نامراد

اماں کے پاس سے یہ عزم لے کر اٹھا تھا کہ اسے اگلا قدم کیا اُٹھانا ہے اور اسی عزم کو لیے وہ اس وقت عمر کے پاس بیٹھا تھا۔
”یار ویسے بڑی بے غیرتی ہے بندہ شادی کے بعد اپنے سب یار دوستوں کو بھول جاتا ہے۔“ چائے کا سپ لیتے ہوئے اس نے غصے سے عمر سے کہا۔
”یار شروع کے دنوں میں بیوی کو یہی احساس دلایا جاتا ہے کو تم ہی میری سب سے اچھی دوست ہو۔ اس کے اعتماد کے بعد پوری زندگی آسان۔“ عمر نے کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ چائے کا سپ لیا۔
”ایسا تو میں نے صرف تیری شادی کے بعد ہی دیکھا۔“ مراد نے منہ بنایا۔
”جب تیری شادی ہو گی تو پوچھوں گا۔“ عمر نے بھی اُسی انداز سے جواب دیا۔
”میری شادی تو تب ہو گی جب میرے بے مروت دوست چاہیں گے۔“ اس نے منہ بنایا۔
”کیوں دوستوں نے تمہارا قاضی اغواءکر لیا ہے، جو شادی نہیں ہو سکتی۔“ عمر کچھ نہ کچھ سمجھتے ہوئے مُسکرایا۔
”یار خدا کے لیے قاضی اغواءکرو اور اس شرط پر اُسے رہائی دو کہ وہ میرے اور تاجور کے نکاح پر راضی ہو جائے۔“ اب اس نے کھل کر اپنی بات کہی اور عمر کے آگے ہاتھ جوڑے۔ تو عمر کا ایک جان دار قہقہہ گونج اٹھا۔
”جا بیٹا منہ دھو رکھ بہت مشکل کام ہے یہ کل میں اور عمارہ یہی بات ڈسکس کر رہے تھے۔ ان تلوں سے تیل نہیں نکلنے والا۔“
”یار عجیب شخص ہو تم دوست کی ہمت بڑھانے کے بجائے اسے ناامید کر رہے ہو۔“ وہ بھنا کررہ گیا۔
”ہاں بھئی ابھی لوٹ جاﺅ اس راستے سے جس کا کوئی انجام نہیں۔“ عمر جانتا تھا کہ سید انعام علی کبھی راضی نہ ہوں گے۔
”اچھا تو تُو صرف ایک کام کر۔“ مراد نے اُس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”کیا؟“ عمر نے حیرانی سے پوچھا۔
”میری اور تاجور کی صرف ایک ملاقات کروا دے۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین ہے وہ بھی میرے لیے دل میں کوئی نہ کوئی جذبہ رکھتی ہے۔ اگر اس کا جواب پازیٹو ہوا تو میں خدا کی قسم زمانے سے ٹکرا کر اُسے حاصل کر لوں گا۔“ وہ تاجور کے لیے کچھ بھی کرنے پر تیار تھا مگر تاجور کی اپنی رضا کے بعد۔
”اوہ بھائی! یہ امریکا نہیں پاکستان ہے یہاں یہ سب نہیں چلتا۔ بچیاں اپنے والدین کی رضا میں خوش رہتی ہیں۔ تو بات کرے گا اور وہ دل کی بات بتا دے گی ایسا ہرگز نہیں۔ مشرقی لڑکیاں اس معاملے میں بڑی پکّی ہوتی ہیں۔“
”دیکھ صرف ایک ملاقات کروا دو اس کے بعد تمہیں کبھی پریشان نہیں کروں گا پلیز دوست ہونے کا ثبوت دے۔“ وہ گڑگڑایا۔ تو عمر کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور وہ سوچ میں پڑ گیا۔
”اچھا مجھے ٹائم دو عمارہ سے بات کرنے دو کہ وہ کیا کہتی ہے پھر بتاتا ہوں۔ اللہ بہتر کرے گا تو چائے پی۔“ عمر نے اس کی حالت دیکھ کر حوصلہ دیا۔
ان دونوں کی کوششوں سے آج وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ تاجور انتہائی نروس تھی۔ یہ ایک شاپنگ مال کا فوڈ کورٹ تھا۔ عمر اور عمارہ ان کو موقع دے کر اور شاپنگ کا بہانہ کر کے کھسک چکے تھے۔ وہ دل ہی دل میں عمارہ کو کوس رہی تھی۔
”آئی ایم سوری تاج مگر میں بہت مجبور تھا اماں کو بھیجا سیدھا سیدھا رشتہ لے کر مگر….“وہ تھوڑا شرمندہ ہوا اس کی پریشانی دیکھ کر۔
”اس طرح ہمارا کھُلے عام بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے مراد صاحب۔“ وہ ابھی تک پریشان تھی ابّا کے بے شمار مرید تھے کوئی دیکھ لیتا تو کتنی بے عزتی ہوتی۔
”میں خود بہت شرمندہ ہوں مگر آپ نہ ہی فون اٹھاتی ہیں اور نہ ہی میسج کا جواب دیتی ہیں تو اس سے بہتر کوئی آپشن میرے پاس نہ تھا۔“
”مگر اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ میرا جواب وہی ہے جو پہلے تھا میں اپنے والدین کی رضا میں خوش ہوں۔“ اس نے اپنے پسینے سے بھرپور ہاتھوں کو دیکھا۔ دل ہمک رہا تھا لیکن دل تو ہر کھلونے پر ہمکتا ہے کیا ہر کھلونا بچے کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔
”اور میرا سوال اب بھی وہی ہے جو پہلے تھا ہمیں اپنی زندگی جینے بھیجا گیا ہے کہ والدین کی؟“
”آپ مرد ہیں یہ سوال کر سکتے ہیں کیوں کہ آپ اپنی زندگیوں پر معاشرے میں ہر طرح کا سوال اٹھا سکتے ہیں ہمیں اس کی اجازت نہیں۔“
”کیوں یہ حق آپ سے کس نے چھینا خود آپ نے تاج آپ نے۔ کیا مذہب نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی۔“ وہ پوری تیاری سے اپنا مقدمہ لڑنے آیا تھا۔
”کس کتاب میں ذات پات اور فرقوں پر زور دیا گیا ہے آپ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود سچائیوں سے کیوں نظر چُرا رہی ہیں۔“
اس سارے عرصے میں تاجور کی پوری کوشش تھی کہ مراد کی نظر سے نظر نہ مل پائے۔ وہ نظریں جھکا کر بیٹھی رہی۔
”اچھا آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کیا چاہتی ہیں؟ میں اور کچھ نہیں پوچھوں گا۔“ اچانک ہی تاجور کی نظریں اُٹھیں اور نظروں نے نظروں کا پیغام پڑھ لیا۔ وہ روحیں جو روزِالست میں مل چکی تھیں ایک دوسرے تک دل کا پیغام پہنچا بیٹھیں اور اب بہت مشکل تھا دونوں کا پلٹنا۔ بچپن سے جوانی تک زندگی میں ہزاروں لوگ ملتے ہیں کیا سب کے لیے روحیں ایسے ہی کُرلاتی ہیں؟ کبھی نہیں۔ کچھ روحوں کی ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت عجب حالت ہوتی ہے اک عجب سا احساس جیسے ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہوں اور ایسی ہی حالت اس وقت ان دونوں کی۔
ہمیں صرف وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جن سے ہماری روزِ الست میں ملاقات ہو چکی ہو۔ شاید باقی دنیا کے لیے عام سے لوگ کچھ لوگوں کے لیے بہت خاص ہوتے ہیں۔ ہم ان سے بات کرنا چاہتے ہیں، ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن بعض اوقات روایات پھانسی کے پھندے کی صورت گلے میں اٹکی رہتی ہیں۔ اس وقت لمحوں میں صدیاں بیت گئیں۔ وہ دونوں جب صدیوں پہلے ملے تھے اس ملاقات کے لمحے کو انہوں نے اس لمحے میں پالیا۔ ایک دوسرے کو جان لیا۔
مراد نے بھی اس کی نظروں کا پیغام پڑھ لیا۔ دل نے دل کی گواہی پالی، اب کوئی جھوٹ بول ہی نہیں سکتا تھا۔ نہ وہ اور نہ ہی تاجور۔ تاجور نے بھی جیسے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی آنکھیں بھگو بیٹھی۔
”پلیز تاجور روئیں مت میں جانتا ہوں آپ کتنی مجبور ہیں مگر یہ مجبوری خودساختہ ہے۔ یہ حق آپ کو مذہب سے ملا ہے کوئی گناہ نہیں ہے۔ نکاح کا حکم دیا گیا ہے اور میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ روتی ہوئی تاجور کو کس طرح چُپ کروائے۔
تاجور نے بے دردی سے پانی بھری آنکھیں مسلیں۔ کانوں میں سر مکرم کی آواز ابھری۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے ”نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ میری اُمت میں سے نہیں۔“
”لیکن مراد کیسے؟ کیسے؟ کوئی بیٹی اپنے خوابوں کا محل والدین کے محل کی بنیاد کو شکستہ کر کے تعمیر نہیں کر سکتی۔“ وہ ڈھیر ہو چکی تھی مگر پھر بھی آخری کوشش تو کرنی تھی۔
”یہ خواب نہیں آپ کا حق ہے تاجور سمجھیں۔ نکاح آپ کا حق ہے تاج اور میں نکاح کر کے آپ کو آپ کا حق دینا چاہتا ہوں۔ گیم نہیں کھیل رہا آپ کے ساتھ سچا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔“ اس نے آخری بات کر کے ہتھیار ڈال دیئے اس سے زیادہ سمجھانا اب ممکن نہ تھا۔
تاجور سے ایک غلطی دوبارہ ہوئی اور وہ اس کی سچائی کو جانچنے کے لیے اس کی آنکھوں میں دیکھ بیٹھی اور پھر سب ہار دیا۔ لمحہ ہی تو لگتا ہے ساری زندگی ہارنے میں اور وہ لمحہ اس کی زندگی میں آگیا اس کے نہ چاہنے کے باوجود اور پھر اس کے اختیار میں کچھ نہ رہا۔
وہاں سے اُٹھتے اُٹھتے وہ بامراد تھی یا شاید وہ ایسا سمجھتی تھی….
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!