ہوئے بولی۔
”محبت کبھی بدگمان نہیں ہوتی مراد اور جو بدگمان ہو وہ محبت نہیں ہوتی۔ میں ٹھیک بارہ بجے دروازے پر ہوں گی۔“ میسج ٹائپ کر کے اُس نے Send کا بٹن دبا دیا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!